سر تاج الاتقیا، زینۃ الاصفیا حضرت شاہ محمد فاضل صاحب رحمۃ اللہ علیہ قادری خانیاری{ FR 1342 }؎ ( کشمیر )
برادرِ خورد جناب سیّد شاہ ابوالحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ قادری پشاوری
آپ کا نامِ نامی اور اسمِ گرامی سیّد محمد فاضل تھا۔ آپ کی ولادت بمقام ٹھٹھہ ۱۰۲۹ ہجری میں ہوئی۔ نیز آپ کی تعلیم و تربیت اور پرورش آپ کے برادر کلاں جناب سیّد حسن بادشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ قادری پشاوری کے زیر سایہ ہوئی۔ جناب سیّد غلام صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت شاہ محمد غوث صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جناب سیّد حسن صاحب بیان فرمایا کرتے تھے۔
’’ برادر خورد سیّد محمد فاضل را ہمراہ گرفتم و تعلیم راۂِ باطنش کردم تا مثل خود ساختم ‘‘{ FR 1495 }؎
’’ جب میں نے ہندوستان کا سفر اختیار کیا تو اپنے چھوٹے بھائی سیّد محمد فاضل کو اپنے ساتھ لیا اور اس کو باقاعدہ تصوف و سلوک کی تعلیم دیتا رہا۔ حتیٰ کہ اِس کو بالکل اپنی طرح کر لیا‘‘
مؤرخ کشمیر جناب حضرت مفتی محمد شاہ صاحب سعادت ؔتحریر فرماتے ہیں کہ انہوں نے اپنے محترم{ FR 1344 }؎ بھائی حضرت شاہ سیّد ابوالحسن قادری کی خدمت میں زانؤ ادب جھکایا۔ ظاہری فضائل کا تلمذ حاصل کیا۔ سلسلہ عالیہ قادری کی تعلیمات و ہدایت کی اجازت حاصل کی۔ آپ تبلیغ اِسلام ، اشاعت سنّت نبویﷺ اور تزکیہ نفس کے لئے اپنے برادر بزرگوار کی ہمرکابی میں کشمیر تشریف لے گئے۔ پھر جناب سیّد حسن بادشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ چھ ماہ کشمیر رہ کر واپس تشریف لانے لگے تو آپ کو خرقہ خلافت مرحمت فرما کر وہاں ہی مقیم ہونے کی تلقین کردی۔
جب سیّد حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے وطن مالوف یعنی پشاور کو واپس ہونے لگے تو لوگوں نے نہایت الحاح و زاری سے عرض کیا کہ آپ اِسی جگہ سکونت پذیر ہو جائیں۔ آپ نے مراقبہ کیا اور حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ سے بذریعہ مکاشفہ باطنی حکم پایا کہ تم تو واپس جاؤ۔ مگر ’’ درینجا بگذارید برادر خورد خود سیّد محمد فاضل را خلافتش بدہید ‘‘ یعنی اِس جگہ اپنے چھوٹے بھائی سیّد محمد فاضل کو خلافت دے کر چھوڑ جاؤ۔ کیونکہ اس ملک کی ولایت اس کے حصہ میں ہے۔ سیّد حسن صاحب نے منشور خلافت لکھ دیا دستار مبارک بندھوا دی۔
جناب سیّد غلام صاحب کی یہ فقرہ کہ ’’ در خلوت بردہ احوال ایشاں را بجناب حضرت غوث الاعظم ؓ عرض کردند و دست ایشاں را گرفتہ بدست آں جنا ب دادند۔ فرمان آمد کہ خاطر جمع دارید کہ در ہر حال باشما ایم ‘‘ صاحبان کشف و وجدان کے لئے جواہر پارہ ہے۔ یہی حضرات ذوالکرام اِس فقرے سے نور بصیرت حاصل کر سکتے ہیں۔
پس جناب سیّد حسن بادشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ آپ کو خرقۂ خلافت دے کہ واپس پشاور تشریف لے آئے مؤرخ کشمیر جناب مفتی محمد شاہ صاحب ’’ سعادت ‘‘ تحریر فرماتے ہیں کہ جناب سیّد محمد فاضل صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی وہی طریقہ اختیار کیا جو کہ سیّد شاہ ابوالحسن صاحب قادری رحمۃ اللہ علیہ کی حیات طیبہ کا مشغلہ تھا۔ یعنی تبلیغ، اشاعت سنّت نبویﷺ، طریقہ کے ارشادات کی تبلیغ کا فریضہ باوجود اِس امر کے کہ آپ مسند درویشی پر متمکن تھے۔ دنیا طلبی و جاہ جوئی سے لاتعلق تھے۔ مقررہ آمدنی میسر نہ تھی تاہم عام فیاضی، نان دہی، اور غربا پروری کے مخصوص اوصاف سے متصف ہو کر ہد یہ و تحائف کی آمدنی کا کثیر حصہ صرف کر دیتے تھے۔ صرف اہل و عیال کی ضروریات کے لئے کفایت شعاری کا اصول مدنظر رکھتے ہوئے بقدر قناعت صرف کرتے تھے۔
