حضرت سیّد نا عبد اللہ شاہ صاحب صحابی رحمۃ اللہ علیہ

بغدادی ثم ٹھٹوی

حضور غوث الصمدانی محبوب ربانی ہیکل یزدانی قندیل نورانی شہباز لامکانی سیّد نا و مرشد نا سیّد شیخ ابو محمد محی الدین عبد القادر حسنی حسینی قدس اللہ سرِہ العزیز کے فرزند ارجمند قطب الاقطاب شیخ المشائخ حضرت سیّد عبد الرزاق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی چودھویں پشت سے حضرت زبدۃ العارفین قدوۃ السالکین امام الطریقہ قادری حسنیہ حضرت سیّد عبداللہ شاہ صاحب الملقب صحابی رحمۃ اللہ علیہ بغداد شریف سے سند ھ بمقام ٹھٹہ تشریف لائے۔ آپ کا شجرہ مبارکہ یہ ہے۔

حضرت سیّد عبداللہ شاہ صاحب بن حضرت سیّد محمود صاحب بن حضرت سیّد عبد القادر صاحب بن حضرت سیّد عبد الباسط بن حضرت سیّد حسین صاحب بن حضرت سیّد احمد صاحب بن حضرت سیّد شرف الدین قاسم صاحب بن حضرت سیّد شرف الدین یحییٰ صاحب بن حضرت سیّد بدر الدین حسن صاحب بن حضرت سیّد علاؤ الدین علی صاحب بن حضرت سیّد شمس الدین صاحب بن حضرت سیّد شرف الدین یحییٰ صاحب بن حضرت سیّد شہاب الدین احمد صاحب بن حضرت سیّد ابو صالح النصر صاحب بن حضرت سیّد عبد الرزاق صاحب بن حضرت سیّد السادات غوثِ اعظم سیّد عبد القادر جیلانی رحمت اللہ علیہم اجمعین۔

یہ شجرہ مبارکہ اتنا صحیح ، مستند اور مشہور ہے کہ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں اور تاریخ انساب کی جملہ مستند کتابوں سے اس کی صحت کا ثبوت ملتا ہے، نیز اولیاء سادات کے حالات و سوانح سے متعلق اہم مطبوعات میں بھی بلا کم و کاست یہی شجرہ مبارکہ مرقوم ہے اس سلسلہ میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جناب امیر المؤمنین حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے فرزند حضرت سیّد حسن مثنیٰ        رضی اللہ عنہ کا عقد امام مظلوم سیّد الشہداء حضر ت امام حسین رضی اللہ عنہ کی دختر فرخندہ اختر جنابہ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا۔ ان ہر دو بزرگان کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی اولاد حسنی اور حسینی کہلاتی ہے، اس کے علاوہ حضور غوث اعظم سیّد السادات سیّد ابو محمد محی الدین عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ حضرت امام عالی مقام امام حسین ؄ کی اولاد سے ہیں لہٰذا ان ہر دو بنا پر یہ کہنا انتہائی صائب اور درست ہے کہ قدوۃ السالکین زبدۃ العارفین حضرت سیّد عبد اللہ شاہ صاحب صحابی رحمۃ اللہ علیہ بلحاظ نسب شریف حسنی اور حسینی ہونے کی مقدس خصوصیت سے ممتاز ہیں۔

 عزت مآب حضرت سیّد عبد اللہ شاہ صاحب المشہور صحابی رحمۃ اللہ علیہ بغداد شریف ( عراق ) سے اکیلے ٹھٹہ ( سندھ ) تشریف لائے۔ حضرت شیخ المحدثین سیّد شاہ محمد غوث صاحب رحمۃ اللہ علیہ پشاوری ثم لاہوری بن قطب الاقطاب ابوالبرکات سیّد حسن شاہ صاحب ٹھٹوی ثم پشاوری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں ۔

 ’’ وجد فقیر سیّد عبداللہ از بغداد چوں بملک تہتہ ( ٹھٹہ ) تشریف آوردند آنجا بخانہ بعضے سادات متاھل شدند والد فقیر ہمانجا متولد شدند ‘‘

 یعنی

 ’’ اس فقیر کے دادا سیّد عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ جب بغداد سے ٹھٹہ تشریف لائے تو وہاں کے ایک سادات گھرانے میں آپ نے شادی کی اور اس فقیر کے والد وہاں ہی پیدا ہوئے ‘‘۔

حضرت سیّد محی الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ المعروف سیّد غلام صاحب رحمۃ اللہ علیہ ( جو کہ حضرت محدث جلیل سیّد شاہ محمد غوث صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے اور مرید و خلیفۂ مجاز ہیں ) تحریر فرماتے ہیں

 ’’ چوں او شان ( سیّد عبداللہ ) بعزمِ سیاحت از بغداد شریف کہ وطن اصلی آبا و اجداد ایشاں بود برآمد ند اتفاقاً در ملک تھتہ ( ٹھٹہ ) رسید ند و آنجا بموجب قید الماء اشد من قید الحدید چند روز توقف بوقوع آمد مردم آن ملک بسیار گرویدہ شدند و معتقد شدند و ہر گز نگذاشتند کہ از انجا بجائے دیگر تشریف فرمامیند ‘‘۔

 یعنی

 ’’ جب آپ ( حضرت سیّد عبد اللہ صاحب ) اپنے آبائی وطن بغداد شریف سے بغرض سیاحت نکل پڑے تو اتفاق سے ٹھٹہ پہنچے، اور وہاں پر بمصداق اس عربی مقولہ کے کہ آب و دانہ کی زنجیریں، فولادی زنجیروں سے مضبوط تر ہوتی ہیں قیام فرمایا وہاں کے لوگ آپ کے گرویدہ اور معتقد ہو گئے اور آپ کو کسی دوسری جگہ پر جانے نہ دیا۔

کچھ دن قیام فرمانے کے بعد آپ ( رحمۃ اللہ علیہ ) نے وہاں کے صحیح النسب سادات کے ہاں شادی کر لی جیسا کہ جناب محدث جلیل عمدۃ الکاملین حضرت سیّد شاہ محمد غوث صاحب رحمۃ اللہ علیہ پشاوری ثم لاہوری تحریر فرماتے ہیں۔ ’’ در انجا بخانہ بعضے سادات متاہل شدند و والد فقیر ہمانجا متولد شدند ‘‘ وہاں کے ایک سادات گھرانے میں آپ نے شادی کر لی۔ اور اس فقیر کے والد وہاں ہی پیدا ہوئے ‘‘۔

عالی مرتبت جناب سیّد غلام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد کے مطابق اِس جگہ کے لوگ آپ کے گرویدہ ہوئے اور انتہائی عقیدت کی وجہ سے آنجناب کو مستقل طور پر ٹھٹہ ہی میں رہنے پر مجبور کیا فرماتے ہیں۔ ’’ پس در خانۂ بعضے سادات صحیح النسب کہ متوطن آں ملک بودند متاہل شدند، حق تعالیٰ بایشاں دو فرزند عطاء فرمود، یکے را بحضرت حسن، و دوئم را بحضرت سیّد محمد فاضل نا میدند ‘‘ لہٰذا آپ نے اسی جگہ کے ایک صحیح النسب سیّد گھرانے میں شادی کر لی ، خداوند بزرگ و برتر نے آپ کو دو فرزند عطا ء فرمائے ایک کا نا م سیّد حسن اور دوسرے کا نام سیّد محمد فاضل رکھا ‘‘۔

