حضرت آقا سیّد پیر جان صاحب رحمۃ اللہ علیہ

۱۲۰۵ ہجری تا ۱۳۱۵ ہجری

آپ کا نام نامی و اِسم گرامی سیّد اکبر شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، والد کا اسم مبارک سیّد عیسیٰ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، لقب ’’ قطب وقت ‘‘ تھا اور ’’ آغا پیر جان صاحب ‘‘ کے نام سے مشہور تھے اِسی مشہور نام نے آپ کے اصلی نام کی جگہ لے لی۔ آپ کا سلسلۂ نسب پانچ واسطوں کے بعد حضرت ابوالبرکات سیّد حسن صاحب قادری رحمۃ اللہ علیہ پشاوری سے مل جاتا ہے۔

آپ کی تعلیم و تربیت اپنے والد محترم کے زیر سایہ ہوئی۔ بہت ہی تھوڑی عمر میں آپ نے علومِ مروجہ سے فراغت حاصل کر لی۔ اپنے بڑے بھائی علامہ اجل سیّد غلام صاحب المعروف میر جی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے طریقہ عالیہ قادریہ حسنیہ میں بیعت کر کے خلافت حاصل کی اور صاحب مجاز و معنعن ہوئے۔ مسند آراء خلافت ہونے کے بعد سلسلہ رشد و ہدایت شروع کر دیا۔ سلسلہ قادریہ حسنیہ کی اشاعت و تبلیغ میں کسی دقیقہ کی فرد گذاشت کو روا نہ رکھا۔ اِس سلسلہ میں کشمیر ، ہندوستان ، کابل ، اور عرب کے متعدد سفر کئے۔

آپ کے دور میں پشاور پر سکھوں کا غلبہ تھا۔ حاکم پشاور سکھ تھا اور اس کے دو اور ساتھی تھے۔ ان تین نے ایک مجلس میں جس میں آپ تشریف فرما تھے دین اسلام کی توہین کی، آپ سے برداشت نہ ہو سکا اور آپ نے تینوں کافروں پر حملہ کر کے قتل کر دیا۔ چونکہ آپ کا اقتدار بھی عوام میں کافی سے زیادہ تھا۔ اور آپ پشاور کے سیاسی اور روحانی پیشوا تھے۔ اِس لئے حکمران طبقہ نے آپ پر ہاتھ نہ ڈالا مبادا کہ بلوائے عام ہو جائے۔مگر آپ نے فرمایا کہ اب اِس وطن میں جہاں دین اسلام کی توہین ہوتی ہو، میں رہنا نہیں چاہتا۔ لہٰذا آپ کابل کو ہجرت کر کے چلے گئے کابل میں آپ کی بہت عزت و تکریم کی گئی۔ آپ نے کافی دن وہاں گذارے۔ آپ ذکر و افکار میں مشغول رہے۔ اور نہایت ہی مشکل ترین ریاضتیں کیں۔ دریائے کابل میں تین برس تک نفی اثبات یعنی لا الٰہ الا اللہ کا ذکر کیا۔ جس وقت اس تین برس کے چلہ کے بعد آپ کو پانی سے نکالا گیا تو آپ کا وجود پانی نے کھایا ہوا تھا۔ روٹی کو دودھ یا شوربے میں بگھو کر آپ کے منہ میں قطرات گرائے جاتے۔ یہاں تک کہ آپ صحت یاب ہوئے۔ اِسی طرح قصیدہ غوثیہ شریف کا ایک برس کا چلہ کاٹا۔ تقریباً آٹھ برس کے بعد افغانستان سے واپس پشاور تشریف لائے۔ اب انگریزوں کا دور تھا۔ آپ مغرب کی نماز کے وضو کے ساتھ صبح کی نماز ادا فرماتے۔گویا کہ تمام رات عبادت الٰہی میں گذرتی۔ آپ کے وجود کی برکت سے اِس علاقہ میں ذکر الٰہی اتباعِ سنّت نبوی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّمَ کی خوب اشاعت ہوئی۔ اگرچہ آپ کی ارادت میں امراء حکام ، علماء اور عوام بکثرت شامل تھے، مگر آپ کی طبیعت ان تمام ارادتمندیوں سے بے نیاز تھی۔ آپ کا تعلق صرف اور صرف ذاتِ الٰہی اور حضور فخر دوعالم صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّمَ سے وابستہ تھا۔اِسی وجہ سے آپ نے کسی وقت بھی کلمہ حق کہنے میں دریغ نہیں کیا اور نہ کسی کی پرواہ کی۔ امیر شیر علی خان والئی کابل ہندوستان کے سفر کے لئے پشاور پہنچا تو پشاور کے حاکم ِ اعلیٰ نے جو کہ اس وقت ایک انگریز تھا۔ امیر صاحب کی ایک خاص ضیافت کی۔ اس میں علماء اور عمائدین شہر کو بھی بلایا گیا۔ چونکہ آپ کا تعلق امیر کابل سے تھا اور وہ آپ کے معتقد تھا تو اس کی خواہش پر آپ کو بھی دعوت دی گئی۔ آپ کو انگریزوں سے بڑی سخت نفرت تھی، اِس لئے آپ دعوت میں تشریف تو لے گئے۔ مگر کھانا کھانے سے انکار کر دیا۔ امیر کابل جناب امیر شیر علی خان صاحب نے اصرار کیا تو آپ نے صاف طور جواب میں ارشاد فرمایا۔ ’’ کہ اے امیر یہ فرنگیوں کی ضیافت ہے اِس لئے میں نہیں کھاتا ‘‘۔ امیر کابل کو غصہ آ گیا اس نے کہا کہ اچھا جو وظیفہ کابل کی حکومت کی طرف سے آپ کے لئے مقرر ہے وہ ضبط کیا جاتا ہے۔ آپ نے متبسمانہ لہجہ میں ارشاد فرمایا۔