آپ مختلف بلاد سے آنے والوں کے ساتھ ، نہایت ہی ، تواضع، انکساری ، دِل نوازی اور خاطر داری سے پیش آیا کرتے تھے۔ بالخصوص سادات کرام، علما و اولیاء عظام کی تعظیم و تکریم کا فریضہ بجا لانا آپ کا خاص مشغلہ تھا ، نیز فرماتے ہیں کہ آپ روحانی تعلقات ذکر و فکر ، مراقبہ ، مکاشفہ ، اور قرآن خوانی کا لطف اٹھاتے تھے۔ آپ کا لنگر اتنا وسیع تھا کہ جناب مولوی سیّد محمد یحییٰ صاحب مفتی کا مراج فرماتے ہیں۔
’’ بقدر سہ لاکھ خردار در صرف لنگر اُو شاں بود ‘‘
’’ یعنی تقریباً تین لاکھ خردار فصلانہ آپ کے لنگر کا خرچ ہوتا تھا‘‘
پھر جو تحائف و ہدایا آتے آپ اسی وقت بانٹ دیتے۔ اور شام تک ایک تنکا بھی باقی نہ چھوڑتے اور یہ تمام تقسیم غرباء بے نواؤں میں ہوتی تھی۔ تواریخ کبیر، کشمیر کے تحفۂ اوّل در ذکر سادات کے صفحہ نمبر ۶۴ پر لکھا ہے۔
’’ صد کس از اہل و عیال خادمان و مسافران در ظل عاطفش گذارن مے کردند۔ و ہر چہ از فتوحات میر سیدے بر ایشاں صرف مے نمودند۔ واز ذخیرہ کردن مجتنب مے بودند ‘‘
نیز تواریخ کشمیر اعظمیٰ صفحہ ۲۰۱ پر تحریر فرماتے ہیں۔
’’ ہر چہ از قوت و کسوت مردم مسافر و صادر و وارد بود۔ وقت رخصت ، خرچ بقدر و منزلت و مرتبہ مسافر در رعایت اور تحمل و وظیفہ خواران جاہل و عالم نوعے مے فرمود کہ موجب عبرت زمانہ شدہ ‘‘
آپ کافی عرصہ تک کنارہ کش اور یک سو رہے کسی سے ملاقات نہیں کرتے تھے اور ایک حد تک آمد و رفت کا سلسلہ بھی محدود کر چکے تھے۔ بقول جناب مؤرخ کشمیر صاحب ’’ ایک خاص عرصہ تک خلوت نشینی کی حالت اختیار کر کے بلا نکاح رہے یہاں تک کہ شادی کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے تھے‘‘۔
آپ لکھتے ہیں آخر الامر باطنی اشارہ پایا۔ محبوب سبحانی کی نورانی روحانیت رونما ہوئی{ FR 1345 }؎ اور آپ کی جناب سے ’’ یَا وَلَدِیْ ‘‘’’اے میرے بیٹے ‘‘ کا خطاب پایا اور پھر نکاح کیا جناب { FR 1346 }؎ خواجہ محمد مراد بیگ صاحب اپنی کتاب تحفۃ الفقراء{ FR 1347 }؎ میں تحریر فرماتے ہیں۔
’’ در صورتِ شرع شریف شش زن بایشان رسیدہ۔ از یکے دو ۲ فرزند سیّد عبدالقادر و سیّد شاہ عبداللہ و از دیگر سیّد عبداللہ ثانی و از چہار باقی دختران کہ دو از اں دختران در حبالۂ دو خواہر زادگان خود سیّد محمد و سیّد ابوتراب{ FR 1348 }؎ و سوم برادر زادہ خود سیّد زین العابدین و چہارم کہ مادر ش نیز سیّدہ بود۔ بعد رحلت شاہ و مادرش ہر دو فوت شدند ‘‘
مؤرخ کشمیر نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایک شجرہ{ FR 1349 }؎ جس میں یہ درج ہے کہ سیّد عبدالقادر ، میر وزیر شاہ ، لطف اللہ شاہ ، اور فضل اللہ شاہ۔ یہ چار حضرات سیّد محمد فاضل کے بیٹے تھے لیکن ہمارے اپنے شجروں سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ہر تین فرزند میر وزیر شاہ ، لطف اللہ شاہ اور فضل اللہ شاہ { FR 1350 }؎لاولد فوت ہو گئے۔
