کُتب

 

 

Download Here

Read Online

 

 

 

 

 

 

 

 

 

حج مبرور

حج بیت اﷲ کا طریقہ

 

 

حج بیت اﷲ کا طریقہ

 بیت اﷲ شریف کا حج اسلام کا پانچواں رکن ہے اور یہ ہر اس عاقل، بالغ مسلمان پر فرض ہے جس کے پاس اس قدر سرمایہ ہوکہ وہ حج کے سفر کے اخراجات برداشت کر سکے نیز اپنے گھروالوں کیلئے اتنی رقم چھوڑ جائے جو اس کی واپسی تک ان کے اخراجات پورے کرسکے اور پھر حج پر جانے والے کو حج کے ضروری احکام اور بنیادی باتوں کے متعلق درج ذیل معلومات حاصل کرنی چاہئے۔

فرائض حج:  (۱)نیت کرنا،(۲) احرام باندھنا ،(۳) عرفات کا وقوف کرنا، (۴) طواف زیارت کرنا ،(۵) ترتیب کا قائم رکھنا یعنی ان فرائض کواپنے اپنے مقررہ وقت پر ترتیب کے مطابق اداکرنا۔ 

واجبات حج:   (۱) احرام باندھ کر میقات سے گزرنا ( انڈیا  وپاکستان والوں کیلئے یلملم مقام میقات ہے )، (۲) طوافِ قدوم یعنی مکہ مکرمہ میں داخلہ کے بعد سب سے پہلے خانہ کعبہ کا طواف کرنا ،(۳) سعی کرنا یعنی صفا ومروہ کے درمیان دوڑنا ،(۴) سعی کی ابتداء کوہِ صفاسے کرنا ،(۵) غروبِ آفتاب تک عرفات میں قیام کرنا اوریہاں پر ظہر و عصر کی نما زیکجا کرکے پڑھنا،( ۶) مزدلفہ میں قیام اوریہاں پر مغرب و عشاء کی نماز یکجااداکرنا ،(۷) رمی جمار یعنی شیطانوں کو کنکریاں مارنا ،(۸) قربانی کرنا ،(۹) حلق یا تقصیرکرنا یعنی سرمنڈوانا یا بال کتروانا ، (۱۰) طوافِ و داع یعنی مکہ مکرمہ سے رخصت ہوتے وقت آخری بار طواف کرنا ، (۱۱) ترتیب یعنی مندرجہ بالا واجبات کی ادائیگی میں ترتیب قائم کرنا ۔ 

فرائض و واجبات کے علاوہ حج کے سنن اور مستحبات بھی ہیں لیکن عام لوگوں کی سہولت کیلئے صرف فرائض واجبات کا ذکر کیاگیاہے کیونکہ فرائض تولازمی طور پر ہر حاجی کو ا دا کرنے ہیں البتہ اگر واجبات میں سے کوئی واجب رہ جائے تو اس کے بدلہ میں ایک دم یعنی ایک جانور کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ 

روانگی : جو شخص حجِ بیت اﷲ شریف کا مصمم ارادہ کرلے تو وہ اپنے ساتھ خرچ کیلئے رقم لے اور اپنی واپسی تک گھر والوں کے اخراجات کیلئے مناسب رقم چھوڑے اور روانگی سے قبل اچھی طرح غسل کرے ،زیر ناف وزیر بغل بالوں کی صفائی کرے ، ناخن کاٹ لے اور دو رکعت نفل اداکرے اور مقامِ میقات سے احرام کی حالت میں گزرے (انڈیا اور پاکستان والوں کیلئے میقات یلملم ہے )۔

احرام : یہ دو سفید چادروں پر مشتمل ہوتاہے ۔ایک چادر سے تہہ بند کا کام لیاجاتاہے یعنی لنگی باندھ لی جاتی ہے جبکہ دوسری چادر جسم کے باقی حصہ پر لپیٹ لی جاتی ہے اور سر و چہرہ کو بر ہنہ رکھا جاتاہے اوریلملم کے مقام سے حج تمتع کی نیت کرے یعنی حج تمتع میں عمر ہ و حج دونوں شامل ہوتے ہیں ۔ 

نیت عربی میں

 اَللَّھُمَّ اِنِّیْ اُرِیْدُ الْعُمْرَۃَ وَ الْحَجَّ فَیُسْرَ ھُمَا لِیْ وَ تَقَبَّلْ 

ھُمَا مِنِّیْ نَوَیْتُ الْعُمْرَۃَ وَ الْحَجَّ وَ اَحْرَمْتُ بِھِمَا مُخْلِصًا لِلّٰہِ تَعَالٰی عَزَّوَجَلْ 

نیت اردومیں: اے اﷲ میں خاص تیری رِضاکیلئے عمر ے وحج کا اراد ہ کرتاہوں پس یہ دونوں میرے لئے آسان فرمااوران دونوں کو میری طرف سے قبول فرما، میں نے خالص اﷲ عزوجل کیلئے عمرے وحج کا احرام باندھا۔

تلبیہ 

نیت کے بعد بلند آواز سے یہ تلبیہ پڑھنا شروع کردے : 

لَبَیْک اَللَّھُمَّ لَبَیْک لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَیْک 

اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَ الْمُلْک لَا شَرِیْکَ لَکَ

یہ تلبیہ مقام میقات سے شروع کرے گا اور مکہ معظمہ میں بیت اﷲ شریف پر نظر پڑنے تک اسے جاری رکھے گا ۔

 احرام کے دوران ممنوع امور : احرام باندھنے کے بعد درج ذیل امور سے مکمل باز رہیں: 

(۱) : جنسی و بے ہودہ گفتگواور مباشرت سے پرہیز کرے ۔

(۲) : لڑائی جھگڑا ، گالی گلوچ اور سخت کلامی نہ کرے ۔

(۳) : کسی بھی قسم کا شکار نہ کرے اورنہ ہی شکاری کی امداد کرے یہاں تک کہ مکھی، مچھر اور جوں کوبھی نہ مارے البتہ موذی اور ضرر پہنچانے والے جیسے سانپ، بچھو، چوہے اورکتے وغیرہ پر وار کرسکتاہے ۔

(۴) :دستانے ، جراب یا موزے نہ پہنے اور جوتے بھی ایسے پہنے جن سے پاؤں کی پشت یعنی اوپر والا حصہ برہنہ ہو۔

(۵) : ناخن اوربال وغیرہ نہ کاٹے، کنگھی وغیرہ کرنے سے بھی پرہیز کرے اور سر کو برہنہ رکھے، اسے نہ ڈھانپے۔

(۶) : خوشبو یا تیل وغیرہ نہ لگائے۔

( ۷ ) : زیر ناف اورزیر بغل بال کاٹنے سے پرہیزکرے ۔

(۸): صابن وغیرہ کے ساتھ سر یا داڑھی کو نہ دھوئے

(۹): سلے ہوئے کپڑے نہ پہنے البتہ خواتین پہن سکتی ہیں۔؂

 (۱۰): حرم شریف کے درختوں پودوں اورگھاس وغیر ہ کو کا ٹنے سے پرہیز کرے اورحرم شریف کے پرندوں کوبھی نہ ڈرائے نہ بھگائے ۔

طواف

مکہ معظمہ پہنچ کر سب سے پہلے بیت اﷲ شریف کا طواف کرے ۔

طواف کی نیت: اے اﷲ میں خاص تیری رِضا کیلئے بیت اﷲ شریف کے سات چکر لگانے کی نیت کرتا ہوں ،تواسے میرے لئے آسان فرما اور اسے میری طرف سے قبول فرما۔

طواف کا طریقہ: طواف کی ابتداء حجراسود سے کرے ۔اگر ممکن ہوتواسے بوسہ دے ،اگر ہجوم زیادہ ہو تو بوسہ دینے کی بجائے استلام کرے یعنی دور سے دونوں ہاتھوں کا اشارہ کرکے اپنے ہاتھوں کوچوم لے ۔احرام پہنے ہوئے طواف کے دوران حجر اسود کو بوسہ نہ دے کیونکہ حجر اسود پر خوشبو لگی ہوتی ہے اور احرام کے دوران خوشبو سے بچنا ضروری ہے۔ البتہ بغیر احرام کے طواف کے دوران اگر ممکن ہو سکے تو حجر اسود کو بوسہ دے ورنہ استلام کافی ہے اوریہ کلمہ مبارکہ پڑھے  

بِسْمِ اﷲِ اَﷲُ اَکْبَرْ اَﷲ اَکبَر لَااِلٰہَ اِلَّا ﷲُ وَاﷲُ اَکبَر وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ

طواف کے دوران یہ کلمہ مبارکہ اوردیگر دعائیں پڑھتا رہے اورجب رکن یمانی کے سامنے پہنچے تو وہاں سے حجر اسود تک یہ دعا پڑھتارہے 

 

رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِیْ الآخِرَۃِ حََسَنَۃً 

وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِط وَاَدْخِلْنَا  الْجَنَّۃَ مَعَ الْاَبْرَارَط یَا عَزِیْزُ یَا غَفَّارْ ط

 

اورجب دوسرے چکر میں حجر اسود کے سامنے پہنچے تواسی طرح بسم اﷲ پڑھ کر استلام کرے اور جب رکن یمانی کے پاس پہنچے تو وہی مذکورہ دعا پڑھتا رہے اس طرح سات چکر پورے کرے لیکن ایک بات کا خیال رکھے کہ ابتدائی تین چکروں میں دائیں بازو کو برہنہ کر کے چادر بائیں کندھے پر اوڑھ کراپنی طاقت کے مطابق اکڑ کر چلے باقی ،چار چکر اپنی عام چال کے مطابق پورے کرے او راس تما م طواف کے دوران ذکر الٰہی درود شریف اوردعائیں پڑھتا رہے ۔طواف مکمل کرنے کے بعد مقام ملتزم یعنی حجراسود اورباب الکعبہ کے درمیان دیوار کے ساتھ لپٹ کردعائیں مانگے اورمقام زمزم پر آکر خوب آب زمزم پیئے یہاں تک کہ سیر ہوجائے پھر سعی کرے۔ 

 سعی 

نیت : اے اﷲ میں خالص تیری رِضا کیلئے صفا و مروہ کے درمیان سعی کے سات چکر لگانے کی نیت کرتاہوں ،تو اسے مجھ پر آسان فرمااورتو اسے میری طرف سے قبول فرما۔

سعی کا طریقہ : سعی کی ابتداء کوہ ِصفا سے کرنا چاہئے اورکوہ ِصفا پر چڑھ کر کعبۃ اﷲ کی طرف منہ کرکے دعا کرے اورنیت کرکے دعائیں کرتاہوا اپنی عام منا سب چال سے کوہِ مروہ کی طرف روانہ ہوجائے ۔جب سبز بتیوں والے نشان پر پہنچے تویہاں سے دوڑنا شروع کردے اورسبز بتیوں کے دوسرے نشان تک دوڑتا چلاجائے ۔اوراس کے بعد پھر اپنی مناسب رفتار سے چلتے ہوئے کوہِ مروہ پر آئے تویہ ایک چکر پورا ہوجائے گا ۔چنانچہ کوہِ مروہ پر چڑھ کر بیت اﷲ کی طرف منہ کرکے دعا کرے اور مروہ سے صفا کی طرف دوسرے چکر کیلئے روانہ ہوجائے، پھر سبز بتیوں کے نشان سے دوسرے نشان تک دوڑاتاہوا جائے اور بعد ازاں اپنی عام رفتار سے چلتاہوا کوہِ صفا پر آئے تویہ دوسرا چکر پورا ہوجائے گا ۔اسی طرح سات چکر پورے کرے گویا صفا سے شروع کرے گا اورمروہ پر ختم کرے گا ۔اس عرصہ میں اپنے ماں، باپ، پیر استاد ، رشتہ داروں ،دوستوں ،اولاد اورتمام امت کیلئے دعائیں مانگتارہے۔

