کُتب

 

 

 

 

روزے کے احکام

 

 

 

 

روزے کے احکام

 

 

 

بسم اﷲ الرحمن الرحیم 

روزے کے احکام

رمضان شریف کا روزہ ہر مسلمان عاقل و بالغ مرد و عورت پر فرض ہے۔ اگر کسی مجبوری سے رمضان شریف کے مہینہ میں ادا نہ کرسکے تو اس کی قضا کرنا فرض ہے۔ رمضان شریف کے روزہ کی نیت رات کو اور دن کو دوپہر سے قبل تک جائز ہے اوریہی حکم نفل روزے کی نیت کا بھی ہے اور قضا و کفارہ اور نذر غیر معین کے روزہ کی نیت کا رات کو ہی کرلینا ضروری ہے ورنہ روزہ ادا نہ ہوگا۔ مریض اور مسافر کیلئے رمضان شریف میں روزہ رکھنا اور نہ رکھنا دونوں ہی جائز ہے مگر نہ رکھنے کی صورت میں تندرستی کے بعد یاسفر سے واپس آنے کے بعد قضا کرنا فرض ہے اور ایسا بوڑھا شخص جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اس پر روز ایک مسکین کو کھانا کھلانا لازم ہے۔ 

نوٹ: یاد رہے کہ روزہ تین طرح کا ہے: ایک عام لوگوں کا ،ایک خاص لوگوں کا اور ایک اخص الخواص کا۔ عام لوگوں کا روزہ یہ ہے کہ صبح صادق سے آفتاب غروب ہونے تک کھانے پینے اور جماع سے باز رہنا۔ اور خاص لوگوں کا روزہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو کھانے پینے اور جماع سے بچانے کے علاوہ زبان کو بری باتوں کے بولنے اور کان کو بری باتوں کو سننے سے اور آنکھوں کو ناجائز چیزوں کے دیکھنے سے بچانا اور اخص الخواص کا روزہ یہ ہے کہ مذکورہ تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ اپنے خیال کو بھی ہر وقت اﷲ کی طرف لگائے رکھنا۔ 

اس مختصر سی تمہید کے بعد روزہ کے مندرجہ ذیل مسائل فقہ امام ہمام سیدنا ابو حنیفہ سے اخذ کرکے درج کیے جاتے ہیں اگرچہ یہ مسائل بہت مختصر ہیں لیکن عام الوقوع ضروریات کو حاوی ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کو ضبط کرے تو حدیث شریف کے مضمون کے مطابق اجر عظیم پائے گا۔ 

(۱): اگر کوئی مسافر سفر سے واپس آکر اورمریض اپنے مرض سے کچھ دن اچھا رہ کر انتقال کر جائے اور اس کے ذمہ رمضان شریف کے روزے باقی ہوں تو مریض جتنے دن اچھا رہا اور مسافر جتنے دن گھر پر آکر رہا اتنے دن کے روزے کی قضا کے بدلہ اس کے وارث بعوض ہر روزہ ایک مسکین کو کھانا کھلادیں۔ 

(۲): رمضان شریف کاچاند اگر کوئی شخص تنہا دیکھے اور آسمان پر اس روز گردو غبار یا بادل نہ ہوں تو اس شخص پرروز ہ رکھنا ضروری ہوجائے گا اور دوسرے لوگوں پر فرض نہ ہوگا۔ اور اگر بادل یا گرد و غبار ہو تو ایک عادل مسلمان کی گواہی کی بدولت سب لوگوں پر روزہ فرض ہوجائے گا خواہ گواہی دینے والامرد ہو یا عورت آزاد ہو یا غلام۔

(۳): اگر آسمان صاف ہو تو ایک جماعت کی گواہی سے تمام لوگوں پر روزہ فرض ہوجائے گا لیکن عید کا چاند اگر دو عادل اشخاص نے دیکھا ہو اور آسمان پر گردوغبار ہو تو ان دونوں کی گواہی پر عید کی جائی گی اور اگر گرد و غبار نہ ہو تو ایک جماعت کی گواہی کا اعتبار ہوگا۔ 

(۴): بھول کر کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

(۵): رمضان شریف کے دنوں میں احتلام ہوجانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔

(۶): سر میں تیل ڈالنا حالت روزہ میں جائز ہے۔

(۷): تھوڑی ہو یا زیادہ اس سے روزہ خراب نہیں ہوتا لیکن قصداً قے کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور قضا لازم ہے۔ 

(۸): حلق میں گردوغبار اور دھواں کے گھس جانے سے روزہ خراب نہیں ہوتا۔ 

(۹): حلق میں مچھر یا مکھی کے چلا جانے سے روزہ نہیں خراب ہوتا۔ 

(۱۰) : کان میں تیل ڈالنے سے روزہ خراب ہوجاتا ہے اور قضا لازم ہوگی۔ 

(۱۱): کسی نے روزہ کی حالت میں غرغرہ کیا اور پانی حلق میں چلا گیاتو روزہ ٹوٹ گیا اور اس روزے کی قضا فوری ہے۔ 

(۱۲): حالت روزہ میں حقنہ لینے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے۔

(۱۳): قصداً کھانے پینے اور جماع کرنے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے۔ اس ایک روزہ کے عوض ساٹھ روزے لگا تار رکھنے ہوں گے اور اگر ساٹھ روزوں کے قضا کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا ہوگا، اس کو شرع میں کفارہ کہتے ہیں۔ 

(۱۴): کسی نے روزہ میں دانت کی پھنسی ہوئی چیز کو باہر نکالا اور پھر کھالیا تو روزہ فاسد ہوگا اور اگر بغیر نکالے کھالیا تو اس کی دو صورتیں ہیں: (اول) اگر چنا کے برابر ہے تو روزہ فاسد ہوگا، (دوم) اگر چنے سے کم ہے تو روزہ نہ ٹوٹا۔

(۱۵): حالت روزہ میں بالکل خاموش رہنا مکروہ ہے۔ 

(۱۶): کمزوری کا خیال کرتے ہوئے پچھنا لینا یا فسد لینا مکروہ ہے۔ 

(۱۷): روزہ میں بعد ظہر بلکہ ہر وقت مسواک کرنا جائز ہے۔ 

(۱۸): روزہ کی قضا لگاتار اور چھوڑ کر دونوں ہی جائز ہے۔

(۱۹): ایک سال کے روزہ کی قضا دوسرے سال جائز ہے مگر بلا عذر تاخیر اچھی نہیں۔ 

(۲۰): فرض روزہ کو نیت کے بعد بلا عذر توڑ دینے پر ساٹھ روزے رکھنا لازمی ہیں اور نفل روزہ توڑنے پر ایک ہی روزہ کی قضا لازمی ہے۔

(۲۱): سحری کھانے میں تاخیر اور افطار میں تعجیل (جلدی کرنا) مستحب ہے پس چاہئے کہ نماز مغرب سے پہلے افطار کرے اور نیت یہ ہے کہ افطار کے وقت یہ کہے:  

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اَمَنْتُ 

وَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَعَلٰی رِزِقِکَ اَفْطَرْتُ

ترجمہ:اے میرے مالک میں نے محض تیرے لئے روزہ رکھا اور تجھی پر ایمان لایا اور تجھی پر توکل کیا اور تیرے رزق پر افطار کرتا ہوں ۔ 

اور نیت کرتے وقت ان کلمات کا زبان پر لانا مسنون ہے:  

وَ بِصَوْمِ غَدٍ نَّوَیْتُ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانْ فَاغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمَتْ وَ اَخَّرَتْ 

ترجمہ: رمضان کے مہینہ میں میں کل کے روزہ کی نیت کرتا ہوں ،اے میرے مولا میرے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دے۔

(۲۲): سرمہ لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ 

(۲۳): اگر کوئی شخص کسی روزہ دار کو بھول کر کھاتے ہوئے دیکھے تو اگر اس میں اتنی قوت دیکھے کہ رات تک روزہ تمام کرلے گا تو مختار یہ ہے کہ اس صورت میں اس کو یاد نہ دلانا مکروہ ہے اور اگر یہ گمان غالب ہوجائے کہ یہ شخص روزہ سے ضعیف ہوجائے گامثلاً کمزور یا بہت بوڑھا ہو تو اب اگر اس کو خبر نہ کرے تو جائز ہے۔ 

(۲۴): اگر روزہ دار کے منہ میں آنسو داخل ہوں تو اگر تھوڑے ہیں جیسا کہ ایک یا دو قطرے یا اس کے مثل تو اس کا روزہ فاسد نہ ہوگا اور اگر زیادہ ہوں اور ان کی نمکینی اپنے منہ میں پائے اور بہت سے جمع ہوجائیں پھر ان کو نگل جاوے تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر چہرہ کا پسینہ روزہ دار کے منہ میں داخل ہوا تو بھی یہی حکم ہے۔

تراویح اور وتر کے مسائل

تراویح سنت مؤکدہ ہے۔ یہ رمضان شریف میں بیس رکعتیں دو دو رکعت میں سلام پھیر کر بعد نمازِ عشاء یعنی فرض وسنت کے بعد وتر سے قبل پڑھی جاتی ہیں۔ اس کیلئے جماعت سنت کفایہ ہے ۔ اگر کسی محلہ یا بستی میں جماعت تراویح قائم نہ ہوئی تو اس محلہ بستی کے تمام لوگ گنہگار ر و قابل ملامت ہوں گے۔ 

