حضرت قبلۂ عالم سیّد سعید احمد شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ

حضرت سیّد سعید احمد شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، جناب حضرت عزت مآب آقا سیّد پیر جان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے تیسرے فرزند تھے۔آپ کی تعلیم و تربیت اپنے والد محترم کے زیر سایہ ہوئی۔ علماء وقت سے علوم درسیہ کی کتابیں پڑھیں، نہایت ہی باوقار ، ذی وجاہت ، صاحب اثر اور نڈر تھے۔ اوصاف ِ حمیدہ اور محامد حسنہ کے حامل تھے۔ انتہائی فیاض ، سخی ، مہمان نوازا اور پاکیزہ صورت و نفس تھے۔ حضور پاک سیّد دوعالم ﷺ کے عاشق زار تھے۔ جب بھی کوئی حاجی حضور سرور عالم و عالمیان ﷺ کی زیارت مبارک سے واپس آ کر و ہاں کے واقعات بیان کرتا تو آپ زار قطار روتے۔ آپ بڑی خیر و برکت کے مالک تھے، درویشی میں بادشاہی کی، نہایت ہی خوبصورت اور وجیہہ تھے۔ آخری عمر میں آنکھوں کی بینائی جاتی رہی آپ جیسا متوکل فقیر بہت ہی مشکل سے پیدا ہو گا۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

آپ اپنے والد کے مرید و خلیفہ تھے، ہر جمعہ کی شب ذکر الٰہی کا حلقہ قائم فرماتے تھے۔ اپنے بزرگوں کے عرسوں کو بڑی پابندی سے سرانجام دیتے۔ خصوصاً ربیع الثانی میں گیارہویں شریف کا بڑا اہتمام فرماتے۔ تمام دن عشاء کی نماز تک لنگر جاری رہتا۔ ہزار ہا لوگ آ کر تبرک کھاتے اور ساتھ بھی لے جاتے تھے۔ الحمد للہ کہ یہ سلسلہ آج تک اِسی طرح جاری ہے۔ جناب حاجی محمد قاسم مرحوم کہتے ہیں کہ ’’ میں نے جناب آغا صاحب مرحوم جیسا کشف عیانی و الا درویش نہیں دیکھا۔ حالانکہ تقریباً اڑھائی ہزار فقرا کو میں مل چکا ہوں ‘‘۔ یہی حاجی صاحب اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ کہ مجھ پر ایک ایسا وقت آیا کہ بہت تنگ دست ہو گیا۔ مجھے ایک فقیر نے فراخی کے لئے ایک وظیفہ دیا میں حضرت شاہ محمد غوث صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی مسجد مبارک میں یہ وظیفہ پڑ رہا تھا ، جب فارغ ہوا تو مجھے علم ہوا کہ پشاور سے بڑے آغا جی تشریف لائے ہیں۔ آپ آنکھوں سے معذور تھے میں نے قدم بوسی کی۔ آپ نے فوراً فرمایا حاجی قاسم صاحب فلاں وظیفہ پڑھ رہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ حضور درست ہے فرمایا یہ وظیفہ چھوڑ دو۔ اور مجھے ایک وظیفہ ارشاد فرما کر فرمایا کہ یہ پڑھو۔ میں آپ کے اِس کشف عیانی کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ اس ورد کے ساتھ ہی مجھے باطنی تشفی ہو گئی اور پھر مجھے کبھی بھی تنگ دستی کا خیال تک نہیں آیا۔ جس چیز کی ضرورت ہوتی تھی فوراً اللہ تعالیٰ مہیا فرما دیتا ہے۔

آپ نے کسی سیاسی جماعت میں حصہ نہیں لیا۔ ہاں وہ مجاہدین جو انگریزوں کے خلاف آزاد قبائل میں لڑتے تھے۔ ان کی ہر قسم کی حتی الامکان امداد فرماتے۔ ترکوں کی ہر وقت حمایت میں کمر بستہ تھے۔

نہایت ہی مضبوطی کے ساتھ عقائد حقہ اہل سنّت و جماعت پر قائم تھے۔ علماء اہل سنّت و جماعت کی بڑی قدر و منزلت کرتے۔ اور عقائد باطلہ کو جیسے نیچریت، قادیانیت ، نجدیت، وہابیت اور ’’ گلابی وہابیت ‘‘ کو بہت ہی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے۔ اور ارشاد فرماتے۔

 ’’ کہ جس طرح آگ لکڑی کو بھسم کر کے خاک بنا دیتی ہے اِسی طرح خراب عقیدہ والے کی صحبت نیک اعمال کو کھا کر انسان کو تباہ و برباد کر دیتی ہے ‘‘

بد عقیدہ والے کی صحبت سے بچنے کی ہر وقت تلقین فرماتے رہتے۔ آپ کا ارشاد تھا ’’ کہ مرید مخلص کو اپنے پیر کی صحبت کافی ہے ‘‘۔ اکثر فرماتے ’’ یک درگیر و محکم گیر ‘‘ یعنی ایک کا ہو کر رہ جا اور فرماتے ’’ ہزار عیوب سے اپنے پیر کی صحبت بچا لیتی ہے ‘‘ اور ارشاد فرماتے ’’ حضور سرور عالم و عالمیان ﷺ کا عشق ہی عین ایمان ہے ‘‘۔ اور ارشاد فرماتے ’’ جس نے اپنے پیر کا ادب کیا وہ مراد کو پہنچ گیا ‘‘۔

حضرت صاحب جو کہ عشق محمد ﷺ میں سرشار تھے ۳ مئی ۱۹۳۹ ء کو بوقت عشاء اِس جہاں فانی سے اس جہاں باقی کو رخصت ہوئے اور ۴ مئی کو صبح گیارہ اور بارہ بجے کے درمیان ابوالبرکات سیّد حسن رحمۃ اللہ علیہ کے جوار میں سپرد خاک کر دیئے گئے ہزار ہا مخلوق خدا نے جنازہ پڑھا ، آپ کے جنازہ میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں غیر مسلم بھی شریک ہوئے۔

ویسے تو آپ کی کافی اولاد تھی مگر وہ سبچھٹپنمیں لاولد فوت ہو گئی۔ صرف ایک صاحبزادہ حافظ سیّد محمد زمان شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور ایک صاحبزادی کی شادی ہمراہ حضرت سیّد سعید احمد جان صاحب بن الحاج آقا سیّد سکندر شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہوئی جس سے صرف ایک فرزند سیّد شریف حسین صاحب شاکر پیدا ہوئے اور یہ صاحبہ فوت ہو گئیں۔

JSN Epic is designed by JoomlaShine.com