سعی سے فراغت حاصل کرکے حلق کروائے یعنی سرمنڈوائے یا تقصیرکرے یعنی بال کتروائے ۔عورت کیلئے ایک یا دوبال یا ایک پورہ کے برابر بال کاٹنے ہی کا فی ہیں۔ حجامت بنوانے کے بعد احرام کھول لے اور اپنے کپڑے پہن لے اور اس طرح حج تمتع کرنے والے کا عمر ہ پورا ہو گیا اوراس پر احرام کی تما م پابندیاں بھی ختم ہوگئیں ۔اب یہ میقات سے باہر نہیں جائے گا۔ اپنے کپڑوں میں یہ آٹھ ذوالحجہ تک طواف بیت اﷲ قرآن کریم کی تلاوت، نوافل، ذکرالٰہی ،درود شریف اوردیگرعبادات و دعاؤں میں مشغول رہے کیونکہ یہ موقع بڑا غنیمت ہے اور اس سے پوراپورا فائدہ اٹھانا چاہئے ۔ بیت اﷲ شریف کے ہر طواف کے بعد مقامِ ابراہیم کے سامنے کھڑے ہو کر دو نفل ادا کرے، اگر قریب جگہ نہ ہو تو پیچھے چلا جائے اور اگر رش کی وجہ سے پیچھے بھی جگہ نہ مل سکے تو جہاں ممکن ہو وہاں دو رکعت نفل ادا کرے۔

یوم ترویہ :  یہ حج کا پہلا دن اور آٹھ ذوالحجہ ہے ۔اس روز فجر کے بعد احرام باندھ کربیت اﷲ شریف آئے ،دورکعت نفل ادا کرے ۔اگر طواف کرے تو بہتر ہے نہ کرے تب بھی اختیار رکھتا ہے اورپھر تلبیہ یعنی لبیک --الخ کہتا ہوا منیٰ کی طرف چل پڑے یہاں پر مسجد خیف میں پانچ نمازیں ادا کرے یعنی ظہر، عصر،مغرب و عشاء اور نوذوالحجہ کی نماز فجر ۔اگر مسجد خیف سے دور ہو تو منیٰ میں اپنے خیمہ کے اندر ہی نمازیں ادا کرے۔

یوم عرفہ: نوذوالحجہ کو جب سورج بلند ہوجائے تو منیٰ سے میدانِ عرفات کی طرف روانہ ہو جائے اور مسجد نمرہ میں پہنچ کر خطبہ سنے جسے خطبہ حج کہا جاتاہے اور اس کے بعد ظہر وعصر کی نمازیں یکجا باجماعت ادا کرے جسے جمع بین الصلوٰتین کہتے ہیں اور پھر میدانِ عرفات یا جبل رحمت پر وقوف کرے یعنی غروبِ آفتاب تک یہاں پرٹھہرے ،غروبِ آفتاب تک دعاؤں ذکر الٰہی اور استغفار میں مشغول رہے یاد رہے کہ تلبیہ میدانِ عرفات میں پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے اور یہاں پر خطبہ حج کا سننا ظہر و عصر کی یکجا نماز یں پڑھنا اورغروبِ آفتاب تک ٹھہرنا حج کا مرکزی اور اہم ترین رکن ہے ۔

مزدلفہ کی روانگی: غروبِ آفتاب کے بعد عرفات سے روانہ ہو جائے گا اور نماز ِمغر ب نہ یہاں پڑھے گا نہ ہی راستے میں بلکہ مزدلفہ پہنچ کرمغرب اورعشاء کی نماز یں یکجا ادا کرے گا اور رات کا کچھ حصہ عبادت کرکے سو جائے گا اورنماز فجر ادا کرنے کے بعد یہاں سے کھجور کی گٹھلی کی مانند چھوٹی چھوٹی ستر (۷۰) کنکریاں جمع کرے گا جن کے ساتھ رمی جمار کرے گا اور جب سفیدی اچھی طرح پھیل جائے تو طلوعِ آفتاب سے چند منٹ قبل دس ذوالحجہ کو مزدلفہ سے منیٰ کی طرف روانہ ہو جائے گا۔

رمی جمار: منیٰ میں پہنچ کرا سی دن یعنی دس ذوالحجہ کو جمرہ ٔاولیٰ یعنی پہلے شیطان کو سات کنکریاں  مارے گا ،باقی دونوں شیطانوں کو اس دن کنکریاں نہ مارے بلکہ اگلے دن یعنی گیارہ،بارہ اور تیرہ ذوالحجہ کو پہلے ، دوسرے اور تیسرے تینوں شیطانوں کو سات سات کنکریاں روزانہ مارے گا اور ہر ایک کنکری مارتے وقت یہ پڑھے گا بسم اﷲ اﷲ اکبر لاحول ولا قوتہ الا باﷲ بہتر یہ ہے کہ رمی جمار زوالِ آفتاب کے بعد کرے ۔

یوم النحر: دس ذوالحجہ کو جمرہ ٔاولیٰ یعنی صرف پہلے شیطان کو کنکریاں مارنے کے بعد حسب توفیق قربانی کرے گا ،اس کا گوشت خود بھی کھا سکتاہے دوسروں کوبھی کھلا سکتاہے ۔

حلق یا تقصیر: قربانی سے فارغ ہونے کے بعد حلق کروائے یعنی سرمنڈوائے یا تقصیر کروائے یعنی بال کتروائے اور احرام کھول کر اپنے کپڑے پہن لے ،اس طرح احرام کی تمام پابندیاں سوائے بیوی کے ساتھ مباشرت ختم ہوجاتی ہیں ۔

طواف: حلق یا تقصیر کروانے کے بعد اپنے کپڑوں میں بیت اﷲ شریف کا طواف کرے اور  طواف کے ساتوں چکر اسی طرح پوری کرے جس طرح ابتدا میں بتایا جا چکاہے ۔طواف کے بعد دو رکعت نما زمقامِ ابراہیم کے محاذ میں ادا کرے اور ملتزم پر آکر دعا کرے اورپھر خوب سیر ہو کر آب زمزم پیئے ۔اس کے بعد صفا مردہ کے درمیان سعی کرے اور اسی دن واپس منیٰ آئے یہاں پر دو تین دن قیام کرے اور ہر روز زوالِ آفتاب کے بعد رمی جمار کرے جس کا ذکر کیا جا چکا ہے ۔منی میں دویا تین دن گزارنے کے بعد واپس بیت اﷲ شریف آئے اور طوافِ و داع کرے ۔اب یہ حلال ہے یعنی میقات سے باہرجاسکتاہے یہ حج تمتع کا طریقہ ہے ۔ 

یاد رہے کہ اگر حج کے دوران حاجی صاحب سے کوئی کو تاہی سرزد ہوجائے مثلاًاحرام کے دوران سلے ہوئے کپڑے پہن لئے، سرکو ڈھانپ لیا، بال کٹوائے، ناخن کاٹے، خوشبو کا استعمال کیا یا حرم شریف کے درخت، پودے یا گھاس کاٹی یا پرندوں کا شکار کیاتو اس جرم کے بدلہ میں اسے ایک جانور کی قربانی کرنا پڑے گی اور اس قربانی کا گوشت وہ خود استعمال نہیں کرے گا ۔

مدینہ منورہ کی روانگی: حج بیت اﷲ سے فارغ ہوکر مدینہ منورہ کا قصدکرے اورسید المرسلین ، شفیع المذنبین، رحمت للعالمین حضرت احمد مجتبیٰ جناب محمد رسول اﷲکے شہر مبارک سے باہر غسل کرے یا مکہ مکرمہ سے ہی غسل کر کے روانہ ہوپھر وضو کرکے پاکیزہ لباس پہنے اور نہایت ادب واحترام کے ساتھ درود و سلام پڑھتے ہوئے مدینہ منورہ میں داخل ہو اور اسی طرح درود و سلام پڑھتے ہوئے باب السلام کی طرف سے مسجد نبوی میں داخل ہو اور دو رکعت تحیۃ المسجد کے نفل ادا کرے اورپھر ریاض الجنتہ کے ہر ایک ستون کے ساتھ کھڑے ہو کر دو دو رکعت نفل ادا کرے ،بعد ازاں پیارے محبوب سید عالم و عالمیان جناب رسول کریم کے مواجہ شریف کی طرف کھڑے ہوکر نہایت ہی ادب واحترام کے ساتھ بارگا ہِ رسالتمآب   میں صلوٰۃ و سلام کا نذرانہ پیش کرے اور اگر مناسب موقع میسر آئے تو ادب واحترام کے ساتھ جالی مبارکہ کو بوسہ دے اور پھر خلیفہ اول حضرت امیر المومنین سید نا ابوبکر صدیقصکو سلام عرض کرے پھر خلیفہ ثانی حضرت امیر المومنین سیدنا عمر فاروق صکو سلام عرض کرے پھر مقام تنز یل قرآن پر دو نفل ادا کرے پھر حضورکے روضۂ اقدس کے بائیں طرف کھڑے ہو کر دو رکعت نفل ادا کرے اور درود وسلام عرض کرتا رہے اور اپنے والدین، اولاد، رشتہ داروں اساتذہ و مشائخ ملک وقوم اور امت محمد یہکیلئے خو ب دل کھول کردعائیں مانگے اور مدینہ منورہ میں جتنے دن رہنا نصیب ہوں تو اسی طرح حاضری دیتا رہے اور بہتر یہ ہے کہ ہر نمازکے دخول کے وقت سے دوسری نماز تک اعتکاف کی نیت سے مسجد نبوی میں داخل ہو اور مدینہ منورہ میں جو آثار و مزاراتِ مقدسہ ہیں ان کی زیارت کرے اورقیامِ مدینہ منورہ میں کثرت سے درود و سلام پڑھتا رہے ۔

 

وما علینا الا البلاغ

  

 

 

 

 

 

 

 

 

'عید الاضحی کے مسائل

 

عیدالاضحی (عید قربان)کے ضروری مسائل

نمازِ عید سے پہلے غسل کرنا، کپڑے بدلنا، خوشبو لگانا، مسواک کرنا، نماز کیلئے ایک راستہ سے جانا اور پھر دوسرے راستہ سے آنا، نماز عید سے پہلے کچھ نہ کھانا، آپس میں خوشی کا اظہار کرنا، جس صاحب نے قربانی کرنی ہو تو اس کیلئے ذی الحجہ کی پہلی رات سے قربانی کرنے تک حجامت نہ بنوانا اور ناخن نہ تراشنا بھی مستحب ہے۔ نماز کیلئے جاتے ہوئے راستہ میں بلند آواز سے مندرجہ ذیل تکبیر پڑھنی چاہئے:

اَﷲُ اَکْبَرْ، اَﷲُ اَکْبَرْ لَااِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرْ اَﷲُ اَکْبَرْ وَ لِلّٰہِ الْحَمْد