ہر چہار رکعت نماز تراویح کے بعد چار رکعت کے مقدار بیٹھ کر تین مرتبہ تسبیح پڑھنا بہتر ہے اور تراویح میں ایک ختم قرآن مجید پڑھنا سنت ہے اور دو ختم کرنا فضلیت ہے اور تین ختم کرنا افضل ہے۔ ہر رکعت میں پورا ماہ دس دس آیت پڑھنے سے صرف ایک ختم ہوگا۔ بیس بیس آیت پڑھنے سے دو ختم قرآن مجید اور اگر تیس تیس آیتیں ہر رکعت میں پڑھی جائیں تو تین ختم ہوں گے۔ اگر کوئی حافظ نہ ملے تو اہل محلہ سورتوں کی تراویح جماعت کے ساتھ پڑھیں اور اس کے پڑھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ سورہ والضٰحی سے شروع کیا جائے اور بیسویں رکعت و الناس پر ختم کی جائے ۔دوسرا طریق (تجنیس) میں اس طرح مرقوم ہے کہ الم ترکیف سے لے کر والناس تک دس رکعتیں پوری کرے اور پھر اسی طرح باقی دس میں ان دس سورتوں کو پڑھے۔

مسائل

 (۱): مسائل اولیٰ یہ ہے کہ جس نے فرض نماز کی امامت کی ہے وہی وتر پڑھائے اور اگر دوسرا شخص وتر پڑھائے تو اسی کی اجاز ت سے پڑھائے۔ 

(۲) :ضروری: اکیلا فرض نماز ادا کرنے والا جماعت کے ساتھ وتر و تراویح پڑھ سکتا ہے۔ 

(۳) : اگر کسی کی تراویح کچھ چھوٹ گئی ہو اور جماعت وتر شروع ہوجائے تو اس کو وتر میں شریک ہوجانا چاہئے اور بعد وتر تراویح پوری کرلے کیونکہ بعد وتر بھی بصورت مجبوری تراویح جائز ہے۔ یہ مسئلہ بہت ضروری ہے کیونکہ اکثر لوگ اس سے غافل ہیں۔ 

(۴): جو شخص بغیر فرض نماز ادا کئے تراویح میں شریک ہوجائے اس کی تراویح نہ ہوگی۔ 

(۵)جو شخص فرض نماز عشاء کی جماعت سے ادا کرے اور تراویح اکیلا پڑھے وہ وتر کی جماعت میں شریک ہوسکتا ہے۔ 

(۶): اگر تراویح دو رکعت یا زیادہ فاسد ہوجائے تو جس قدر قرآن مجید ان رکعتوں میں پڑھا گیا ہو اس کا دُہرانا ضروری ہو جائے گا ورنہ ختم ناقص ہوگا ۔اگر تراویح میں دوسری رکعت کی بیٹھک بھول گیا اور تیسری رکعت کے رکوع کے بعد اس کو یاد آگیا تو بیٹھ کر سجدہ سہو کے ساتھ نماز ختم کردے، تراویح درست ہوجائے گی اور اگر تیسری رکعت کا سجدہ کرچکا ہو تو اس میں چوتھی رکعت اور ملالے اور سجدہ سہو کے ساتھ نماز تمام کرے۔ اب ان چار رکعتوں میں سے دو رکعت کو تراویح میں شمار کرے اور دو رکعت کو نفل میں اور اگر دوسری رکعت کی بیٹھک کے بعد یہ صورت پیش آئی ہو اور چاررکعت پوری کی ہوں تو چاروں رکعت تراویح میں شامل ہونگی۔ یہ تینوں صورتیں یاد رکھنے کے قابل ہیں کیونکہ ان کا وقوع اکثر ہوتا رہتا ہے اور حفاظ ان سے نا واقف ہوتے ہیں۔

(۷): رمضان شریف کے ماہ میں وتر کی جماعت افضل ہے اور امام اس کے اندر تراویح یافرض نماز کی طرح بلند آواز سے قرأت ادا کرے گا۔ 

(۸): تینوں رکعت کے اندر امام کی قرأت کے وقت مقتدی خاموش رہیں گے لیکن دعائے قنوت سب لوگ پڑھیں گے اور امام بھی دعائے قنوت بلند آواز سے نہیں پڑھے گا۔

(۹): تروایح کی قضا نہیں ہے۔

(۱۰): اگر ایک جماعت نے رمضان میں فرض عشاء جماعت سے پڑھے لیکن تراویح علیحدہ علیحدہ پڑھ لی تو اب یہ جماعت و تر جماعت سے نہیں پڑھ سکتی۔ 

شب ِقدر

مسلمانوں کیلئے رمضان شریف کا مہینہ ایک نعمت غیر مترقبہ ہے کیونکہ اس کے آخری عشرہ میں شب قدر کا طاق راتوں میں دورہ ہوتا ہے۔ پھر علماء و محققین کی ایک بڑی جماعت اس امر کی قائل ہے کہ شب ستائیسویں رمضان مبارک ہی شب قدر ہے۔ صوفیاء کرام فرماتے ہیں کہ سورہ قدر میں لیلۃ القدر تین مقام پر یعنی تین دفعہ مذکور ہے اور لیلۃ القدر کے نو حروف ہیں جب نو کو تین سے ضرب دی جائے تو ۲۷ نکل آتا ہے۔ 

صاحب ’’نزہتہ المجالس‘‘ نے فرمایا ہے کہ میرے والد شیخ ابو الحسن صاحب نے فرمایا کہ جب سے میں بالغ ہوا ہمیشہ شب قدر پاتا رہا۔ کبھی بھی مجھ سے شب قدر فوت نہ ہوئی اور اس کے پانے کے متعلق اپنے تجربہ کی بنا پر یہ قاعدہ بیان فرمایا کہ اگر پہلی رمضان اتوار اور بدھ کو ہو تو شب قدر ۲۹ کو ہوتی ہے اور پہلی تاریخ دو شنبہ (پیر) کو ہو تو شب قدر ۲۱ کو ہوگی اور اگر پہلی رمضان منگل یا جمعہ کو ہو تو ستائیسویں رات سمجھو۔ اور اگر پہلی تاریخ رمضان جمعرات کو ہو تو ۲۵ کو یقین جانو اور اگر پہلی رمضان شنبہ (ہفتہ) کو ہو تو ۲۳ کو اس کا نتظار کرو۔(ترجمہ نزہتہ المجالس،جلد اول، صفحہ ۱۴۹)

واضح ہو کہ بعض صحابہ نے اس شب قدر کو کھارے پانی کو میٹھا پایا ،سمندر میں سکون پایا اور درختوں کو سجدہ کرتے ہوئے پایا ۔اﷲ تعالیٰ ہر ایک طالب ِشب قدر کو یہ رات عبادت سے زندہ رکھنے کی توفیق و ہمت بخشے--- آمین۔

اعتکاف

مسجد میں بہ نیت عبادت ٹھہرنے کا نام اعتکاف ہے۔(۱) سنت مؤکدہ(۲) کفایہ و نفل۔

(۱)اعتکاف سنت مؤکدہ کفایہ ہے کہ رمضان شریف کے آخری عشرہ میں اکیس تاریخ سے ختم ماہ تک اس مسجد میں بہ نیت عبادت ٹھہرے جس میں پنج گانہ نماز ہوتی ہو۔ یہ اعتکاف ہر محلہ کے کم از کم ایک آدمی کیلئے کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی بھی نہ کرے گا تو تمام محلہ کے تمام لوگ گنہگار ہوں گے۔ پورے نو یا دس دن کا اعتکاف کامل اعتکاف ہے اور اعتکاف کیلئے اقل مدت ایک دن ایک رات ہے۔ اعتکاف مغرب کے وقت شروع کرے اور اسی وقت ختم کرے ۔

اعتکاف کرنا اس سنت کی پیروی ہے جس کو سرکار دو عالمنے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ تشریف لا کر ادا کیا اور پھر کبھی بھی ترک نہ فرمایا اور آپ کے بعد تمام صحابہ کرام، ازواج مطہرات ، تابعین ، تبع تابعین رضوان اﷲ تعالیٰ علیم اجمعین ہمیشہ اس کو ادا کرتے رہے۔ شروع شروع میں حضور اکرمنے رمضان شریف کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا تھا تو جبرئیل امین تشریف لائے اور کہا ’’آپ جس چیز کو تلاش کرتے ہیں یعنی لیلۃ القدر وہ آخری عشرہ میں ہے‘‘ اسکے بعد برابر حضورآخر کے عشرہ میں اعتکاف کرتے رہے آپ نے اس کی فضلیت میں فرمایا ہے 

من اعتکف یوماً ولیلاً من رمضان یرید بہ وجہ اﷲ ولا یرید ریاء و

سمعہ اعطاء اﷲ ثواب ثلٰثمائۃ شھید قتلوا فی سبیل اﷲ صابرین محتسبین

ترجمہ: جس شخص نے محض اﷲ تعالیٰ کی رضا کیلئے رمضان کے مبارک ماہ میں ایک رات اور ایک دن کیلئے اعتکاف کیا اور کسی کو دکھانے سنانے کیلئے اﷲ تعالیٰ اس کو ایسے تین سو شہیدوں کا ثواب دے گا جو محض اﷲ تعالیٰ کی رضا کیلئے اور ثواب حاصل کرنے کیلئے اس کے راستہ میں قتل کئے گئے۔ 

