اثبات
ختم مُبٰارک

آیۂ کریمہ

 


لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اِنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ط

 

 

 

 

مؤ لّفہ
(فقیر) سیّد محمد امیر شاہ قادری گیلانی
شاہ محمد غوث اکیڈمی ، یکہ توت پشاور



جملہ حقوق بحقِ مؤلف محفوظ ہیں۔



نام کتاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اثباتِ ختم مبارک آیۂ کریمہ
مؤلف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(فقیر)محمد امیر شاہ قادری گیلانی
برائے ایصالِ ثواب۔۔۔(دادی صاحبہ محترمہ مرحومہ) محمد سبطین گیلانی یکہ توت شریف پشاور شہر
مطبع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناشر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہ محمد غوث اکیڈمی یکہ تُوت پشاور شہر (پاکستان)
تاریخ اشاعت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مئی
۶۹۹۱ ؁ ء





با سمہٖ تعالیٰ


الحمد اللّٰہ رب العٰلمین و العاقبۃ للمتقین والصّلٰوۃ والسلام علٰی سید الا نبیاء والمرسلین و علیٰ اٰلہٖ و اصحابہٖ وازواجہٖ و ذریاتہٖ اولیآء اُمّتہٖ اجمعین
O لا سیما علیٰ سیّدنا و مولیٰنا و مرشدنا الغوث الا فخم السیّد ابو محی الدّین عبدالقادرالمکی الا مین الجیلانی البغدادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ط



امَّا بعد !
اہلِ وطن اس بات سے بے خبر نہیں کہ عالم اسلام اس وقت یہودیوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کی سازشوں اور، ریشہ دوانیوں کی زَد میں ہے اور ہمارا پیارا وطن پاکستا ن غیر مُسلموں کی نظروں میں بُری طرح کھٹک رہا ہے اور ہمارے وطن عزیز کے خلاف اُن کی گھناؤنی شازشوں میں دِن بہ دِن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جن کی وجہ سے ملّتِ اِسلامیّہ پاکستا ن کے اتحاد و اتفاق اور یک جہتی کو پارہ پارہ کرنے اور تشتت و افتراق کو ہر طرف پھیلانے کی ہر ممکن سعی کی جارہی ہے۔ یہ سازشیں مختلف نوع اور رویّو ں میں مختلف طریقو ں پر بروئے کار لائی جا رہی ہیں ان سازشوں میں سے ایک سازش یہ بھی ہے کہ اُن علماء و مشائخ کی مخالفت اور کردار کُشی کے جائے جنہوں نے سردھڑ کی بازی لگا کر پاکستان بنا یا۔ چنانچہ مخالفینِ پاکستان کی طرف سے ان برگزیدہ ہستیوں کے عقائد و اعمال، افکا ر و نظریا ت ، عبادات، ختمات، اور اد عرس کی تقریبات اور خانقاہی نظام تبلیغ و اشاعتِ دین پر کُھلّم کُھلا اور نہایت منظم طریقے سے حملے کیے جارہے ہیں۔ چونکہ اِن عُلماء و مشائخ کے قلوب و اذہان روح اسلام سے سر شار اور جنا ب محمد رسول اللہ ﷺ کے عشق سے منّور ہیں اور یہ اُمتِ محمد یہ ﷺ کے دِلوں کو بھی عشق مصطفٰے ﷺ سے مستنیر کر کے پاکستان میں نظام مصطفی ﷺ رائج کرنے کے خواہاں ہیں جو اُن کے مخالفوں سے برداشت نہیں ہوتا اور وہ ان کے خلاف ہرزہ سرائی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے اور آئے دن نئے نئے فتنے کھڑے کرتے رہتے ہیں جس کی بدولت تحریکِ پاکستا ن کے ان مخلص قائد ین کے لئے یہ انتہائی آزمائش اور ابتلا کا دور ہے۔