 یہاں پر ایک غلطی کا ازالہ کرنا بہت ضروری ہے جو کہ بعض ماضی اور حال کے تذکرۂ نویسوں سے ہوئی ہے اور یہ غلطی عدم تحقیق کا نتیجہ ہے۔ جناب اصغر ملک صاحب روزنامہ ’’ مشرق ‘‘ پشاور مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۷۱ ء میں حضرت سیّد عبداللہ صاحب صحابی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند ارجمند جناب ابوالبرکات سیّد حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ پر ایک مضمون لکھتے ہیں۔ جس میں تحریر ہے کہ ــ ’’ حضرت سیّد حسن کے دادا بغداد شریف سے ٹھٹہ تشریف لائے اور انہوں نے یہاں تشریف لانے کے بعد ٹھٹہ کے سادات میں شادی کر لی۔ ‘‘ اور پھر روزنامہ ’’ مشرق ‘‘ پشاور مورخہ ۵ ستمبر ۱۹۷۱ ء میں ایک مضمون بعنوان ’’ حضرت سیّد عبداللہ صحابی ‘‘ انہی اصغر ملک صاحب نے لکھا۔ جس میں لکھتے ہیں ’’ گجرات سے ٹھٹہ تشریف لائے ‘‘ قطعاً غلط ہے۔ جناب محترم پیامؔ شاہجہانپوری نے حضرت شیخ الحدیث سیّد شاہ محمد غوث صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زند گی پر ایک کتاب بنام ’’ تذکرۂ شاہ محمد غوث ‘‘ لکھی وہ صفحہ ۲۰ پر لکھتے ہیں ’’ حضرت شاہ محمد غوث کے جد امجد کے نام اور ہندوستان میں تشریف آوری کا تعین کرتے ہوئے تقریباً تمام تذکرۂ نویسوں سے ایک سہو ہو گیا۔ اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے آپ کے جد امجد کا نام سیّد محمود قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ بغداد سے ترک وطن کر کے سندھ تشریف لائے اور ٹھٹہ میں سکونت اختیار کر لی ، چنانچہ لاہور کے مشہور مؤرخ مفتی غلام سرور ’’ صاحبِ حد یقۃ الاولیاء ‘‘ سے بھی یہ سہو ہوا۔ اور بعد کے تمام تذکرۂ نویسوں نے یہ غلط واقع درج کر دیا، زمانۂ حال کے ایک تذکرۂ نویس مولانا غلام دستگیر مرحوم نے بھی اپنے رسالہ میں حضرت شاہ محمد غوث کے جد امجد کا نام سیّد محمود لکھا ہے اور ان کی بغداد سے تشریف آوری کا تذکرۂ کیا ہے۔ حالانکہ یہ درست نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت سیّد محمود ، حضرت شاہ محمد غوث کے جد ِامجد نہیں، جد ِامجد کے والد گرامی تھے اور وہ کبھی سندھ تشریف نہیں لائے۔ بلکہ بغداد میں رہے اور وہیں فوت ہوئے آپ کے جد ِ امجد کا نام سیّد عبداللہ تھا اور یہی سیّد عبداللہ بغداد سے ترکِ وطن کر کے سند ھ تشریف لائے تھے۔ اِن کا مزار آج بھی ٹھٹہ میں موجود ہے اور مرجع خلائق ہے۔ ‘‘

روزنامہ ’’ مشرق ‘‘ پشاور مورخہ ۵ ستمبر ۱۹۷۱ ء والے مضمون میں جناب اصغر ملک صاحب لکھتے ہیں۔ ’’ ایام طفلی ہی سے آپ کو عبادت و ریاضت کا ذوق تھا ابتدائی تعلیم گھر ہی سے حاصل کی ، ساری عمر ذکر و فِکر اور عبادت الٰہی میں مصروف رہے، شاید اسی شوق کی وجہ سے آپ کو ازدواجی زندگی سے آزاد رہنے کا خیال ہوا چنانچہ تمام عمر مجرد رہے۔ ‘‘

معلوم نہیں کہ صاحب مضمون نے یہ غلط فقرہ کس طرح لکھ دیا کہ ’’ تمام عمر مجرد رہے ‘‘۔ حالانکہ یہی جناب اصغر ملک صاحب ۲۴ جولائی ۱۹۷۱ ء کے اسی روزنامہ ’’ مشرق ‘‘ پشاور میں حضرت ابوالبرکات سیّد حسن صاحب بن حضرت سیّد عبداللہ صاحب صحابی رحمۃ اللہ علیہ پر ایک مضمون تحریر کرتے ہیں۔ ’’ حضرت کا اسم گرامی سیّد حسن صاحب بن حضرت سیّد عبداللہ گیلانی تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب چند واسطوں سے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی سے جا ملتا ہے۔ ‘‘ معلوم ہوا کہ جناب سیّد عبد اللہ صاحب نے تجرد کی زندگی نہیں گزاری تھی بلکہ شادی کی تھی جس سے آپ کی اولاد ہوئی اور ذرا آگے چل کر خود ہی لکھ دیا۔ ’’ اور ٹھٹہ ہی میں حضرت سیّد حسن کی ولادت با سعادت ہوئی ‘‘ بلکہ آپ کے بھائی جناب سیّد محمد فاضل صاحب خانیاری (سری نگر کشمیر ) بھی یہیں ٹھٹہ میں پیدا ہوئے۔

جناب اعجاز الحق صاحب قدوسی نے تذکرۂ صوفیائے سندھ صفحہ ۱۲۴ مطبوعہ ۱۹۵۸ ء پر لکھا۔ ’’ ایام طفلی ہی سے آپ کو عبادت کا ذوق تھا ساری عمر ذکر و شغل و عبادتِ الٰہی میں مصروف رہے اور شائد اسی شوق کی وجہ سے آپ کو ازدواجی زندگی سے آزاد رہنے کا خیال پیدا ہوا۔ چنانچہ تما م زندگی تجرد میں گزاری۔ ‘‘ ( اصغر ملک صاحب نے بھی جناب قدوسی صاحب کی اسی عبارت کو حرف بحرف نقل کیا ہے ) مگر جناب قدوسی صاحب نے تذکرۂ صوفیائے سرحد کے صفحہ ۳۸۶ اور صفحہ ۳۸۷ پر حضرت سیّد حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے عنوان کے ضمن میں لکھا۔’ ’ آپ کا اسم گرامی سیّد حسن ، آپ کے والد کا نام سیّد عبد اللہ گیلانی تھا آپ کے سلسلۂ نسب حسب ذیل واسطوں سے شیخ عبد القادر جیلانی حسنی و حسینی سے جا ملتا ہے سلسلۂ نسب یہ ہے:-حضرت سیّد حسن بن عبداللہ بن سیّد محمود بن سیّد عبد القادر بن سیّد عبد الباسط بن سیّد حسین بن سیّد قطب العالم بن سیّد احمد بن سیّد شرف الدین قاسم بن سیّد شرف بن سیّد بدر الدین حسن بن سیّد علاؤ الدین علی بن سیّد شمس الدین محمد بن سیّد شرف الدین یحییٰ بن سیّد شہاب الدین احمد بن سیّد قطب العالم بن سیّد صالح النصر بن قطب الدائرہ سیّد عبد الرزاق بن قطب ربانی غوث صمدانی سیّد عبد القادر جیلانی الحسنی و الحسینی۔ ‘‘ ( مندرجہ شجرۂ مبارکہ میں بعض حضرات سے اسماء کی جگہ قدوسی صاحب نے صرف القاب لکھ دیئے ہیں۔ فامھم ) اِسی صفحہ پر ’’ پاکستان میں آمد ‘‘ کے عنوان کے تحت تحریر کرتے ہیں۔ ’’ حضرت سیّد حسن کے دادا سیّد محمود بغداد سے ٹھٹہ تشریف لائے اور انہوں نے یہاں تشریف لانے کے بعد ٹھٹہ کے سادات میں شادی کر لی۔ ‘‘ در حقیقت سیّد محمود صاحب بغداد شریف سے آئے ہی نہیں بلکہ ابوالبرکات سیّد حسن صاحب رحمت اللہ کے والد ماجد سیّد عبد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ بغداد سے ٹھٹہ آئے ، اور انہوں نے یہاں شادی کی ، اور ٹھٹہ ہی میں آپ کے دونوں صاحبزادے جناب سیّد حسن اور سیّد محمد فاضل پیدا ہوئے لہٰذا جناب قدوسی صاحب کا یہ لکھنا ’’ اور ٹھٹہ میں سیّد حسن کی ولادت با سعادت ہوئی۔ ‘‘ درست اور صحیح ہے۔

