/جنازے کے ساتھ زکرِ الہی
جنازے کے ساتھ
ذکرِالٰہی
کرنے کا مسئلہ
(فقیر) محمد امیر شاہ قادری
یکہ توت پشاور
اِنتساب
ان پاکیزہ قلوب اورصاحب اخلاق حمیدہ حضرات
کے نام
جنہوں نے یادِ الٰہی کے ذریعہ
اُمت محمدیہ کو
معرفت ِالٰہی کے نور سے منور کیا
رحمھم اﷲ تعالٰی علیھم اجمعین
(فقیر)محمد امیر شاہ قادری
یکہ توت پشاور
۴ ذِی قعدہ ۱۳۸۹ھ
یَا اَیَّھُا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اﷲَ ذِکْرًا کَثِیرًا
ترجمہ: اے ایمان والو اﷲ جل جلا لہ کو بہت زیادہ یا د کیاکرو۔
ذکر کن ذکر تا ترا جان است
فاذکروا اﷲ کار ہر اوباش نیست
1پاکئی دل ز ذکر رحمان است
ارجعی بر پائے ہر قلاش نیست
(مولانا روم )
’’عن انس (رضی اﷲ عنہ) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم اِذَ امَرَرْتُمْ بِرَیاضِ الْجَنّۃِ فَارْتَعُوْا قَا لُوا وَ ما رِیَاضُ الْجَنّۃ قَالَ حِلَقُ الّذِکِر (رواہ الترمذی)
ترجمہ: حضرت انس صسے روایت ہے کہ حضور اکرمنے فرمایا کہ تم جس وقت جنت کے باغوں سے گزرو تومیوہ خوری کرو۔ صحابہ (کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین) نے عرض کیا کہ بہشت کے کون سے باغ ہیں۔ پیغمبر اسلامنے ارشاد فرمایا کہ ذکر الٰہی کے حلقے ہیں۔
اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خان صاحب
فاضل بریلوی کی وصیت
’’ جنازہ میں بلا وجہ شرعی تاخیر نہ ہو، جنازہ کے آگے پڑھیں تو تم پر کروڑوں درود اور ذریعہ قادریہ ‘‘ (وصیت ۵)
یہ وصیت انجمن حزبِ الاحنا ف پاکستا ن لاہور نے زیر نگرانی حضرت صدر العلماء علامہ عصر ابو البرکات سید احمد صاحب صدر انجمن حزب الا حناف پاکستان لاہور طبع کی ہے اور پھر اس وصیت پر باقاعدہ عمل کیا گیا یعنی اعلیٰحضرت مرحوم و مغفور کے جنازہ کے آگے یہ نظمیں پڑھی گئیں۔ چنانچہ اسی وصا یا شریف کے ۱۷ سطر ۸پر لکھا ہوا موجو دہے کہ
’’حسب وصیت کروڑوں درود والی نظم نعت خوان پڑھ رہے تھے‘‘۔
حاجی الحرمین الشریفین حاجی امداد اﷲ صاحب
مہاجر مکی کے جنازہ کے ساتھ ذکر الٰہی
ہمارے حضرت حاجی صاحب قبلہ نے انتقال کے وقت مولوی اسمٰعیل صاحب سے فرمایا تھا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میرے جنازہ کے ساتھ ذکر بالجہر کیا جائے ۔انہوں نے کہا حضرت یہ تو نا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایک نئی بات ہے جس کو فقہا نے اس خیال سے کہ عوام سنت نہ سمجھ لیں، پسند نہیں کیا۔ فرمایا بہت اچھا جو مرضی ہو۔ خیر بات آئی گئی ہو گئی اور کسی کو اس کی خبر بھی نہیں ہوئی کیونکہ خلوت میں گفتگو ہوئی تھی مگر جب جنازہ اٹھا تو ایک عرب کی زبان سے نکلا اُذْکُروا اﷲ بس پھر کیا تھا ،بے ساختہ سب لوگ ذکر کرنے لگے اور لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲ کی صدائیں برابر قبرستان تک بلند ہوتی رہیں۔ بعد میں مولوی اسمٰعیل صاحب اس گفتگو کو نقل کر کے کہتے تھے کہ ہم نے حضرت کو تو منوا دیا مگر اﷲ تعالیٰ کو کیونکر منوائیں۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت کی تمنا پوری کردی ،سچ ہے:
تو چنیں خواہی خدا خواہد چنیں
/می دہد یزداں مراد متقیں
÷اﷲ تعالیٰ متقین کی مراد پوری کرتا ہے ،انہیں اﷲ کا نام سننے سے زندگی میں بھی لذت آتی ہے اور مرنے کے بعد بھی اور موت کے بعد غفلت کاکوئی سبب نہیں تو پھر غافل کیونکر ہو سکتے ہیں۔ (فضائل صبر و شکر صفحہ۴۲۳ از حکیم الا مت حضرت مولا نا اشرف علی صاحب تھانوی)
بِسْمِ اﷲ ِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِط
الحمد ﷲ رب العٰلمین و الصلٰوۃ والسلام علٰی سید الانبیآء و المرسلین و علٰی اٰلہٖ و اصحابہٖ اجمعین لا سیما و علٰی السیدنا الشیخ القطب الربانی و الغوث الصمدانی السید ابو محمد عبد القادر الحسنی الحسینی الجیلانی
رضی اﷲ عنہ المکین الا مین--- اما بعد
کثر ت سے ذکر الٰہی کرو
ذکر الٰہی ہر وقت، ہر طریقہ پر، ہر حال میں کرنا کوئی منع نہیں ہے، ناجائز نہیں ہے، ناروا نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان کیلئے ضروری اور لازمی ہے کہ ہر آن اور لمحہ یادِ الٰہی سے غافل اور بے پرواہ ہر گز نہ رہے اور کثرت سے یادِ الٰہی کرے ۔رب تعالیٰ جل جلالہ ارشاد فرماتے ہیں:
یَا اَیُّھَا اَلّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُروْا اﷲ ذکْرَاً کَثِیرَاً (الاحزاب:۴۱)
ترجمہ: اے ایمان والو اﷲ جل جلالہ کو بہت ہی زیادہ یا دکیا کرو۔
اسم اﷲ کے ذکر کرنے کا حکم
پارہ ۲۹سورہ المزمل آیت ۷-۸ میں امر و جوبی کے ساتھ ارشاد خداوندی ہے:
وَاذْ کُرِاسْمَ رَبِّک
Iاور اپنے رب تعالیٰ کے نام کا ذکر کر۔
=نماز کے ساتھ ذکر الٰہی کا حکم
دین اسلام کے بنیادی ارکان کی ادائیگی کے ساتھ ذکر الٰہی کا حکم الٰہی موجود ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
فَاِذَا قُضِیَت الصَّلوٰۃُ فَانْتَشِرُوْا فی الْارْضِ وَ ابْتَغوُاْ
مِنْ فَضْلِ اﷲ ِ وَاذکُرُوا اﷲ کَثِیْرَاً الَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo(سورہ جمعہ ۶۲:۱۰)
ترجمہ: پھر جب نماز ہو چکو توزمین میں پھیل جاؤاور اﷲ کا فضل تلا ش کرو اور اﷲ کو بہت یاد کرو۔ اس اُمید پرکہ فلاح پاؤ۔