تکبیرات ۹ ذی الحجہ کو صبح کی نماز سے لے کر ۱۳ تاریخ کی نماز عصر تک ہر نماز کے بعد جو جماعت سے پڑھی ہو ہر ایک مقتدی مرد پر مندرجہ بالا تکبیربلند آواز سے پڑھنی واجب ہے اور تین بار پڑھنا افضل ہے۔ ان کو تکبیرات ایامِ تشریق کہتے ہیں۔ یہ تکبیرات سلام پھیرنے کے فوراً بعد کہنی ہیں ۔اگر کوئی شخص اکیلے نماز پڑھے اور یہ تکبیر پڑھے تو اچھا ہے ۔اگر امام کو بھول جائے تو مقتدی تکبیر کہہ کر امام کو یاد کروادیں۔ 

نماز کی نیت اور طریقہ:نیت کی میں نے دورکعت نماز عیدالاضحی واجب ساتھ چھ تکبیروں کے خاص واسطے اﷲ تعالیٰ کے منہ میرا طرف خانہ کعبہ شریف کے پیچھے اس امام کے اﷲ اکبر۔ ہاتھ کانوں تک لے جا کر ناف پر باندھ لیں اور آہستگی سے سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ……الخ پڑھیں۔ جب امام اﷲ اکبر کہے تو مقتدی بھی دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاکر بالکل کھول دے، تینوں تکبیروں پر اسی طرح کریں۔ تیسری تکبیر کے بعد ناف پر ہاتھ باندھ لیں۔ اب امام قرأت کرے گا اور مقتدی خاموش سنیں گے ۔

دوسری رکعت میں برعکس پہلی رکعت کے امام تکبیروں سے پہلے قرأ ت کرے گا۔ جب امام قرات ختم کرچکے تو تکبیر کہے گا۔ مقتدی بھی آہستہ تکبیر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر کھول دے گا۔ اسی طرح تینوں تکبیریں کرے گا۔ چوتھی تکبیر پر رکوع کرے گا اور باقی نمازِ حسب معمول مکمل کرے گا۔ 

خطبہ:جب امام نماز سے فارغ ہوجائے گا تو خطبہ کیلئے منبر پر آجائے گا ۔جس طرح یہ نماز پڑھنی واجب ہے اسی طرح یہ خطبہ بھی سننا واجب ہے۔ جہاں جہاں نمازی بیٹھے ہوئے ہوں وہاں ہی بیٹھے رہیں۔ خطبہ کے دوران میں ایک دوسرے پر پھلانگ کر خطیب کے پاس جانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی خطبہ کو چھوڑ کر جانا ہے۔ 

قربانی کے مسائل:اونٹ، گائے، بھینس، بکری، بھیڑ، دنبہ، پر قربانی ہوسکتی ہے۔ اونٹ پانچ سال کا، گائے دو سا ل کی ہو، بکری ایک سال کی ہو، دنبہ یا بھیڑ جس کی عمر چھ ماہ ہو اگر جسامت میں سال بھر کا معلوم ہو تو اس پر بھی قربانی ہوسکتی ہے۔ اہل حق اہلسنّت و الجماعت کے نزدیک ہر مسلمان مقیم غنی پر جو کہ مالک نصاب ہو قربانی کرنا واجب ہے ۔حضر ت ابن عمرص فرماتے ہیں کہ حضور سید الکونینمدینہ میں دس برس تک قیام فرما رہے اور ہر سال قربانی کرتے تھے ۔ اونٹ ، گائے اور بھینس میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔ خصی جانور کی قربانی افضل ہے۔

قربانی کا جانور سلیم الاعضاء ہونا چاہئے یعنی اگر کانا، اندھا، لنگڑا ،لاغر، بیمار، کان کٹا، ناک کٹا، دم کٹا یا اس کی زبان کٹی ہوئی ہو تو یہ عیب دار جانور ہے۔ اس پر قربانی صحیح نہیں۔ اگر دُم یا کان کا تیسرا حصہ کٹا ہوا ہو تو قربانی جائز ہے۔ اگر کسی جانور کے پیدائشی سینگ نہیں یا سینگ کے خول ٹوٹ گئے ہوں لیکن ایسے سینگوں کے ٹوٹنے کا اثر گودے پر نہ پہنچا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔

قربانی کے ایام:قربانی کے تین دن ہیں ۔دسویں ذی الحجہ کی نماز عید کے بعد سے لے کر گیارہ اور بارہ ذی الحجہ کی غروب آفتاب تک قربانی ہوسکتی ہے۔ پہلے دن قربانی کرنا افضل ہے۔ 

قربانی کرنے کا طریقہ: جانور کو قبلہ مبارک کی طرف منہ کرکے بائیں پہلو پر لٹائیں اور یہ دُعا پڑھیں: 

 اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰواتِ وَالْاَرْض حَنِیْفًا وَّ مَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن--  اَنَّ صَلٰوتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَی وَ مَمَا تِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَا 

شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذَالِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ

اس کے بعد  اَللَّھُمَّ لَکَ وَ مِنْکَ بِسْمِ اﷲِ، اَﷲُ اَکْبَرْ کہتے ہوئے نہایت تیزچھری سے جانور کو ذبح کردے۔جانور کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرے۔ اگر نہ کرسکے تو خود موجود رہے۔ اپنے ہاتھ سے قربانی کرنا افضل ہے جب ذبح کرچکے تو یہ دعا کرے: 

اَللَّھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِ 

السَّلاَمَ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدَؐ رَّسُوْلُ اﷲِ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم 

قربانی کے گوشت کی تقسیم: قربانی کے جانور کو تین حصوں پر تقسیم کرے۔ ایک حصہ غرباء میں خیرات کرنا۔ دوسرا حصہ عزیز و اقارب میں تقسیم کرنا اور تیسرا حصہ اپنے استعمال میں لانا ہے۔ جانورکی کھال یا جانور کا گوشت مزدوری میں ہرگز نہیں دینا بلکہ اہلسنّت و الجماعت کے مدارس میں یا مساجد کے اماموں کو دینی چاہئے۔ فقیر، بیوہ اور یتیم کو بھی دے سکتے ہیں۔ مرُدوں کی طرف سے قربانی کرسکتے ہیں۔ حضور اکرماپنی طرف سے اپنے اہل بیت کی طرف سے اور اپنی امت میں جو غریب قربانی نہیں کرسکتے ان کی طرف سے قربانی فرمایا کرتے تھے۔ 

قربانی کرنے کی فضیلت:جناب زید ابن ارقم صفرماتے ہیں کہ صحابہ نے حضرت رسول کریمسے عرض کیا  یا رسول اﷲ ماھٰذا الاضاحی اے اﷲ تعالیٰ کے (محبوب) پیغمبر () یہ قربانیاں کیا ہیں؟ قال سنۃ ابیکم ابراہیم علیہ السلامآپ نے ارشادفرمایا تمہارے باپ ابراہیم ں کا طریقہ ہے۔ قالوا فما لنا فیھا یا رسول اﷲ صحابہ کرام نے عرض کی کہ اے اﷲ تعالیٰ کے (محبوب) پیغمبر() اس قربانی کے کرنے سے ہم کو کیا ثواب ملے گا؟  قال بکل شعرۃ حسنۃ آپ نے فرمایا ہر بال کے بدلے میں نیکی ہے۔ قالوفالصفوف صحابہ نے عرض کی یا رسول اﷲ اون؟ قال بکل شعرۃ من الصوف حسنۃآپ نے ارشاد فرمایا کہ پشم کے ہر بال کے بدلے میں ایک ایک نیکی ہے۔ (رواہ احمد و ابن ماجہ)

بقر عید کی نماز کے بعد اﷲ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہترعمل قربانی کرنا ہے۔ قربانی کے ہر ایک بال کے عوض ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔قربانی کے خون کا ہر قطرہ کفارۂ سیئات ہے۔ قربانی کے جانوروں کا ہر ایک عضو یہاں تک کہ اس کی کھال ،اس کے کھر اور سینگ سب میزان عمل میں ہوں گے۔ 

 

 

 

 

 

 

Gغوث اعظم کا لقب اور اکابرین دیو بند

 

 

 

 

غوثِ اعظم کا لقب 

اور اکابرین دیوبند 

 

غوثِ اعظم کا لقب 

اور اکابرین دیوبند 

یہ مضمون آج سے بیس برس قبل (۱۹۷۳؁ء) میں تحریر کیا گیا تھا اور یہ صرف اکابرین دیوبند کے حوالہ جات پر مشتمل ہے ۔اس میں کوئی اور بحث نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی امت محمدیہ کے دیگر علمائے کرام یا اولیا ئے عظام کی کتا بوں سے حوالے دیئے گئے ہیں اسلئے کہ جس شخص کی عبارت کا جواب دیا گیا ہے وہ اپنے انہی اکابرین کو سند تسلیم کرتا تھا اور اس نے اپنے رسائل میں بھی انہی پر اعتماد کر کے ان کے حوالے دیئے ہیں۔

ان شاء اﷲ عنقریب اولیاء امت اور علمائے اہل سنت وجماعت کی کتابوں سے مفصل اور تحقیقی مقالہ پیش کیا جائے گا جس میں حضرت غوث ِ اعظم سیّدنا حضرت شیخ عبد القادر جیلانی  ص کے متعلق ہر پہلو سے روشنی ڈالی جائے گی۔

نیز جس شخص کے رد میں یہ مضمون لکھا گیا تھا وہ فوت ہو چکا ہے ،خود تو اس وقت موجود نہیں کہ عبرت حاصل کرے البتہ اس کے پیروکار اور متبعین اس کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنی اصلاح کر سکتے ہیں ۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ انہیں اصلاح کی توفیق عطاء فرمائے۔

وَ مَا تَوْفَیْقِیْ اِﷲ باِ اﷲ۔

 

 

 

نوٹ:۔ یہ مضمون پہلی بار پندرہ روز ’’الحسن‘‘ پشاور شمارہ ۲۲-۲۴ ستمبر اکتوبر ۱۹۹۳؁ء میں شائع ہوا تھا۔

 

بِسْمِ اﷲ ِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمط

اس وقت شمال مغربی سرحدی صوبہ ایک مکمل فرقہ بندی کی آویزش میں مبتلا ہے اور حیرت اس پر ہے کہ دیوبند مکتبہ فکر کے چھوٹے چھوٹے مدارس کے پڑھے ہوئے لوگ غیور پختون قوم کو آپس میں لڑا رہے ہیں،بحث و مناظرے کر رہے ہیں ،ایک دوسرے پر فتوے لگا رہے ہیں ،تقریباََ ہر گاوں اور محلہ میں انکی اس روش کی بدولت عوام الناس دو گروہوں میں بٹ چکے ہیں جس کی وجہ سے خانہ جنگی ،تباہی و بربادی تشتت و افتراق کا بھیا نک منظر دکھائی دے رہا ہے۔ ایک باعزت پختون مسلمان کیلئے فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ آخر ایک ہی اکابرین کو امام و پیشوا ماننے والے ،ایک ہی معتقدات پر یقین رکھنے والے اور اپنے اپنے دلائل میں انہی اکا برین کے اقوال پیش کرنے والے، آپس میں بحث و مناظرہ جھگڑا و فساد اورتفرقہ پیدا کر کے عوام الناس کو تباہی و بربادی، خانہ جنگی اور بے اتفاقی میں کیوں مبتلا کر رہے ہیں؟ 

یہ ایک عجیب سی بات ہے کہ یا تو ان کے اکابرین نے تضاد بیانی کی ہے یا ان کے اقوال کی ہر ایک اپنی منشاء کے مطابق تاویل کرتا ہے ۔چند دن ہوئے کہ تحصیل صوابی ۱؂ضلع مردان کے علماء نے ایک فتویٰ شیخ الحدیث مولوی نصیر الدین صاحب غور غشتوی سے مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں دریافت کیا یہ حضرت شیخ الحدیث صاحب علمائے دیوبند کے بہت اعاظم مفسر اور محدّث مانے جاتے ہیں:

(۱):  پنج پیریوں ۲؂سے قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کا کیا حکم ہے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟

(۲): انبیائے کرام و اولیاے عظام کے ساتھ توسل کا کیا حکم ہے؟

(۳): مزارات پر جانے کا کیا حکم ہے؟

(۴): اسقاط کا کیا حکم ہے؟

۱؂ : جس وقت یہ مضمون تحریر کیا گیا اس وقت صوابی کو ضلع کا درجہ حاصل نہیں تھا بلکہ یہ ضلع مردان کی ایک تحصیل تھی۔ 

۲؂ : پنج پیریوں سے مراد مولوی محمد طاہر اور اس کے پیرو کار مراد ہیں۔ پنج پیر تحصیل صوابی ضلع مردان میں ایک گاؤں ہے، اس گاؤں کی نسبت سے یہ لوگ پنج پیری کہلاتے ہیں ۔

(۵): بہئیت ِاجتماعیہ سنت کے بعد دعا کا کیا حکم ہے؟

ان مسائل کا جواب شیخ الحدیث صاحب غور غشتوی نے یہ دیا:

(۱) پنج پیری قرآن شریف کی تحریف کرتے ہیں جو آیتیں مشرکین کے حق میں اتری ہیں وہ مومنین پر چسپان کرتے ہیں۔ ایسے فاسد عقائد رکھنے والوں کے پیچھے (مسلمانوں کو چاہئے کہ)  اقتداء نہ کریں ،کسی دیندار اور متقی کی اقتداء میں نماز ادا کریں۔

(۲) توسل بالاولیاء و الا نبیاء جائز، روا، اور مشروع ہے ،کتابوں میں توسل بالاعمال و توسل بالذوات ِ فاضلہ آیا ہے۔ میرے والد صاحب بھی دعاء میں بحرمتہ سیّد الابرار و بحرمتہ سیّد المرسلین فرماتے۔ توسل بیت اﷲ شریف، توسل قرآن شریف، توسل اولیاء جیسے غوث الاعظم، کاکا صاحب، پیر بابااور دیگر اولیائے کرام رحمہم اﷲ علیہم اجمعین بھی جائز ہے۔ اﷲ تعالیٰ سے ان کے وسیلہ سے مانگنا جائز ہے۔

(۳)  مزارات پر جانا تو امر مستحب ہے۔ حضورجنت البقیع کو تشریف لے جاتے، میں خود بھی والد، والدہ، اور بیوی کی زیارت کو علیحدہ علیحدہ مقبروں کو جاتا ہوں۔ عورتیں اپنے گاؤں کے مزارات پر اگر فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو جاسکتی ہیں اور اگر مزار دور ہو تو جس طرح حج پر محرم کے ساتھ عورت جاسکتی ہے وہاں بھی جائے گی۔

(۴)  اسقاط تو قضا شدہ نماز اور روزوں کا کفارہ ہے ۔ میں نے اپنی بیوی کی بہت اسقاط دی ہے، اسقاط گاؤں میں، جنازہ گاہ میں بھی دی جا سکتی ہے۔ چونکہ علماء، طلباء، غرباء، جنازہ گاہ میں اکھٹے ہوتے ہیں لہٰذا جنازہ گاہ میں اسقاط دینا بہتر ہے ۔ دَور تو ایک حیلہ ہے، قرآن پاک اسقاط کے دائرہ میں رکھنا بہتر ہے۔ قرآن پاک سے تبرک بھی حاصل ہوتا ہے اور اسقاط بھی اسلئے کہ مصحف مال متقوم ہے۔

(۵) سنتوں کے بعد بہئیت اجتماعی دعا کرنا مستحب اور اولیٰ ہے ۔میں خود، میرے بڑے اکابر اور میرے اساتذہ جمع کے ساتھ دعا کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ سنتوں کے بعد دعا اسی طرح ہے کہ جیسے فرضوں کے بعد دعا کرنا۔ اسلئے کہ سنت مکمل اور تابع اور متمم فر ضوں کی ہوتی ہے۔ فرضوں سے سنتیں الگ نہیں ہیں بلکہ فرضوں اور سنتوں کے درمیان زیادہ دیر نہیں ٹھہرے گا بلکہ فرضوں سے جلدی اٹھ کر سنتیں ادا کریگا۔ صاحب ’’السیف المبیر علیٰ اتباع ملا فنجفیر‘‘ صفحہ ۱۸ تا ۴۸ پر لکھتے ہیں کہ شیخ الحدیث جناب غور غشتوی صاحب نے فرمایا :

’’اس شخص نے یعنی محمد طاہر پنج پیری نے میرے درس میں تین سال تک پڑھا ہے ۔پہلے سال چھوٹا دورہ (جلالین، مشکوٰۃ وغیرہ) کیا ،دوسرے برس بڑا دورہ (صحاحِ ستہ ) کیا اور تیسرا برس یونہی گزارا اور فرمایا یہ لوگ(پنج پیر اور اس کے پیرو) مسلمانوں میں تفریق ڈالتے ہیں، اور ان کی اس تفرقہ اندازی سے اسلام کمزور ہوتا ہے لہٰذا ۔ان لوگوں کی مدد مت کرو، ان لوگوں کے ساتھ تعلق نہ رکھو بلکہ ملا پنج پیر اور اس کے شاگرد وں سے قرآن شریف کا ترجمہ مت کرو اسلئے کہ یہ مخلوق کے عقائد بگاڑتا ہے بلکہ یہ کہا کہ اس کے پیچھے اقتداء کرنا بہتر نہیں ہے‘‘۔ 

شیخ الحدیث غور غشتوی نے صاحبزادہ عبدالرحیم صاحب طوروی حال یار حسین ضلع مردان کے استفتاء پر جواباً کہا کہ 

’’ان سے ترجمہ مت کرو ، ان سے درس و تدریس مت کرو، اسلئے کہ یہ قرآن میں تحریف کرتے ہیں اور لوگوں کو مشرک کہتے ہیں بلکہ (خصوصاً) اہلسنّت والجماعت کو بھی مشرک کہتے ہیں ‘‘۔ 

مگر کیا ہی عجیب بات ہے کہ شیخ الحدیث صاحب کے اس فتویٰ کے خلاف پشاور شہر کے جمعیت العلماء اسلام کی لاہوری علاقہ کی شاخ نے مولوی جمیل احمد تھانوی اور مولوی احتشام الحق تھانوی کا فتویٰ بمعہ حوالہ جات مولوی رشید احمد گنگوہی بعنوان ’’علماء حق کا فتویٰ ‘‘ چھاپ دیا۔ حالانکہ شیخ الحدیث غورغشتوی اس وقت اکابرین دیوبند سے گنے جاتے ہیں ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امیر جمعیت العلمائے سرحد سید گل بادشاہ صاحب طوروی کی صدارت میں مسجد قاسم علی خان پشاور میں جمعیت کی میٹنگ ہوئی اور اس اشتہار سے جمعیت کی طرف سے لا تعلقی کا اظہار کیا گیا۔ مگر عقائد کے متعلق جو اس اشتہار میں لکھا گیا تھا اس کے بارے میں ایک حرف تک نہیں کہا گیا۔محمد طاہر پنج پیری نے اپنے عقائد کی تشہیر و اشاعت کیلئے ایک انجمن بنام ’’انجمن اشاعت التوحید والسنت‘‘ بنائی ہے جس کا صدر مقام موضع پنج پیر، تحصیل صوابی ضلع مردان ہے۔ اس کی جتنی کتابیں، پمفلٹ یا اشتہار اردو، پشتو میں چھپتے ہیں وہ اسی انجمن کے زیر اہتمام اشاعت پذیر ہوتے ہیں ۔ ابھی ابھی پشاور سے بھی ایک پوسٹر بنام ’’دینی مسائل‘‘ انجمن اشاعت التوحید و سنت پشاور نے شائع کیا ہے جس پر مولوی فضل الرحمن صاحب فاضل دیوبند،حال خطیب مسجد اہل حدیث چوک شادی پیر پشاور، مولوی فضل حق خطیب مسجد ہشتنگری گیٹ، مولوی پائندہ محمد شیخ الحدیث دارالعلوم سرحد اور مولوی رحمت ہادی خطیب گلبہار کالونی وغیرہ وغیرہ کے نام ہیں ۔ انہوں نے بھی ملائے پنج پیر کے عقائد کی توثیق و حمایت کی ہے۔ محمد طاہر المعروف ملا پنج پیر عقائد و اعمال میں دعویٰ کرتا ہے کہ وہ مولوی حسین علی ساکن واں بچھرا ں ضلع میانوالی پنجاب کا معتقد اور متبع ہے۔ چنانچہ وہ ’’الانتصار لسنتہ سید الابرار‘‘ کے صفحہ۶ پر مولوی نصیر الدین غور غشتوی کے نام ایک خط میں لکھتا ہے:

"اور ہم حضرت مرشدنا مولانا حسین علی قدس سرہ کے تابع ہیں‘‘۔  نیز اسی کتاب اور اسی صفحہ پر چند سطریں آگے چل کر لکھتا ہے ’’کہ میرے حق میں ارشاد فرمایا تھا (یعنی مولوی حسین علی نے) کہ پٹھانوں میں ان سے نیا بت درس قرآن کریم کروں‘‘۔

مولوی حسین علی علماءِ دیوبند کے اکابرین سے تھا اور مولوی رشید احمد گنگوہی کا شاگرد تھا۔ مقدمہ نصب الرایہ بعنوان ملحقۃ بالتکملہ و التذیل صفحہ ۵۱ عدد ۲۶ پر لکھا ’’من تلامذۃ المحدث الشیخ الکنکوھی‘‘ ادھر تو محمد طاہر نے دیوبند ی اعمال و اعتقاد کا دعویٰ کیا اور ادھر اپنی جماعت کے اغراض و مقاصد پر ایک پمفلٹ پشتو میں بنام منشور شائع کیا ۔ چونکہ علمائے احناف نے کسی قسم کی مصیبتوں کی پرواہ کئے بغیر اس کے عقائد و اعمال کو طشت ازبام کیا اور خوب رد کیا تو اس نے اپنے اس رسالہ ’’منشور‘‘ میں ایک نیا روپ دھارا اور صاف طور پر لکھ دیا۔ پشتو متن کچھ اس طرح ہے : 

’’پہ ھر ملک اور ھرہ زمانہ کیی د توحید او د سنت داعیان پہ دے الزامونو او پہ رنگ رنگ تھمتونو باندی بدعتیانو او مشرکانو ملایانو متھم کڑی دی۔ خصوصًا پہ پختنوکیی عام حق پرست پہ سختو تکلیفونو مبتلاء شوی دی لکہ با یزید بن عبد اﷲ الانصاری المولو د  ۹۳۲ ؁ ھ مصنف (صراط التوحید او د خیر البیان )چہ دے داعی د توحید او د سنت ووکتابونہ ئے پہ دے گواہ دی ۔ د زمانے د باطل پرستو ملایانو د لاسہ قتل شواو مال ئے تالا کڑے شو‘‘۔

  (رسالہ منشور صفحہ ۷ تا ۸ بحوالہ السیف المبیر علی ٰ اتباع ملا فنجفیر صفحہ ۴۳)