نیز جناب اعجاز الحق قدوسی تذکرۂ صوفیائے پنجاب صفحہ ۵۸۸ بعنوان ’’ شاہ محمد غوث لاہوری گیلانی ‘‘ کے حاشیہ ۱؎ میں تحریر کرتے ہیں۔ــ ’’ سیّد حسن پشاوری اپنے والد بزرگوار سیّد عبد اللہ گیلانی کے مرید و خلیفہ تھے۔ اور ان کے دادا سیّد محمود بغداد سے تشریف لاکر ٹھٹہ میں سکونت پذیر ہوئے سیّد محمود کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادہ سیّد عبد اللہ ( صاحب ) نے پشاور میں سکونت اختیار کی۔ ‘‘

جناب حضرت سیّد عبد اللہ صاحب ہرگز پشاور تشریف نہیں لائے بلکہ جناب ابوالبرکات سیّد حسن بن سیّد عبداللہ صاحب والد کی وفات کے بعد بر صغیر پاک و ہند کا سفر کر کے پشاور میں تشریف فرما ہوئے اور یہ بات جناب قدوسی صاحب نے تذکرۂ صوفیائے سرحد صفحہ ۳۸۸ پر بعنوان ’’ پشاور میں تشریف آوری ‘‘ خود تسلیم کی ہے چنانچہ لکھا ہے ’’ حضرت سیّد حسن اپنے والد کی وفات کے بعد پاک و ہند اور حجاز کا سفر کرنے اور مختلف بزرگوں کی زیارت سے مشرف ہوتے ہوئے پشاور تشریف لائے۔ ‘‘

مندرجہ بالا حقائق کے بعد یہ نتائج اخذ ہوتے ہیں۔

۱۔ جناب سیّد محمود صاحب بغداد شریف سے برصغیر پاک و ہند نہیں آئے۔

۲۔جناب سیّد عبداللہ بن سیّد محمود بغداد شریف سے ٹھٹہ ( سندھ ) تشریف فرما ہوئے۔

۳۔جناب سیّد عبداللہ بن سیّد محمود صاحب نے ٹھٹہ ہی میں شادی کی۔

۴۔ جناب سیّد عبداللہ بن سیّد محمود صاحب کے دو فرزند سیّد حسن اور سیّد محمد فاضل ٹھٹہ ہی میں پیدا ہوئے۔

۵۔جناب سیّد عبداللہ بن سیّد محمود صاحب ٹھٹہ میں فوت ہوئے۔

۶۔جناب سیّد عبداللہ بن سیّد محمود صاحب ہرگز پشاور نہیں آئے۔

یہ فقیر مضمون لکھ رہا تھا کہ روزنامہ ’’ جنگ ‘‘ راولپنڈی مورخہ ۱۷ ستمبر ۱۹۷۱ ء میں ایک مضمون بعنوان ’’ حضرت عبداللہ شاہ اصحابی ( ٹھٹوی ) نظر سے گذرا۔ مضمون نویس انعام محمد صاحب ہیں اِس مضمون میں تقریباً وہی بات کہی گئی ہے جس کی وضاحت یہ فقیر مندرجہ بالا عبارت میں کر چکا ہے مگر محترم انعام محمد صاحب کو ایک فحش غلطی لگی ہے اور معلوم نہیں کہ وہ کونسی تحریر ہے جس سے اس کو یہ لغزش ہوئی، لکھتا ہے ’’ جن دو حضرات کو غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے خواب میں ٹھٹہ بھیجنے کا حکم دیا تھا ان میں سے ایک سیّد عبدالبرکات تھے جن کے بڑے صاحبزادے بھی ہمیشہ اسلام کی تبلیغ کرتے رہے۔ انہوں نے خصوصاً کشمیر اور پونچھ کے علاقوں میں اسلام کی تبلیغ کرتے رہے اور اسے اسلام کا گہوارہ بنانے کے لئے ہمیشہ سعی فرماتے رہے اور ان کے ( سیّد عبدالبرکات کے ) پوتے جو حضرت شاہ محمد غوث کے نام سے مشہور ہوئے، یہ بھی اپنے زمانہ کے نامور بزرگوں میں شمار ہوتے تھے ، اِن کا مدفن لاہور میں ہے جہاں ہر سال ہزاروں عقیدت مند خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ ‘‘

افسوس ہے کہ صاحبِ مضمون نے بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے اتنی بے سروپا بات لکھ دی۔

پاکستان میں حضرات اولیاء کرام اور خصوصاً خاندانِ گرامی منزلت سیّد شاہ عبداللہ صحابی رحمۃ اللہ علیہ بغدادی ثم ٹھٹوی پر جو کچھ لکھا گیا ہے وہ اسی طرح ظن، تخمین، غلط قیاس اور افسانوی رنگ میں لکھا گیا ہے۔ معلوم نہیں کہ آنے والا طالب علم جب اِن اولیاء عظام کے بارے میں لکھے گا تو وہ بھی انہی لا یعنی اور بے سند باتوں پر یقین کر لے گا جس طرح بغیر کسی قسم کی تلاش و جستجو کے بے اعتبار باتوں پر اعتماد کر کے تذکرۂ نویسوں نے غلطیاں کیں اور پھر ایسے محترم اور بزرگ ہستیوں کے متعلق جن کی اولا د صوبہ سرحد ، ہزارہ، آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں پھیلی ہوئی ہے۔

حضرت شیخ المحدثین سیّد شاہ محمد غوث رحمۃ اللہ علیہ المتوفی ۱۱۵۲ ہجری کا رسالہ بنام غوثیہ پشاور سے بہ تصحیح سر آمد علماء و فقیہ اجل حضرت مولانا مولوی نصیر احمد صاحب المعروف میاں صاحب قصہِ خوانی با ہتمام مرزا محمد صادق صاحب ۹ شعبان ۱۲۸۳ ہجری میں چھپا جس میں آپ تحریر فرماتے ہیں۔

 ’’ و جدّ فقیر سیّد عبد اللہ از بغداد چوں بملک تھتہ تشریف آوردند در انجا در خانہ بعضے سادات متاہل شدند و والد فقیر در آنجا متولد شدند ‘‘

حضرت سیّد شاہ عبداللہ صاحب صحابی ، حضرت ابوالبرکات سیّد حسن صاحب اور حضرت شیخ العلماء سیّد شاہ محمد غوث صاحب رحمہم اللہ علیہم اجمعین پر لکھنے والوں کو چاہیے کہ وہ اس خاندان کے بزرگان کرام پر قلم اٹھانے سے پہلے آپ کی اولاد سے اور خصوصاً اس فقیر سے قلمی تحریرات مطالعہ کرنے کے بعد لکھیں اور بغیر تحقیق کے نہ لکھیں تا کہ صریحاً غلطیوں کے مرتکب نہ ہوں۔

