حضرت زبدۃ العارفین شاہ غلام صاحب المعروف بہ آغا میر جی صاحب رحمت اللہ علیہ
جناب زبدۃا لعارفین قدوۃ السالکین حضرت شاہ غلام صاحب المعروف بہ آغا میر جی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت شیخ العلماء و الفقرأ سیّد میر عیسیٰ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند تھے۔ تمام تعلیم و تربیت اپنے والد ماجد اور دیگر علماء سے حاصل کی، علوم درسیہ سے فراغت حاصل کر کے صاحب درس و افتا ہوئے۔ آپ عالم اجل اور فاضل اکمل تھے۔ صوبہ سرحد بلکہ قندھار اور ہرات کے علماء آنجناب کے علم کے معترف تھے۔ اور آپ کے سامنے زانوئے ادب طے کرنے پر خوش نصیبی سمجھتے۔
سلسلہ عالیہ قادریہ میں اپنے والد محترم کے مرید و خلیفہ تھے، زہد و عبادت میں اپنی نظیر آپ تھے آپ کے اخلاق ِ کریمانہ کا ہر ایک مداح تھا۔ آپ نے سلسلہ عالیہ کی کافی سے زیادہ توسیع فرمائی چنانچہ افغانستان ، کشمیر ، پنجاب اور بنگال تک آپ کے مریدین کا سلسلہ پھیلا ہوا ہے ، آپ حقائق و معارف آگاہ نہایت ہی متقی ، متورع ، متواضع اور کثیر الکرامت ولی اللہ تھے۔
والد محترم کی طرح قرآن مجید کا درس دیتے۔ شب جمعہ کو حلقہ ذکر ِالٰہی قائم فرمایا، لنگر جاری تھا جس سے سینکڑوں غرباء ، مساکین اور بے وسیلہ لوگ پرورش پاتے، صوبہ سرحد کے علماء اور مشائخ کو آپ بڑی قدر و منزلت سے دیکھتے اور ان کے احترام و اکرام میں کوئی کسر نہ چھوڑتے۔ آپ طبیعتاً انتہائی بے پرواہ واقع ہوئے تھے۔ ایک دفعہ حاکم پشاور کے کان میں درد تھا اس نے آپ کو کہلا بھیجا کہ بہتر ہو گا کہ آپ تشریف لائیں۔ آپ نے کہلا بھیجا کہ وہ فقیر بہت ہی برا ہے جو امیر کے دروازے پر جائے ، اور آپ مزار پُرانوار حضرت سیّد حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ پر تشریف لے گئے۔ واپسی پر جب یکہ توت دروازہ پر پہنچے تو وہ حاکم وقت پالکی میں سوار آ رہا تھا آپ نے اِسی وقت اسے دم کیا اور دعا برکت کر کے وہیں سے رخصت کر دیا۔ بوجہ یاد الٰہی ، خدمت قرآن و سنت، اور اشاعت سلسلہ عالیہ قادریہ اس علاقہ کا ہر ایک فرد آپ کا مداح ہے۔ آپ عالم و فاضل اور بادشاہ سلوک و معرفت ہونے کے علاوہ فارسی کے اعلیٰ پایہ کے شاعر تھے، آپ کی شاعری دنیاوی انسانوں کی مدح سرائی میں قطعاً نہیں تھی بلکہ عشق الٰہی ، محبت نبوی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّمَ اور حضور محبوب سبحانی قطب ربانی غوثِ اعظم محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے دیدار کے ذوق و شوق میں ڈوبی ہوئی تھی، آپ کی شاعری متین ، سنجیدہ اور پاکیزہ الفاظ و خیالات کا مرکز تھی، سلوک و معرفت کے اونچے اونچے مقامات آپ نے نہایت ہی سادہ الفاظ میں بیان فرمائے ہیں۔ آپ کی مناجاتوں کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اتنی قبولیت نصیب ہوئی کہ مساجد میں اور عرسوں کے موقع پر ان مناجاتوں کو پڑھ کر دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ چند اشعار یہ ہیں۔
چوں روز حشر بردارم بنزد حق مرا خوانند
دراں ساعت بایں عاصی ندا کن یا رسول اللہ
چوں از خویشاں جفا دیدم ہمہ مکر و دغا دیدم
بہ پیشت جیب بدریدم وفا کن یا رسول اللہ
برائے دیدن رویت شفیع آوردہ ام سؤیت
جناب چار یارت را ھدا کن یا رسول اللہ
برائے اہل بیت خود مکن از در مرا تو رد
ازاں لعل لب نوشیں دوا کن یا رسول اللہ
اور مقطع فرمایا۔
سیاہ رو میرجیؔ بر در ستادہ حاجتش بنگر
بپاس شاہ جیلانیؒ روا کن یا رسول اللہ
حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہسے بایں الفاظ التجا کرتے ہیں:
ز ہجراں دل تبا ہم من اغثنا یا شہ جیلانؒ
ز عصیاں رو سیاہم من اغثنا یا شہ جیلانؒ
زنار عشق افروزم مثال شمع می سوزم
بحال بد شب و روزم اغثنا یا شہ جیلانؒ
بہ ہجرم تابہ کے مانی ، برائے وصل کے خوان
بکن با ذات خود فانی اغثنا یا شہ جیلانؒ
سگے سیّد حسن ہستم گرفتہ در ازل دستم
ز شوقت من ہمیں مستم اغثنا یا شہ جیلانؒ
غلام حضرت فاضل سگم از غوث حق کامل
ز حق ایں فیض شد نازل اغثنا یا شہ جیلانؒ
بحضرت عابد و باقر بحضرت شاہ آن شاکر
بسیّد موسیٰ ذاکر اغثنا یا شہ جیلانؒ
سزد اے عیسیٰ عالی چرا اے میرجی خالی
کہ داری انیچنیں والی اغثنا یا شہ جیلانؒ
یہ علم و معرفت کا پیکر ۲۰ ماہ شعبان ۱۲۸۲ ہجری بروز جمعہ المبارک کو فوت ہوا۔ ابوالبرکات سیّد حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے جوار میں بروز ہفتہ دفن کئے گئے۔ آپ کے دو فرزند تھے، جناب حضرت سیّد محمد شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور جناب حضرت سیّد فقیر شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ۔