ترجمہ :ہر زمانہ اور ملک میں توحید اور سنت کی طرف بلانے والوں کو بدعتیوں اور مشرک ملاوؤں نے قسما قسم تہمتوں سے متہم کیا، خصوصاََ پختون علاقہ میں پٹھانوں میں تو حق پرست بہت ہی سخت مصیبتوں میں مبتلاء ہوئے جیسے با یزید بن عبد اﷲ الانصاری المولود ۹۳۲؁ ء المتوفی ۹۹۲؁ء  (الملقب پیر روشن المعروف پیر تاریکی) جس نے صراط التوحید اور خیر البیان نامی کتابیں لکھیں۔ یہ توحید و سنت کا داعی تھا ،اس کی کتابیں اس پر گواہ ہیں ،اس وقت کے باطل پرست ملاوؤں کے ہاتھوں قتل ہوا اور اس کا سامان لوٹ لیا گیا۔

گویا وہ تحریک جو کہ حضرت پیر بابا صاحبکی قیادت میں تحریک تاریکیت کے خلاف شروع ہوئی اس تاریکی ٔثانی ملاّ پنج وپیر کے نزدیک بدعتی اور مشرک ملاوؤں کی تحریک تھی اور حضرت پیر بابا صاحباور انکے پیرو باطل پرست علماء تھے ۔وہ حضرات جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ یادِ الٰہی ، اتباعِ سنت نبویامر بالمعروف و نہی عن المنکر پر عمل کرتے ہوئے گزارا، کلمہ حق کو غالب کرنے کیلئے جنہوں نے اپنی زندگی گزاری اور ہر قسم کی تکالیف و مصیبت کو استقامت اور صبر کے ساتھ برداشت کیا اور ہر ملحد اور گمراہ کے مقابلہ میں اﷲ تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ کرکے سینہ سپر ہوگئے۔ استغفراﷲ معاذاﷲ وہ بقول اس تاریکی ٔثانی کے بد عتی مشرک اور باطل پرست تھے ۔اس وقت آج سے چار سو برس پیشتر کی تاریخ دُہرانا مقصود نہیں وہ ان شاء اﷲ کسی دوسرے موقعہ پر بالتفصیل لکھوں گا ، یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ محمد طاہر پنج پیری ایک طرف تو دیوبندی بنتا ہے اور دوسری طرف پیر تاریک کے دامن میں پناہ لیتا ہے۔

اصل مقصود:اس مختصر سی تمہید کے بعد قارئین کی توجہ اصل مسئلہ کی طرف مبذول کراتا ہوں، محمد طاہر پنج پیری نے مولوی نصیر الدین صاحب غورغشتوی کے مندرجہ بالا فتویٰ کے ردّ میں ایک رسالہ بنام ’’الانتصار لسنتہ سید الابرار‘‘ شائع کیا۔ اس کا جواب تو اسی کے پیر بھائی یا اس کے متبعین کے ذمہ ہے مگر اس میں ملائے پنج پیر نے ایک شرک کا فتویٰ صادر کیا ہے جس سے امت محمدیہکی اکثریت محفوظ نہیں رہ سکتی، لاکھوں اور کروڑوں مسلمانوں کو بیک جنبش قلم اپنے رہبر پیر تاریک کے نقش قدم پر چل کر مشرک لکھ دیا ہے۔

محمد طاہر پنج پیری ’’الانتصار لسنتہ سید الابرار ‘‘ کے صفحہ ۵۲ پر لکھتا ہے:

’’منتھی الارب فی لغات العرب میں لکھا ہے غوث بالفتح فریاد اسم است فریاد درس (ہے)‘‘ 

پھر لکھا ہے کہ

 ’’غیاث بالکسر فریاد رسی و فریاد خواہی از اغاثہ فریاد رسیدن، استغاثہ فریاد خواستنی، انتھی بقدر الحاجۃ صفحہ ۳۴۴ )تو کیا یہ صفت بغیر اﷲ تعالیٰ کے اوروں کیلئے شرک صریح نہیں؟ جب غیراﷲ کو فریا درس اور فریادرسِ اعظم (غوث الاعظم ) کہا گیا تو اس سے زیادہ شرک بواح اور کیا ہوگا‘‘۔

یہ عبارت ملا ئے پنج پیر نے اپنے استاذ بھائی شیخ الحدیث غورغشتوی کی مندرجہ ذیل عبارت پر لکھی اور شرک کا فتویٰ لگایا:

’’توسل اولیاء جیسے غوث الاعظم، کاکا صاحب، پیر بابا اور دیگر اولیاء کرام (رحمہم اﷲ علیہم اجمعین) بھی جائز ہے ،اﷲ تعالیٰ سے ان کے وسیلہ سے مانگنا جائز ہے‘‘  

الجھا ہے پاؤں یار کا زلف ِ دراز میں

=لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

1یث دیگراں

~مجھے امید ہے کہ یہ حوالہ دیکھنے کے بعد ملائے پنج پیر یا تو اپنے فتویٰ سے توبہ کریگا اور ملت اسلامیہ افاغنہ پاکستان میں تفرقہ، تشتت اور فساد پیدا نہیں کرے گا اور اس مذہبی لڑائی کو جو اس نے شروع کی ہے ختم کر دے گا یا پھر ان صاحبان پر بھی مشرک کا فتویٰ چسپان کرکے لوگوں کو اور زیادہ تباہی اور بربادی کے گڑھے میں گرائے گا۔

شاہ ولی اﷲ صاحب دہلوی:دیوبند اور بریلوی ہر دو مکاتب فکر حضرات کے امام، مقتداء، پیشوا، محدث و مفسر جناب شاہ ولی اﷲ صاحب دہلوی نے اپنی کتاب ’’انفاس العارفین‘‘ میں مختلف مقامات پر تقریباً بارہ جگہ یعنی صفحہ ۲۴، ۲۵، ۳۸، ۴۲، ۴۳، ۵۴، ۵۹، ۷۵، ۸۷، (تین جگہ) اور ۱۶۹ پر حضرت غوث الاعظم تحریر کیا ہے۔ یہ انتہائی توجہ اور فکر کی بات ہے کہ صفحہ ۸۷ پر  بعنوان ’’در احوال جناب معارف مآب امام الطریقہ والحقیقتہ، کاشف الحقائق، ملال الدقائق مخدومنا و مولانا شیخ ابو الرضا محمد ص (بہ جناب ابو الرضا صاحب حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب دہلوی کے چچا بزرگوار ہیں) کے ذیل میں تو فرماتے ہیں :

’’می فرمودند یک بار حضرت غوث الاعظم را در یقظہ دیدم ‘‘یعنی حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب فرماتے ہیں کہ میرے چچا نے فرمایا کہ حضرت غوث الاعظم کو میں نے بیداری میں دیکھا‘‘۔

ٍپیروِ پیر تاریکی کو چاہئے کہ حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب اور انکے عمِ بزرگوار پر شرک کا فتویٰ چسپان کرے۔ کیا اس کے اندر اتنا دل گردہ ہے کہ علمائے دیوبند کے پیشوائے اعظم اور امام اعظم پر مشرک ہونے کا اعلان کرے یا کہہ دے کہ ’’انفاس العارفین‘‘ حضرت شاہ ولی اﷲ صا حب کی کتا ب ہی نہیں اور اس قسم کے مولویوں کا قاعدہ ہے کہ اپنے اکابرین کی کتابوں کا انکار بھی کرتے ہیں۔ اسی کتا ب کے صفحہ نمبر ۱۶۸اور ۱۶۹ والی عبارت کو ذرا غور سے مطالعہ فرماویں۔ حضرت شا ہ ولی اﷲ صاحب تحریر فرماتے ہیں 

’’ایں فقیر در مجموعہ شیخ یحییٰ جنیدی نظر کرد، و بخط شیخ عبد العزیز سلسلہ قادریہ مرقوم بود تبرکاً نسخہ آں را  بعینہٖ نقل می کند‘‘۔ 

اس شجرہ میں حضور سرکار بغداد ابد قرار صکا اسم گرامی اس طرح نقل فرماتے ہیں:

’’و ھو من ابیہ القطب الربانی و الغوث الصمدانی محی الملۃ والدین ابی محمد عبد القادر الحسنی الحُسینی الجیلانی‘‘

حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب دہلوی نقل فرماتے ہیں شجرہ قادریہ شریف اور وہ بھی تبرکاََ آپ کے بزرگ حضور غوث اعظم صکو الغوث الصمدانی لکھیں اور جناب شاہ صاحب دہلوی نقل فرمادیں تو بقول پیروِ پیر تاریک محمد طاہر پنج پیری شرک بواح ہے یا نہ ؟ اور کیا فر یا درس کی نسبت بغیر اﷲ تعالیٰ کے حضور سرکار بغداد کو حضرت شاہ ولی اﷲ دہلوی اور ان کے بزرگوں نے کی ہے یا نہیں؟

شاہ عبد العزیز صاحب دہلوی:  حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب کے فرزند رشید ، عالم جلیل ومفسر عظیم حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی ، جن کے متعلق مشہور اہل حدیث مورّخ امام ابو یحییٰ نو شہروی اپنی کتاب ’’تراجم علماء حدیث ہند‘‘کے صفحہ نمبر ۵۰ پر لکھتا ہے ’’یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان کے جملہ سلاسل محدثین کا منتہا شاہ عبد العزیز بن شاہ ولی اﷲ ہے ۔ بیرون ملک میں بھی اگر کسی اہم فتویٰ پر آپ کی مہر ثبت ہے تو پھر اس میں قیل و قال کی کوئی گنجائش نہیں‘‘۔ یہی صاحب اپنی کتاب کے صفحہ ۷۰ پر تحریر کرتا ہے ’’حضرت شاہ عبد العزیز کے درس و تدریس کی بادشاہت ثمر قند و بخارا اور مصر و شام تک پھیلی ہوئی تھی‘‘۔ 

یہی شاہ عبد العزیز صاحب دہلوی اپنی تفاسیر کے مختلف اجزاء میں کئی بار سرکار بغداد ابد قرار صکو غوث الثقلین کے بابرکت نام سے یاد کرتے ہیں۔ تفسیر عزیزی کے صفحہ ۲۲۹پر بعنوانِ ’’بیان دوازدہ نشیمن بمتعلق بشرح صدر آن حضرت است‘‘ لکھتے ہیں 

’’محبوب ناز نینے ماہِ جینے بلکہ کعبہ مثالی کہ تجلی جمالِ الٰہی بدن او را آشیانہ خود ساختہ و طور تمثال کہ انوار حسن ازلی بر آں تافتہ شانِ محبوبیت الٰہی در و جلوہ گر شدہ صید دل ھا بجاذبہ محبت میکند ، و ہزارانِ ہزار عاشق حسن ازلی دیوادار بے توقع منفعت و استفسادہ کمانے از دور دست بجاذبۂ کمند اور ویدہ می آیند، وبر آستانہ اوسجدات می کند ، و مشتاق لمعہ از جمال او یند و این مرتبہ ازاں مراتب کہ ہیچ کس را از بشر ندادہ انداز مگر بطفیل این محبوب مقبول برخی از اولیاء است، اور اشمعہ از محبوبیت آں نصیب شدہ، و مسجود خلائق و محبوب دلہا گشتہ اند، مثل حضرت غوث الاعظم و سلطان المشائخ نظام الدین اولیاء قدس اﷲ تعالیٰ سرّھما‘‘۔