 ’’ اے بادشاہ فقیر کی فقیری قیامت تک رہے گی، مگر تیری بادشاہت نہ رہے گی ‘‘

آپ اِس مجلس سے فوراً اٹھ کر چلے آئے۔ آپ کی طبیعت مبارکہ پر اس گفتگو کا اثر بہت برا پڑا۔ چنانچہ اِسی طرح ہوا جب امیر کابل واپس پہنچا تو اس کا تختہ الٹ دیا گیا مگر آج تک اس فقیر کا ارشاد اپنی پوری تابانیوں کے ساتھ روشن ہے اور آپ کی خانقاہ انشاء اللہ تا ابدالآباد قائم رہے گی۔

آپ کو قانون انگریز ی سے اِنتہائی نفرت تھی۔ حتیٰ کہ کسی غیر اسلامی عدالت سے رجوع بھی پسند نہ فرماتے تھے۔ ایک دفعہ آپ مزار سیّد حسن بادشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق دعویٰ دائر کر دیا گیا۔ آپ پہلی بار جب عدالت میں پیش ہوئے تو انگریز مجسٹریٹ مسٹر جمیز کرسٹی کو کہا ’’ میں شریعت ِاسلامیہ محمد یہﷺ کا پابند ہوں۔ جو فیصلہ شریعت محمد یہ ﷺ کرے مجھے قبول ہے۔ چونکہ تم شریعت ِاسلام سے ناواقف اور نابلد ہو اِس لئے یہ قضیہ کسی مسلمان عالم و فاضل کے پاس بھیج دو تا کہ وہ فیصلہ کرے ‘‘ دوسرے فریق نے نہ مانا۔ مجسٹریٹ نے ان کا مقدمہ خارج کر دیا۔

آپ نے بہت طویل طویل سفر کئے۔ جج بیت اللہ شریف کے ارادے سے جب بمبئی پہنچے تو بحری جہاز میں حضرت قدوۃ السالکین خواجہ اللہ بخش صاحب تونسوی رحمۃ اللہ علیہ بھی اِسی جہاز میں ہم سفر ہو گئے۔ ( آپ کے ساتھ آپ کے داماد حضرت قبلۂ عالم الحاج سیّد سکندر شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے ) اثناء سفر میں آپ کے مراسم حضرت قبلہ تونسوی رحمۃ اللہ علیہ سے نہایت ہی مشفقانہ قائم ہوئے ایک دن حضرت تونسوی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ شاہ صاحب، ہندوستان میں لوگوں نے تنگ کر دیا ہے۔ اب ارادہ ہے کہ جج پر جا کر بیت اللہ شریف میں ٹھہر کر اللہ تعالیٰ کو یاد کروں ‘‘۔آپ نے فرمایا۔ ’’ حضرت صاحب اگر آپ اِس غرض کے لئے جا رہے ہیں تو ایک گذارش اِس فقیر کی بھی سن لیجئے ، جس طرح یہ فقیر آپ کو مشورہ دیتا ہے کوئی شخص آپ کے پاس نہیں ٹھہرے گا۔ اور آپ لوگوں کے اژدھام سے رہائی حاصل کر لیں گے ‘‘۔ انہوں نے فرمایا کہ فرمائیے کہ ’’ وہ کیا طریقہ ہے ‘‘ آپ نے فرمایا۔ ’’ آئیے یہاں سے ہی اپنے خادموں کو رخصت کر دیجئے ، آپ آٹا دال لائیے اور میں لکڑیاں لاؤں گا۔ میں کھانا تیار کروں گا آپ کپڑے دھوئیے۔ اکٹھے چلا پھرا کریں گے تو پھر کوئی بھی آپ کے پاس آ کر آپ کو تنگ نہیں کرے گا۔ جس قد ر آپ خلوت میں رہیں گے اسی قدر لوگ آپ کے دیدار کے مشتاق ہوں گے۔ اور خواہ مخواہ خلوت میں مداخلت کر کے آپ کے ذکر اذکار میں فرق پیدا کرتے رہیں گے۔ اور جب آپ کو ہر وقت گھومتا پھرتا دیکھیں گے۔ تو لازماً اِس قدر اشتیاق نہ رہے گا ‘‘۔ تو خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔ ’’ سیّد صاحب میں یہ طریقہ اختیار نہیں کر سکتا ہوں ‘‘۔ آپ نے فرمایا کہ ’’ پھر آپ ضرور حج کو تشریف لے جائیں ‘‘۔ آپ کی طبیعت مبارکہ میں تحقیق حق کا جذبہ بوجہ اتم موجود تھا۔ ہر وقت آپ کی مجلس علماء اور فضلاء سے بھرپور ہوتی اور کسی ایک مسئلہ پر گفتگو ہوتی رہتی۔ چنانچہ ایک بار حضرت شیخ الاسلام و المسلمین حافظ عبدالغفور صاحب اعنی صاحب سوات رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں سے علماء نے فتویٰ دیا کہ ’’ بغیر محراب کے نماز باجماعت نہیں ہوتی ‘‘۔ یہ بات پشاور پہنچی چونکہ آپ کی ذات و الا صفات پشاور شہر میں سیاسی اور مذہبی اعتبار سے قابل احترام اور مرکزی حیثیت رکھتی تھی ، اِس لئے حضرت سرآمد علماء جناب میاں صاحب آسیا یعنی حافظ میاں غلام جیلانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور استاذ الاساتذہ حضرت مولانا مولوی میاں نصیر احمد صاحب المعروف بہ میاں صاحب قصہ خوانی رحمۃ اللہ علیہ اور چند دیگر علماء یہ فتویٰ لے کر آپ کے پاس آئے۔ آپ خود بھی بحمداللہ عالم و اکمل تھے۔ آپ نے علماء کے ساتھ گفتگو کرنے کے بعد فرمایا کہ حضرت سوات بہت قابل قدر ہستی ہیں اور انتہائی متبع شریعت محمد ی ہیں بجائے اِس کے کہ تم صاحبان یہاں سے ہی تنقید شروع کر دو۔ آؤ کہ ہم سب مل کر ان کے پاس جائیں تاکہ ان کے ساتھ بیٹھ کر اِس مسئلہ کو طے کر لیا جائے۔ چنانچہ آپ خود بمعیت صدر الافاضل حضرت الحاج نصیر احمد صاحب المعروف میاں صاحب قصہ خوانی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت الحاج آقا سیّد سکندر شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور جناب مولانا مولوی سراج الدین لاہوری رحمۃ اللہ علیہ سوات تشریف لے گئے۔ حضرت قدوۃ السالکین زبدہ العارفین شیخ الاسلام و المسلمین اخون صاحب سوات رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی بہت ہی قدرو منزلت کی، دوسرے دن مسئلہ پر گفتگو شروع ہوئی ، وفد کی طرف سے حضرت میاں صاحب قصہ خوانی بحث کرتے اور دوسری طرف سے تین علماء بحث میں حصہ لیتے تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ تین دن تک اِس بحث کا سلسلہ جاری رہا۔ مسئلہ حل ہوا اور شیخ الاسلام و المسلمین حضرت بابا جی صاحب سوات رحمۃ اللہ علیہ نے دوسرا فتویٰ دیا کہ ’’ بغیر محراب کے بھی نماز باجماعت ہوتی ہے ‘‘۔ اتنا تکلیف دہ سفر آپ نے ایسی حالت میں کیا جبکہ آپ بہت معذور ہو چکے تھے۔ مگر دین اسلام کی تڑپ اور سنّت نبوی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّمَ کی خاطر اپنی تکالیف کا کوئی احساس تک نہیں کیا۔ اور سفر کی صعوبتیں جھیل کر امت محمد یہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّمَ کو متحد و متفق کیا۔ یہی وہ مقدس افراد تھے جن کے قلوب میں دین اسلام کی سچی لگن تھی۔وہ پاک باز لوگ قوم کو آپس میں الجھا کر اقتدار حاصل نہیں کرتے تھے۔ اِن اللہ والوں کی زندگی تو اِس لئے تھی کہ لوگوں میں اتفاق ہو، اتحاد ہو، یکجہتی ہو اور مسلمان قوم بُنَیانٌ مَرضُوص ہو حضور صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّمَ کی محبت و اطاعت کا مکمل نمونہ ہو۔ مسائل دینیہ میں ان میں کوئی اختلاف اور تفرقہ نہ وہ۔آپ کے اِسی جذبہ صادقہ کے صدقہ میں امت محمد یہ ایک عظیم افتراق و تشتت سے بچ گئی۔ورنہ بعد میں صرف رفع سبابہ اور نسوار کے مسائل پر کیا کچھ نہیں ہوا۔تاریخ کے ایک طالب علم سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ نیز آج کل بھی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ قسما قسم نازک مسائل کو چھیڑ کر علما ء ملت ِ اسلامیہ پاکستان کو باہم لڑا رہے ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کو بھلا کر اپنا الو سیّد ھا کر رہے ہیں۔ یہ علماء کیوں آپس میں بیٹھ کر اِن مسائل کو حل نہیں کرتے ، تاکہ امت اسلامیہ اِس تشتت و افتراق سے نجات حاصل کرے۔کتنے برگزیدہ انسان تھے وہ جو خود تکلیف اٹھا کر امت ِمحمدیہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّمَ میں اتحاد و اتفاق پیدا کرتے تھے۔