مسائل

(۱)معتکف کا خاموش رہنا مکروہ ہے۔ معتکف اپنے اوقات کو درود وظائف نماز و نوافل ، تلاوتِ قرآن مجید اور درس و تدریس علوم دینیہ میں گزارے۔ یا بزرگان کرام کی کتابوں کے مطالعہ کرنے میں گزارے۔ 

(۲)حاجت ضروری کیلئے باہر جانا جائزہے لیکن فارغ ہو کر پھر جلدی مسجد میں چلا آنا چاہئے۔ 

(۳)مسجد میں معتکف کیلئے کھانا، پینا اور سونا جائز ہے۔ 

(۴)اگر کوئی شخص اس کا کھانا لانے والا نہ ہو تو گھر جا کر کھانا کھا سکتا ہے مگر کھانے سے فارغ ہو کر وہاں نہ بیٹھنا چاہئے بلکہ فوراً مسجد میں چلا آنا چاہئے۔ 

(۵)بہتر ہے کہ اعتکاف ایسی مسجد میں ادا کرے جہاں نماز جمعہ ادا ہوتی ہو اور اگر یہ فضلیت نصیب نہ ہوسکے تو جمعہ کی نماز کیلئے کسی ایسی مسجد میں چلا جائے جہاں نماز جمعہ ادا ہوتی ہو۔ مگر ایسے وقت میں جائے کہ چار رکعت سنت ادا کرنے کے بعد خطبہ شروع ہوجائے یعنی بہت قبل نہ جائے اور بعد نماز جمعہ چھ رکعت سنت ادا کرکے پھر اپنی مسجد میں چلا جائے۔ 

  (۶)معتکف کیلئے خرید و فروخت اگرچہ جائز ہے لیکن سودا مسجد سے باہر رکھ کر عقد کرے۔ اگر اس طرح نہ کرے تو اعتکاف درست نہیں۔ 

مندرجہ ذیل امور سے اعتکاف باطل ہوجاتا ہے:  

(الف) دیر تک بلا ضرورت مسجد اعتکاف سے باہر رہنا۔

(ب) حالت اعتکاف میں قصداً یا بھول کر جماع کرنا۔

جب اعتکاف باطل ہوجائے تو اس کی قضا ضروری ہے اور اس کے ادا میں روزہ شرط ہے لیکن نفلی اعتکاف کیلئے نہ روزہ شرط ہے اور نہ ہی اس کیلئے کوئی خاص وقت مقرر ہے۔ ایسا اعتکاف ایک ساعت کیلئے بھی جائز ہے اور ہمیشہ ہر زمانہ میں اس اعتکاف کا ادا کرنا درست ہے۔ عورت کیلئے بہترین اعتکاف یہ ہے کہ وہ اپنے گھر میں ادا کرے لیکن اس کو ثواب اسی قدر ملے گا جتنا کہ مرد کو ایک جامع مسجد میں اعتکاف ادا کرنے کا ملتا ہے۔ (عالمگیری)

صدقہ فطر

ہر آزاد مسلمان صاحب نصاب پر صدقہ فطر واجب ہوتا ہے اس کیلئے نصاب مال وہی ہے جو زکوٰۃ کیلئے وجوب کا باعث بنتا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ جس کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا موجود ہو۔ یا اس کے برابر قیمت کے اسباب ضروریاتِ فاضل موجود ہوں اگر چہ تجارت کیلئے نہ ہوں تو اس پر صدقہ فطر کا ادا کرنا واجب ہوتا ہے۔ 

زکوٰۃ کے وجوب کیلئے نصاب مال پر سال گزرنا شرط ہے لیکن صدقہ فطر کیلئے یہ شرط نہیں، صرف نصاب کا پایا جانا شرط ہے (سال گزرے یا نہ گزرے) ۔صدقہ فطر اپنی طرف سے اپنے نابالغ بچوں کی طرف سے اور اپنے خادموں کی طرف سے ادا کرنا واجب ہے۔ 

(الف)گیہوں، آٹا، ستو، انگور اگر دینا چاہے تو نصف صاع یعنی ایک سیر تیرہ چھٹانک اور یہ وہ سیر ہونا چاہئے جس کا وزن اسی تولہ ہو۔ 

(ب)اگر خرما، جو یا جو کا آٹا دینا چاہے تو ایک صاع یعنی تین سیر دس چھٹانک دینا ہوگا۔ یہ مقدار فی کس کے حساب سے دینا ہوگا۔ 

(ج)اگر چاول، چنا، مسوردال، دینا چاہے تو فقہاء نے اجازت دی ہے لیکن اوپر کی چیزوں سے قیمت لگا کر ادا کرے۔ 

(د)قیمت کا ادا کرنا بہت بہتر ہے، جس میں فلسفہ یہ ہے کہ فقراء و مساکین اپنی حاجت کی چیزوں کو مناسب سمجھ کر خرید سکتے ہیں۔ 

مسائل

(۱): صدقہ فطر آخری عشرہ رمضان سے لے کر عید کی نماز کے قبل تک ادا کرنا دینا بہتر ہے۔ پھر جو شخص عید کی نماز کے وقت تک ادا نہ کرسکے اس پر واجب ہے کہ عید کی نماز کے بعد ادا کردے۔ پھر جو صاحب نصاب ہو کر بھی صدقہ فطر ادا نہ کرے وہ سخت وعیدکا مستحق ہے کیونکہ سرکار دو عالمنے ارشاد فرمایا: 

لم یزل صومکم معلقًا بین السمآء 

والارض الی ان یودی احد کم زکٰوۃ صومہ

ترجمہ: جو شخص باوجود شرطِ وجوب کے صدقہ فطرادا نہ کرے ،اس کے روزے آسمان اور زمین میں معلق رہتے ہیں اور دربار لم یزلی میں پیش نہیں ہوتے۔ 

(۲) : اگر کسی شخص کے پاس ایک ایسا مکان موجود ہو جو اس کے رہائشی مکان کے علاوہ ہو اور اس کی قیمت نصاب تک پہنچ گئی ہو تو اس پر صدقہ فطر واجب ہوجائے گا۔ 

(۳) : اگر نابالغہ لڑکی کی شادی ہوگئی ہو تو اس کا صدقہ فطر اس کے ماں باپ پر واجب نہیں۔ 

 (۴):  زکوٰۃ کی طرح صدقہ فطر کا مال کافر کو دینے سے ادا نہیں ہوسکتا۔ 

 (۵) : صدقہ فطر یا زکوٰۃ کا مال مسجد ، مدرسہ ،حوض، تالاب، مسافرخانہ، غسل خانہ اور قبرستان پر صرف کرنا نا جائز ہے۔ 

(۶) : صدقہ فطر یا زکوٰۃ کا مال سب سے پہلے اپنے خاندان کے غربا و مساکین پر صرف کرے پھر پڑوس کے لوگوں پر پھر محلہ کے غریب لوگوں پر پھر شہر کے مساکین پر اگر ان سب کو ضرورت نہ ہو تو دوسرے شہر کے غربا کو تلاش کرے ۔اگر اپنے محلہ کے لوگوں سے دوسرے محلہ کے لوگ زیادہ حاجت مند ہوں تو دوسرے محلہ کے لوگوں میں تقسیم کردینا اولیٰ ہے۔ 

(۷) : بنی ہاشم کیلئے صدقہ فطر کا مال اور زکوٰۃ لینا جائز نہیں ہے۔ بنی ہاشم سے مراد حضرت عباس، حضرت علی، حضر ت جعفر، حضرت عقیل اور حضرت حارث رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین کی اولاد مراد ہے۔ 

(۸) : مالدار شخص کے غلام کو صدقہ فطر دینا بھی ناجائز ہے۔ 

(۹):  اپنی اولاد ،اولاد کی اولاد، باپ ،دادا، ماں ،نانی اور دادی اور اپنے غلام کو صدقہ فطر دینا ناجائز ہے۔ چچا ، پھوپھی اور ان کی اولاد کو بھائی بھتیجا اور ان کی اولاد کو بہن، بھانجی، بھانجا اور ان کی اولاد کو ماموں ممانی خالہ اور ان کی اولاد کو صدقہ فطر دینا جائز ہے بشرطیکہ غربت افلاس اور مسکنت پائے جائیں۔ 

(۱۰) : جو شخص عید کی صبح سے پہلے مسلمان ہوگیا ہو، جو بچہ نماز عید سے پہلے تولد ہو ان کا صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے۔ 

شوال المکرم کے چھ روزی

بزرگانِ دین اور اولیاء کرام کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ شوال کے چھ روزے ہمیشہ رکھا کرتے تھے کیونکہ نبی کریمنے ارشاد فرمایا جو شخص تیس روزے رمضان کے اور چھ روزے شوال کے رکھے گا اس کو تمام سال میں روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا ۔اس میں مخفی حکمت یہ ہے کہ مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہ‘ عَشْرُ اَمَثْالِھَا (الانعام۶:۱۶۰) یعنی جو نیک کام کریگا اس کو اس کے بدلہ دس گنا ثواب ملے گا کے مطابق ایک ماہ (رمضان )کے بدلے دس ماہ ہوگئے اور چھ (شوال) کو دس سے ضرب دیں تو ساٹھ روز یعنی دو ماہ بنتے ہیں پس میزان ۱۰+۲=۱۲ ہو گیا تو گویا تمام سال کے روزوں کا ثواب مل گیا اور حدیث شریف کے الفاظ مبارک مندرجہ ذیل ہیں: 