حضرت امام شاہ عبد العزیز بن حضرت امام شاہ ولی اﷲ دہلوی رحمہم اﷲ علیہما جن کا فتویٰ برصغیر پاک و ہند تسلیم کرتے ہیں اور دوسرے اسلامی ممالک بھی بغیر کسی قسم کے تردد کے آپ کا فتویٰ قبول کرتے ہیں میرے سرکار بغداد و غوث اعظم صکو حضرت غوث الاعظم (فریا درس اعظم یہ ترجمہ ملا پنج پیر کا ہے) تسلیم کرتے ہیں اور مقامِ محبوبیت سے متصف فرماتے ہیں کیا وہ ہستی جس کے علم کی بادشاہت ثمر قند ، بخارا اور شام تک پھیلی ہوئی ہو وہ نہیں جانتے کہ میں شرکیہ کلمات لکھ رہاہوں، کیا پیروِپیر تاریکی محمد طاہر پنج پیری حضرت امام شاہ عبد العزیزصاحب دہلوی پر شرک کا فتویٰ صادر کریں گے یا آپ کی اس تحریر بے نظیر کو قبول کر کے راہ راست اختیار کریں گے۔ حضرت شاہ عبد العزیز صاحب دہلوی نے تو بہت مقامات پر ان مبارک اسماء کو تحریر کیا ہے مگر صرف یہی ایک مقام اتماماً للحجت کافی ہے۔ 

اگر در خانہ کس است حرفے بس است

جناب مولوی خرم علی صاحب: حضرت امام شاہ ولی اﷲ صاحب دہلوی نے ایک کتاب بنام ’’القول الجمیل‘‘ لکھی ہے ۔اس کا ترجمہ جناب مولوی خرم علی صاحب نے بنام ’’شفاء العلیل‘‘ کیا ہے۔ یہ مولانا خرم علی صاحب بقول’’تراجم علمائے حدیث ہند‘‘ صفحہ ۵۹ حضرت مولانا شاہ عبد العزیز صاحب کے شاگرد تھے ۔ ’’شفاء العلیل‘‘ کے صفحہ ۳۴ پر چوتھی فصل میں ’’فی اشفال المشائخ الجیلانی‘‘ کے ضمن میں ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’مصنف نے (شاہ ولی اﷲ صاحب)  انتباہ میں فرمایا کہ کتاب غنیتہ الطالبین اور فتوح الغیب حضرت محی الدین غوث الاعظم کی تصنیف ہے‘‘۔ 

قارئین خدا را انصاف فرمائیں کہ اگر ’’غوث الاعظم‘‘ کہنا شرکِ صریح ہوتا تو خاندانِ ولی اﷲ کا یہ شاگرد ررشید کیوں غوث الاعظم کی صفت مخلوق کی طرف کرتا۔ کیا یہ عالم و فاضل اور تعلیمات شاہ ولی اﷲ اور شاہ عبد العزیز رحمہم اﷲ تعالیٰ علیہما کی اشاعت کرنے والا اور داعی شرک اور توحید میں تمیز نہیں کر سکتا ۔ کیا بقول محمد طاہر تاریکی ثانی پنج پیری مولانا مولوی خرم علی بلہوری بھی تو مشرک نہیں؟

جناب شاہ رفیع الدین صاحب دہلوی:علمائے دیوبند کے امام و پیشوا حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب دہلوی کے صاحبزادے جناب شاہ رفیع الدین صاحب دہلوی جن کے متعلق برصغیر پاک و ہند کا بچہ بچہ گواہ ہے کہ قرآن مجید کو اردو میں آپ نے سب سے پہلے ترجمہ کیا  اور بقول مورّخ اہل حدیث امام ابویحییٰ نوشہروی ’’تراجم علمائے حدیث ہند ‘‘صفحہ ۶۵ ’’تمام کتابیں اپنے والد بزرگوار سے پڑھیں‘‘اور شاہ عبد العزیز صاحب کے جانشین ہو کر مسند علم پر رونق افروز ہوئے۔ ابو یحییٰ لکھتا ہے :’’ شاہ عبد العزیز صاحب کے مکفوف البصر و ضعیف ہو جانے پر ممدوح نے اپنی مسند تدریس آپکو تفویض فرمائی‘‘۔ آپ کے پڑھانے کے متعلق لکھتا ہے :’’متبحر کا یہ عالم تھا کہ ایک شروع ہوا تو طلباء نے سمجھا کہ اس میں حضرت کو زیادہ تو غل ہے مگر اسکے بعد دوسرا مضمون آیا تو سامع نے اسی میں زیادہ درک پایا‘‘۔

آپ کے ترجمہ کے متعلق لکھا:

’’قرآن کریم کا اردو ترجمہ اس خوبی سے لکھا کہ اس طور پر دوسرا ترجمہ لکھنے کی جرات انکے بعد کسی کو نہیں ہوئی‘‘۔ 

وہ صاحب جو کہ دنیائے اسلام میں پہلا مترجم قرآن ہو، حضرت امام شاہ ولی اﷲ کا شاگر دِ رشید ہو، حضرت امام شا ہ عبد العزیز صاحب دہلوی کا جانشین ہو اور عالم متبحر ایسا ہو کہ ہر فن کا بحر ذخار ہو، وہ چہل کاف شریف کی شرح لکھے اور اسی شرح کے ابتداء ہی میں مندرجہ ذیل خطبہ تحریر کریں: 

’’الحمد ﷲ ربّ العٰلمین والصّلٰوۃ والسلام علٰی سید المرسلین و علٰی اٰلہ و صحبہ اجمعین اما بعد فیقول العبد المسکین محمد رفیع الدّین الحقہ اﷲ بسلفہِ الصّالحین ھذا شرح مختصر للابیات القافیۃ الکافیۃ المنسوبۃ الٰی شیخ الثقلین نور اہل کونین صفوۃ الاصفیآء و سلطان الاولیآء امامنا سیدنا الغوث الاعظم الشیخ ابی محمد محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اﷲ عنہُ‘‘۔ 

یہ شرح دار لعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک تحصیل نوشہرہ کے مدرس جناب قاضی محمد حبیب الر حمن صاحب فاضل دیوبندنے منظور عام برقی پریس پشاور سے چھپوائی ہے ۔ علمائے دیوبند جن کو سید المفسرین، سید المحدثین، زبدۃ التحقیق، قدوۃ السالکین لکھیں تو وہ مولوی پنج پیری کے نزدیک جبکہ انہوں نے ’’الغوث الاعظم‘‘کی صفت مخلوق کی طرف کی ہے، اپنے اسلام و توحید میں کہا ں تک سچے ہیں؟

جناب محمد اسمٰعیل صاحب دہلوی:جناب شاہ عبدالغنی بن شاہ ولی اﷲ صاحب دہلوی کے فرزند جناب محمد اسمٰعیل صاحب دہلوی کو یہی پیروِ پیر تاریکی اپنے کتابچہ بنام ’’الانتصار لسنتہ سید الابرار ‘‘میں صفحہ ۱۴ پر’’امام محمد اسماعیل شہید‘‘ صفحہ ۱۶ پر’’امام المجاہد حضرت شہید‘‘ نیز صفحہ ۲۰ پر ’’حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمہ اﷲ‘‘ کے القابات سے نوازتا ہے۔ یہی صاحب ’’صراط مستقیم‘‘ صفحہ ۲۴۴ (مطبوعہ مطبع ضیائی واقع میرٹھ) پر لکھتے ہیں:’’ونیاز حضرت غوث الاعظم باولاد و امجاد ایشان حوالہ می نمایند‘‘ اور اسی کتاب کے صفحہ نمبر ۱۴۳ پر تحریر کرتے ہیں ’’طالبانِ نافہم چون بمقام معرفت ذات می رسند وسلوک متعارف را باختتام می رسانند، می دانند کہ مانیزہم پایہ وہم مقام اولیائے عظام مثل حضرت غوث الا عظم ، و حضرت خواجہ بزرگ نائب رسول اﷲ خواجہ معین الدین چشتی، حضرت قطب الاقطاب خواجہ قطب الدین بختیار کاکی و پیشوا ئے طریقت و حقیقت حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبندی و حضرت امام ربانی قیوم زمانی حضرت شیخ احمد مجدد الف ثانی وغیر ھم قدس اﷲ تعالیٰ اسرارھم اجمعین شدیم‘‘۔ یعنی بے سمجھ طالب حسب معرفت ذات کے مقام پر پہنچتے ہیں اور سلوک متعارف کو ختم کر لیتے ہیں تو یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ ہم بھی حضرت غوث الاعظم اور حضرت خواجہ بزرگ نائب رسول اﷲ حضرت معین الدین چشتی اور حضرت قطب الاقطاب خواجہ قطب الدین بختیار کاکی پیشوائے شریعت و طریقت حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند ی اور حضرت امام ربانی قیوم زمانی شیخ احمد مجدد الف ثانی وغیر ھم قدس اﷲ اسرارھم اجمعین سے بڑے بڑے اولیاء اﷲ کے ہم پایہ اور ہم مقام ہو گئے ہیں ۔ نیز اسی کتاب کے صفحہ ۱۷۷ میں ’’القصہ حضرت ایشان را (سید احمد بریلوی)  نسبت طرق ثلاثہ یعنی قادریہ و چشتیہ نقشبندیہ قبل از مبادی حاصل شدہ اما نسبت قادریہ و نقشبندیہ بیانش آنکہ بسبب برکت و بیعت ویمن توجہات آنجناب ہدایت مآب روح مقدس جناب حضرت غوث الثقلین و جناب حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبندی متوجہ حال حضرت ایشاں گردیدہ و تاقریب یک ماہ فی لجملہ تنازعے در مابین روحین مقدسین درحق حضرت ایشان ماندہ ‘‘۔ یعنی القصہ حضرت سید صاحب کو تینوں طریقوں یعنی قادریہ و چشتیہ و نقشبندیہ کی نسبت مبادی سے پہلے حاصل ہوگئی لیکن نسبت قادریہ اور نقشبندیہ کا بیان تو اس طرح ہے کہ حضرت مولانا شاہ عبد العزیز قدس سرہ کی بیعت کی برکت اور آنجناب ہدایت مآب کی توجہات کے یُمن سے حضرت غوث الثقلین اور جناب حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبندی کی روحِ مقدس توجہ حال ہوئیں۔  

قارئین کرام! جناب محمد اسمٰعیل صاحب دہلوی کی یہ تین عبارتیں ملا حظہ فرماویں اور محمد طاہر پنج پیری کی وہ عبارت بھی جو کہ ’’الانتصار لسنۃ سید الابرار‘‘ کے صفحہ ۵۲ پر ہے ۔پھر نقل کرتا ہوں تا کہ پڑھنے والوں کے ذہن محفوظ رہے:’’ منتہی الارب فی لغات ِ العرب میں لکھا ہے ، غوث بالفتح اسم است، و فریادرس ‘‘پھر لکھا ہے ’’غیاث بالکسر فر یاد رسی و فریاد خواہی اغاثہ فریاد رسیدن، و استغاثہ فریاد خواستن انتہی بقدر الحاجہ صفحہ ۳۷۴ جلد ۳ تو کیا یہ صفت بغیر اﷲ کے اوروں کیلئے شرک صریح نہیں؟ جب غیر اﷲ کو فریاد رس اور فریادرس اعظم (غوث الاعظم ) کہا گیا تو اس سے زیادہ شرک بواح اور کیا ہوگا‘‘۔کیا بقول محمد طاہر پنج پیری جو صاحب ’’الامام‘‘ ہو جو صاحب ’’المجاہد‘‘  ہوجو ’’حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمت اﷲ علیہ‘‘ہو ، وہ اپنی صرف اس ایک کتاب میں جبکہ عجلت میں اسے ایک سرسری نظر میں دیکھا گیا تو دہ جگہ ’’حضرت غوث الاعظم ‘‘اور ایک جگہ دو گروہوں کا (یعنی جن و انس کا )  فریادرس تسلیم کر رہا ہے تو کیا یہ ’’شرک صریح ‘‘ اور ’’شرک بواح‘‘ نہیں ہے؟ ملائے پنج پیر نے اپنے امام اپنے مجاہد اور اپنے حضرت صاحب کا بھی ادب و لحاظ نہیں کیا؟ اور نہ ہی سوچا کہ کن کن لوگوں کو میں اس توہین اور تنقیص سے بھری ہوئی عبارت کا نشانہ بنا رہا ہوں ۔ 