سیّد عبدالقادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند سیّد محمود رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت شاہ محمد غوث صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے داماد تھے ، پھر ان کے بیٹے سیّد غلام شاہ آزاد رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے فرزند سیّد بزرگ شاہ رحمۃ اللہ علیہ جن کے دو فرزند سیّد حسن شاہ اور علی شاہ تھے جو کہ ہر دو ( ۲ )لا ولد فوت ہو گئے،اِس طرح آپ کا سلسلہ اولاد منقطع ہو گیا۔ ہمارے اپنے اور دیگر مستند شجروں میں میر بزرگ شاہ صاحب تک اولاد درج ہے۔ اِن ہر دو بھائیوں کے نام جناب مؤرخ کشمیر صاحب پر اعتماد کرتے ہوئے لکھ دیئے ہیں و اللہ اعلم۔
آپ کی تعریف و توصیف جناب مولانا خواجہ بہاؤ الدین مستو سے بایں طور مرقوم ہے۔
آنکہ قطع ہمہ{ FR 1354 }؎ منازل کرد
در رہ عشق میر فاضل کرد
مہر تابندہ اے بنور صفا
نام شاہی بنام اُو زیب
بہر ژرفے ز عشق مرجزن است
کہ برادر شاہ بوالحسن است
دست او بحر از عطا ء و کرم
روضہ اش رشک بوستان ارم
بود از بس کہ در عطا ء یکتا
از کف دست او کف دریا{ FR 1356 }؎
آپ کے کشف و کرامات لا تعد و لا تحصیٰ ہیں اور آپ کی ہزاروں کرامتیں زبان زد خاص و عام ہیں۔ اگر ہر ایک کرامت کا ذکر کیا جائے تو ایک الگ دفتر کی ضرورت ہے۔ جنا ب شاہ ابوالحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فیض یافتہ، صوفی مرتاض جناب میر محمد افضل اندرابی رحمۃ اللہ علیہ ، صائم الدہر اور قائم اللیل بزرگ تھے ، خلوت گزینی ان کو اِس حد تک محبوب تھی کہ اپنی جگہ سے ایک قدم بھی باہر جانا دشوار تھا۔ سیّد محمد فاضل صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال پر یہی بزرگ آپ کے جنازہ پر تشریف لائے۔ اب سماں یہ تھا کہ یہ کبھی تو آپ کے جنازے کے آگے اور کبھی پیچھے ہوتے۔ تدفین کے بعد رخصت کے وقت اِن کے ایک خادم نے اس وارفتگی کا ماجرا پوچھا تو آپ کے کلمات مندرجہ ذیل تھے۔
’’ کہ چگونہ باز پس از لگالاوے مے نماندم کہ تسلی از تجلی جمال دیدار حضرت سیّد الابرار ﷺ نمے شدم و آنحضرت با جمیع صحابہ در جنازۂ حضرت سخی مرحوم خود تشریف آوردہ بودند ‘‘ { FR 1496 }؎
’’ کس طرح میں اس جنازے کے قربان نہ ہوتا ، جبکہ سرکار مدینہ خود اس جنازے پر تشریف لائے تھے اور میں ان کے جمال جہاں آراء کی تجلیات سے سیر نہ ہو سکتا تھا۔اور پھر صحابہ کرام بھی ساتھ موجود تھے ‘‘
بقول صاحب تواریخ اعظمیٰ کشمیر آپ کی وفات ۱۹ جمادی الاول ۱۱۱۷ ہجری میں ہوئی اور آپ بروز چہار شنبہ بوقت عصر مدفون ہوئے۔ مدفن محلہ خانیار واقع کشمیر ہے۔ تاریخ وصال ’’ یُوصِلُ الحبیب اِلیَ الحَبْیب ‘‘ ترجمہ ’’ محب اور محبوب کو ملا دو ‘‘۔ اور ان حروف سے ۱۱۱۷ ہجری کا ترتب ہوتا ہے۔
جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے آپ کے تین صاحبزادے جناب میر وزیر شاہ صاحب، جناب لطف اللہ شاہ صاحب، جنا ب فضل اللہ شاہ صاحب لا ولد فوت ہو گئے، آپ کے چھوتھے صاحبزادے سیّد عبدالقادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد ماجد کے مرید اور سجادہ نشین تھے، نہایت ہی متین ، سنجیدہ ، اور علوم ظاہری و باطنی سے آراستہ و پیراستہ تھے۔ والد ماجد مرحوم کی طرح خاص مشغلہ قرآن کریم کی تلاوت تھا بلکہ آپ نے تو حفاظ اور قراء کے وظائف مقرر فرما کر قرآن مجید کی تلاوت کا خاص انتظام فرمایا جس کی وجہ سے آپ کا شہرہ ،شہرۂ آفاق بنا۔ پھر آپ کا لنگر بھی وسعت پا گیا۔ لیکن ادھر طبیعت میں بے نیازی تھی ، کسی کی پرواہ نہ کرتے تھے۔ صاحب تواریخ اقوام کشمیر نے صفحہ ۱۶۱ پر لکھا ہے کہ ’’ آپ حضرت شاہ محمد غوث صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے داماد تھے۔ آپ کے فرزند سیّد محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی کمالات ظاہری و باطنی سے مالا مال تھے۔ تواریخ کے مطالعہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ والد محترم کی زندگی میں فوت ہو گئے تھے۔ جب آپ کے والد ماجد سیّد عبدالقادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوا تو آپ کے بیٹے یعنی سیّد محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند سیّد غلام شاہ آزاد کو مسند خلافت پر بٹھایا گیا۔ بعض حضرات نے سیّد محمود صاحب کے چار اور بھائیوں کا ذکر بھی کیا ہے جن کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ نہ ہی تو مجھ سے مؤرخ کشمیر صاحب نے ذکر کیا نہ ہی کوئی تحریر دی اور نہ ہی ہمارے شجروں میں اس کا کوئی اندراج پایا جاتا ہے۔
جناب سیّد غلام شاہ صاحب آزاد ظاہری اور باطنی علوم کی وجہ سے بہت مشہور ہو گئے چنانچہ آپ کشمیر کے سادات اور علماء میں امتیازی شان رکھتے تھے۔ بقول تواریخ اقوام کشمیر آپ ۱۱۴۶ ہجری میں پیدا ہوئے۔ جناب شاہ محمد غوث صاحب لاہوری رحمۃ اللہ علیہ سے صغیر سنی میں فیض حاصل کیا۔ تاریخ کبیر کشمیر کے صفحہ ۷۵ پر لکھا ہے۔
’’ نیز توجھات و عنایات از بزرگان وقت دیدہ در خدمت بابرکت حقائق آگاہ شاہ عطاء اللہ رسید ‘‘
آپ فارسی کے بہترین شاعر تھے۔ آزاد تخلص تھا۔ آپ کا ایک مکمل دیوان بھی ہے۔ اگرچہ آپ کے اِس دیوان کو دیکھنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ تاہم شعراء کشمیر آپ کی شاعری کی مدح سرائی کرتے ہیں۔ چنانچہ تواریخ کبیر کشمیر کے مصنف صفحہ ۷۵ پر لکھتے ہیں۔
’’ در کمال تقویٰ و تمکین ظہور نما گردید و محامد اخلاق آں برگزیدہ در اکناف و اطراف آفاق مشہور و معروف است و اشعار موزون ہم مے فرمود و خود آزاد تخلص گرفتہ ‘‘
آپ غریبوں اور مسکینوں کے مربی تھے سینکڑوں بیواؤں کی تنخواہ لنگر سے مقر ر ہو چکی تھی۔ صاحب علم ہونے کی وجہ سے قدرتی طور پر آپ کے ہاں علماء کی بہت ہی قدر و منزلت تھی۔ اپنی زندگی کو نہایت وقار اور شان سے گذار کر ۱۲۰۳ ہجری میں واصل باللہ ہوئے آپ کے جنازے پر تقریباً دس ہزار آدمی موجود تھے۔