من صام رمضان واتبعہ لستۃ من شوال فکا نما صام دھرًا کلہ

ترجمہ: جس شخص نے رمضان کے روزے رکھ کر چھ روزے شوال کے رکھ لئے تو اس نے پورے سال کا روزہ رکھا۔ 

مسئلہ:۔ شوال کے روزوں کو لگاتار نہ رکھنا بہتر ہے۔ 

 

 

 

 

 

 

 

 

مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا

 

 

باسمہٖ تعالیٰ

قال الامام ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ لا یصلی علیھا فی المسجد مسوی لامام شاہ ولی اﷲ دہلوی رحمت اﷲ تعالیٰ علیہ

مسجد میں نمازِ جنازہ 

پڑھنے کا مسئلہ

ایسی مسجد جہاں نماز باجماعت ہوتی ہو احناف 

کے نزدیک نمازِ جنازہ پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔

 

 

از( فقیر) محمد امیر شاہ قادری گیلانی

 

 

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الحمد اﷲ رب العلمین و الصلوۃ والسلام علی سید الا نبیاء والمرسلین و علٰی الہ و اصحابہ و اولیاء امتہ اجمعین لا سیماء علی حضرتنا و مرشدنا و مولانا و شیخنا سید نا الشیخ ابو محمد السید عبدالقادر الحسنی الحسینی الجیلانی رضی اﷲ عنہ ---امابعد

مورخہ تیئس اکتوبر ۱۹۷۲؁ء بروز پیر بمطابق ۱۴رمضان المبارک ۱۳۹۲؁ھ کو حاجی فدا محمد صاحب صدر انجمن سبزی فروشان پشاور کے برادر صاحب کی میت پر شمولیت کا موقع ملا۔ جنازہ مسجد سیٹھیان (بیرون یکہ توت دروازہ) میں داخل کرکے عین محراب کے بیچ رکھ کر نماز جنازہ ادا کرنے کا قصد کرلیا گیا مگر اس فقیر کے کہنے پر لوگوں نے جنازہ مسجد سے اٹھالیا کہ ’’ہم حنفیوں کے نزدیک جماعت کی مسجد میں جنازہ پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے ‘‘ اور مسجد کے باہر نماز جنازہ ادا کرلی گئی۔ 

اس وقت بعض کم علم اور فقہ حنفی سے بے خبر اشخاص نیز سنی نما غیر مقلد وہابی وغیرہ دنیادار اور سرمایہ دار افراد نے چہ میگوئیاں شروع کردیں اور ملامت کرنے کے طور پر کہا کہ چونکہ اس وقت حرم شریف اور مسجد نبوی مبارک میں نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں تو یہاں مساجد میں کیوں نہ پڑھی جائے وغیر ہ وغیرہ۔

بدم گفتی و خورسندم عفاک اﷲ نکو گفتی

جواب تلخ می زیبد لب لعل شکر خار

لہٰذا اس عاجز نے سوچا کہ حضرات فقہاء کرام رحم اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کی کتب سے مسئلہ مذکورہ کو واضح کردیا جائے تاکہ آئندہ یہ گندم نما جو فروش قسم کے لوگ کسی ایک حنفی اہل سنت و جماعت کو متزلزل نہ کرسکیں۔

الحمد ﷲ ہم سراجِ امت محمدیہمجتہد اعظم، استاذ المحدثین، امام ہمام، امام اعظم، امام ابو حنیفہ صکے مقلد ہیں۔ ہماری عبادات اور ہمارے معاملات تمام کے تمام انہی کے مسلک حقہ کے مطابق ہیں۔ اگر ہم باوجود اس دعویٰ کے فقہ حنفی پر عمل نہیں کرتے تو پھر ہمارے حنفی ہونے کا دعویٰ باطل اور دھوکہ و فریب ہے۔ آجکل اسی بے راہروی، شریعت اسلامیہ سے لاپرواہی اور اپنے مسلک سے عملاً بغاوت نے ہمیں تباہی و برباد ی کے گہرے گڑھے میں لا پھینکا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ ہم میں سے قطعاًکچھ علم سے بے بہرہ افراد جب سرمایہ دار ہوجاتے ہیں تو وہ جاہ و منصب کے حصول کیلئے دین کے بھی ٹھیکیدار بننے کی کوشش کرتے ہیں۔

فان کنت لا تدری فتلک مصیبتہ

9و ان کنت تدری فالمصیبتہ اعظم

rشریعت حقہ اسلامیہ کو سمجھنے کیلئے علم فقہ، تقویٰ، خلوص اور عمل صالح کی ضرورت ہے اور علماء اہل سنت و جماعت و اولیاء عظام کی صحبت بابرکت کی ضرورت ہے نہ کہ دولت یا وجاہت یا منصب حکومت کی۔

علماء حق اور مشائخ عظام کا تو ہمیشہ یہی کردار رہا ہے کہ شریعت غرا کو کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ کئے بغیر صاف صاف اور علی الاعلان حق بیان کرنا ہے ،دولت مندوں، سرمایہ داروں اور اہل دنیا کی مدح سرائی کرنا ان کا کام نہیں ہے بلکہ یہ تو مداحِ رسول مقبول علیہ الصلوٰۃ والسلام، صحابہ کرام، اہل بیت عظام اور اولیاء ذوی الاحترام ہیں، اعلیٰ حضرت فاضل بریلوینے فرمایا:

کروں مدحِ اہل دول رِضاؔ، پڑے اس بلا میں مری بلا

 میں گدا ہوں اپنے کریم کا، میرا دین پارہ نان نہیں

لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اپنے تمام مذہبی امور میں اپنے حنفی علماء ربانین ہی کی طرف رجوع کریں تاکہ ہماری دنیا اور آخرت بخیر ہو اور ہمیں اﷲ جل جلالہ اور اس کے پیارے محبوب حضور نبی کریمکی خوشنودی اور رضا حاصل ہوجائے۔

اﷲ تبارک و تعالیٰ جل جلالہ وعز اسمہ اپنے حبیب کریم ، رؤف رحیم بشیر و نذیر، صاحب قاب قوسین او ادنیٰ، مالک شفاعت کبریٰ رحمت للعالمین، احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی علیہ التحیتہ و الثنا کے طفیل و وسیلہ جلیلہ کی برکت سے ہمارے گناہ معاف فرمائے اور اسی طریقہ اہل حق اہل سنت و جماعت پر قائم رکھے--- آمین ثم آمین۔

مسئلہ مذکورہ یعنی ’’احناف کے نزدیک ایسی مسجد میں جہاں جماعت ہوتی ہو جنازہ کی نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے‘‘۔ اس کے متعلق حنفی کتب سے حوالہ جات پیش کئے جاتے ہیں، امید ہے کہ اب کوئی سنی نما وہابی غیر مقلد یا کسی دوسرے فرقہ باطلہ کا فرد ہمیں اپنے حنفی مسلک سے نہ بہکا سکے گا۔

اللھم ارنا الحق حقا و ارنا الباطل باطلا--- وما توفیق الا باﷲ

 

(فقیر) محمد امیر شاہ قادری

یکہ توت پشاور

۱۶ رمضان المبارک ۱۳۹۲؁ھ     

 

باسمہ تعالیٰ

نورالہدایہ اردوترجمہ شرح و قایہ 

(صفحہ ۱۶۰ جلد اول، باب جنازے کے احکام میں)

’’جس مسجد میں جماعت ہو اس کے اندر مردے کو رکھ کر نماز پڑھنا مکروہ ہے اور اگر مردہ اس کے باہر۱ ؂ہو تو اس میں اختلاف ہے ،بعض کے نزدیک مکروہ ہے اور بعض کے نزدیک نہیں‘‘

شرح و قایہ 

(صفحہ۲۸ ،سطر۸-۹مطبوعہ مطبع فاروقی دہلی )

عربی عبارت یہ ہے:

’’و کرہت۲؂ فی مسجد جماعتہ ان کان المیت فیہ و ان کان خارجہ اختلف المشائخ‘‘

تنویر الابصار

’’کرہت تحریمًا فی مسجد جماعت ہی فیہ و اختلف فی الخارجۃ و المختار الکراہۃ‘‘

ترجمہ: جس مسجد میں نماز ہوتی ہو اس میں نمازِ جنازہ پڑھنا مکروہِ تحریمہ ہے اور مسجد کے باہر جنازہ ہو اور نمازی مسجد میں ، اس میں اختلاف ہے اور مختار مذہب یہی ہے کہ مکروہ ہے۔

 

۱؂: ’’باہر ہو‘‘ کا یہ مطلب ہے جنازہ اور کچھ نماز پڑھنے والے خارج از مسجد ہوں اور باقی نماز پڑھنے والے مسجد میں ہوں تو بالاتفاق مکروہ نہیں ، کذا فی البنایہ۔