درحقیقت اس اکیلے کا ہی یہ وطیرہ نہیں بلکہ عام طور پر اس مکتبہ فکر کے مولویوں کی یہی روش ہے کہ خندہ خندہ باریش باباہم خندہ، کاش پیروِ تاریکی کو اتنی سمجھ ہوتی کہ شیشہ کے محل میں بیٹھ کر دوسروں کو پتھر مارنا آسان کام نہیں۔ کیا محمد طاہر پنج پیری سمجھے گا کہ بقول انہی کے مولویوں کے جن حضرات نے تمام عمر شرک و بدعات کے خلاف تحریراََ، عملاً و قولاً جہادِ عظیم کیا وہ اس نسبت کو نہیں سمجھ سکتے کہ ’’فریاد رسِ اعظم ‘’اور جنّ و انس کے فریاد رس کی نسبت حضور سرکار ِ بغداد غوث الافخم صکی طرف کر رہا ہوں اور شرک ظاہر کا مرتکب ہو رہا ہوں۔

عبریں عقل و دانش بباید گریست

شمس الاسلام مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی: دار العلوم دیوبند کے بانی، استاذ الاساتذہ جن کو علمائے دیوبند نے شمس الاسلام اور قاسم العلوم و الخیرات کے نام سے یاد کیا ہے۔ انہوں نے اپنے سلسلہ بیعت کو نظم کیا ہے جو کہ مولانا محمد طفیل صاحب فاروقی فریدی نے باہتمام دارالتصنیف فرئیر روڈ کراچی نمبر ۳ سے شائع کیا ہے۔ عنوان ہے ’’شجرۂ منظومہ فارسیہ چشتیہ صابریہ حضرت شمس الاسلام مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی، اس شجرہ میں حاجی امداد اﷲ صاحب مہاجر مکی کے مرشد جناب نور محمد صاحب اور اس کے مرشد جناب شاہ عبد الرحیم صاحب (رحمہم اﷲ علیہم اجمعین) کو غوث الدارین کے نام سے نظم کیا ہے ۔صفحہ نمبر ۱۷ سطر ۷ پر ہے۔

 بآن شاہ شہیداں حاج حرمین

3شہ عبد الرحیم غوث الدارین

جناب مولوی قاسم صاحب نانوتوی اپنے پیر کے دادا مرشد کو صرف فریاد رس ہی نہیں لکھ رہے بلکہ دنیا و عقبیٰ یہ جہان اور آنے والے جہان کے فریادرس لکھ رہے ہیں۔ چاہئے کہ محمد طاہر اور اس کے پیر و کراچی سے اس شجرہ مبارک کو منگوا کر ہر نماز کے بعد ورد کریں تاکہ ان اسماء کی برکت سے ان کو صفائی قلب ہو اور صحیح عقیدہ نصیب ہو جائے جو آپ کے بزرگوں کا تھا یا پھر قاسم الخیرات والعلوم، شمس الاسلام مولانا نانوتوی پر بھی قلم کاری شروع کر دیں جس طرح اپنے استاذ مکرم شیخ الحدیث غور غشتوی پر کی ہے جن لوگوں کے علم کی بھیک مانگ کر اور خیرات کھا کر پیروِپیر تاریکی دیوبند ی بننے کا دعویٰ کرتا ہے انہی پر مشرک و بدعتی ہونے کا الزام لگاتا ہے، یہ بات اسی کو زیبا ہے۔

مولوی رشید احمد گنگوہی اور مولوی خلیل احمد انبیٹھوی: مولوی خلیل احمد صاحب انبیٹھوی نے ایک کتاب بنام ’’ظلام الانوار الساطعہ ‘‘لکھی۔ (یہ کتاب جمال پریس دہلی سے چھپی ہے) اور بقول مولوی خلیل احمد کے جناب مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کے حکم سے لکھی۔ نیز اسی کتاب کو ’’الدلائل الواضحہ علٰی کراھتہ المتروج من المولود و الفاتحہ‘‘سے ملقب بھی گنگوہی صاحب نے کیا اور یہ گنگوہی صاحب مولوی حسین علی  کے استاذ ہیں جو کہ اس پنج پیری ملا کا استاد ہے ۔ اس کتاب کے صفحہ ۹۱ پر تحریر کرتے ہیں :’’پس اسی طرح حضرت غوث الاعظم اور خواجہ بہاؤ الدین کونیز یہ بات انتہائی قابل توجہ ہے کہ حضرت گنگوہی صاحب نے اس کتاب کو اول سے آخر تک پڑھا وہ خود صفحہ نمبر ۲۷۰ پر ایک تقریظ لکھتے ہیں ، اس میں تحریر کرتے ہیں ، اما بعد اس احقر الناس خادم الطلبہ بندہ رشید احمد گنگوہی عفی عنہ نے اس کتاب مستطاب براہین قاطعہ اول سے لیکر آخر تک بغور دیکھا ‘‘۔ معلوم نہیں کتنی جگہ تصحیح کی ہو گی، کیا وہ اس بات پر قادر نہ تھے کہ اس شرک بواح کو کتاب سے نکال دیتے بلکہ وہ تو مصنف کو دعاؤں سے نوازتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ وہ کتاب جو کہ بقو ل ان کے مروجہ فاتحہ ، مولود شریف اور دیگر مسائل بدعات کے ردّ میں لکھی گئی ،اسی کتاب میں ایسا شرکیہ کلمہ موجود ہے جس کو ملائے پنج پیر صریح شرک لکھتا ہے، کیا خوب !مولانا گنگوہی وہی صاحب ہیں جن کو یہی ملا اپنی کتاب الانتصار کے صفحہ نمبر ۷ پر ’’شیخ المشائخ مولانا رشید احمد گنگوہی‘‘ لکھتا ہے۔ سبحان اﷲ، حضرت شیخ المشائخ اور پھر تصدیق کرتے ہیں کہ’’غوث الاعظم ‘‘کہنا اور لکھنا درست ہے صحیح ہے یا پھر پیروِ پیر تاریکی اپنے دادا استاذ پر فتویٰ تیا ر کریں ۔

مولوی اشرف علی تھانوی اور مولانا ذوالفقار علی :علماء دیوبند کے ’’حکیم الامت، مجدد الملت، جامع الشریعت و طریقت حضرت مولانا شاہ محمد اشرف علی صاحب تھانوی کے ارشادات و افادات کو بنام ’’شریعت و طریقت‘‘مولوی محمد دین حنفی چشتی نے مرتب کیا۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر۵ ۳۹ پر بحوالہ تعلیم الدین مصنفہ مولوی اشرف علی صاحب تھانوی صفحہ نمبر ۱۰۳ بعنوان ’’اقسام الا ولیا ء اﷲ‘‘کے ذیل میں صفحہ نمبر ۳۹۶ پر آٹھویں قسم لکھی ہے:’’ غوث ایک ہوتا ہے بعض نے کہا قطب الاقطاب ہی کو غوث کہتے ہیں ‘‘۔ 

اسی کتاب کے صفحہ ۴۱۹ سے لے صفحہ ۴۲۰ تک چہار خانوادہ کا ذکر کیا ہے ۔اس میں لکھا ’’اوّل خانوادہ قادریہ غوثیہ منسوب حضرت غوث الاعظم (شیخ عبد القادر جیلانی  )اسی کتاب کے صفحہ ۵۲۴ پر بعنوان وصایا ئے جامعہ ، پہلی فصل وصایا غوثیہ کے ضمن میں بحوالہ مکشوفاتِ غوثیہ مترجم مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی (۵۱ ) تحریر کیا:’’بسم اﷲ الرّحمن الرّ حیم۔ یہ قطب ربانی غوث صمدانی شیخ عبد القادر قدس سرہ العزیز کی وصیتیں ہیں جو آپ نے اپنے صاحبزادہ کو فرمائیں‘‘ اسی کتاب کے آخری اوراق یعنی صفحہ نمبر ۵۲۷ پر عربی میں شجرۃُُ طیِّبَۃُُ چِشْتِیَّہ صَا بِرِیَّۃ کے عنوان سے مولانا ذوالفقار علی صاحب دیوبندی نے شجرہ نظم کیا ہے اس میں تیسرا شعر ہے:

فَبِمُرْشِدِیْ غَوْثُ الْوَرَٰیٰ شَمْسُ الْھُدٰی

مِقْدَامِ اَھْلِ الْعِشْقِ وَالْھَیْماَنِ

کتنی حیرت کی بات ہے کہ وہ صاحب جن کی بے نفسی، خلوص، دیانت، عیانت اور عالمانہ فضیلتوں اور عظمتوں کا ہر ایک دیوبندی معترف اور مقر ہے۔ وہ تو حضور سرکار بغداد ابد قرار شہبازِ لامکانی غوث الصمدانی شیخ عبد القادر جیلانی صکو غو ث الاعظم لکھیں اور ان کو شرک کی بو تک نہ آئے اور مولانا ذوالفقار علی صاحب دیوبندی اپنے دادا مرشد کو غوث الوریٰ کہیں تو شرک بواح نہ ہو مگر ان حضرات کو اپنا بزرگ اورتسلیم کرنے والے لفظ غوث یا غوث الاعظم کی نسبت مخلوق کی طرف صریح اور شرک ِ بواح قرار دیں ۔ ایسے لوگوں کے علم و عقل پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے ،کا ش کہ ان اکابرین کی تحریروں سے نصیحت اور موعظت حاصل کریں۔

 مولیٰنا حسین احمد صاحب مدنی: علمائے دیوبند کے سرتاج و جانشین شیخ الہند ، شیخ الاسلام حضرت مولانا السید حسین احمد مدنی صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند اپنی کتاب ’’الشہاب ثاقب‘‘ صفحہ نمبر ۵۹ (مطبوعہ کتب خانہ اعزازیہ دیوبند) پر لکھتے ہیں:

’’حضرت امام اعظم و امام مالک و امام شافعی و امام محمد و حضرت جنید و حضرت غوث الثقلین وغیرہ وغیرہ‘‘۔

 انہی کی اپنی خود نوشت سوانح بنام ’’نقش حیات‘‘ صفحہ نمبر ۱۰۶ (شائع کردہ مکتبہ دینیہ دیوبند ) پر تحریر موجود ہے، ملاحظہ فرمایئے: 

’’وہابیہ آئمہ طریقت حضرت جنید بغدادی، سری سقطی، ابراہیم ادھم ، شبلی، عبدالواحد بن زید، خواجہ بہاوالدین نقشبندی، خواجہ معین الدین چشتی، غوث الثقلین شیخ عبدالقادر جیلانی، شیخ شہاب الدین سہروردی، شیخ اکبر بن عربی، شیخ عبد الوہاب شعرانی وغیرہ قدس اﷲ اسرارھم اجمعین کی شان میں سخت گستاخی بے ادبی کے کلمات کہتے ہیں‘‘۔ 