آپ بڑے متوکل تھے کبھی بھی کسی امیر یا صاحب وجاہت کے ہاں تشریف نہیں لے گئے بلکہ ہمیشہ ارشاد فرماتا کرتے ’’ کہ اِس فقیر کو ایک اللہ تعالیٰ کا در کافی ہے ‘‘ اِسی لئے اللہ تعالیٰ آپ کی تمام ضروریات کو پورا فرماتا۔ خلیفہ سلطان بخش زرگر بیان کرتا ہے کہ ایک دن آپ مراقبہ کر رہے تھے کہ گھر سے جواب آیا۔ ’’ حضرت آج گھر میں ہر چیز ختم ہے ‘‘۔ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ ’’ آج ہم لوگ اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں ‘‘۔ اِس کار سازِ حقیقی نے اِسی وقت کارسازی فرمائی۔ اور چند منٹوں کے بعد ایک شخص آ کر پوچھتا ہے کہ ’’ آغا پیر جان کون ہے؟ ‘‘ بیٹھے ہوئے افراد نے آپ کا تعارف کروایا۔ اس شخص نے آپ کی خدمت میں ایک بیش قیمت گھوڑا اور ایک رومال جس میں تقریباً دو سو روپیہ تھا پیش کیا اور رخصت ہو گیا۔ آپ نے اپنے احباب کو مخاطب کر کے فرمایا ، کہ ’’ تم نے دیکھ لیا کہ اللہ تعالیٰ نے کیسی عمدہ مہمانداری فرمائی ‘‘۔

آپ سے اتنی کثرت سے کرامات کا صدور ہوا اور مکشوفات ہوئے کہ اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو ایک مکمل کتاب بن سکتی ہے۔ آپ نے ہمیشہ کرامات کو چھپایا اور کبھی بھی ظاہر ہونے نہیں دیا اور دین مبین پر استقامت فرما رہے۔

الحاج  ملک محمد زرین صاحب مرحوم بیان کرتے ہیں کہ ہمیشہ دریائے باڑہ میں سیلاب آتا اور تباہی و بربادی مچا دیتا۔ یہاں تک کہ ہماری زمینوں کو بھی خراب کر کے گاؤں کو منہدم کر دیتا۔ جس کی وجہ سے ہم گاؤں گاؤں پھرتے رہتے۔ میرے دادا صاحب نے جناب آغا پیر جان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا شہرہ سنا تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہی پریشانیوں اور مصیبتوں کا رونا رویا۔ اور دعا کی التجا کی ، آپ نے اِس کو تین مٹی کے ڈھیلے دم کر کے دئیے اور فرمایا کہ ’’ اپنی زمین کی پل پھر کھڑے ہو کر دریائے باڑہ کی طرف یہ ڈھیلے پھینک دو۔ انشاء اللہ جس جگہ تک یہ ڈھیلے پہنچیں گے اس سے آگے سیلاب کا پانی نہیں آئے گا ‘‘۔چنانچہ اِس واقعہ کے بعد اب تک اِس مقام سے آگے سیلاب کا پانی نہیں آیا۔ بڑے بڑے خطرناک سیلاب آئے۔ اِس گاؤں کے ساتھ کے گاؤں، کڑوی ، زخی بانڈہ شیخ اسماعیل کو نقصان پہنچا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس گاؤں کو نقصان نہیں ہوتا۔

ایک بار آپ جوئے شیخ ( شیخ کے کھٹہ ) پر اپنے دوستوں کے ساتھ ’’ سیر ‘‘ کے لئے گئے ، خودر و نوش کے انتظام کیا گیا۔ آپ کے ساتھ تقریباً ایک سو دوست احباب تھے جس نے سنا کہ آج آغا پیر جان کا ’’ سیر ‘‘ ہے وہ جوئے شیخ پر پہنچ گیا۔ کہتے ہیں کہ کوئی آٹھ سو آدمی جمع ہو گئے۔ آپ کے باورچی نور محمد زرگر نے تقریباً سو آدمی کا کھانا تیار کیا تھا۔ آ کر عرض کیا کہ ’’ جناب تقریباً آٹھ سو دوست احباب جمع ہیں اور پچاس کے قریب فقیر درویش آ گئے ہیں اور کھانا سو نفر کا ہے کیا بنے گا ‘‘۔ آپ نے تبسم فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’ اللہ تبارک و تعالیٰ پورا کر دے گا۔ ہم فقیر وں کا کارساز وہی جل جلالہٗ ہے ‘‘۔

جب کھانے کا وقت آیا چند احباب اور بھی پہنچ گئے ، آپ نے اپنے ہاتھ سے ان تمام مسکینوں اور فقیروں کو سب سے پہلے کھانا کھلایا ، اور ان کے بعد اپنا رومال دیگ پر ڈال دیا، پھر تمام احباب کو کھانا کھلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کھانے میں اتنی برکت ڈالی کہ ہزار گیارہ سو آدمیوں نے سو آدمی کے لئے پکا ہوا کھانا کھا لیا جو بچ گیا وہ آپ نے اور آپ کے باورچی نور محمد زرگر نے کھایا۔ آپ نے باورچی کو کہا ’’ میرے اللہ نے سب کو کھانا کھلا دیا۔ وہی رزاق ہے میں تم تو کام کرنے والے ہیں ‘‘۔

آپ ۲۸ جمادی الاول ۱۳۱۵ ہجری بروز سہ شنبہ رات کے ــساڑھے بارہ بجے اٹھے ، غسل فرمایا ، کپڑے بدلے تسبیح لے کر مصلیٰ پر تشریف فرما ہوئے۔ اچانک طبیعت خراب ہوئی۔ اپنے پوتے جناب آقا سیّد محمد زمان شاہ{ FR 1436 }؎ صاحب مرحوم رحمۃ اللہ علیہ کو بلایا۔ بیعت کر کے تسبیح و مصلیٰ عطا ء فرمایا اور کہا کہ قرآن پڑھو جب آقا سیّد محمد زمان شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا تو آپ نے اِسم ذات کا ذکر کرنا شروع کر دیا اور چند ساعت کے بعد ذکر الٰہی کرتے ہوئے اِس جہاں فانی سے آپ کی روح مبارکہ قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔

جناب سیّد قلندر شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ

جناب سیّد قلندر شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت آقا سیّد پیر جان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دوسرے فرزند تھے یہ بھی لاولد فوت ہوئے۔

آپ کے انتقال کے وقت پشاور میں کہرام مچ گیا۔ تمام شہر بند ہو گیا۔ ہر محلہ سے ذکر الٰہی کرتے ہوئے لوگ آپ کے مکان پر جمع ہو رہے تھے اور ہزار ہا کی تعداد میں پشاور کے چاروں طرف سے دیہاتی لوگ اکٹھے ہو گئے۔آپ کا جنازہ اٹھایا گیا تو ہر شخص کی زبان پر ذکر الٰہی جاری تھا پشاور کے زرگروں نے آپ کے جنازے پر سونے اور چاندی کے پھول صدقہ کئے۔ شام کے قریب یہ آفتاب رشد و ہدایت اور ولایت مقبرہ حضرت سلطان العارفین سیّد حسن رحمۃ اللہ علیہ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ آپ کے ایک صاحبزادہ صاحب کا اسم گرامی سیّد سعید احمد شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھا اور دوسرے سیّد قلندر شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور تیسرے سیّد امیر شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے

حضرت سیّد امیر شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ

جناب عزت مآب حضرت آقا سیّد پیر جان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند سیّد امیر شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے جو کہ عالم و فاضل تھے اپنے والد گرامی کے مرید تھے۔ اذکار و اشغال میں مصروف رہتے ، عزلت پسند اور یک سو رہتے، قصیدہ بردہ شریف ، قصیدہ غوثیہ شریف ، دلائل خیرات شریف اور قرآن مجید کے کامل ترین عامل تھے۔ آپ کے منہ مبارک کے نکلی ہوئی بات اللہ تعالیٰ رد نہیں فرماتا تھا۔آپ ’’ صاحب اللفظ ‘‘ مشہور تھے۔ آپ کی اولاد نہیں تھی۔ ۱۳۰۶ میں انتقال کیا۔

JSN Epic is designed by JoomlaShine.com