۲؂: کراہتہ تحریم و فی روایۃ تنزیہہ ۱۲

غایتہ الاوطار ترجمہ در المختار 

(مطبع نولکشور لکھنؤ ،کتاب الصلوٰۃ باب صلوٰۃ الجنازہ ،صفحہ۱۱۶،سطر ۲-۳)

’’و کرہت تحریمًا و قیل تنزیہا فی مسجد جماعتہ ہو ای 

المیت فیہ وحدہ او مع القوم و اختلف فی الخارج عن المسجد وحدہ او مع بعض القوم و المختار الکراہت مطلقا خلاصتہ بناء علی ان المسجد انما بنی لمکتوبۃ و توابعھا کنا فلۃ و ذکر و تدریس عالم و ھو الموافق لاطلاق حدیث ابی داؤد من صلی

علی میت فی المسجد فلا صلٰوۃ لہ‘‘

ترجمہ: اور مکروہِ تحریمی ہے اور بعض کے نزدیک تنزیہی اور جنازہ کی مسجد جماعت یعنی جامع مسجد یا محلہ کی مسجد میں کہ مردہ اس کے اندر ہو تنہا یا کل یا بعض نمازیوں کے ساتھ ، ذرا اختلاف مسجد سے باہر ہونے کی صورت میں تنہا مردہ باہر ہو یا کچھ نمازیوں کے ساتھ باہر ہو اور قول مختار ہر صورت میں مکروہ ہوتا ہے کذافی الخلاصہ اس وجہ سے کہ مسجد صرف نماز فرض وقتی اور اس کے توابع کیلئے بنی ہے جیسے نفل نماز اور یاد الٰہی اور عالم کا پڑھانا ہیاور یہی قول کراہت کا موافق ہے واسطے اطلاق حدیث ابو داؤد کے جس نے نماز پڑھی مردہ پر مسجد کے اندر تو اس کیلئے نماز نہیں۔

فتاویٰ قاضی خان مطبوعہ مطبع عالی لکھنؤ 

جلد ۱، صفحہ ۳۱کتب الطہارۃ فصل فی المسجد سطر۹۴۰’’و تکلموا فی صلٰوۃ الجنازہ فی المسجد الذی یقام فیہ الجماعۃ قال عامۃ المشائخ یکرہ الامن عذر من مطر اونحوہ سواء کان المیت والقوم خارج المسجد او کان المیت خارج المسجد والامام و القوم فی المسجد و اختلفو فی وجہ واحد و ھو ما اذا کان المیت والامام و بعض القوم خارج المسجد و سائر الناس فی المسجد قال بعضہم لا یکرہ لان سبب الکراہۃ ادخال المیت فی المسجد او اختلاف المکانین بین الامام و بین المیت و بعضہم کرہوا علی کل حال لان عادۃ السلف جرت لصلٰوۃ الجنازہ باعداد الواضع علیحدۃ فاولم یکرہ ذلک لما اعدلھا

موضعا علیحدۃ‘‘

ترجمہ: جماعت کی مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے کے بارے میں علماء کے ارشادات ہیں ۔عامتہ المشائخ کے نزدیک (اس مسجد میں جہاں جماعت ہوتی ہو) نمازِ جنازہ پڑھنا مکروہ ہے مگر کسی عذر کی وجہ سے بارش وغیرہ یا اسی طرح کے عذر سے میت اور قوم مسجد میں ہو یا میت مسجد میں ہو اور قوم مسجد سے باہر ہو اور امام و قوم مسجد میں ہو یہی حکم ہے اور ایک صورت میں اختلاف کیا گیا ہے اور وہ یہ صورت ہے کہ جب میت امام اور کچھ لوگ تو مسجد سے باہر ہوں اور باقی تمام لوگ جو کہ نماز پڑھ رہے ہوں مسجد کے اندر ہوں تو بعض نے کہا کہ مکروہ نہیں ہے اسلئے کہ کراہت کا سبب تو میت کو مسجد میں داخل کرنے سے ہے یا امام اور میت کے درمیان دو جگہوں کا اختلاف ہے اور بعض نے کہا ہے کہ ہر حالت میں مکروہ ہے کیونکہ سلف کی یہ عادت مبارک رہی ہے کہ متعدد جگہیں نماز جنازہ کیلئے علیحدہ کررکھی ہیں۔

ہدایہ مطبوعہ مجتبائی دہلی 

(کتاب الصلوٰۃ ،جلد ۱، صفحہ ۱۶۱ ،سطر۱۰-۱۱)

’’ولا یصلی علی میت فی مسجد جماعۃ لقول النبی صلی اﷲ علیہ و اٰلہ وسلم من صلی علی الجنازۃ فی المسجد فلا اجر لہ‘ و لانہ بنی لا داء المکتوبات و لانہ یحتمل تلویث المسجد و فیما

اذ کان المیت خارج المسجد اختلف المشائخ‘‘

ترجمہ: اس مسجد میں جہاں جماعت ہوتی ہو میت پر نماز نہ پڑھو جیسا کہ حضور پاککا ارشاد ہے جس نے مسجد میں نماز جنازہ پڑھی۔فلا اجر لہ (اس کیلئے اجر نہیں) اسلئے کہ مسجد فرضی پنج وقتہ نمازوں کیلئے بنوائی گئی ہے اور اسلئے کہ مسجد کے لتھڑنے کا اندیشہ ہے اور جب کہ میت مسجد سے خارج ہو تو مشائخ کا اختلاف ہے۔

صاحب عنایہ حاشیہ پر لکھتے ہیں:

’’اذا کانت الجنازۃ فی المسجد فالصلٰوۃ علیھا مکروہۃ باتفاق اصحابنا‘‘

ترجمہ: جب جنازہ مسجد میں ہو پس اس پر نما زمکروہ ہے ہمارے تمام اصحاب کا اس پر اتفاق ہے۔

کنزالد قائق مطبوعہ پشاور 

(باب الجنائز ،صفحہ ۱۲۰،سطر۱)

’’ولم یصلوا رکبانًا ولا فی مسجد‘‘

ترجمہ: اورنہ پڑھو نماز (جنازہ) سواری پر اور نہ ہی مسجد میں۔

المستخلص الحقائق شرح کنزالد قائق 

(مطبوعہ نولکشور لکھنؤ، صفحہ ۳۲۰ سطر۴-۷)

’’ولا فی مسجد عطف علی قولہ ولم یصلوا کبانا اے ان صلوا علی جنازۃ فی مسجد جماعۃ لا یجزھم لقولہ علیہ الاسلام من صلی علی جنازۃ فی المسجد فلا اجر لہ و لانہ نبی الاداء لمکتوبات فیہ و لانہ یحتمل تلویث المسجد و فیما اذا کان

المیت خارج المسجد اختلف المشائخ فیہ ثم ہذا عندنا

ترجمہ: اور نہ ہی مسجد میں پڑھو ،یہ عطف ہے و لم یصلوا رکبانا پر (اور نہ پڑھوسواری پر) یعنی اگر ایسی مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھی جس میں جماعت ہوتی ہو تو جائز نہیں جیسا کہ حضور نبی کریمکا ارشاد ہے جس نے مسجد میں جنازہ پر نماز پڑھی تو اس کیلئے کوئی اجر نہیں ، اسلئے کہ مساجد تو فرضی پنج وقتہ نمازوں کی ادائیگی کیلئے بنوائی گئی ہیں اور اسلئے کہ مسجد کے لتھڑنے کا اندیشہ ہے اور جب کہ میت مسجد سے خارج ہو تو مشائخ کا اس میں اختلاف ہے، یہ ہمارے یعنی احناف کا مسلک ہے۔

مصفّٰی ومسوّٰی شرح موطاء 

(مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ دہلی از خاتم المجتہدین الامام شاہ ولی اﷲ دہلوی جلد۱، سطر ۱۰ )

’’مالک عن نافع عن عبداﷲ بن عمر انہ قال صلی علی عمر بن الخطاب فی المسجد‘‘

ترجمہ: عبداﷲ بن عمر گفت نماز گزاردہ شد بر عمر بن الخطاب در مسجد۔

مترجم گوید اختلاف کردن در گزار دن نماز بر جنازہ در مسجد، شافعیہ بجواز آن قائل اند و ابو حنیفہ (ص) گفتہ لا یصلی علیھا فی المسجد( مسجد میں اس پر نماز نہ پڑھو) اور عربی شرح مسویٰ میں فرماتے ہیں قلت و علیہ الشافعی و قال ابوحنیفہ (رضی اﷲ عنہ) لا یصلی علیھا فی المسجد۔

الزجاج المصابیح 

(مطبوعہ حیدر آباد دکن، بھارت جلد۱ صفحہ نمبر۴۶۲-۴۶۳

از حضرت العلامہ محدث کبیر السید عبداﷲ بن السید مظفر حسین الحنفی الحیدر آبادی)

’’عن واثلہ بن اسقع قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم من صلی علی جنازۃ فی المسجد فلا شئی لہ رواہ ابو داؤد و احمد و الطحاوی و قال فی البنایہ و سکت ابوداؤد فہذا دلیل رضاہ بہ و انہ صحیح عندہ انتھی و حقق ابن القیم فی زاد المعاد وغیرہ ان سندہ حسن محتج بہ ‘ و یویدہ ان النبی صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم لم یکن من عادۃ الصلٰوۃ علی الجنازۃ فی مسجد مع شرفہ بل کان یخرج الی المصلی قالہ فی عمدۃ الرعایہ و قال محمد فی موطأہ لا یصلی علی جنازۃ فی المسجد و کذلک بلغنا عن ابی ہریرۃ موضع الجنازۃ بالمدینتہ خارج من المسجد وھو الموضع الذی کان النبی صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم یصلی علی الجنازۃ فیہ و عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم من صلی علی جنازۃ فی المسجد فلیس لہ شئی رواہ ابن ماجہ و اسنادہ حسن و فی روایۃ الطیالسی و ابن ابی شیبہ فلا صلاۃ لہ‘‘

ترجمہ: واثلہ بن اسقع سے روایت ہے کہ سرور عالم و عالمیاننے ارشاد فرمایا جس نے مسجد میں جنازہ پر نماز پڑھی پس اس کو ثواب نہیں۔ اس کو ابو داؤد نے روایت کیا اور احمد و طحاوی نے اور ابو داؤد کا سکوت ان کی رضامندی کی دلیل ہے اور یہ کہ ان کے نزدیک یہ صحیح ہے--- انتھی۔  اور ابن قیم نے زاد المعاد وغیرہ میں ثابت کیا کہ اس کی سند حسن ہے محتج بہہے اور اس بات کی مزید تائید اس سے ہوتی ہے کہ نبی اکرمکی عادت مبارکہ نہیں تھی کہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھتے باوجود اس کے کہ جو شرف اس کو حاصل تھا بلکہ جنازہ کیلئے باہر تشریف لے جاتے۔ قالہ عمدۃ الرعایہ اور امام محمد اپنی موطاء میں فرماتے ہیں کہ مسجد میں نمازِ جنازہ نہ پڑھیں اور ابی ہریرہ کی اسی قسم کی حدیث بھی ہمیں پہنچی ہے کہ نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ مدینہ منورہ میں مسجد سے باہر تھی اور وہ جگہ تھی جہاں حضور پاکجنازہ پر نماز پڑھتے تھے اور اسی سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضور پاکنے ارشاد فرمایا جس نے مسجد میں جنازہ پر نماز پڑھی تو اس کیلئے کوئی ثواب نہیں ۔اس کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور اس کے اسناد حسن ہیں اور طیالسی اور ابن شیبہ کی روایت میں ہے کہ اس کیلئے نماز کا کوئی ثواب نہیں۔

الزجاج المصابیح

(مطبوعہ حیدر آباد دکن بھارت، جلد ۲، صفحہ ۴۵۸ 

از حضرت العلامہ المحدث الکبیر السید عبداﷲ بن السید مظفر حسین حنفی حیدرآبادی )

و خرج بھم الی المصلی کے حاشیہ پر لکھتے ہیں:

’’و فیہ حجۃ للحنفیہ الماکیتہ فی منع الصلٰوۃ علی المیت فی المسجد لانہ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم خرج بھم الی المصلی فصف بھم و صلی علیہ و لوصاع ان یصلی علیہ فی المسجد لما

خرج بھم الی المصلی قالہ فی عمدۃ الرعایۃ‘‘

نجاشی کی موت والی حدیث میں خرج بھم الی المصلی کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اس حدیث سے حنفیوں اور مالکیوں نے یہ حجت قائم کی ہے کہ میت پر مسجد میں نماز منع ہے اسلئے کہ حضور  باہر جنازہ گاہ تشریف لے گئے ،صفیں بنوائیں اور اس پر نماز جنازہ پڑھائی، اگر مسجد میں نماز پڑھنی جائز ہوتی تو حضور شفیع المذبنین  جنازہ گاہ کی طرف کیوں تشریف لے جاتے؟

شرح معانی الآثار المعروف بالطحاوی

(مطبوعہ المطبع الاسلامیہ لاہور باب الصلوٰۃ علی الجنازۃ ہل ینبغی ان 

تکون فی المساجد اولاً جلد ۱ صفحہ نمبر۷۲۸-۷۳۰از امام ابو جعفر الطحاوی الحنفی )

’’حدثنا احمد بن داؤد حدثنا یعقوب قال حدثنا محمد بن اسماعیل عن الضحاک بن عثمان عن ابی النصر مولی عمر بن عبید اﷲ عن ابی سلمۃ بن عبدالرحمن ان عائشۃ حین توفی سعد بن ابی وقاص قالت ادخلوا بہ المسجد حتی اصلی الیہ فانکر الناس ذالک علیھا فقالت لقد صلی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم علٰی سہیل ابن البیضافی المسجد‘‘

ترجمہ: جب سعد بن وقاص صنے وفات پائی تو عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہانے فرمایا کہ اس کو مسجد میں لے آؤ تا کہ میں بھی اس کی نماز جنازہ پڑھوں تو صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے اس بات پر آپ سے انکار کیا تو آپ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ سہیل بن بیضا کی نماز جنازہ حضورنے مسجد میں پڑھی تھی۔

حدثنا ابن مرزوق قال ثنا القعبنی قال ثنا مالک عن 

ابی النصر عن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بذلک 

ترجمہ: ابی النصر رسول کریم  سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضور  کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی۔

’’حدثنا احمد بن داؤد قال ثنا ابن ابی عمر قال ثنا عبدالعزیز بن محمد عن عبد الواحد بن حمزۃ عن عباد بن عبداﷲ بن الزبیران عائشہ امرتبسعد بن وقاص ان یمر بہ فی المسجد ثم ذکر مثل

حدیثہ عن یعقوب‘‘

ترجمہ: عباد بن عبداﷲ بن الزبیر روایت کرتا ہے کہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے امر کیا کہ سعد بن وقاص کا جنازہ مسجد میں رکھا جائے پھر مثل حدیث یعقوب کے ذکر کی۔

’’قال ابو جعفر فذ ہب قوم الٰی ہذا الحدیث فقالوا لاباس بالصلٰوۃ علی الجنازہ فی المسجد و احتجوا فی ذالک ایضًا بما حدثنا احمد بن داؤد قال ثنا احمد بن ابی عمر قال حد ثنا عبدا لعزیز بن محمد عن مالک بن انس عن نافع عن ابی عمران عمر

صلی علیہ فی المسجد‘‘

ترجمہ: امام ابوجعفر طحاوی فرماتے ہیں کہ ایک گروہ اس حدیث کی طرف گیا ہے اور کہا ہے کہ مساجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور احتجاج اس حدیث سے کیا ہے ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق صکی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی گئی۔

’’و خالفہم فی ذلک اٰخرون فکرھوا الصلٰوۃ علی الجنازۃ فی المساجد‘‘

ترجمہ: اور باقی اہل علم نے ان سے اختلاف کیا ہے اور فرمایا کہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا مکروہ ہے ۔

’’و احتجوا فی ذلک بما حدثنا سلیمٰن بن شعیب قال ثنا اسد قال ثنا ابن ابی ذئب عن صالح مولی التومۃ حد ثنا ابن ابی صالح عن ابی ہریرہ عن النبی صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم قال من

صلی علی جنازۃ فی مسجد فلا شئی لہ‘‘

ترجمہ: انہوں نے احتجاج اس حدیث سے کیا ہے ۔ابی ہریرہ صسے روایت ہے وہ حضور نبی کریمسے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا حضور پاکنے جو شخص مسجد میں نماز جنازہ پڑھے تو اس کیلئے کوئی ثواب نہیں۔

’’فلما اختلف الروایات عن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و اٰلہ وسلم فی ہذا الباب فکان فیما روینا فی الفصل الاول اباحتہ الصلوۃ علی الجنازۃ فی المساجد و فیما روینا فی الفصل الثانی کراہتہ ذلک احتجنا الی کشف ذلک لنعلم المتاخر منہ فنجعلہ ناسخا لما تقدم من ذلک فلما کان حدیث عائشۃ رضی اﷲ عنہا فیہ دلیلاً الی انہم قد کانوا ترکوا الصلٰوۃ علی الجنائز فی المسجد بعد ان کانت تفعل فیہ حتٰی ارتفع ذالک من فعلھم و ذہبت معرفۃ ذالک من عامتھم فلم یکن ذلک عند الکراہتہ حدثت ولکن کان ذالک عند ہا لان لھم ان یصلوا فی المسجد علی جنائز ہم ولھم ان یصلوا علیھا فی غیرہ ولا یکون صلوتھم فی غیرہ دلیلا علی کراہتہ الصلٰوۃ فیہ کما لم تکن صلوتھم فیہ دلیلا علی کراہت الصلوٰۃ فی غیرہ فقالت بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم یوم مات سعد ماقلت لذالک و انکر علیھا ذالک الناس وہم اصحاب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم و من تبعھم وکان ابو ہریرۃ رضی اﷲ عنہ قد علم من رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و اٰلہ وسلم نسخ الصلٰوۃ علیہم فی المسجد بقول رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و اٰلہ وسلم الذی سمعہ منہ فی ذالک وان ذالک الترک الذی کان من رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و اٰلہ وسلم للصلٰوۃ علی الجنائز فی المسجد بعد ان کان یفعلھا فیہ ترک نسخ فذالک اولٰی من حدیث عائشۃ رضی اﷲ عنہا لان حدیث عائشہ اخبار عن فعل رسول اﷲ فی حال الاباحتہ التی لم یتقد مھا نھی و فی حدیث ابی ہریرۃ اخبار عن نھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و اٰلہ وسلم الذی قد تقدمتہ الاباحتہ فصار حدیث ابو ہریرہ اولٰی من حدیث عائشہ لانہ ناسخ لہ و فی انکار من انکر ذلک علی عائشتہ رضی اﷲ عنہا و ہم یومیٔذ اصحاب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم دلیل علی انہم قد کانوا علموا فی ذالک خلاف ما علمت و لولا ذالک لما انکروا ذالک علیھا و ہذا لذی ذکرنا من النھی عن الصلٰوۃ علی الجنازۃ فی المسجد و کراہتھا قول ابی حنیفتہ و محمد و ھو قول ابی یوسف ایضا رحمھم اﷲ تعالٰی علیھم اجمعین‘‘

ترجمہ: پس اس باب میں رسول مقبولسے روایتیں مختلف واقع ہوئی ہیں کیونکہ پہلی فصل کی حدیثوں میں اباحث مذکور ہے اور دوسری فصل کی حدیثوں میں کراہت ۔تو ہم نے چاہا کہ معلوم کریں کہ کونسی حدیث متقدم ہے اور کونسی متاخر تاکہ متقدم کو منسوخ اور متاخر کو ناسخ سمجھیں پس چونکہ حدیث عائشہ صدیقہ میں اس پر دلیل موجود ہے کہ لوگوں نے مسجد میں نمازِجنازہ پڑھنا ترک کردیا یہاں تک کہ عام لوگوں کو اس سے علم ہوگیا تھا کہ پہلے کسی مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھی گئی تھی یا نہیں۔ پس حضرت عائشہ صدیقہ کے نزدیک یہ ترک کراہت کی دلیل نہ تھا بلکہ وہ سمجھتی تھیں کہ جس طرح مسجد میں نمازِ جنازہ جائز ہے ۔ اسی طرح ایک اور جگہ بھی اسی لئے آپ نے حضرت سعد بن وقاص کے جنازہ میں فرمایا کہ ان کا جنازہ مسجد میں رکھ دو تاکہ میں ان کی نماز جنازہ پڑھوں مگر اصحاب رسول مقبولنے انکار کیا اور ابوہریرہ تو جانتے ہی تھے کہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا منسوخ ہوگیا ہے اسی حدیث سے جو انہوں نے رسول مقبولسے سنی تھی۔ پس حدیث ابوہریرہ سے معلوم ہوا کہ یہ ترک ترک نسخ تھا لہٰذا حضرت عائشہ صدیقہ کی حدیث کی نسبت حدیث ابو ہریرہ پر عمل کرنا اولیٰ ہے کیونکہ حضرت عائشہ صدیقہ کی حدیث میں تو اس کی خبر ہے کہ رسول مقبول  نے مسجد میں سہیل کی نمازِ جنازہ پڑھی تھی پس یہ اس وقت کا حکم ہے جبکہ مسجد میں نمازِ جنازہ مباح تھی اور حدیث ابی ہریرہ میں اس امر کی خبر ہے کہ حضور رسول مقبولنے مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے سے منع فرمایا لہٰذا حدیث ابی ہریرہ حدیث حضرت عائشہ صدیقہ کی ناسخ ہوئی اور اصحاب رسول  کاحضرت عائشہ صدیقہ سے انکار کرنا دلالت رکھتا ہے کہ وہ برخلاف حضرت عائشہ صدیقہ کے مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے کو مکروہ سمجھتے تھے ورنہ ہرگز انکار نہ کرتے پس یہ جو ہم نے بیان کیا ہے کہ مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنا مکروہ ہے ،یہی امام ابوحنیفہ امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اﷲ علیہم اجمعین کا قول ہے۔

العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ

(جلد چہارم صفحہ ۸۲تا ۸۴مطبوعہ نامی پریس لکھنؤ ،

سنی دارالاشاعت مبارک پوری ضلع اعظم گڑھ)

مجددماتہ حاضرہ حضرت العلامہ مولانا بالفضل اولیٰنا احمد رضا خان صاحب بریلوی نے مسئلہ مذکورہ نہایت ہی واضح اور احسن طریقہ سے بیان فرمایا ہے ۔چنانچہ یہ مسئلہ الفتاوی الرضویہ جلد چہارم میں پانچ چھ مقام پر موجود ہے۔ اس فقیر نے صفحات کا حوالہ دے دیا ہے جو شخص چاہئے وہاں ملاحظہ کرکے تسلی کرسکتا ہے ۔یہاں آپ کے ایک فتوے کی نقل کررہا ہوں:

صفحہ ۵۷بعنوان مسئلہ نمبر۴۴ اس مسئلہ کے ضمن میں چار سوال کئے گئے ہیں چونکہ دو سوالوں کا تعلق اسی موضوع سے ہے اسلئے وہی پیش خدمت ہیں:

’’کیا فرماتے ہیں علماء دین ان مسائل میں؟

سوال ۱:رمضان المبارک کے الوادعی جمعہ کو جامع مسجد میں مسلمانوں کا جنازہ آیا، نمازیوں کی بہت زیادہ کثرت تھی ،نمازِ جنازہ اگر بیرون مسجد پڑھائی جاوے گی تو نہ صفیں سیدھی ہوں گی بسبب قبروں اور درختوں کے اور نہ نمازی آسکیں بسبب زیادتی کے اور دھوپ تکلیف دہ تھی ‘ روزہ داروں کو اس صورتِ مذکورہ عذرات کو مد نظر رکھتے ہوئے نمازِ جنازہ فرش مسجد پر پڑھائی جاوے یا نہیں اور ثواب ہوگا یا نہیں؟

سوال ۲: اس شخص کے واسطہ کیا حکم ہے کہ وہ جانتا ہے کہ تمام مسلمانوں کے عذرات مذکورہ بالا صحیح ہیں اور اندرون مسجد جنازہ آگیا ہے اور نمازِ جمعہ بھی ہوچکی ہے مگر وہ جنازہ مسجد سے باہر کرتا ہے اور باہر کرکے نمازِ جنازہ پڑھتا ہے اور جائے کی تنگی اور صفوں کی شکستگی اور روزہ داروں کے دھوپ میں کھڑے ہونے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نمازیوں کی خواہش شرکت نماز جنازہ کو فوت کرے کیا حکم ہے؟

جواب۱: جنازہ مسجد میں رکھ کر اس پر نماز پڑھنا مذہب حنفی میں مکروہِ تحریمی ہے۔ ’’تنویر الابصار‘‘ میں ہے کرہت تحریما فی مسجد جماعۃ ہی  فیہ و اختلف فی الخارجۃ و المختار الکراہۃ یعنی  نمازِ جنازہ بہت ہلکی اور جلد ہونے والی چیز ہے اتنی دیر دھوپ کی تکلیف ایسی نہیں کہ اس کیلئے مکروہ تحریمی کو گوارا کیا جائے اور مسجد کی بے حرمتی روا رکھیں۔ رہی نماز وہ ادا ہوجائے گی فرض اتر جائے گا اور مخالفت حکم کا گناہ اور نفس نماز کا ثواب اﷲ عزوجل کے ہاتھ جیسے کوئی مغصوب زمین پر نماز  پنجگانہ پڑھے۔

جواب۲: اس نے مذہب پر عمل کیا جو بات مذہب میں منع تھی اس سے روکا ،نمازِ جنازہ فرض کفایہ ہے ۔جو مسلمان تنگی ٔ جاکے سبب نہ مل سکے اور اس ملنے کی خواہش رکھتا ہو انہیں ان شاء اﷲ العزیز ملنے ہی کا ثواب ہے۔ حدیث میں ہے جو جماعت کی نیت سے مسجد کو چلا، نماز ہوچکی اس کیلئے ثواب لکھا گیا  قال اﷲ تعالٰی فقد وقع اجرہ علی اﷲ و قال صلی اﷲ علیہ وسلم انما لکل امرء مانوی--- واﷲ اعلم‘‘

ایک اور اعتراض اور جواب

اعتراض یہ کیا گیا کہ ’’اس وقت حرم شریف اور مسجد نبوی میں نمازِ جنازہ پڑھا جاتا ہے لہٰذا یہاں مساجد میں کیوں نہ پڑھا جائے؟‘‘

حضرت امام شاہ ولی اﷲدہلوی مسّویٰ میں تحریر فرماتے ہیں کہ مساجد میں نمازِ جنازہ پر شافعیہ کا عمل ہے ۔چونکہ اس وقت حرمین الشریفین پر حنفیہ کا اقتدار نہیں ہے اور ان لوگوں کا اقتدار اور تسلط ہے جو حنفی نہیں تو وہ اپنے مسلک کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ان کا عمل ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ ان کی نماز حنفیوں کی نماز نہیں، ان کی تکبیر بھی حنفیوں کی تکبیر کی طرح نہیں، ان کی تراویح بھی حنفیوں کی طرح نہیں اور وہ یہ سب عمل حرمین الشریفین کے اندر کرتے ہیں۔ لہٰذا وہ حضرات جنہوں نے یہ اعتراض کیا ہے وہ اپنی مساجد میں رفع الیدین ، آمین بالجہر ، تکبیر کے الفاظ میں کمی، تراویح آٹھ رکعت، و تر ایک رکعت ادا کریں کیونکہ حرمین الشریفین میں ایسا ہوتا ہے تو فوراً تمام لوگ انہیں کہہ دیں گے کہ حضرت یہ تو وہابی غیر مقلد کرتے ہیں ۔ایسا تو نہیں کہ آپ بھی اسی گروہ کے عقائد قبول کرکے ان میں شامل ہوگئے ہیں

مجدد مأئۃ حاضرہ حضرت العلامہ مولا بالفضل اولیٰنا احمد رِضا خان صاحب بریلوی  سے بھی یہی سوال پوچھا گیا۔ 

الفتاویٰ الرضویہ

(جلد ۲، صفحہ۴ ۸، مسئلہ ۵۷، مطبوعہ نامی پریس لکھنؤ)

’’سوال: خانہ کعبہ اور مسجد اقدس نبوی میں نمازِ جنازہ کیوں ہوتی ہے اور جب کعبہ شریف میں نماز پڑھتے ہیں تو مسجد میں کیا حرج ہے؟

جواب: ہاں شافعیہ کے طور پر ہوتی ہے، حنفیہ کے نزدیک جائز نہیں- واﷲ تعالیٰ اعلم۔ 

حضرت فقیہہ کبیر‘ علامہ اجل ‘ فاضل اکمل مولانا مولوی ابو صالح محمد فیض احمد اویسی رضوی مدظلہ‘ صدر مدرس دارالعلوم اہل سنت جامع اویسیہ رضویہ بہاولپور(پاکستان) 

ہمارے ائمہ احناف رحمہم اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مسجد میں نماز جنازہ مطلقاً مکروہ ہے اگرچہ میت بیرون مسجد ہو یہی ارحج واصح و مختار ہے۔

۱) درمختار برحاشیہ ج ۱۔صفحہ ۸۲۷میں ہے۔

کرہت تحریما و قیل تنزیھا فی مسجد جماعتہ ہوای فیہ وحدہ اومع القوم و اختلف فی الخارجتہ عندالمسجدوحدہ اومع بعض القوم والمختار الکراہتہ مطلقا(خلاصہ) بناء علی ان المسجد انما بنی للمکتوبتہ وتوابعھا کنافلتہ وذکروتدریس علم

۲) درالمختار (شامی ) ج ۱۔ صفحہ۸۲۷میں ہے۔

مطلقا فی ای جمیع الصور المتقدمۃ کما فی الفتح عن الخلاصتہ و فی مختارات النوازل سواء کان المیت فیہ او خارجہ ہو ظاہر الروایتہ و فی روایتہ لایکرہ اذکان  المیت خارج المسجد۔

۳) فتاوی رضویہ شریف ج ۴ ۔صفحہ ۳۲ میں اشباہ سے ناقل۔

منع ادخال المیت فیہ و الصحیح ان المنع لصلوٰۃ الجنازۃ وان لم یکن المیت فیہ الالعذرامطر و نحوہ ۔

۴) بحرالرائق ج ۲۔صفحہ۲۰۱ میں ہے۔

وقیل لا یکرہ اذاکان المیت خارج المسجد وھو مبنی علی ان الکراہتہ لاحتمال تلویث لمسجد والا ول ہوالا وفق لا طلاق الحدیث۔

صاحب بحراالرائق نے یہ عبارت بعد بیان مذہب مختار تحریر فرمائی۔ 

اس مسئلہ کے متعلق حدیث شریف یوں ہے۔

من صلی علی میت فی المسجد فلااجرلہ و فی روایتہ فلاشئی لہ ‘ رواہ ابوداود مرفوعاً و رواہ الطیالسی کما فی الفتاوی القاسمیۃ و ابن ماجہ

کذافی بحرالرئق ج۱۔ ۲۰۱و فتح القدیر مع متن ہدایہ و شروح ہدایہ صفحہ ۹۰ و ہدایہ مع شرح فارسی و شرح عینی علی الکنزصفحہ۵۶مراقی الفلاح مع طحطاوی صفحہ۳۶۰

۵) نہر الفائق برحاشیہ بحرالرائق ج ۲۔ صفحہ۲۰۱میں ہے۔

ولعلامۃ قاسم رسالۃ خاصۃ نقل فیہا الکراہتہ عن ائمتنا الثلاثۃ و حقق انہا تحریمیۃ

۶)ہدایہ مع ترجمہ و شرح فارسی ج۱۔ صفحہ۱۶۳میں ہے۔

لا یصلی علی میت فی مسجد جماعۃ۔

۷) کفایہ شرح ہدایہ مع فتح القدیر وغیرہ ج ۲۔ صفحہ۹۰ میں ہے۔

ولان المسجد بنی لا داالمکتوبات یقتض کراہۃ صلوٰۃ الجنازۃ فی المسجد و ان کان المیت خارج المسجد…… الخ۔

۸) عنایہ شرح ہدایہ مع فتح القدیر وغیرہ ج۲۔ صفحہ۹۰میں ہے۔

(ولا یصلی علی میت فی مسجد جماعۃ) اذا کانت الجنازۃ فی المسجد فالصلوۃ علیھا مکروہۃ باتفاق اصحابنا الخ۔

۹) حاشیہ چلپی علی الہدایہ مع فتح القدیر وغیرہ ج۲۔ صفحہ۹۰میں ہے۔

وقیل لوصلی فیہ کرہ کراہۃ تحریم و قیل تنزیہ

۱۰) کبیری شرح مینتہ المصلی صفحہ۵۴۵ میں ہے۔

وتکرہ الصلوٰۃ علی الجنازۃ فی مسجد جماعتہ عند ناوبہ قال مالک و قال الشافعی و احمد لا باس بہا۔

مذکورہ بالا کتب کے علاوہ تمام فقہاء احناف کی کتب مصنفہ فتاوی و شروح و متون میں تصریحات موجود ہیں عینی شرح کنز  صفحہ۵۶ عالمگیری ج ۱، صفحہ ۱۰۲-۱۱۲۔ مطبوعہ ہن مراقی صفحہ۱۳۔الفلاح طحطاوی صفحہ۳۶۰۔جامع الرموزج۱۔ صفحہ۱۲۶۔مطبوعہ لکھنو ۔ قدوری صفحہ ۱۲۔ کنز  صفحہ۱۷۔منیہ صفحہ۱۷۔ شرح و قایہ صفحہ۱۹۔برجندی صفحہ۲۰۔شرح نقایہ ۔ نفع المفتی صفحہ۲۱ والسائل لعبد الحی لکھنوی۔ فتاوی رضویہ صفحہ۲۲۔ فتاوی نعیمیہ صفحہ۲۳۔ فتاوی واحدی صفحہ ۲۵ وغیرہ 

خلاصتہ المرام اینکہ فقہاء احناف کی جمیع کتب متون و شروح وفتاوی وغیرہ میں تصریحات ہیں کہ بلا عذر مسجد میں نماز جنازہ مکروہ ہے اگرچہ ایک روایت نادرہ حضرت امام قاضی ابویوسف رحمتہ اﷲ تعالیٰ سے منقول ہے کہ جب میت سے تلویث مسجد کا خطرہ نہ ہو تو بلا کراہت مطلقاً جائز ہے لیکن روایت نادرہ ساقط الاعتبار ہوتی ہیں جبکہ ظاہر الروایتہ کے معارض ہوں ‘ چنانچہ فتاوی رضویہ ج۴ ۔ صفحہ۳۲میں ہے۔

فان الفتوی متی اختلف وجب المیر الی ظاہر الروایتہ کما افادہ فی البحر والدرروغیر ہما

اور اسی طرح رسائل ابن العابدین میں ہے۔

ازالہ تو ہم

بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ مسجد میں نماز جنازہ کے عدم جوازپر فقہاء نے تلویت کا وہم بتایا ہے وہ غلط ہے اس لئے کہ موت کے بعد تو ہر شے غیر متحرک ہوجاتی ہے پھر تلویت کا وہم کیسا تواس کا جواب یہ ہے کہ جنازہ کو لے چلنے کی حرکت سے خروج نجس کا امکان ہے باقی کسی خاص وجہ سے غلط ظن کی کیا حاجت جیسے ناسمجھ بچہ کو مسجد میں لانا قطعاً ممنوع ہے کہ سب بچوں میں احتمال تلویث قائم ہے کچھ ضروری نہیں کہ جس بچہ کو اسہال وغیرہ لاحق ہو وہی مسجد میں نہ لایا جائے میت میں تو اس سے بھی زاید ہے۔ فقط 

عندی ہذا الجواب

واﷲ تعالیٰ ورسولہ الا علٰی اعلم بالصواب

حررہ :

الفقیر القادری ابوالصالح محمد فیض احمد اویسی رضوی غفرلہ

 دارالعلوم اہلسنت جامع اویسیہ رضویہ

 بہاولپور پاکستان ۳ شوال۱۳۹۲ھ

 

 

 

 

 

Maqam e Nabuwat wa wilayat

 

Download Here

Read Online

JSN Epic is designed by JoomlaShine.com