تبلیغ اِسلام

آپ ہمیشہ یاد الٰہی ، زہد و عبادت میں منہمک رہتے ، مخلوقِ خدا سے یکسو رہتے ، اور اگر لوگوں سے ملتے تو وعظ و نصیحت کر تے اور گناہوں سے توبہ کرواتے۔ آپ کی نظر میں شاہ و گدا، امیر و غریب، سیاہ و سفید سب برابر تھے ، مخلوقِ خدا سے محبت و پیار آپ کا خاص وصف تھا ، یہی وجہ تھی کہ اگر کوئی غیر مسلم بھی آپ کی صحبت میں آ جاتا تو وہ آپ کے اخلاقِ حسنہ کا گرویدہ ہو کر آپ پر پروانہ وار قربان ہوتا۔ آپ کی استقامت فی الدین ، عالی ہمتی اور عزمِ راسخ کی بدولت سندھ کے علاقہ میں گمراہی اور ضلالت یکسر ہدایت ، معرفت سے بدل گئی اور آپ سے قوتِ ولایت محمدیﷺ کی بدولت بھٹکی ہوئی روحوں کو کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ کی دولت سے سرشار فرما دیا۔ آپ اور آپ کے فرزندان ارجمند اور آپ کے پوتوں کو جو مسلک اور ذکر ِالٰہی کا طریقہ حضور سیّد نا محبوب سبحانی ، قطب ربانی، ہیکل یزدانی، شہباز لامکانی سیّد شیخ ابو محمد محی الدین سیّد عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے پہنچا تھا اس کو بر صغیر پاک و ہند کے شہر شہر، قریہ قریہ،اور کونے کونے تک پہنچایا۔ میر ے جد بزرگوار حضرت سیّد سعید احمد شاہ صاحب قادری نور اللہ مرقدہ نے فرمایا ، ایک بار جناب سیّد عبد اللہ صاحب صحابی مکلی پر مصروف عبادت تھے کہ بر ہمنوں کا ایک گروہ داردھا اشنان کے لئے جا رہا تھا۔ انہوں نے رات کو آپ کے قریب ہی پڑاؤ ڈالا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا کہ یہ بت پرست ہیں۔ آپ ان لوگوں کے پاس گئے اور توحید کی تبلیغ شروع کر دی۔ انہوں نے کہا کہ بابا ان باتوں کو چھوڑو ، اگر واقعی تمہارا رب سب کچھ کر سکتا ہے اور وہی اکیلا مالک و مختار ہے تو ایسا ہو کہ ہم لوگ جب سب سو جائیں تو تمام کے تمام داردھا اشنان کر لیں اور جب اٹھیں تو ہمارے کپڑے بھیگے ہوئے ہوں تو پھر ہم تمہارے رب کو تسلیم کر لیں گے۔ آپ نے فرمایا انشاء اللہ میر ا رب تعالیٰ ایسا ہی کرے گا۔ جب صبح ہوئی تو ان تمام مردوں اور عورتوں نے اسی طرح دیکھا جیسا کہ انہوں نے کہا تھا اور اسی طرح ان کے کپڑے بھیگے ہوئے تھے۔صبح نماز سے فارغ ہو کران تمام لوگوں کو آپ نے کلمہ توحید سے مشرف فرمایا۔ انہوں نے تین باتوں کے لئے آپ سے استدعا کی، پہلی بات یہ کہ ہماری اولاد کثرت سے ہو، دوسری بات یہ ہے کہ ہم تجارت کرتے رہیں اور تیسری بات یہ ہے کہ یہ خوبصورتی ہم میں رہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا انشاء اللہ اِسی طرح ہو گا۔ اور انہیں یہ حکم دیا کہ جہاں بھی رہو مساجد کو آباد کرو، اور جہاں مسجد نہ ہو، خوب عالیشان مسجد بناؤ۔ اور ان کا جو بڑا تھا اس کا نام عثمان ؔ رکھا اس کی تعلم و تربیت خود بنفس نفیس فرمائی اور مرید کر کے اپنا خلیفہ بنایا۔ یہ قوم میمن کہلائی۔ اس خلیفہ صاحب کا مزار بھی آپ کے مزار کے احاطے کے اندر آپ کے قدموں میں ہے۔ غرضیکہ آپ کے تبلیغی مساعی سے سند ھ کا چپہ چپہ توحید ِ الٰہی کے نور سے جگمگا اٹھا۔

حضرت سیّد نا عبد اللہ شاہ صاحب صحابی رحمۃ اللہ علیہ

بغدادی ثم ٹھٹوی

حضور غوث الصمدانی محبوب ربانی ہیکل یزدانی قندیل نورانی شہباز لامکانی سیّد نا و مرشد نا سیّد شیخ ابو محمد محی الدین عبد القادر حسنی حسینی قدس اللہ سرِہ العزیز کے فرزند ارجمند قطب الاقطاب شیخ المشائخ حضرت سیّد عبد الرزاق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی چودھویں پشت سے حضرت زبدۃ العارفین قدوۃ السالکین امام الطریقہ قادری حسنیہ حضرت سیّد عبداللہ شاہ صاحب الملقب صحابی رحمۃ اللہ علیہ بغداد شریف سے سند ھ بمقام ٹھٹہ تشریف لائے۔ آپ کا شجرہ مبارکہ یہ ہے۔

حضرت سیّد عبداللہ شاہ صاحب بن حضرت سیّد محمود صاحب بن حضرت سیّد عبد القادر صاحب بن حضرت سیّد عبد الباسط بن حضرت سیّد حسین صاحب بن حضرت سیّد احمد صاحب بن حضرت سیّد شرف الدین قاسم صاحب بن حضرت سیّد شرف الدین یحییٰ صاحب بن حضرت سیّد بدر الدین حسن صاحب بن حضرت سیّد علاؤ الدین علی صاحب بن حضرت سیّد شمس الدین صاحب بن حضرت سیّد شرف الدین یحییٰ صاحب بن حضرت سیّد شہاب الدین احمد صاحب بن حضرت سیّد ابو صالح النصر صاحب بن حضرت سیّد عبد الرزاق صاحب بن حضرت سیّد السادات غوثِ اعظم سیّد عبد القادر جیلانی رحمت اللہ علیہم اجمعین۔

یہ شجرہ مبارکہ اتنا صحیح ، مستند اور مشہور ہے کہ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں اور تاریخ انساب کی جملہ مستند کتابوں سے اس کی صحت کا ثبوت ملتا ہے، نیز اولیاء سادات کے حالات و سوانح سے متعلق اہم مطبوعات میں بھی بلا کم و کاست یہی شجرہ مبارکہ مرقوم ہے اس سلسلہ میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جناب امیر المؤمنین حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے فرزند حضرت سیّد حسن مثنیٰ        رضی اللہ عنہ کا عقد امام مظلوم سیّد الشہداء حضر ت امام حسین رضی اللہ عنہ کی دختر فرخندہ اختر جنابہ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا۔ ان ہر دو بزرگان کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی اولاد حسنی اور حسینی کہلاتی ہے، اس کے علاوہ حضور غوث اعظم سیّد السادات سیّد ابو محمد محی الدین عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ حضرت امام عالی مقام امام حسین ؄ کی اولاد سے ہیں لہٰذا ان ہر دو بنا پر یہ کہنا انتہائی صائب اور درست ہے کہ قدوۃ السالکین زبدۃ العارفین حضرت سیّد عبد اللہ شاہ صاحب صحابی رحمۃ اللہ علیہ بلحاظ نسب شریف حسنی اور حسینی ہونے کی مقدس خصوصیت سے ممتاز ہیں۔

 عزت مآب حضرت سیّد عبد اللہ شاہ صاحب المشہور صحابی رحمۃ اللہ علیہ بغداد شریف ( عراق ) سے اکیلے ٹھٹہ ( سندھ ) تشریف لائے۔ حضرت شیخ المحدثین سیّد شاہ محمد غوث صاحب رحمۃ اللہ علیہ پشاوری ثم لاہوری بن قطب الاقطاب ابوالبرکات سیّد حسن شاہ صاحب ٹھٹوی ثم پشاوری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں ۔

 ’’ وجد فقیر سیّد عبداللہ از بغداد چوں بملک تہتہ ( ٹھٹہ ) تشریف آوردند آنجا بخانہ بعضے سادات متاھل شدند والد فقیر ہمانجا متولد شدند ‘‘

 یعنی

 ’’ اس فقیر کے دادا سیّد عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ جب بغداد سے ٹھٹہ تشریف لائے تو وہاں کے ایک سادات گھرانے میں آپ نے شادی کی اور اس فقیر کے والد وہاں ہی پیدا ہوئے ‘‘۔

حضرت سیّد محی الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ المعروف سیّد غلام صاحب رحمۃ اللہ علیہ ( جو کہ حضرت محدث جلیل سیّد شاہ محمد غوث صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے اور مرید و خلیفۂ مجاز ہیں ) تحریر فرماتے ہیں

 ’’ چوں او شان ( سیّد عبداللہ ) بعزمِ سیاحت از بغداد شریف کہ وطن اصلی آبا و اجداد ایشاں بود برآمد ند اتفاقاً در ملک تھتہ ( ٹھٹہ ) رسید ند و آنجا بموجب قید الماء اشد من قید الحدید چند روز توقف بوقوع آمد مردم آن ملک بسیار گرویدہ شدند و معتقد شدند و ہر گز نگذاشتند کہ از انجا بجائے دیگر تشریف فرمامیند ‘‘۔

 یعنی

 ’’ جب آپ ( حضرت سیّد عبد اللہ صاحب ) اپنے آبائی وطن بغداد شریف سے بغرض سیاحت نکل پڑے تو اتفاق سے ٹھٹہ پہنچے، اور وہاں پر بمصداق اس عربی مقولہ کے کہ آب و دانہ کی زنجیریں، فولادی زنجیروں سے مضبوط تر ہوتی ہیں قیام فرمایا وہاں کے لوگ آپ کے گرویدہ اور معتقد ہو گئے اور آپ کو کسی دوسری جگہ پر جانے نہ دیا۔

کچھ دن قیام فرمانے کے بعد آپ ( رحمۃ اللہ علیہ ) نے وہاں کے صحیح النسب سادات کے ہاں شادی کر لی جیسا کہ جناب محدث جلیل عمدۃ الکاملین حضرت سیّد شاہ محمد غوث صاحب رحمۃ اللہ علیہ پشاوری ثم لاہوری تحریر فرماتے ہیں۔ ’’ در انجا بخانہ بعضے سادات متاہل شدند و والد فقیر ہمانجا متولد شدند ‘‘ وہاں کے ایک سادات گھرانے میں آپ نے شادی کر لی۔ اور اس فقیر کے والد وہاں ہی پیدا ہوئے ‘‘۔

عالی مرتبت جناب سیّد غلام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد کے مطابق اِس جگہ کے لوگ آپ کے گرویدہ ہوئے اور انتہائی عقیدت کی وجہ سے آنجناب کو مستقل طور پر ٹھٹہ ہی میں رہنے پر مجبور کیا فرماتے ہیں۔ ’’ پس در خانۂ بعضے سادات صحیح النسب کہ متوطن آں ملک بودند متاہل شدند، حق تعالیٰ بایشاں دو فرزند عطاء فرمود، یکے را بحضرت حسن، و دوئم را بحضرت سیّد محمد فاضل نا میدند ‘‘ لہٰذا آپ نے اسی جگہ کے ایک صحیح النسب سیّد گھرانے میں شادی کر لی ، خداوند بزرگ و برتر نے آپ کو دو فرزند عطا ء فرمائے ایک کا نا م سیّد حسن اور دوسرے کا نام سیّد محمد فاضل رکھا ‘‘۔

 یہاں پر ایک غلطی کا ازالہ کرنا بہت ضروری ہے جو کہ بعض ماضی اور حال کے تذکرۂ نویسوں سے ہوئی ہے اور یہ غلطی عدم تحقیق کا نتیجہ ہے۔ جناب اصغر ملک صاحب روزنامہ ’’ مشرق ‘‘ پشاور مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۷۱ ء میں حضرت سیّد عبداللہ صاحب صحابی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند ارجمند جناب ابوالبرکات سیّد حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ پر ایک مضمون لکھتے ہیں۔ جس میں تحریر ہے کہ ــ ’’ حضرت سیّد حسن کے دادا بغداد شریف سے ٹھٹہ تشریف لائے اور انہوں نے یہاں تشریف لانے کے بعد ٹھٹہ کے سادات میں شادی کر لی۔ ‘‘ اور پھر روزنامہ ’’ مشرق ‘‘ پشاور مورخہ ۵ ستمبر ۱۹۷۱ ء میں ایک مضمون بعنوان ’’ حضرت سیّد عبداللہ صحابی ‘‘ انہی اصغر ملک صاحب نے لکھا۔ جس میں لکھتے ہیں ’’ گجرات سے ٹھٹہ تشریف لائے ‘‘ قطعاً غلط ہے۔ جناب محترم پیامؔ شاہجہانپوری نے حضرت شیخ الحدیث سیّد شاہ محمد غوث صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زند گی پر ایک کتاب بنام ’’ تذکرۂ شاہ محمد غوث ‘‘ لکھی وہ صفحہ ۲۰ پر لکھتے ہیں ’’ حضرت شاہ محمد غوث کے جد امجد کے نام اور ہندوستان میں تشریف آوری کا تعین کرتے ہوئے تقریباً تمام تذکرۂ نویسوں سے ایک سہو ہو گیا۔ اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے آپ کے جد امجد کا نام سیّد محمود قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ بغداد سے ترک وطن کر کے سندھ تشریف لائے اور ٹھٹہ میں سکونت اختیار کر لی ، چنانچہ لاہور کے مشہور مؤرخ مفتی غلام سرور ’’ صاحبِ حد یقۃ الاولیاء ‘‘ سے بھی یہ سہو ہوا۔ اور بعد کے تمام تذکرۂ نویسوں نے یہ غلط واقع درج کر دیا، زمانۂ حال کے ایک تذکرۂ نویس مولانا غلام دستگیر مرحوم نے بھی اپنے رسالہ میں حضرت شاہ محمد غوث کے جد امجد کا نام سیّد محمود لکھا ہے اور ان کی بغداد سے تشریف آوری کا تذکرۂ کیا ہے۔ حالانکہ یہ درست نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت سیّد محمود ، حضرت شاہ محمد غوث کے جد ِامجد نہیں، جد ِامجد کے والد گرامی تھے اور وہ کبھی سندھ تشریف نہیں لائے۔ بلکہ بغداد میں رہے اور وہیں فوت ہوئے آپ کے جد ِ امجد کا نام سیّد عبداللہ تھا اور یہی سیّد عبداللہ بغداد سے ترکِ وطن کر کے سند ھ تشریف لائے تھے۔ اِن کا مزار آج بھی ٹھٹہ میں موجود ہے اور مرجع خلائق ہے۔ ‘‘

روزنامہ ’’ مشرق ‘‘ پشاور مورخہ ۵ ستمبر ۱۹۷۱ ء والے مضمون میں جناب اصغر ملک صاحب لکھتے ہیں۔ ’’ ایام طفلی ہی سے آپ کو عبادت و ریاضت کا ذوق تھا ابتدائی تعلیم گھر ہی سے حاصل کی ، ساری عمر ذکر و فِکر اور عبادت الٰہی میں مصروف رہے، شاید اسی شوق کی وجہ سے آپ کو ازدواجی زندگی سے آزاد رہنے کا خیال ہوا چنانچہ تمام عمر مجرد رہے۔ ‘‘

معلوم نہیں کہ صاحب مضمون نے یہ غلط فقرہ کس طرح لکھ دیا کہ ’’ تمام عمر مجرد رہے ‘‘۔ حالانکہ یہی جناب اصغر ملک صاحب ۲۴ جولائی ۱۹۷۱ ء کے اسی روزنامہ ’’ مشرق ‘‘ پشاور میں حضرت ابوالبرکات سیّد حسن صاحب بن حضرت سیّد عبداللہ صاحب صحابی رحمۃ اللہ علیہ پر ایک مضمون تحریر کرتے ہیں۔ ’’ حضرت کا اسم گرامی سیّد حسن صاحب بن حضرت سیّد عبداللہ گیلانی تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب چند واسطوں سے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی سے جا ملتا ہے۔ ‘‘ معلوم ہوا کہ جناب سیّد عبد اللہ صاحب نے تجرد کی زندگی نہیں گزاری تھی بلکہ شادی کی تھی جس سے آپ کی اولاد ہوئی اور ذرا آگے چل کر خود ہی لکھ دیا۔ ’’ اور ٹھٹہ ہی میں حضرت سیّد حسن کی ولادت با سعادت ہوئی ‘‘ بلکہ آپ کے بھائی جناب سیّد محمد فاضل صاحب خانیاری (سری نگر کشمیر ) بھی یہیں ٹھٹہ میں پیدا ہوئے۔

جناب اعجاز الحق صاحب قدوسی نے تذکرۂ صوفیائے سندھ صفحہ ۱۲۴ مطبوعہ ۱۹۵۸ ء پر لکھا۔ ’’ ایام طفلی ہی سے آپ کو عبادت کا ذوق تھا ساری عمر ذکر و شغل و عبادتِ الٰہی میں مصروف رہے اور شائد اسی شوق کی وجہ سے آپ کو ازدواجی زندگی سے آزاد رہنے کا خیال پیدا ہوا۔ چنانچہ تما م زندگی تجرد میں گزاری۔ ‘‘ ( اصغر ملک صاحب نے بھی جناب قدوسی صاحب کی اسی عبارت کو حرف بحرف نقل کیا ہے ) مگر جناب قدوسی صاحب نے تذکرۂ صوفیائے سرحد کے صفحہ ۳۸۶ اور صفحہ ۳۸۷ پر حضرت سیّد حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے عنوان کے ضمن میں لکھا۔’ ’ آپ کا اسم گرامی سیّد حسن ، آپ کے والد کا نام سیّد عبد اللہ گیلانی تھا آپ کے سلسلۂ نسب حسب ذیل واسطوں سے شیخ عبد القادر جیلانی حسنی و حسینی سے جا ملتا ہے سلسلۂ نسب یہ ہے:-حضرت سیّد حسن بن عبداللہ بن سیّد محمود بن سیّد عبد القادر بن سیّد عبد الباسط بن سیّد حسین بن سیّد قطب العالم بن سیّد احمد بن سیّد شرف الدین قاسم بن سیّد شرف بن سیّد بدر الدین حسن بن سیّد علاؤ الدین علی بن سیّد شمس الدین محمد بن سیّد شرف الدین یحییٰ بن سیّد شہاب الدین احمد بن سیّد قطب العالم بن سیّد صالح النصر بن قطب الدائرہ سیّد عبد الرزاق بن قطب ربانی غوث صمدانی سیّد عبد القادر جیلانی الحسنی و الحسینی۔ ‘‘ ( مندرجہ شجرۂ مبارکہ میں بعض حضرات سے اسماء کی جگہ قدوسی صاحب نے صرف القاب لکھ دیئے ہیں۔ فامھم ) اِسی صفحہ پر ’’ پاکستان میں آمد ‘‘ کے عنوان کے تحت تحریر کرتے ہیں۔ ’’ حضرت سیّد حسن کے دادا سیّد محمود بغداد سے ٹھٹہ تشریف لائے اور انہوں نے یہاں تشریف لانے کے بعد ٹھٹہ کے سادات میں شادی کر لی۔ ‘‘ در حقیقت سیّد محمود صاحب بغداد شریف سے آئے ہی نہیں بلکہ ابوالبرکات سیّد حسن صاحب رحمت اللہ کے والد ماجد سیّد عبد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ بغداد سے ٹھٹہ آئے ، اور انہوں نے یہاں شادی کی ، اور ٹھٹہ ہی میں آپ کے دونوں صاحبزادے جناب سیّد حسن اور سیّد محمد فاضل پیدا ہوئے لہٰذا جناب قدوسی صاحب کا یہ لکھنا ’’ اور ٹھٹہ میں سیّد حسن کی ولادت با سعادت ہوئی۔ ‘‘ درست اور صحیح ہے۔

نیز جناب اعجاز الحق قدوسی تذکرۂ صوفیائے پنجاب صفحہ ۵۸۸ بعنوان ’’ شاہ محمد غوث لاہوری گیلانی ‘‘ کے حاشیہ ۱؎ میں تحریر کرتے ہیں۔ــ ’’ سیّد حسن پشاوری اپنے والد بزرگوار سیّد عبد اللہ گیلانی کے مرید و خلیفہ تھے۔ اور ان کے دادا سیّد محمود بغداد سے تشریف لاکر ٹھٹہ میں سکونت پذیر ہوئے سیّد محمود کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادہ سیّد عبد اللہ ( صاحب ) نے پشاور میں سکونت اختیار کی۔ ‘‘

جناب حضرت سیّد عبد اللہ صاحب ہرگز پشاور تشریف نہیں لائے بلکہ جناب ابوالبرکات سیّد حسن بن سیّد عبداللہ صاحب والد کی وفات کے بعد بر صغیر پاک و ہند کا سفر کر کے پشاور میں تشریف فرما ہوئے اور یہ بات جناب قدوسی صاحب نے تذکرۂ صوفیائے سرحد صفحہ ۳۸۸ پر بعنوان ’’ پشاور میں تشریف آوری ‘‘ خود تسلیم کی ہے چنانچہ لکھا ہے ’’ حضرت سیّد حسن اپنے والد کی وفات کے بعد پاک و ہند اور حجاز کا سفر کرنے اور مختلف بزرگوں کی زیارت سے مشرف ہوتے ہوئے پشاور تشریف لائے۔ ‘‘

مندرجہ بالا حقائق کے بعد یہ نتائج اخذ ہوتے ہیں۔

۱۔ جناب سیّد محمود صاحب بغداد شریف سے برصغیر پاک و ہند نہیں آئے۔

۲۔جناب سیّد عبداللہ بن سیّد محمود بغداد شریف سے ٹھٹہ ( سندھ ) تشریف فرما ہوئے۔

۳۔جناب سیّد عبداللہ بن سیّد محمود صاحب نے ٹھٹہ ہی میں شادی کی۔

۴۔ جناب سیّد عبداللہ بن سیّد محمود صاحب کے دو فرزند سیّد حسن اور سیّد محمد فاضل ٹھٹہ ہی میں پیدا ہوئے۔

۵۔جناب سیّد عبداللہ بن سیّد محمود صاحب ٹھٹہ میں فوت ہوئے۔

۶۔جناب سیّد عبداللہ بن سیّد محمود صاحب ہرگز پشاور نہیں آئے۔

یہ فقیر مضمون لکھ رہا تھا کہ روزنامہ ’’ جنگ ‘‘ راولپنڈی مورخہ ۱۷ ستمبر ۱۹۷۱ ء میں ایک مضمون بعنوان ’’ حضرت عبداللہ شاہ اصحابی ( ٹھٹوی ) نظر سے گذرا۔ مضمون نویس انعام محمد صاحب ہیں اِس مضمون میں تقریباً وہی بات کہی گئی ہے جس کی وضاحت یہ فقیر مندرجہ بالا عبارت میں کر چکا ہے مگر محترم انعام محمد صاحب کو ایک فحش غلطی لگی ہے اور معلوم نہیں کہ وہ کونسی تحریر ہے جس سے اس کو یہ لغزش ہوئی، لکھتا ہے ’’ جن دو حضرات کو غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے خواب میں ٹھٹہ بھیجنے کا حکم دیا تھا ان میں سے ایک سیّد عبدالبرکات تھے جن کے بڑے صاحبزادے بھی ہمیشہ اسلام کی تبلیغ کرتے رہے۔ انہوں نے خصوصاً کشمیر اور پونچھ کے علاقوں میں اسلام کی تبلیغ کرتے رہے اور اسے اسلام کا گہوارہ بنانے کے لئے ہمیشہ سعی فرماتے رہے اور ان کے ( سیّد عبدالبرکات کے ) پوتے جو حضرت شاہ محمد غوث کے نام سے مشہور ہوئے، یہ بھی اپنے زمانہ کے نامور بزرگوں میں شمار ہوتے تھے ، اِن کا مدفن لاہور میں ہے جہاں ہر سال ہزاروں عقیدت مند خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ ‘‘

افسوس ہے کہ صاحبِ مضمون نے بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے اتنی بے سروپا بات لکھ دی۔

پاکستان میں حضرات اولیاء کرام اور خصوصاً خاندانِ گرامی منزلت سیّد شاہ عبداللہ صحابی رحمۃ اللہ علیہ بغدادی ثم ٹھٹوی پر جو کچھ لکھا گیا ہے وہ اسی طرح ظن، تخمین، غلط قیاس اور افسانوی رنگ میں لکھا گیا ہے۔ معلوم نہیں کہ آنے والا طالب علم جب اِن اولیاء عظام کے بارے میں لکھے گا تو وہ بھی انہی لا یعنی اور بے سند باتوں پر یقین کر لے گا جس طرح بغیر کسی قسم کی تلاش و جستجو کے بے اعتبار باتوں پر اعتماد کر کے تذکرۂ نویسوں نے غلطیاں کیں اور پھر ایسے محترم اور بزرگ ہستیوں کے متعلق جن کی اولا د صوبہ سرحد ، ہزارہ، آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں پھیلی ہوئی ہے۔

حضرت شیخ المحدثین سیّد شاہ محمد غوث رحمۃ اللہ علیہ المتوفی ۱۱۵۲ ہجری کا رسالہ بنام غوثیہ پشاور سے بہ تصحیح سر آمد علماء و فقیہ اجل حضرت مولانا مولوی نصیر احمد صاحب المعروف میاں صاحب قصہِ خوانی با ہتمام مرزا محمد صادق صاحب ۹ شعبان ۱۲۸۳ ہجری میں چھپا جس میں آپ تحریر فرماتے ہیں۔

 ’’ و جدّ فقیر سیّد عبد اللہ از بغداد چوں بملک تھتہ تشریف آوردند در انجا در خانہ بعضے سادات متاہل شدند و والد فقیر در آنجا متولد شدند ‘‘

حضرت سیّد شاہ عبداللہ صاحب صحابی ، حضرت ابوالبرکات سیّد حسن صاحب اور حضرت شیخ العلماء سیّد شاہ محمد غوث صاحب رحمہم اللہ علیہم اجمعین پر لکھنے والوں کو چاہیے کہ وہ اس خاندان کے بزرگان کرام پر قلم اٹھانے سے پہلے آپ کی اولاد سے اور خصوصاً اس فقیر سے قلمی تحریرات مطالعہ کرنے کے بعد لکھیں اور بغیر تحقیق کے نہ لکھیں تا کہ صریحاً غلطیوں کے مرتکب نہ ہوں۔

تبلیغ اِسلام

آپ ہمیشہ یاد الٰہی ، زہد و عبادت میں منہمک رہتے ، مخلوقِ خدا سے یکسو رہتے ، اور اگر لوگوں سے ملتے تو وعظ و نصیحت کر تے اور گناہوں سے توبہ کرواتے۔ آپ کی نظر میں شاہ و گدا، امیر و غریب، سیاہ و سفید سب برابر تھے ، مخلوقِ خدا سے محبت و پیار آپ کا خاص وصف تھا ، یہی وجہ تھی کہ اگر کوئی غیر مسلم بھی آپ کی صحبت میں آ جاتا تو وہ آپ کے اخلاقِ حسنہ کا گرویدہ ہو کر آپ پر پروانہ وار قربان ہوتا۔ آپ کی استقامت فی الدین ، عالی ہمتی اور عزمِ راسخ کی بدولت سندھ کے علاقہ میں گمراہی اور ضلالت یکسر ہدایت ، معرفت سے بدل گئی اور آپ سے قوتِ ولایت محمدیﷺ کی بدولت بھٹکی ہوئی روحوں کو کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ کی دولت سے سرشار فرما دیا۔ آپ اور آپ کے فرزندان ارجمند اور آپ کے پوتوں کو جو مسلک اور ذکر ِالٰہی کا طریقہ حضور سیّد نا محبوب سبحانی ، قطب ربانی، ہیکل یزدانی، شہباز لامکانی سیّد شیخ ابو محمد محی الدین سیّد عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے پہنچا تھا اس کو بر صغیر پاک و ہند کے شہر شہر، قریہ قریہ،اور کونے کونے تک پہنچایا۔ میر ے جد بزرگوار حضرت سیّد سعید احمد شاہ صاحب قادری نور اللہ مرقدہ نے فرمایا ، ایک بار جناب سیّد عبد اللہ صاحب صحابی مکلی پر مصروف عبادت تھے کہ بر ہمنوں کا ایک گروہ داردھا اشنان کے لئے جا رہا تھا۔ انہوں نے رات کو آپ کے قریب ہی پڑاؤ ڈالا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا کہ یہ بت پرست ہیں۔ آپ ان لوگوں کے پاس گئے اور توحید کی تبلیغ شروع کر دی۔ انہوں نے کہا کہ بابا ان باتوں کو چھوڑو ، اگر واقعی تمہارا رب سب کچھ کر سکتا ہے اور وہی اکیلا مالک و مختار ہے تو ایسا ہو کہ ہم لوگ جب سب سو جائیں تو تمام کے تمام داردھا اشنان کر لیں اور جب اٹھیں تو ہمارے کپڑے بھیگے ہوئے ہوں تو پھر ہم تمہارے رب کو تسلیم کر لیں گے۔ آپ نے فرمایا انشاء اللہ میر ا رب تعالیٰ ایسا ہی کرے گا۔ جب صبح ہوئی تو ان تمام مردوں اور عورتوں نے اسی طرح دیکھا جیسا کہ انہوں نے کہا تھا اور اسی طرح ان کے کپڑے بھیگے ہوئے تھے۔صبح نماز سے فارغ ہو کران تمام لوگوں کو آپ نے کلمہ توحید سے مشرف فرمایا۔ انہوں نے تین باتوں کے لئے آپ سے استدعا کی، پہلی بات یہ کہ ہماری اولاد کثرت سے ہو، دوسری بات یہ ہے کہ ہم تجارت کرتے رہیں اور تیسری بات یہ ہے کہ یہ خوبصورتی ہم میں رہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا انشاء اللہ اِسی طرح ہو گا۔ اور انہیں یہ حکم دیا کہ جہاں بھی رہو مساجد کو آباد کرو، اور جہاں مسجد نہ ہو، خوب عالیشان مسجد بناؤ۔ اور ان کا جو بڑا تھا اس کا نام عثمان ؔ رکھا اس کی تعلم و تربیت خود بنفس نفیس فرمائی اور مرید کر کے اپنا خلیفہ بنایا۔ یہ قوم میمن کہلائی۔ اس خلیفہ صاحب کا مزار بھی آپ کے مزار کے احاطے کے اندر آپ کے قدموں میں ہے۔ غرضیکہ آپ کے تبلیغی مساعی سے سند ھ کا چپہ چپہ توحید ِ الٰہی کے نور سے جگمگا اٹھا۔

صحابی مشہور ہونے کی وجہ تسمیہ

صحابی مشہور ہونے کی وجہ تسمیہ

جناب سیّد عبداللہ شاہ صاحب صحابی رحمۃ اللہ علیہ کو حضور سیّد ِدو عالم شفیع المذنبین ، رحمت اللعالمین، صاحبِ لواء حمد، احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا قرب خاص حاصل تھا ، آپ کو جس مسئلہ کی تحقیق مطلوب ہوتی ، جس حدیث شریف کی تصحیح کی ضرورت ہوتی آنجناب رحمۃ اللہ علیہ حضور سرورِ کائنات ، ہر مومن پر رؤف و رحیم، اور ہر مومن کے لئے اس کی جان کے زیادہ قریب پیغمبر اسلام ﷺ سے بالمشافہ عرض کر کے تحقیق فرماتے اور تصحیح کر لیتے، چنانچہ جناب قدوۃ السالکین ، زبدۃ العارفین سیّد غلام صاحب رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں

 ’’ آنحضرت را مرض موت عارض گشت چند گاہ بر بسترِ مرض افتادند، چوں وقت آخر در رسید و نفس بشمار آمد فرمودند ‘‘

 یعنی جب حضور سیّد عبداللہ صاحب کو مرضِ موت لاحق ہوئی، اور آپ کو کچھ دِن بستر علالت پر صاحب فراش ہوئے اور جب زندگی کی آخری گھڑی آ پہنچی تو ارشاد فرمایا۔ ’’ ایں خانہ را مفرش سازند و معطر کنند، چناں کردند ‘‘ یعنی اس گھر کو خوب اچھی طرح فرش کرو اور اس کے چپہ چپہ کو معطر کرو۔ ’’ چناں کردند ‘‘ چنانچہ آپ کے حکم کے مطابق ایسے ہی کیا گیا۔ ’’ پس خانہ را خلوت سا ختند و خو د باہر دو فرزندان مادند ‘‘۔ اس کے بعد گھر میں خلوت کر دی گئی۔صرف آپ اور آپ کے دو فرزند رہ گئے۔ ’’ ناگاہ می بنیند کہ جناب حضرت سرورِ کائنات علیہ افضل الصلوٰۃ و التحیات با اصحاب کبار و سبطین مختار و حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہم دراں خانہ حاضر شدند ‘‘۔ اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ حضور سرور کائنات ﷺ بمعہ اپنے صحابہ کبار، نواسہ گان مختار اور غوث ِ اعظم رضی اللہ عنہم اس جگہ جلوہ افروز ہوئے ‘‘۔ ’’ ا یشاں با ہر دو فرزندگان خود بایستادن و سلام و تحیت بجا آوردند ‘‘۔ ’’ آپ بمعہ ہر دو فرزندان ( سیّد حسن و سیّد محمد فاضل ) اٹھ کھڑے ہوئے اور سلام و تحیت بجا لائے ‘‘۔ ’’ و عرض کردند ‘‘ اور عرض کی۔ ’’ یا رسول اللہ زہے طالع ایں کہ کلبۂ احزان مرا بقدوم میمنت لزوم خو د منور فرمودند ‘‘۔ یا رسول اللہ زہے نصیب کہ آنحضور ﷺ نے اس غلام کے اس غم کدہ کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے منور فرمایا۔ ’’ ارشاد شد ‘‘ ارشاد فرمایا کہ ’’ اے فرزند برائے استقبال شما آمدیم ‘‘ اے بیٹا میں تیر ے استقبال کے لئے آیا ہوں۔ ’’ عرض کردند ‘‘ ، عرض کیا۔ کہ ’’ اے شفیع المذنبین بندہ نیز مشتاق قدم بوسِ جناب است و آرزو مند دیدار سعادت انتساب ‘‘۔ اے شفیع المذنبین ! یہ فقیر بھی آنحضور ﷺ کی قدم بوسی کا مشتاق اور دیدار سعادت انتساب کا آرزو مند ہے۔ ’’ لیکن از برائے ایں دو غلام زادہ دلم پریشان است کہ احوال آنحابچہ ساں خواہد انجامید ‘‘۔ لیکن اے حضور ﷺ ان ہر دو غلام زادوں کے متعلق پریشان خاطر ہوں کہ ان کا کیا بنے گا۔ ’’ فرمودند خاطر جمع دارید کہ کفیل امور ایشاں مائیم ‘‘۔ ارشاد فرمایا ،کہ تسلی رکھیے ان کے تمام امور کے ہم خود کفیل ہیں۔ ’’ پس دستِ جناب سیّد حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ را گرفتہ بدست حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ ، سپردہ فرمودند کہ تربیت این بکنید کہ فرزند شما است ‘‘۔ پس حضور ﷺ نے سیّد حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ میں دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کی تربیت کرو یہ تمہارا بیٹا ہے۔ ’’ و الیشاں دستِ الیشاں را گرفتہ بدست جناب حضرت غوث الاعظم قدس اللہ سرہ العزیز دادند کہ غور ایں بذمہ شما است ‘‘۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت سیّد حسن رضی اللہ عنہ کا ہاتھ حضور غوث الاعظم قدس اللہ سرہ العزیز کے ہاتھ میں دے کر فرمایا کہ ان کی دیکھ بھال آپ کے ذمہ ہے ، جناب عزت مآب سیّد غلام صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’ پس جناب ایشاں می فرمایند کہ دراں وقت حالتے دستم داد کہ از خود بلکہ از عالم خبرم نماند و تا سہ روز بے ہوش و مد ہوش بودم چوں ہوش آمدم از حال والد ماجد پرسیدم گفتند الیشاں از سہ روز وصال یافتند ہر چند شما را حرکت کردیم حرکتے نیافتم لا چار تجہیز و تکفین نمودہ مدفون ساختیم پس بر تربت الیشاں رفتہ فاتحہ خواندم ‘‘ کہ پس جناب سیّد حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس وقت مجھ پر ایسی حالت طاری ہوئی کہ مجھے اپنے آپ کی بلکہ تمام جہاں کی خبر نہ رہی اور میں تین دن تک بے ہوش اور بے خبر پڑا رہا جب ہوش آیا تو والد گرامی کے متعلق پوچھا مجھے کہا گیا کہ وہ تین دن سے وفات پا چکے ہیں، ہر چند آپ کو مطلع کرنے کی کوشش کی گئی مگر آپ سے کوئی حرکت نہ ہوئی۔ مجبوراً ان کی تکفین و تدفین کی گئی ، اس کے بعد آپ کے مزار پر حاضر ہو کر دعا کی۔ اس واقعہ نے اتنی شہرت عام حاصل کی کہ آپ دنیائے اسلام میں ’’ صحابی ‘‘ کے معزز اور محترم نا م سے مشہور ہوئے۔

سلسلۂ بیعت

آپ کا سلسلہ مبارکہ صرف اور خالص قادریہ ہے۔ آپ اپنے والد سیّد محمود صاحب سے بیعت تھے ، اور صاحب ِ مجاز و معنعن ہوئے۔ آپ کے سلسلۂ مبارکہ کے تمام کے تمام مشائخ حضور غوثِ الاعظم رضی اللہ عنہ تک اپنے اپنے والد کے ہی مرید اور خلیفہ تھے، یہی وجہ تھی کہ سب کے سب حضرات صاحب ِ ولایت تھے۔ اور استقامت فی الدین میں درجہ کمال تک پہنچے ہوئے تھے۔ آپ کے سلسلۂ بیعت یہ ہے:-

حضرت سیّد عبداللہ صاحب اپنے والد سیّد محمود صاحب کے مرید و خلیفہ تھے اور وہ اپنے والد سیّد عبد القادر کے اور وہ اپنے والد سیّد عبدالباسط صاحب کے اور وہ اپنے والد سیّد حسین صاحب کے اور وہ اپنے والد سیّد احمد صاحب کے اور وہ اپنے والد سیّد شرف الدین قاسم صاحب کے اور وہ اپنے والد سیّد شرف الدین یحییٰ صاحب کے اور وہ اپنے والد سیّد بدر الدین حسن صاحب کے اور وہ اپنے والد سیّد علاؤ الدین صاحب کے اور وہ اپنے والد سیّد شمس الدین محمد صاحب کے اور وہ اپنے والد سیّد شرف الدین بزرگ صاحب کے اور وہ اپنے والد سیّد شہاب الدین احمد صاحب کے اور وہ اپنے والد سیّد شہاب الدین ابی صالح النصر صاحب کے اور وہ اپنے والد قطب الدائرہ سیّد عبد الرزاق صاحب کے اور وہ اپنے والد سیّد السادات قطب ربانی غوث الصمدانی سیّد شیخ عبد القادر جیلانی الحسنی الحسینی الجیلانی رضی اللہ عنہم اجمعین کے مرید و خلیفہ تھے

اور الحمد للہ کہ یہ سلسلہ مبارکہ اس فقیر تک اسی طرح چلا آ رہا ہے۔ یہ فقیر محمد امیر شاہ قادری اپنے والد گرامی مرتبت حافظ قرآن سیّد محمد زمان شاہ صاحب کا مرید و خلیفہ ہے اور وہ اپنے والد سے سعید احمد شاہ صاحب کے اور وہ اپنے والد سیّد اکبر شاہ صاحب المعروف آغا پیر جان صاحب کے اور وہ اپنے بڑے بھائی سیّد غلام صاحب المعروف آغا میر جی صاحب کے اور وہ اپنے والد سیّد عیسیٰ شاہ صاحب کے اور وہ اپنے والد سیّد موسیٰ شاہ صاحب کے اور وہ اپنے والد سیّد محمد عابد صاحب کے اور وہ اپنے والد سیّد شاہ محمد غوث صاحب کے اور وہ اپنے والد سیّد حسن صاحب کے اور وہ اپنے والد حضرت سیّد عبداللہ صاحب صحابی رضی اللہ عنہم علیہم اجمعین کے مرید و خلیفہ تھے۔ الحمد للہ علی ذالک کثیرا کثیرا

تاریخ وصال

حضرت قطب الاقطاب سیّد عبد اللہ صاحب الملقب صحابی رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخ وصال کی تعین بقول حضرت محی الدین صاحب المعروف سیّد غلام صاحب رحمۃ اللہ علیہ اِس طرح ہے کہ جناب سیّد عبداللہ صاحب کی وفات کے بعد حضرت ابوالبرکات سیّد حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ جزائر دریائے شور میں سات برس تک ریاضت و مجاہدات میں مصروف رہے، پھر آپ نے ہند کا سفر اختیار کیا اور جب آپ شاہجہان آباد پہنچے تو اورنگ زیب عالمگیر کی سلطنت کا اوائل تھا۔ یعنی ۱۲۶۸ ہجری ( ۱۶۵۹ ء ) تھی گویا آپ کی تاریخ وصال ۱۰۶۰ ہجری میں ہے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ پاکستان میں علاقہ سندھ کے مشہور و معروف شہر ٹھٹھہ کے عظیم الشان قبرستان کوہِ مکلی میں آپ کا مزارِ فیض آثار ہے۔

JSN Epic is designed by JoomlaShine.com