نیز سورۂ نساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَاِذَا قَضَیْتْمُ الَصَّلوٰۃَ فَاذْکُروْا اﷲ قِیَامًا وَقُعُوْداً وَ عَلٰیجُنُوبِکُمْ (النساء:۱۰۳)
ترجمہ: پھر جب تم نمازپڑھ چکو تواﷲ کی یاد کرو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹے۔
حج کی ادائیگی کے بعد ذکر الٰہی کا حکم
سورہ البقرہ آیت ۲۰۰ میں ارشادِ خداوندی ہے کہ جب مناسک حج پورے کر چکو تو بکثرت یا د الٰہی کرو
فَاِذَ اقَضَیْتُم مَنَا سکَکُم فاذکُرُوا اﷲ کَذِکْرِ کُمْ اٰبَٓاءَ کُمْ اَوْ اَشَدَّ ذکرْاً
ترجمہ: پھر جب حج کے کام پورے کر چکو تو اﷲ کا ذکر کرو جیسے اپنے باپ دادا کا ذکر کرتے تھے بلکہ اس سے زیادہ۔
جہاد میں ذکر الٰہی کا حکم
جب جہاد ہو رہا ہو، معرکہ کارزار گرم ہو، موت سامنے دکھائی دے رہی ہو تو اس وقت بھی ارشادِخداوند قدوس ہے :
یَا اَیُّھا اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاْ ثُبُتُوْ وَاذْکُرُوا اﷲ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ
ترجمہ: اے ایمان والو جب کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو توثابت قدم رہو اوراﷲ کی یا د بہت کرو کہ تم مراد کو پہنچو۔ (سورۃ الانفال :۴۵)
ذکر الٰہی سے اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے تو اپنے ان بندوں کا ذکر ہی ان مبارک الفاظ کے ساتھ کیا ہے جو کہ اس ذاتِ اقدس کی طرف کلی طور پر رجوع کرتے ہیں اور اس کے فضل و کرم سے یادِ الٰہی کر کے دولت ایمان اور عمل صالح کی نعمت لازوال ان کو حاصل ہو جاتی ہے جس کی بدولت اﷲ جل شانہ کے انعاماتِ کثیرہ کے مستحق ہو جاتے ہیں۔نیز دنیا اور آخرت میں کامیا ب وسرخرو ہو جاتے ہیں۔
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا و تَطْمَئِنُّ قُلُوبُھُم بِذِکْرِ اﷲِ ط اَلََا بِذِکْرِ اﷲ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُO
اَلَذِّیْنَ اٰمَنُوْا وعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ طُوْبٰی لَھُمُ وَ حسْنُ مَآبٍ (الرعد:۲۸-۲۹)
ترجمہ: وہ جو ایمان لائے اور ان کے دل اﷲ کی یاد سے چین پاتے ہیں سن لو اﷲ کی یا دہی میں دلوں کا چین ہے وہ جو ایمان لائے اور اچھے کا م کئے،ان کو خوشی ہے اور اچھا انجام۔
ذکر الٰہی کرنے والے ہی صاحبان عقل ہیں
اﷲ تعالیٰ نے تو صاحبان عقل کی تعریف ہی یہی فرمائی ہے کہ وہ تمام احوال میں یادِ الٰہی کرتے رہتے ہیں۔
اَلّذِیْن یَذکُرُونَ اﷲَ قِیَا مًا وَّ قُعُوْدْاً وَعَلٰی جُنوْبِھِمْ (اٰل عمران :۱۹۱)
ترجمہ: جو اﷲ کی یاد کرتے ہیں، کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر ۔
صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کی معافی ذکر الٰہی پر موقوف ہے
جب کسی سے کوئی صغیرہ یا کبیرہ گنا ہ سر زد ہو جائے تو اس کی بخشش اور معافی بھی ذکر الٰہی پر موقوف رکھی ۔
وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْا اَنْفسَھُمْ ذَکَرُوا اﷲ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوبِھِم (آل عمران:۱۳۵)
ترجمہ: اور وہ کہ جب کوئی بے حیائی اور اپنی جانوں پر ظلم کریں اﷲ کو یاد کر کے اپنے گنا ہوں کی معافی چاہیں۔
مومنوں کے دل یاد الٰہی سے ڈرتے ہیں
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے جہاں مومنین کی تعریف میں یہ فرمایا کہ جب ان پر قرآن مجید کی تلاوت ہو تو ان کا ایمان ترقی پاتا ہے اور ان کا بھروسہ اپنے رب تعالیٰ پر ہوتا ہے وہ نماز کو قائم رکھنے والے ہوتے ہیں ،وہ ہماری عطا کی ہوئی دولت سے خرچ کرنے والے ہوتے ہیں وہاں پر ان ایمان داروں کی پہلی صفت ہی یہ بیان فرمائی کہ جب اﷲ کی یاد کی جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں ۔
اِ نَّما الْمُوْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُ کِرَ اﷲ ُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِم اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ ایْمَانًا وّ عَلٰی رَبّھِمْ یَتوَکِّلُوْنَO الَّذِیْنَ یقُیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ O (انفال :آیت ۲-۳)
ترجمہ : ایمان والے وہی ہیں کہ جب اﷲ کو یا د کیا جائے تو ان کے دل ڈر جائیں اورجب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کریں وہ جو نماز قائم رکھیں اور ہمارے دئیے سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کریں۔
بے ایمان لوگ اﷲ وحدہ لا شریک کی یاد سے کبیدہ خاطر ہو جاتے ہیں۔جن لوگوں کا آخرت پر یقین نہیں ہے تو یادِ الٰہی کے وقت کبیدہ خاطر اور متنفر نظر آتے ہیں ،ان کے چہروں سے ناگواری کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں اور پریشان ہو جاتے ہیں۔
وَ اِذَ ذُکِرَ اﷲ ُ وَحْدَہٗ اشَمَازَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُوْمِنُوْنَ باْ لاٰخِرَۃ (الزمر: ۴۵)
ترجمہ : اور جب اﷲ وحدہٗ کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ،ان کے دل سخت کبیدہ اور متنفر ہو جاتے ہیں۔
منافق کی شناخت
منافق کی علامات بیان کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے یہ بھی علامت بیان فرمائی کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی یاد کرتا ہی نہیں اور کرے تو بہت کم۔
اِنَّ الْمُناَفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اﷲ وَھُوَ خَادِعُھُمْ وَ اِذَ قَامُوْا اِلٰی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا
کُسَالٰی لا ےُرَآءُ وْنَ النَّاسَ وَلَا ےَذْکُرُوْنَ اﷲَ اِلاَّ قَلِیْلاً ط (النساء :۱۴۲)
ترجمہ: بیشک منافق لوگ اپنے گمان میں اﷲ کو دھوکا دے رہے ہیں حالانکہ اﷲ تعالیٰ انکو اس دھوکہ کی سزا دینے والا ہے۔اور یہ منافق جب نماز کیلئے کھڑے ہوتے ہیں تو محض لوگوں کے دکھلانے کو بڑی کاہلی اور بددلی سے کھڑے ہوتے ہیں اور خدا کا ذکر بھی نہیں کرتے مگر بہت کم--- الخ
اﷲ تعالیٰ کے فرشتے یادِ الٰہی کرنے والوں کو راستوں میں تلاش کرتے ہیں:
’’عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم ان ﷲ ملائکۃ یطوفون فی طرق یلتمسون اھل الذکر فاذا وجدوا قوما یذکرون اﷲ تناروا ھلموا الی حاجتکم قال
فیحفضونھم باجنتحھم الی السمآء الدنیا ‘‘(مشکوٰۃ ص ۱۹۷،ج ۱)
ترجمہ: حضر ت ابی ہریرہ صسے روایت ہے کہ رسولنے فرمایا بلاشبہ اﷲ تعالیٰ کے فرشتے راہوں میں پھر کر ذکر کرنے والوں کو ڈھونڈھتے ہیں،جب اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں کی جماعت کو پالیتے ہیں تو آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہیں کہ اپنے مطلب کی طرف آؤ ۔حضور اکرم فرمایا پھر فرشتے ان کو اپنے پروں سے آسمان دنیا تک گھیر لیتے ہیں۔
بہترین، بلند اخلاق اور اعلیٰ کردار کا مالک وہ ہے جس کی زبان پر مرتے دم تک ذکر الٰہی جاری ہو۔
عن عبداﷲ بن بسر قال جآء اعرابی الی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فقال ای الناس خیر فقال طوبی لمن طال عمرہ و حسن عملہ قال یا رسول اﷲ ای الاعمال افضل قال ان تفارق الد نیا و
لسانک رطب من ذکر اﷲ رواہ احمد والترمذی
(مشکٰوۃ المصابیح، صفحہ ۱۹۸)
ترجمہ: حضرت عبداﷲ بن بسر صسے روایت ہے کہ ایک گنوار رسول خداکی خدمت میں آیا پھر عرض کیا کہ کونسا عمل بہتر ہے تو رسول اکرمنے فرمایا خوشحالی اس شخص کیلئے ہے جسکی عمر لمبی اور عمل اچھے ہوں ،اس نے عرض کی یا رسولکونسا عمل افضل ہے رسول اﷲنے فرمایا یہ کہ تودنیا سے رخصت ہو اور تیری زبان اﷲ تعالیٰ کے ذکر سے تر ہو۔
ارشاد سید الکائناتہے کہ ذکر الٰہی کے حلقے جنت کے باغ ہیں۔
و عن انس قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و اٰلہ وسلم اذا مررتم بریاض الجنۃ فارتعوا قالوا و ما ریاض الجنۃ قال حلق الذکر --رواہ الترمذی۔
ترجمہ: حضرت انس صسے روایت ہے کہ حضور اکرمنے فرمایا کہ تم جس وقت بہشت کے باغوں سے گزرو تو میوہ خوری کرو۔ (صحابہ کرام رضی اﷲعنہم نے) عرض کیا کہ جنت کے کونسے باغ ہیں؟ (رسول اکرمنے )فرمایا ذکر کے حلقے ہیں۔
جو مجلس ذکر الٰہی کے بغیر ہی ختم ہو جائے اس پر افسوس اور حسرت ہے
عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ما من قوم یقومون من مجلس لا یذکرون اﷲ فیہ الا قاموا عن مثل جیفۃ
حمار و کان علیھم حسرۃ رواہ احمد و ابو داؤد
ترجمہ: حضرت ابی ہریرہ صسے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا کہ نہیں اٹھی کوئی قوم کسی مجلس سے کہ اس میں اﷲ تعالیٰ کا ذکر نہ کیا ہو مگراُٹھی مردار گدھے کی طرح اور ان پرحسرت و افسوس ہے۔
ذکر الٰہی ہی ایک ایسا پاکیزہ عمل ہے جو اﷲ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رکھتا ہے۔
عن معاذ بن جبل قال ماعمل العبد عملا انجی لہٗ من عذاب اﷲ من ذکر اﷲ رواہ مالک والترمذی و ابن ماجہ
ترجمہ: حضرت معاذ بن جبلصسے روایت ہے کہ بندہ کا کوئی عمل ایسا نہیں جو اسے عذابِ الٰہی سے بہت زیا دہ نجات دے بغیر ذکر اﷲ تعالیٰ کے ۔روایت کیا اس کو امام مالک و ترمذی اور ابن ماجہ نے۔
بوقت ذکر ذاکر کو قربِ الٰہی حاصل ہو جاتا ہے
عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اﷲ علیہ و اٰلہ وسلم ان اﷲ یقول انا مع عبدی اذ اذکرنی و تحرکت بی شفتاہ (رواہ البخاری)
ترجمہ :حضرت ابی ہریرہ صسے روایت ہے کہ رسول اﷲنے فرمایاتحقیق اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جس وقت وہ مجھے یا د کرتا ہے اور میرے ذکر کے ساتھ اپنے دونوں ہونٹ ہلاتا ہے ۔اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔
ذکر الٰہی سے قلب کے زنگ اتر جاتے ہیں
عن عبد اﷲ بن عمر عن البنی صلی اﷲ علیہ و الہ وسلم انہ کان یقول لکل شئی صقالہ و صقالۃ القلوب ذکر اﷲ و ما من شئی انجی من عذاب اﷲ من ذکر اﷲ قالو اولا الجھاد فی سبیل اﷲ قال ولا ان یضرب بسیفہٖ حتی ینقطع
رواہ البیھقی فی الدعوات الکبیر
ترجمہ :حضرت عبداﷲ بن عمرصسے روایت ہے وہ نبی اکرمسے روایت کرتے ہیں کہ آنحضور نے فرمایا ہر چیز کیلئے صفائی ہے اور دلوں کی صفائی اﷲ تعالیٰ کے ذکر سے ہوتی ہے اور اﷲ تعالیٰ کے ذکر سے بڑھ کر بندے کو کوئی شے زیادہ نجا ت دینے والی نہیں۔ (صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے) عرض کیا اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جہاد بھی نہیں؟ (حضور نے) فرمایا یہاں تک تلوار چلائے کہ وہ ٹوٹ جائے تو بھی نہیں ۔اس حدیث کو بیہقی نے دعوات کبیر میں روایت کیا۔
قرآن مجید اور احادیث مبارک سے واضح ہو گیا کہ ذکر الٰہی کرنے کا حکم ہر مسلمان مرد اور عورت پر ہر آن اور ہر لمحہ امر وجوبی ہے ۔ اسی لئے حضرات فقراء اسلام و صوفیائے عظام فرماتے ہیں کہ’’ یک دم غافل سودم کافر‘‘ ۔
اب رہا جنازہ کے آگے ذکر الٰہی کرنا ،تو جنازہ کے آگے ذکر الٰہی کرنا نہ فرض ہے نہ واجب بلکہ علماء اہلسنّت و جماعت فقراء اسلام اور صوفیاء کرام نے اس کو مستحسن لکھا ہے اور تقریباً چھ سو برس سے حضرات علماء کرام اس کے مستحسن ہونے پر فتویٰ صادر فرما چکے ہیں ۔
اسی وجہ سے مدت مدید اور زمانہ قدیم سے پشاور شہر میں حضرات سادات کرام کے جنازوں کے آگے ذکرِ الٰہی کے حلقے ہوتے ہیں اور صلوٰۃ و سلام پڑھا جاتا ہے۔ کبھی بھی او ر کسی وقت بھی علمائے اہلسنّت و جماعت نے سادات کرام کے حلقہ ہائے ذکر الٰہی کرنے یا صلوٰۃ و سلام کہنے پر اعتراض نہیں کیا بلکہ خود بنفس ہائے نفیس ان حلقہ ہائے ذکر میں شامل ہوئے ۔ یہاں تک کہ جس وقت علمائے اہلسنّت و جماعت سے کوئی عالم فوت ہوا تو اس کے جنازہ کے آگے بھی ذکر الٰہی کیا گیا۔ حضرت استاذِ گرامی شیخ التفسیر والحدیث، عالم علوم ظاہری و باطنی، علامہ وقت مولانا بالفضل اولیٰنا حافظ گل فقیر احمد صاحب گولڑوی خطیب جامع مسجد میاں صاحب قصہ خوانی نے اس فقیر کو احباب کی موجودگی میں فرمایا کہ’’ میرے جنازہ کے آگے بہت زیادہ ذکر کرنا ‘‘۔ الحمد اﷲ کہ آپ کا ارشاد پورا ہوا، آپ کے جنازہ میں سینکڑوں علماء فضلاء اور مشائخ کرام موجود تھے۔ حلقہ ہائے ذکر الٰہی میں شامل ہوئے اور آپ کے جنازہ پر ہر مکتبہ فکر کے علماء تشریف لائے ہوئے تھے، کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔ اسی طرح مفتی سرحد استاذ العلماء حضرت مولانا مولوی عبدالحکیم صاحب پوپلزئی مرحوم و مغفور کے جنازہ کے آگے ذکر الٰہی ہوتا رہا ،نہ تو کسی نے اعتراض کیا اور نہ ہی منع کیا۔
گزشتہ دنوں یہ فقیر بیمار تھا کہ استاذِ گرامی منزلت محدثِ جلیل حضرت علامہ مولانا مولوی عبدالمنان صاحبکا انتقال ہوا۔ چنانچہ حسب معمول ایک عالم اجل کے جنازہ کے آگے ذکر الٰہی ہوا، بعض بزعم خویش علامہ قسم کے مولویوں نے منع کیا اور قلت عرفان اور کمی علم کی بناء پر شدت اختیار کرتے ہوئے اس ذکر کو حرام تک کہہ دیا- نعُوذ باﷲ من ذالک اور جب ذاکر حضرات اور عوام مصر ہوگئے تو پھر کہا کہ جنازہ کے آگے ذکر نہ کرو پیچھے کرو وغیرہ وغیرہ ۔
چونکہ سادات کرام کا زمانہ قدیم سے یہ معمول ہے کہ وہ جنازہ کیساتھ ذکر الٰہی کرتے ہیں لہٰذا جو سید صاحب اس فقیر کی عیادت کو تشریف لائے انہوں نے اس جھگڑہ کا تذکرہ کیا اور اس قسم کا مطالبہ کیا کہ اس مسئلہ پر واضح طور پر روشنی ڈالی جائے تاکہ یہ سستی شہرت حاصل کرنے والے برائے نام علامہ عوام میں بے اتفاقی، جھگڑا اور فساد کی ایک نئی بنیاد نہ کھڑی کریں ۔
نہایت ہی افسوس کا مقام ہے کہ مستحبات اور امور مستحسنہ پر حضور شفیع المذنبین، رحمت للعالمین احمد مجتبیٰ حضر ت محمد مصطفیکی امت کو تقسیم کیا جاتا ہے، ٹکڑے ٹکڑے کیا جاتا ہے اور ان کے اند افتراق و تشتت کا بیج بویا جاتا ہے۔ اس وقت تو سرکار دو عالم کی تعلیمات مبارکہ پر آپکی سنت مطہرہ پر اور حضور پُر نورکے عزت و ناموس پر امت مرحومہ کو جمع کیا جائے، متحد کیا جائے، متفق کیا جائے تاکہ یہ بگڑی ہوئی حالت درست ہو نہ کہ ان میں بے اتفاقی پیداکی جائے جس سے اﷲ تعالیٰ اور اس کے روف و رحیم نبی کریم نے ہر ممکن طریقہ سے منع فرمایا ہے۔ فقیر کا خیال تھا کہ اس مسئلہ پر ایک مستقل اور مضبوط تحریر لکھ دوں جس میں اس مسئلہ کا ہر پہلو اجاگر ہو جائے اور ان شاء اﷲ تعالیٰ بحالی صحت کے بعد یہ کوشش کروں گا مگراس وقت اہلسنّت و جماعت اور محبانِ فقراء محمدیکیلئے اسی رسالہ کے اندر مندرجہ عبارات پر اکتفا کرتا ہوں۔ مشکوک اور بیمار دلوں والے لوگوں کیلئے یہ کافی و شافی ہیں ان شاء اﷲ تعالیٰ اور صحیح العقیدہ اہلسنّت و جماعت حضرات کیلئے مزید تقویت ایمان اور پختگی عقیدہ کا باعث ہیں۔
(فقیر)محمد امیر قادری
یکہ توت پشاور
مسئلہ نمبر ۳ فتاوی رضویہ ۴-۸ جلد ۴
از پنجاب ضلع جہلم ڈاکخانہ و ریلوے اسٹیشن ترقی موضع غازی ناڑہ
مرسلہسید محمد مجید الحسن صاحب
۵ ذی القعدہ ۱۳۲۹ ھ
مشہود خدمت جناب حجت قاہرہ مجدّد ماۃ حاضرہ مولانا مولوی احمد رضا خان صاحب دام ظلکم علی راس المسترشدین بعد سلام سنتہ الاسلام عرض ہے کہ اس ملک میں جنازہ کے آگے مولود خوانی میں اختلاف اور جھگڑا ہے ۔ ایک طائفہ بحرالرائق و مراقی الفلاح و قاضی خان و عالمگیری وغیرہا کی عبارات سے مکروہ تحریمی کہتے ہیں اور دوسری جماعت جائز و مستحب کہتی ہے۔ آپ کی تحریر پر جملہ مسلمانوں کا فیصلہ ہے ،کئی ماہ کے تنازع کا فیصلہ ہو گا۔
عبارات فریق قایل کراہت
رد المختار قیل تحریما و قیل تنزیھا کما فی البحر عن الغایۃ و فیہ عنھا و ینبغی لمن تبع الجنازۃ ان یطیل الصمت و فیہ عن الظھیر یۃ فان اراد ان یذکر اﷲ تعالٰی یذکر فی نفسہ لقولہ تعالٰی انہٗ لا یحب المعتدین ای الجاھرین بالدّعا قلت اذا کان ھذا فی الدّعا والذکر فما ظنک بالغناء الحارث فی ھذا الزمان بحرالرائق ینبغی لمن تبع الجنازۃ ان یطیل الصمت ویکرہ رفع الصوت بالذکر و قراء ۃ القرآن الخ
عبارت فریق قائل
بحلت عن ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما لم یکن یسمع من رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم و ھو یمشی خلف الجنازۃ الا وقل لا الہ الا اﷲ احزجہ ابن عدی فی ترجمۃ ابراھیم بن ابی حمید و ضعفہ تخریج احادیث الھدایۃ لابن حجر
یعنی اس سے ادنیٰ جہر ثابت ہوتا ہے وغیرہ بینوا و توجروا۔
الجواب
علیکم السلام و رحمۃ اﷲ و برکاتہ
ہاں کتب حنفیہ میں جنازہ کے ساتھ ذکر جہر کو مکروہ لکھا ہے جس طرح خود نفس ذکر جہر کو بکثرتِ کتب حنفیہ میں مکروہ بتایا حالانکہ وہ اطلاقات قرآن عظیم و احادیث حضور نبی کریم سیّد المرسلینسے ثابت ہے اور عند التحقیق کراہت کا عروض نظر بعوارض خارجہ غیر لازمہ ہے جیسا کہ علامہ خیرالدین رملی استاد صاحب درمختار وغیرہ محققین نے تحقیق فرمایا اورہم نے اپنے فتوےٰ میں اوسے منقح کیا یہاں بھی اوس کا منشاء عوارض ہی ہیں۔ قلب ہمراہیان کا مشوش ہونا یا وموت سے دوسری طرف توجہ کرنا انصاف کیجئے تو یہ حکم اوس زمانہ خیر کیلئے تھا جبکہ ہمراہیان جنازہ تصور موت میں ایسے غرق ہوتے تھے کہ گویامیّت اون میں سے ہر ایک کا خاص اپنا کوئی جگر پارہ ہے بلکہ گویا خود ہی میّت ہیں، ہمیں کو جنازہ پر لئے جاتے ہیں اور اب قبر میں رکھیں گے۔ لہٰذا علماء نے سکوت محض کو پسند کیا تھا کہ کلام اگرچہ ذکر ہی ہو اگرچہ آہستہ ہو اس تصور سے کہ (بغایت نافع اور مفید اور برسوں کے زنگ دل سے دھو دینے ولاہے) روکے گا یا کم از کم دل بٹ تو جائے گا تو اس وقت محض خاموشی ہی مناسب تر ہے۔ ورنہ حاشا ﷲ ذکر خدا اور رسول کسی وقت منع نہیں ہے ۔ام المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں
کان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یذکر اﷲ تعالٰی علٰی کلّ احیانہ رواہ مسلم و احمد و ابو داؤد والترمذی و ابن ماجہ و علقہ البخارینہ کوئی چیز اس سے بہتر قال اﷲ عزّ و جل و لذکراﷲ اکبر
اب کہ زمانہ منقلب ہوا ،لوگ جنازہ کے ساتھ او ر دفن کے وقت اور قبروں پر بیٹھ کر لغویات و فضولیات اور دنیوی تذکروں بلکہ خندہ ولہو میں مشغول ہوتے ہیں تو انہیں ذکر خدا اور رسول جل و علیٰ و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف مشغول کرنا عین صواب و کارِ ثواب ہے۔ لہٰذاجنازہ کے ساتھ ذکر جہر کی کراہت میں اختلاف ہے کہ تحریمی ہے یا تنز یہی ہے اور ترجیح بھی مختلف آئی ،قینہمیں کراہت تنز یہ کو ترجیح دی اور اسی پر فتاویٰ تتمہّ میں جزم فرمایا اور یہی تجرید و مجتبیٰ و حا وی و بحرالرائق وغیر ہا کے لفظ ینبغی کا مفاد ہے اور ترکِ اولیٰ اصلاً گناہ نہیں۔
کما نصوا علیہ وحققناہ فی جمل مجلیہاور عوام کو اﷲ عزوجل کے ایسے ذکر سے منع کرنا جو شرعاً گناہ نہ ہو محض بد خواہی عام مسلمین ہے اور اس کا مر تکب نہ ہو گا مگر متقشف کہ مقاصد شرع سے جاہل و نا واقف ہو یا متصلف کہ مسلمانوں میں اختلاف ڈال کر اپنی رفعت و شہرت چاہتا ہو بلکہ آئمہ ناصحین تو یہا ں تک فرماتے ہیں کہ منع کرنا اس منکر سے ضرور ہے جو بالاجماع حرام ہو بلکہ تصریح فرمائیں کہ عوام اگر کسی طرح یادِ خدا میں مشغول ہوں ہر گز منع نہ کئے جائیں اگرچہ وہ طریقہ اپنے مذہب میں حرام ہو مثلاً سورج نکلتے وقت نماز حرام ہے اور عوام پڑھتے ہوں تو نہ روکے جائیں کہ کسی طرح وہ خدا کا نام تو لیں، اُسے سجدہ تو کریں۔ اگرچہ کسی دوسرے مذہب پر اس کی صحت ہو سکے۔ امام عارف باﷲ ناصح الامہ سیدی عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی کتاب مستطاب ’’الحدیقۃ الندیہ فی شرح الطریقۃ المحمدیہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’قال فی شرح الطحاوی و علی مشیع الجنازۃ الصمت و عبر فی المجتبٰی و التجرید و الحاوی ینبغی ان یطیل الصمت و سنن المرسلین الصمت معھا کزا فی منیۃ المفتی و یکرہ لھم رفع الصوت کراھۃ تحریم و قیل تنزیھہ متبغی کراھۃ تنزیہ و قیل تحریم قنیہ و یکرہ علی معنٰی انہ تارک الاولٰی کما عزّاہ فی التّمۃ الٰی والدہ و فی شرعۃ الا سلام المسمی بجا مع الشروع یستکثر من التسبیح و التھلیل علٰی سبیل الاخفاء خلف الجنازۃ ولا یتکلم بشیی من امرالدنیا لکن بعض المشائخ جوز والذکر الجھری ورفع الصوت بالتعظیم بغیر التغیر بادخال حرف فی خلالہ قدام الجنازۃ وخلفھا لتلقین المیت ولاموات والاحیاء و تنبیہ الغفلۃ والظلمۃ و اذالۃ صداء القلوب و قساوتھا بحب الدنیا و ریاستھا و فی کتاب العھود المحمدیۃ للیشخ الشعرانی قدّس اﷲ سرہ ینبغی لعالم الحارہ ان یعلم من یرید المشی مع الجنازۃ عدم اللغو فیھا و ذکر من تولٰی و عزل من الولاۃ او سافر و رجع من التجار و نحوذ لک و قد کان السلف الصالح لا یتکلمون فی الجنازۃ الا بما ورد وکان الغریب لا یعرف من ھو القریب من المیت حتی یعرف لغلبۃ الحزن علی الحاضرین کلھم و کان سیدی علی الخواص رضی اﷲ تعالٰی عنہ یقول اذا علم من الماشین مع الجنازۃ انھم لا یترکون اللغو فی الجنازۃ و یشتغلون باحوال الدّنیا فینبغی ان یامرھم بقول لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فان ذلک افضل من ترکہ ولا ینبغی لفقیہ ان ینکر ذلک الا بنص و اجماع فان مع المسلمین الاذن العام من الشارع بقول لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ فی کل وقت شاؤا و باﷲ العجب من عمی قلب من ینکر مثل ھذا و ربما عزم عند الحکام الفلوس حتی یبطل قول المومنین لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی طریقۃ الجنازۃ و ھویری الحشیش یباع فلا یکلف خاطرہ ان یقول لحشاش حرام علیک بل رایت فقیھا منھم یاخذ معلوم امامۃ من فلوس بائع الحشیش فنسأل اﷲ العافیۃ وذکر الشقرانی ایضاً رحمہ اﷲ تعالٰی فی کتابہ عھود المشائخ قال لا نمکن احدامن اخواننا ینکر شیئا ابتدعہ المسلمون علی جھۃ القربۃ الٰی اﷲ تعالٰی و راؤہ حسنا لا سیما ما کان متعلقا بااﷲ تعالٰی و رسولہ صلی اﷲ علیہ وسلم کقول الناس امام الجنازۃ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم و قراء ۃ القران امامھا و نحوذ لک فمن حرم ذلک فھو قاصر عن فھم الشریعۃ لانہ ماکل مالم یکن علٰی عھد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یکون مذمو ماد لو فتح ھذالباب لروت اقوال المجتھدین جمیع ما استحبو امن المحاسن ولا قائل بہ وقد فتح رسول اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لعلماء امتہ ھذالباب و اباح لھم ان سینوا کل شیئی استھنوہ ویلحقوہ بشریعۃ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ و سلم بقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من سن سنۃ حسنۃ فلہ اجرہ واجر من یعمل بھا و کلمۃ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعا لٰی علیہ وسلم اکبر الحسنات فکیف یمنع منھا و تأمل احوال غالب الخلق الآن فی الجنازۃ تجدھم مشغولین بحکایت الدنیا لم یعتبروا بالمیت و قلبھم غافل عن جمیع ما وقع لہ بل رأیت منھم من یضحک و اذا تعارض عندنا مثل ذلک وکون ذلک لم یکن فی عھد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قدمنا ذکر اﷲ عزّو جل فلوصاح کل من فی الجنازۃ لا الہ الا اﷲ فلا اعتراض ولم یاتنا فی ذلک شیئی عن رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فلو کان ذکر اﷲ تعالٰی فی الجنازۃ منھیا عنہ لبلغنا ولو فی حدیث کما بلغنا قراء ۃ القرآن فی الرکوع و شیئی سکت عنہ الشارع صلی اﷲ علیہ و اٰلہ وسلم
اوائل الاسلام لا یمنع منہ اواخر الزّمان اوہ باختصار قلیل‘‘
اس کلام جمیل امام جلیل رحمہ اﷲ تعالیٰ کا خلاصہ ارشادات چند افادات
(۱) سلف صالح کی حالت جنازہ میں یہ ہوتی کہ ناواقف کو نہ معلوم ہوتا کہ ان میں اہل میّت کون ہے اور باقی ہمراہ کون ۔سب ایک سے مغموم و محزون نظر آتے اور اب حال یہ ہے کہ جنازہ میں دنیاوی باتوں میں مشغول ہوتے ہیں۔ موت سے انہیں کوئی عبرت نہیں ہوتی ،اُن کے دل اس سے غافل ہیں کہ میّت پر کیا گزری ،فرماتے ہیں بلکہ میں نے جنازے میں لوگوں کو ہنستے دیکھا، تو ایسی حالت میں ذکر جہر کرنا اور تعظیم خدا اور رُسول جل جلالہ وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بلند آواز سے پڑھنا عین نصیحت ہے کہ ان کے دلوں کے زنگ چھوٹیں اور غفلت سے بیدار ہوں۔
(۲) نیز اس میں میت کو تلقین ذکر کا فائدہ ہے کہ وہ سن سن کر سوالات نکیرین کے جواب کیلئے تیار ہو۔
(۳) سیدی علی خواص صنے فرمایا کہ شارع علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے مسلمانوں کو ذکر خدا اور رسول جل و علیٰ وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم کا اذن عام ہے تو جب تک کسی خاص صورت کی ممانعت میں کوئی نص یا اجماع نہ ہو انکار کیا مناسب ہے۔
(۴) نیز انہیں امام عارف نے فرمایا: الٰہی جو اس سے منع کرے اسکا دل کس قدر سخت اندھا ہے۔ جنازہ کے ساتھ ذکر خدا و رسول جل و علی وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بند کرنے کی تو یہ کوشش اور بھنگ بکتی دیکھیں تو اُس سے اتنا نہ کہیں کہ یہ تجھ پر حرام ہے ،فرماتے ہیں بلکہ میں نے انہیں میں سے ایک کو دیکھا کہ اس سے تو منع کرتا اور خود اپنی پیش نمازی کی تنخواہ بھنگ فروش کے حرام مال سے لیتا۔
(۵) امام عارف باﷲ سیدی شعرانی قدس سرہ الربانی فرماتے ہیں اکابر کرام کے یہاں عہد ہے جو اچھی بات مسلمانوں نے نئی نکالی ہو اس سے منع نہ کریں گے۔ خصوصاً جب وہ اﷲ و رسول عز و جل و صلی اﷲ علیہ وسلم سے تعلق رکھتی ہو جیسے جنازہ کے ساتھ قرآن مجید یا کلمہ شریف یا اور ذکر خدا اور رسول کر نا جل وعلیٰ وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ۔
(۶) نیز امام ممد وح فرماتے ہیں جو اُسے ناجائز کہے اُسے شریعت کی سمجھ نہیں۔
(۷) نیز فرماتے ہیں ہر وہ بات کہ زمان برکت تو اماں حضور پر نور سید عالم میں نہ تھی مذموم نہیں ہوتی ورنہ اس کا دروازہ کھلے تو آئمہ مجتہدین نے جتنی نیک باتیں نکالیں۔ ان کے وہ سب اقوال مردود ہو جائیں۔
(۸) فرماتے ہیں بلکہ رسول اﷲ نے اپنے اس ارشادسے کہ (جو شخص دین اسلام میں نیک بات نکالے اسے اس کا اجر ملے اور قیامت تک جتنے لوگ اس نیک بات کو بجا لائیں۔ سب کا ثواب اس ایجا د کنندہ کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے) ۔علمائے امت کیلئے اس کا دروازہ کھولاہے کہ نیک طریقے ایجاد کر کے جاری کریں اور انہیں شریعت محمدیہ سے ملحق کریں۔ یعنی جب حضور انور نے یہ عام اجازت فرمائی ہے تو جو نیک بات نئی پیدا ہوگی وہ نئی نہیں بلکہ حضور کے اس اذنِ عام سے حضورہی کی شریعت ہے۔
(۹) فرماتے ہیں کہ شرعِ مطہر میں اس سے مما نعت نہ آنا ہی اس کے جواز کی دلیل ہے ،اگر جنازہ کے ساتھ ذکر الٰہی منع ہوتا تو کم از کم ایک حدیث تو اس کی مما نعت میں آتی جیسے رکو ع میں قرآن مجید پڑھنا منع ہے تو اس کی مما نعت کی حدیث موجود ہے تو جس چیز سے حضور نبی کریمنے سکوت فرمایا وہ کبھی ہمارے زمانہ میں منع نہیں ہو سکتی۔
(۱۰) نتیجہ یہ نکلا کہ اگر جنازہ کے تما م ہمراہی بلند آواز سے کلمہ طیبہ و غیرہا ذکر خدا اور رسول عزو علیٰ و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کرتے چلیں تو کچھ اعتراض نہیں بلکہ اس کا کرنا نہ کرنے سے افضل ہے۔ نیز امام نابلسی ممدوح کتاب مذکورمیں فرماتے ہیں:
’’لا ینبغی ان ینھی الواعظ عما قال بہ امام من ائمۃ المسلمین بل ینبغی ان یقع النھی عما اجمع الآ ئمۃ کلھم علی تحریمہ
’’در مختار‘‘ میں ہے
’’ کرہ تحریمًا صلاۃ مع شروق الا العوام فلا یمنعون من فعلھا لانھم یترکونھا ولاء الجائز عند البعض اولٰی من الترک کما فی القنیۃ وغیرھا قلت و نقلہ سیدی عبدالغنی فی الحدیقۃ عن شرح الدرر عن المصفی شرح النسفیۃ عن شیخ الامام الاستاذ حمید الدین عن شیخہ الامام الاجل الترابد جمال الدین المحبوبی و ایضًا عن شمس الائمۃ الحلوانی و عن القنیۃ عن النسفی و الحلوانی و ایضاً فی الدرر المختارعن الجر عن المجتبٰی عن الامام الفقیہ ابی جعفر فی مسئلۃ التکبیر فی الاسواق فی الایا م العشر الذی عندی انہ لا ینبغی ان تمنع العامۃ عنہ لقلۃ رغبتھم فی الجیروبہ نا خذاھ فی الحدیقۃ و من ھذا القبیل نھی الناس عن صلاۃ الرغائب بالجماعۃ وصلاۃ لیلۃ القدر و نحو ذلک و ان صرح العلماء بالکرٰھۃ بالجماعۃ فیھا فلا یفتی بذکر العوام لئلا
تقل رغبتھم فی الخیرات واﷲ تعالٰی اعلم‘‘
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت مفتی پاکستان صدر العلماء علامہ عصر
حضرت ابو البرکات سید سعید احمد شاہ صاحب
(صدر جمعیت العلماء پاکستا ن و صدر انجمن حزب الاحناف پاکستان لاہور)
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جنازہ کے آگے ذکر جہر کرنا اور نعت خوانی کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ سائل تاج محمد صدیقی ،یکہ توت پشاور۔
الجواب و ھو الموفق للصواب
ذکر الٰہی و نعت رسالت پناہی جل مجدہ و صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم ہر حال میں مقصود و محمود ہے، منع کرنے والا مناع للخیر کا مصداق ہے ۔جنازہ کے ساتھ کلمہ طیبہ پڑھنا اور حلقہ ذکر کرنا بنظر ایصال ثواب موجب ثواب بے حساب ہے ۔ذکر جہری ہو یا سرّی حسب اختلاف احوال منصوص و مستحسن ہے ،قرآن کریم میں فرمایا
یا ایھا الذین امنوا اذکروا اﷲ ذکرا کثیرا
تفسیر روح البیان میں ہے ای یذکرونہ و ائما علی الحالات کلھا قائمین و قائدین و مضطجعین فان الانسان لا یخلوا عن ھذہ الھیسئات غالباً ان آیا ت شریفہ میں حق تعالیٰ ان داناؤ ں اور عقلمندوں کی نعت و صفت بیان فرما رہا ہے۔ جوخدا کا ہر حال میں ذکر کرتے ہیں ،کسی حال میں خدا کی یاد سے غافل نہیں رہتے خواہ کھڑے ہوں یا لیٹے، ہر ہئیت و حالت میں ذکر الٰہی سے رطب اللسان رہتے ہیں۔جنازہ کے ساتھ کلمہ طیبہ کا ذکر کرنا بھی اس میں داخل ہے ۔آیہ کریمہ کے عموم و اطلاق کو اپنے اوہام و شکوک اور خیالِ فاسد و ظن باطل سے باطل نہیں کر سکتے ۔مفسرین کرام نے بعد تخصیص ذکر کو عام رکھا ہے ،ابو السعود میں اس کی تفسیر یوں ہے:
’’و المراد تعلیم الذکر للاوقات کما صر و تخصیص الاحوال الذکور لیس لتخصیص الذکر بھا بل لانھا الاحوال المعھور
التی لا یخلو عنھا الانسان غالیا‘‘
جملہ تفاسیر میں ذکر کو عام رکھا ہے ،خلاصہ آیات فقہ تفاسیر یہ ہے کہ ہر انسان کو چاہئے کہ ہر حال میں اپنے رب تعالیٰ کا ذکر کرتارہے اور اس کی یاد سے کسی وقت غافل نہ ہو ،کھڑے ہوئے لیٹے ہوئے چلتے ہوئے ہر حالت میں ذکر شریف کرے اور انا جلیس من ذکر نی کا لطف اُٹھائے اور بفحوائے حدیث شریف من حسن الاسلام المر ء ترک مالا یعنیہخوبی ِاسلام سے یہ ہے کہ انسان لا یعنی اور بے ہودہ اور لغو باتوں کو چھوڑ دے اور ہر دم مولا تعالیٰ کی یاد میں مشغول رہے۔ پس صورت مسؤلہ بھی اسی عموم و اطلاق میں داخل ہے۔ اس وقت ذکر کو کون منع کر کے مناع للخیر کا مصداق بننا گوارا کریگا۔ وہابی فرقہ وغیرہ کی یہ عادت ہے کہ اہلسنّت و الجماعت کے ہر فعل پر اعتراض کریں گے اور شرک و کفر و بدعت و معصیت کا حکم لگا دیں گے۔ ان شرک فروشوں کو اتنا بھی نہیں سوجھتا کہ اس زمانہ پر آشوب میں کہ ہر گھر میں ہر دکان میں چوراہوں اور بازاروں میں رقص و سرود کی محفلیں بالواسطہ یا بلا واسطہ گرم ہیں۔ اگر کوئی وقت یادِ الٰہی میں صرف ہو جائے تو غنیمت ہے۔ عموماً جنازہ کے ساتھ جانے والوں کو دیکھا ہے کہ دنیوی باتیں کرتے جاتے ہیں کوئی سگرٹ پی رہا ہے ،کوئی کسی کا گلہ و شکوہ کر رہا ہے ،اس حلقہ ذکر کی برکت سے وہ کم از کم خاموش رہیں گے تو یہ طریقہ بہتر ہے کہ صدہا بُری باتوں سے لوگ محفوظ رہتے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں کلمہ طیبہ کا ثواب نقد وقت میت کو پہنچ جاتا ہے۔ یہاں ایک حکایت قابل ذکر ہے حضرت سید الطائفہ سیّد ناجنید بغدادی کے ایک مرید کا رنگ یکایک متغیر ہو گیا ،آپ نے سبب دریافت کیا ،اس نے بروئے مکاشفہ عرض کیا کہ اپنی ماں کو دوزخ میں دیکھتا ہوں اسلئے پریشان ہوں ۔ حضرت نے ایک لاکھ پچھتر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ کسی وقت پڑھا تھا، ابھی تک اس کا ثواب کسی کو نہیں بخشا تھا تو بفحوائے حدیث شریف کہ حضور پُر نو ر سید عالم نے ارشاد فرمایا ہے کہ پچھتر ہزار یا سوالاکھ کلمہ شریف پڑھ کر اگر بخشا جائے تو اس میت کی مغفرت ہو جاتی ہے ،اپنے دل ہی دل میں اس مرید کی مامتا کو اس کا ثواب بخش دیا اور اس کو اطلاع نہ کی۔ مگر بخشتے ہی کیا دیکھتے ہیں کہ وہ جوان ہشاش بشاش ہے اور اس کا غم و الم دور ہو گیا ،آپ نے پھر سبب دریافت کیا ۔اس نے عرض کیا اب اپنی والدہ کو جنت میں دیکھتا ہوں۔ اس کو سن کر آپ نے فرمایا کہ جوان کے مکاشفہ کی صحت توحدیث سے معلوم ہوئی اور حدیث کی تصحیح اس کے مکاشفہ سے ہوئی ۔اس حکایت سے مانعین کو سبق حاصل کرنا چاہئے کہ جنازہ کے ساتھ جو کلمہ طیبہ پڑھا جاتا ہے اس کی برکت سے قبر تک پہنچنے سے پہلے ہی اُمید مغفرت ہے اور میت کالغریق المستغیث بخشش کی طرح ہوتا ہے اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں سوائے صدقاتِ جاریہ کے ،احیاء کی طرف سے جو ثواب پہنچایا جائے وہ اس کیلئے غنیمت ہے ۔الحاصل جنازہ کے ساتھ کلمہ طیبہ بلند آواز سے پڑھنا فی زماننا جائز و مستحسن ہے اور احیاء اموات خصوصاً اس میت کو نفع عظیم پہنچتا ہے اور ایسے مفید اور کار آمد امر سے خاص کر اس دور پر فتن میں کہ عوام سر تا پا پیکر غفلت بنے ہوئے ہیں ذکر الٰہی سے روکنا ہر گز ناجائز اور اس کے ممنوعیت میں کوئی وجہ شرعی موجود نہیں ہے اور اس کارِ خیر کو شرک و کفر اور حرام قطعی کہنا اور اس کے فاعلین کو گمراہ جاننا جدید شریعت گھڑنا ہے۔ اس مسئلہ میں علماء متقدمین نے صدہا رسائل تصنیف و تالیف فرمائے لیکن مانعین و معاندین شرارت سے باز نہ آئے اور دن بدن یہ عمل بڑھتا جاتا ہے۔ بمبئی وکا ٹھیا واڑ وغیرہ میں قدیم الایام سے ذکر جہر کا جنازہ کے ساتھ کرنا معمول چلا آیا ہے۔ شعر
مٹ گئے، مٹتے ہیں، مٹ جائیں گے اعداتیرے
نہ مٹا ہے، نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا
و اﷲ تعالٰی اعلم
فقیرقادری ابو البرکات سید احمد غفرلہٗ
ناظم انجمن و دارالعلوم مرکزی انجمن حزب الاحناف
اندرون دہلی گیٹ لاہور پاکستان
۲ دسمبر ۱۹۴۹ ء
بمعہ مہر دارالافتاء
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مفتی اعظم جمعیت العلماء اہلسنّت والجماعۃ
الحاج حضرت مولانا مولوی شائستہ گل صاحب
(لنڈی شاہ متہ مردان ،صوبہ سرحد)
مندرجہ بالا فتوؤں سے معلوم ہوا کہ موجودہ وقت کے ہر دو مکاتیب فکر یعنی علماء بریلوی اور علماء دیوبند کے امام یعنی امام اہلسنّت و جماعت اعلیٰحضرت احمد رضا خا ن صاحب فاضل بریلی علیہ الرحمہ اور حضرت شیخ العرب و العجم حضرت الحاج امداد اﷲ صاحب مہاجر مکینے اپنے اپنے عمل سے جنازہ کے ساتھ حضور سرورعالم عالمیان شافع یو م النشور احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفیکی نعت خوانی اور اﷲ تبارک و تعالیٰ جل جلالہ کے ذکر کو کروانے کی تلقین فرمائی ہے اور جائز قرار دیا ہے ۔ لہٰذا اب اس مسئلہ میں ہر دو مکاتیب فکر کے نزدیک کسی قسم کے اختلاف و نزاع کی ضرورت نہیں۔
قرآن مجید اور احادیث شریفہ سے ہر ممکن ذکر الٰہی کرنے کا ایسے طریقہ پر اطلاق ہو رہا ہے جو صریحاً موجود ہے ۔مندرجہ بالا قرآن مجید اور احادیث شریف کے حوالوں سے ذکر الٰہی کرنے کے ہر ممکن اطلاقات ثابت ہیں بلکہ ذکر الٰہی کرنے کا ہر فرد پر صریحاً اطلاق مذکور ہے۔ لہٰذا کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ جنازہ کے ساتھ ذکر الٰہی نہ کیا جائے چنانچہ یہ مسئلہ میرے رسالہ دلالۃ المطلق علٰی کل فرد اصدق میں بخوبی واضح طور پر ثابت ہے، مطالعہ فرماویں۔
اسی طرح فقہاءِ کرام کے احکام بھی واضح اور روشن ہیں کہ فی الحقیقت ہر شے میں اباحت موجود ہے جب تک کہ نہی صریح موجود نہ ہو اور چونکہ جنازہ کے ساتھ ذکر الٰہی کرنے پر کوئی صریح نہی قرآن مجید اور حدیث متبرکہ میں موجود نہیں ہے لہٰذا اس کے مستحسن ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے۔اقوالِ فقہاء جن سے کراہت مترشح ہوتی ہے اس کا جواب مندرجہ ذیل عبارت میں موجود ہے:
’’فھو ھذا و زاد فی التستار خانیۃ و اما رفع الصوت عند الجنائز فیحتمل ان المراد منہ النوح و الدعا للمیت بعد ما افتتح الناس اولا فراط فی مدحہکعادۃ الجاھلیۃ بما ھو شبیہ المعال و اما
اصل الثناء علیہ فغیر مکروہ‘‘ (تستارخانیہ ثم الشامی جلد ۵ کراہیہ ۲۶۳)