آپ کو محلہ خانیار میں دفن کیا گیا۔ آپ کی وفات ہر مذہب اور ملت کے لئے ناقابل تلافی نقصان کے مترادف تھی ، یا یوں کہیے گا کہ وادی کشمیر کے سر سے غریبوں ، بیواؤں ، مسافروں، اور بیکسوں کا مربی اٹھ گیا۔ آپ کے صاحبزادے میر سیّد بزرگ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ آپ بھی عالم و فاضل اور علماء و صلحا کی صحبت کو دِل و جان سے عزیز رکھنے والے تھے، اکابر امراء آپ کے مرید تھے، حتیٰ کہ سردار عبداللہ خان گورنر بھی آپ کا معتقد تھا اور آپ کی خدمت میں تحائف اور ہدایا بھیجا کرتا تھا۔ آپ شیخ نور الدین{ FR 1358 }؎ بان پوری کے خلفاء عظام میں سے تھے۔ اپنے آبا و اجداد کی طرح آپ بھی صاحب جود و سخا تھے۔ لنگر بھی بدستور جاری رکھا غرباء اور بیکسوں و بے نواؤں کی پرورش کرتے رہے۔ ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ ایک شخص قندھار سے وارد کشمیر ہوا۔ مفلوک الحال ہونے کی وجہ سے سردار عبداللہ خان گورنر کشمیر کے پاس حاضر ہوا۔ اِس شخص کے پاس حضور سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا ایک مویٔ مبارک تھا جو کہ اس نے سردار صاحب کو پیش کیا پھر اپنی تنگدستی اور کس مپرسی کا ذکر بھی کیا۔ سردار صاحب نے گیارہ ہزار روپے دے کر وہ مبارک بال خرید لیا۔ سردار چونکہ حضور کا معتقد تھا۔ اِس نے یہ موئے مبارک حضور کے حوالہ کر دیا۔ آپ واپسی کے وقت اس موئے مبارک کو پالکی میں رکھ کر اور کندھوں پر اٹھا کر لائے۔ ادھر سردار موصوف بھی بمع امراء و وزارء ساتھ موجود تھے۔ صاحب تاریخ کشمیر صفحہ ۷۵ پر لکھتے ہیں کہ
’’ ہزار ہا روپیہ در راہ نثار کردند ‘‘
( ہزار ہا روپے راستے میں نچھاور کیے )
پھر آپ نے اس موئے مبارک پر ایک عظیم الشان عمارت تعمیر کرائی جو کہ اب تک خانقاہ دستگیر کے نام سے مشہور ہے۔ یہ واقعہ ۱۲۲۱ ہجری کا ہے۔
آپ کا رسوخ سیاسی لحاظ سے بھی کافی تھا اور تمام وزراء و حکام آپ کے مشورہ سے چنے جاتے تھے۔ کافی سے زیادہ زمین آپ کے لنگر اور اخراجات کے لئے مقررہ کی گئی تھی۔ جس کی آمدنی گیارہ سو خروار تھی اور یہ تین دیہات کی آمدنی کی مقدار کے برابر ہے۔ پھر بقول ’’ تواریخ اقوام کشمیر ‘‘ زوال افاغنہ کے بعد جب کشمیر میں سکھوں کا عمل درآمد شروع ہوا تو مسلمانوں کی کئی جاگیریں، معافیاں اور ان کے وظائف بند کر دئیے گئے۔ لیکن سیّد بزرگ شاہ صاحب نے اپنے ذاتی رسوخ اور کوشش سے پھر بھی بہت کچھ بچا لیا۔{ FR 1497 }؎
آپ ۴ ماہ رجب المرجب ۱۲۳۲ ہجری میں اِس عالم فانی سے عالم جاودانی کو سدھارے آپ کے دو صاحبزادے سیّد حسن اور سیّد علی تھے ، والئی کشتوار راجہ تیج سنگھ{ FR 1359 }؎ کی لڑکی جو کہ مسلمان ہو چکی تھی سیّد حسن شاہ صاحب کے حبالۂ عقد میں آئی۔
سیّد حسن شاہ صاحب گیارہ سال تک مسند ولایت پر متمکن رہے اور پھر لاولد چل بسے۔ سیّد علی بھی لاولد تھے۔ آپ یعنی سیّد حسن شاہ صاحب اپنے والد محترم کے خلفاء ارشد سے بھی تھے۔ اعلیٰ درجہ کے متورع، صاحب زہد و تقویٰ و صاحب علم و فضل تھے۔ لنگر بھی باقاعدہ جاری رہا۔ ان کی وفات ۱۴ شعبان المعظم ۱۲۴۱ ہجری کو ہوئی۔ جناب دریا دل سخی شاہ محمد فاضل کا سلسلہ نسب یہاں پر ختم ہوتا ہے۔
آج کل خانقاہ قادریہ گیلانیہ کے سجادہ نشین جناب سیّد مقبول شاہ صاحب گیلانی ہیں جو کہ شیخ العلماء حضرت جناب زین العابدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ بن سیّد حسن بادشاہ صاحب قادری پشاوری کی اولا د سے ہیں۔ آپ بغائیت سنجیدہ ، متین ، خوش خلق اور ملنسار ہیں۔ فقیر منش اور سیاسی امور میں حصہ لینے والے بھی ہیں۔ قوم کی تعلیمی ترقی میں خاصی سرگرمی دکھاتے ہیں پچاس برس کا سن ہو گا۔ اس فقیر کی ملاقات آپ سے ۳ اگست ۱۹۴۶ ء میں ہوئی تھی۔