مجھے امید ہے کہ مولانا صاحب کی یہ تحریر پڑھ کر اب کسی قیل و قال کی اور شک و تردد کی جگہ باقی نہیں رہتی کہ وہ صاحب جن کے سینکڑوں علماء اور مشائخ عرب و عجم میں شاگرد ہوں ، جس کے زہدو تقویٰ پر ملائک صفت فخر و مباہات کریں جس کا ہر سانس یادِ الٰہی و اتباعِ سنت نبوی میں گزرا ،جس کو اس دُنیا میں کسی قسم کا لالچ متزلزل نہ کر سکا، جس نے اپنی تمام عمر گرانمایا کو حضورکی اطاعت اور فرمانبرداری میں زہد و ریاضت کے ساتھ گزار دیا اور دار العلوم دیوبند جس کے علم و وجود کی بدولت عزت و عظمت کے مراحل طے کرتا رہا میرے بغداد کے دولہا، سرکار غوثیت مآب ،شمس الہدیٰ، محبوبِ سبحانی ، قطب ربانی ، غوث الافخم السید السندشیخ عبدالقادر جیلانی صکو ’’غوث الثقلین‘‘ کے لقب سے تحریر کریں اور یہ متبعین ملائے پنج پیر انکار کریں--- فیا للعجب ۔اور جو غوث یا غوث الاعظم کی نسبت سرکار غوثیت مآب یا کسی اور بندگانِ خدا کی طرف کرے اس پر شرک کا فتویٰ دیں ، کیا حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی شرکِ بواح کی تعلیم دیتے رہے؟

مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی: دارالعلوم دیوبند کے مفتی اعظم مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی اپنی کتاب ’’ختم النبوت فی الآثار‘‘ حصہ سوم صفحہ ۴۳۲ پر (مطبوعہ دار الاشاعت کراچی) لکھتے ہیں 

’’اور حضرت غوث الاعظم شیخ عبد القادر غنیتہ الطالبین میں تحریر فرماتے ہیں‘‘۔

کیا جناب مفتی صاحب جن کی تمام عمر تعلیم اور فتویٰ نویسی میں گزر گئی وہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ غوث الاعظم (فریا درس اعظم جو ترجمہ پنج پیری ہے) کی صفت سے جناب سرکار بغداد صکو متصف فرماکر تحریر کر رہے ہیں ؟کیا پیر وانِ پیر تاریکی جو دیوبندی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ اپنے اس سب سے بڑے مفتی کی تحریر قبول کر کے حضور قطب الاقطاب ، شہبازِ لامکانی ، غوث الصمدانی، سیّد شیخ عبد القادر جیلانی صکو ’’حضرت غوث الاعظم‘‘لکھنا شروع کردیں گے یامفتی دیوبند پر شرک صریح اور شرکِ بواح کے مرتکب ہونے کا فتویٰ صادر کریں گے؟

 بایزید انصاری المعروف پیر روشن المشہور پیر تاریک:طبیعت تو ذرّہ برابر پسند نہیں کرتی کہ اس مختصر مقالہ میں جن میں اکابرین علماء و مشائخ دیوبند کا ذکر اور ان کے حوالہ جات دئیے ہیں ، ایک ایسے شخص کی کتاب کا حوالہ دوں جس کے عقائد فاسدہ کی عام پختون علاقہ کے علماء نے متحد و متفق ہو کر مخالفت کی۔ جس نے ایک عرصہ تک اور اس کے متبعین نے بھی کافی مدت اسی طرح اپنے فاسد اورباطل عقیدوں کی اشاعت و پر چار کرکے باعزت و باحیاء پختون ملت کو مذہبی جنگ میں جھونکے رکھا ۔مگر مجبوراً اور بادل ناخواستہ اس کی کتاب ’’صراط التوحید‘‘ سے ایک حوالہ نقل کرتا ہوں تا کہ ملائے پنج پیر جس کو ’’حق پرست‘‘، ’’داعئی توحید‘‘  اور ’’داعئی سنت‘‘ بیان کرتا ہے بقول اسی کے یہ خود شرکِ صریح اور شرکِ بواح کا مرتکب ہوا ہے۔ ’’صراط التوحید‘‘ صفحہ ۴۵ (مبطوعہ ادارہ اشاعت سرحد پشاور)پر لکھا ہے’’ نیز حق تعالیٰ سوئے غوث ندا کردہ است یا غوث الاعظم قل لا صحابکَ‘‘

 اپیل:  اے ملت افاغنہ پاکستان! اے غیور قومِ پختون! آج جبکہ کفر کی ایک عظیم طاقت (یعنی بھارت ) کے مقابلہ میں ملت ِ اسلامیہ پاکستان بُنْیاَنٌ مَرْصُوْصْ بن کر کھڑی ہے اس وقت ان پر متفق علیہ مسائل میں اختلاف پیدا کر کے قوم کے اس اتحادو اتفاق کو پارہ پارہ کرنا مقصود ہے ، قوم کے اند ر افتراق و تشتت پیدا کرکے اس سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے اندر شگاف پیدا کرکے کمزور کرنا ہے، قوم کو تعمیری امور سے ہٹا کر ان کے افکار و خیالات کو تخریب اور بربادی میں لگانا ہے۔ کتنے دُکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ آج پاکستان میں علماء سے ہی بے اتفاقی اور تشتت کا ظہور ہورہا ہے۔ خصوصاََ حضورپاک اور اولیائے کرام رحمہم اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کی توہین و تنقیص کرنا ان کا شیوہ ہو چکا ہے۔ حضور مخبر صادق   کے ارشاد بروایت امام اولیاء حضرت علی کرم اﷲ وجہہ ہے: 

’’یُوشِکُ اَنْ یَّاْتِیَ عَلیَ الَّناسِ زَمَانُُ لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلاَمِ اِلاَّ اِسْمُہُ وَلاَ یَبْقٰی مِنَ الْقُرآنِ اِ لاَّ رَسْمُہُ مَساَجِدُھُمْ عاَمِرَۃُُ وُھِیَ خَرَابُُ مِنَ الْھُدیٰ عُلَمَاءُ ُ ھُمْ شُرُُّمِنْ تَخْتِ اَدِیْمِ السَّمَاءِ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ

الْفِتْنَۃُ وَ مِنْھُمْ تَعُوْدُ وَرواہ الْبَہیْقِیْ فی شعب الایمانَ‘‘

ترجمہ: عنقریب لوگوں پر وہ وقت آئے گا جب اسلام کا صر ف نام اور قرآن کا صرف رواج ہی رہ جائے گا ۔ ان کی مسجد یں آباد ہوں گی مگر ہدایت سے خالی، انکے علماء آسمان کے نیچے بد ترین خلق ہونگے، ان سے فتنہ نکلے گا اور ان میں لوٹ جائے گااسے بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے ‘‘۔ 

آج ہم دیکھ رہے ہیں تمام مسلمانوں کے نام تو اسلامی ہیں مگر اعمال و افعال تمام غیر اسلامی، قرآن مجید رسماً پڑھا جائے گا۔ یا تو جھوٹی قسموں کیلئے قرآن ہے، یا صرف ظاہر احترام کیلئے اور بس ۔بڑی بڑی عالیشان مسجدیں خوبصورت ترین بنی ہوئیں، بجلی کے قمقموں سے بھر پور مگر نمازی کوئی نہیں --- اِلاَّ ماَ شاَ ء اﷲ ان کے امام بد عقیدہ ہیں ۔مساجد بجائے ہدایت کے فتنوں اور شرارتوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہیں۔ درس قرآن مجید اور درس حدیث شریف کے نام پر انبیاء علیہم السلام کی توہین اور اولیائے کرام رحمہم اﷲ تعالی اجمعین کی تنقیص ہو رہی ہے۔ ان علماء سو کا وطیرہ ملت اسلامیہ افاغنہ میں فتنہ اور شر پیدا کرنا ہے۔

مجھے اُمید ہے کہ ملت اسلامیہ افاغنہ اپنے ان اولیائے کرام رحمہم اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کی تعلیمات، عقائد اور اعمالِ صالحہ کو ہی اپنی زندگی کا اصول بنا کر ان کے نقش قدم پر چلے گی۔ جو پاکیزہ تعلیم ان حضرات یعنی حضرت غواص بحر حقیقت غوثِ خراسان سید علی ترمذی المعروف حضرت پیر بابا صاحب، شیخ العلماء حضرت اخوند درویزہ صاحب ننگر ہاری ،قطب الاقطاب حضرت شیخ رحمکار صاحب المعروف کاکا صاحب ، غوث وقت حضرت عبد الوہاب صاحب المعروف اخون پنجو بابا صاحب، غوث زمان حضرت ابو البرکات سید حسن بادشاہ صاحب المعروف میراں سرکار، حضرت شیخ المشائخ قطب وقت حضرت میاں محمد عمر صاحب المعروف چمکنی بابا صاحب، شیخ الاسلام و المسلمین حضرت حافظ عبد الغفور صاحب المعروف صوات باباجی صاحب، حضرت امیر العلماء خواجہ نجم الدین صاحب المعروف ھڈہ ملا صاحب، شیخ المشائخ حضرت عبد الوہاب صاحب المعروف مانکی باباجی صاحب، حضرت قدوۃ السالکین زبدۃ العارفین الحاج فضل واحد صاحب المعروف باباجی ترنگزئی، الحاج حاجی محمد امین صاحب وغیرہ وغیرہ رحمہم اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعہ پھیلائی غیور پختون قوم کبھی بھی اسے فراموش نہ کرے گی اور اسی تعلیم پر عمل کر کے نجاتِ اُخروی حاصل کرے گی۔ ان بزرگان کو اپنا امام پیشوا اور مقتدا مان کر آپس میں اتفاق و محبت اور اخوت کے ساتھ زندگی گزارے گی۔ اس وقت ملت افاغنہ پاکستا ن کو کامل و مکمل اتحاد ویگانگت کی ضرورت ہے اور افغان غیور ملت ہی اپنے مجاہدانہ عزم اور اپنے اتفاق کی بدولت بھارت جیسی عظیم کفر کی طاقت کو کشمیر سے ختم کرے گی--- ان شاء اﷲ تعالیٰ ۔ اور اسی ملت افاغنہ کے اتحاد و اتفاق کی برکت تھی کہ پاکستان عالم وجود میں آیا اور آج تک برقرار رہے اور ان شاء اﷲ دن دونی رات چوگنی ترقی کرے گا ۔

ان علماء سو نے تو پاکستان بننے کے وقت اور کشمیر پر پہلی جہاد کے وقت بھی مخالفت کو نہ چھوڑا اور اس عظیم اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی۔ مگر اﷲ تعالیٰ نے ان بزرگان کی حرمت کی وجہ سے ان کو رسوا کیا اور یہ ناکام و نامراد ہوئے۔ آخر میں یہ فقیر غیور پختون ملت ِ پاکستان سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنے مندرجہ بزرگوں، پیرانِ حق اور صاحبانِ کرامت حضرات کے نقش قدم پر چلیں، انہی کے اعمال و اخلاق پر عمل کریں، انہی کے ساتھ محبت و اخلاص رکھیں اور ان علمائے کرام کے ارشادات پر دل وجان سے عمل کریں جو ان حضرات کے ماننے والے اور متبعین ہیں۔

 

وَماَ عَلَیْنَا اِ لَّا الْبَلاَ غ

 

 

 



JSN Epic is designed by JoomlaShine.com

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries