حضرت شیخ العلماء و الفقرا سیّد عیسیٰ شاہ صاحب رحمت اللہ علیہ

حضرت علامہ کبیر سیّد موسیٰ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند ارجمند حضرت شیخ العلماء و الفقراء سیّد عیسیٰ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سری نگر کشمیر میں پیدا ہوئے۔ا پنے والد محترم کے زیر سایہ تعلیم و تربیت سے آراستہ و پیراستہ ہوئے۔ قرآن مجید حفظ کیا۔ مختلف علماء سے علوم درسیہ کی فراغت حاصل کی، احادیث اپنے والد بزرگ سے پڑھی ، جب تکمیل کر چکے تو والد محترم سے بیعت ہوکر سلسلہ عالیہ قادریہ حسنیہ میں صاحب مجاز و معنعن ہوئے۔آپ کو حضور غوثِ پاک رضی اللہ عنہنے حکم دیا کہ ’’ تم پشاور میں جا کر سکونت اختیار کرو ‘‘ چنانچہ آپ نے اپنے بزرگانِ عظام کے مزارات پر حاضری دینے کے بعد پشاور میں قیام فرمایا پہلے آپ لاہور میں حضرت شیخ المحدثین علامہ اجل سیّد شاہ محمد غوث صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پر حاضر ہوئے۔ پھر جہلم میں حضرت زبدۃ العارفین صدر الکاملین حضرت سیّد میر شاکر شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ بن شیخ المحدثین حضرت شاہ محمد غوث صاحب رحمۃ اللہ علیہ لاہوری کے مزار مقدس پر حاضر ہوئے پھر اثنائے سفر میں مشائخ ، مجاذیب اور فقرا ء و علماء سے ملتے ہوئے پشاور آئے۔ آپ نے ہندوستان کا سفر بھی کیا تھا۔ اولیاء کرام کے مزارات پر حاضر ہوئے ، علماء مشائخ سے ملے اور پہلی شادی بھی یو۔پی کے مشہور معروف سادات رجوعہ کے ہاں سے کی تھی۔ چونکہ آپ کو حکم تھا اس لئے مستقل سکونت پشاور میں اختیار کی۔ حضرت ابوالبرکات سیّد حسن بادشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ عالیہ پر حاضر ہوکر فیوض و برکات سے مالا مال ہوئے۔ پشاور شہر میں درس شروع کیا۔ قرآن حکیم کا روزانہ صبح و شام درس دیتے۔ لنگر جاری کیا، تزکیہ نفوس اور تہذیب اخلاق میں مصروف ہو گئے۔ آپ نہایت ہی صاحب حال اور کثیر الکرامت تھے، ہر طرف سے لوگ آ آ کر داخل سلسلہ ہوئے اور طلباء کا درس میں اژدھام ہو گیا آپ کے لنگر شریف کا خرچ اتنا بڑھ جاتا کہ آپ قرضدار ہو جاتے تو اللہ تعالیٰ غیب سے ایسے اسباب مہیا فرما دیتا کہ تمام قرض اتار دیتے۔ حضور پاک ﷺ کا نام نامی و اسم گرامی لیا جاتا تو آپ پر بے ساختہ رقت طاری ہو جاتی اور کیفیت کے آثار نمایاں ہو جاتے۔ اِسی عشق اور محبت کے جذبہ صادقہ کی وجہ سے آپ کو ’’ اویس قرنی ‘‘ کے پیارے نام سے پکارا جاتا۔

آپ کے حلقۂ ارادت میں ہر قسم کے لوگ شامل تھے جیسے فقراء ، غرباء، امراء ، حکمران ، تاجر ، اور علما کرام ، آپ میں کمال درجے کا استغنا تھا، کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کسی کی جگہ پر جاتے تھے۔ آپ نے تحائف اور ہدایا تک قبول نہیں کئے۔ دنیاوی مخمصوں سے الگ ہو کر تبلیغ دین نبویﷺ، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور ذکر الٰہی کو اپنا شعار بنا لیا تھا۔ اپنی تمام زندگی اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی اور حضور پاک سیّد دوعالم ﷺ کی سنّت مبارک کی اتباع میں گزار دی۔ ۱۳ شعبان ۱۲۵۶ ہجری میں فوت ہو کر حضرت ابوالبرکات سیّد حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک کے اندرونی احاطہ کے دروازہ کے بالکل سامنے تھڑے پر دفن ہوئے۔ آپ کے دو فرزند تھے حضرت شاہ غلام صاحب المعروف بہ آغا میر جی صاحب، اور حضرت سیّد اکبر شاہ صاحب المعروف بہ آغا پیر جان صاحب رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما۔

JSN Epic is designed by JoomlaShine.com