اگر خدانخواستہ ملک و ملت اور علماء و مشائخ کے یہ حریف اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب ہو کر اس وطن پاک کو لسانی، طبقاتی اور فرقہ بندی کی بنیا د پر کوئی گزند یا تکلیف پہنچا دیں تو یہ دنیائے اسلام کا بہت بڑا نقصان ہو گا جس کی تلافی ممکن نہ ہو سکے گی اور اس سے اسلام کا شیرازہ بھی منتشر ہو جائے گا لہٰذا جن لوگوں نے قیام پاکستان میں حصّہ لیا اور وہ پاکستان کو مضبوط و خوشحال دیکھنے کے متمنی ہیں۔ ان پر لازم ہے کہ وہ دشمنانِ پاکستان کی ان ریشہ دوانیوں سے نہ صرف اپنے آپ کو باخبر رکھیں بلکہ ان کے سدِّ باب کے لئے اپنی مساعی جمیلہ بروئے کا ر لا کر ان کی سر کوبی کریں۔
اس ضمن میں یہ عرض کرنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ دُنیا غم و اندوہ کی آما جگاہ ہے اور حضرات انبیاء اولیا ء کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ اپنے مصائب و مشکلات کو دُور کرنے کے لئے بارگاہِ الٰہی کی طرف رجو ع کرتے رہے خصوصاً قرآن مجید فرقانِ حمید کی سورۂ مبارکہ الانبیاء کی آیۃ کریمہ لَآ اِلٰہَ اِ لاَّ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّلِمِیْنَ
O کے ورد اور ختم مبارکہ کے وسیلے سے دُعا ء کرنے پر حضراتِ مشائخ عظام کا اجماع ہے اور مشائخ کرام اس کی سرعت تاثیر اور قبولیت پر متفق ہیں اور وہ آج بھی اس پر عمل پیراہیں لیکن دشمنانِ ملّت نے اس خالصتًا دینی عمل کو بھی مخالفت اور تنقید کا نشانہ بنا رکھا ہے اور لوگوں کے دِلوں میں شکوک و شبہا ت پیدا کر کے اپنے خالق و مالک کے ساتھ اُن کے تعلق کو ختم کرنے کی جسارت کر رہے ہیں لہٰذا ان کی اصلاح اور مسلمانوں کی اطلا ع کے لئے قرآن و حدیث اور علماء و مشائخ کی مستند کتابوں سے چند حوالہ جات پیش کر کے مسئلہ مذکورہ پر روشنی ڈالی جارہی ہے تاکہ یہ سازش طشت ازبام ہو جا ئے اور سیدھے سادے مسلمان فریب اور دھو کے سے بچ جائیں۔


آیۂ کریمہ کا ختم مبارک
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَق اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
O فَا سْتَجَبْنَا لَہٗ وَ نَجَّیْنٰہُ مِنَ الْغَمِّ ط وَکَذٰ لِکَ نُنْجِی الْمُؤْ مِنیْنَO ۱؂
ترجمہ : نہیں ہے کو ئی معبودِ بر حق (یَا اَللہ) مگر آپ ہی ہیں! پاک ہے آپ کی ذات بے شک مجھ سے بے جا ہوا۔ پس ہم نے اُن (یعنی یو نس علیہ السلام) کی اس پکار کو قبول کر لیا اور ہم نے اُن کو اس غم سے نجات دے دی اور اسی طرح ہم (سچّے ) ایمان والوں کو نجات دیں گے۔
جس وقت حضرت یُونس علیہ السلا م نے مچھلی کے پیٹ میں اللہ تبارک و تعالیٰ جلّ جلالہ کو اس آیۂ کریمہ سے پکارا تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی اِس دُعا کو قبول فرماتے ہُوئے اُن غموم و اندوہ ناکیوں سے نجا ت بخشی اور مچھلی کو حکم دیا کہ وہ اُن کو دریا سے باہر اپنے شکم سے نکال دے چنانچہ ایسا ہی ہوا نیز
آپ کو صحت و تندرستی عطاء فرمائی۔
مفسرینِ کرام اور علماء مستسر شدین نے اپنی اپنی کتابوں میں اس آیۂ کریمہ کے وِرد کو انتہائی عظمت و شان کے ساتھ ذکر کیا ہے اور اس کی قبولیت ، فیوضات و برکات کا احادیث صحیحہ سے انتہائی شَدّ و مد کے ساتھ بیان کیا ہے نیز ہدایت کی ہے کہ مصیبت و کرب کے وقت اس دُعاء سے بارگاہِ الٰہی میں آہ و زاری کے ساتھ دُعائیں کی جائیں تو اللہ تعالیٰ قبول فرماتے ہوئے اُس مصیبت و کرب سے نجات بخشتا ہے۔ یہی سببِ عالیہ ہے کہ بزرگانِ کرام کے ہاں اس آیۂ کریمہ کا وِرد اب تک جاری ہے اوراِنْ شَآءَ اللّٰہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جاری و ساری رہے گا۔ حضرات مشائخِ کرام کے معمولات ، اوراد اور ختمات حضور پاک ﷺ اور اہلبیت عظّام کے ارشادات کے مطابق ہوتے ہیں۔ وہ کوئی ایسا وِرد یا وظیفہ نہیں کرتے جو کہ اتباعِ نبوی ﷺ کے خلاف ہو یا اُس وِرد یا وظیفے سے کوئی سُنّت مٹے بلکہ مشائخِ کرام تو ہر ایسے عمل، اوراد اور وظائف سے ہر وقت منع فرماتے ہیں جن سے تعلیماتِ نبوی ﷺ پر کسی قسم کا حرف آئے۔ اس وِرد یا و ظیفے کو پڑھنا اور اس پر عمل کرنا، انفرادی یا اجتماعی طور پر نماز کے اندر یا باہر ، صدہا برکات و فیوضات کا حامل ہے نیز گنا ہوں کی بخشش کا وسیلہ ہے ۔ نتیجتاً اس ورد کو نہ پڑھنا اور اس پر عمل نہ کرنا محرومی وبدنصیبی کا باعث ہے۔بعض مشائخِ کرام تو عملاً کرتے تھے اور کہتے تھے کہ: "یا اللہ! جس طرح تُو نے حضرت یو نس علیہ السلا م کے حق میں یہ دُعا قبول فرمائی اُن سے غم و اندوہ کو دُور فرمایا اور حجابات و تاریکیوں سے اُن کو نجا ت بخشی اسی طرح ہم عاجزوں پر رحم و کرم فرما کر ہماری اس پُکار کو قبول فرمالے۔"


امام فخر الدّینِ رازی ؔ تفسیر کبیر میں اس آیۂ کریمہ کے تحت لکھتے ہیں " عن النّبیّ صلیّ اللّٰہ علیہ و سلم: انہ قال ما من مکروب ید عوا بھٰذا الدعاء الا استجیب لہ۔ و عن الحسن: ما نجاہ اللّٰہ تعالیٰ الا باقرارہ عن نفسہ بالظلم"
۲؂
ترجمہ: نبی کریم ﷺ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی بھی مصیبت زدہ اس دعاء کو پکارے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی دُعا ضرور قبول فرمائے گا اور حسنِ (بصری) سے روایت ہے کہ جس وقت کوئی شخص اپنے کیے ہوئے گناہوں کا اقرار کرتاہے تو اللہ تعالےٰ اس کو مصیبتوں سے نجا ت عطاء فرما دیتا ہے۔
نیز آیۂ کریمہ کذٰ لک ننجی المؤ منین کی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں:-
روی سعد بن اابی وقاص عن النّبیّ صلیّ اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلم: قال دعوۃ ذی النون فی بطن الحوت لا الہ الا انت سبحٰنک انی کنت من الظّلمین۔ ما دعا بھا عبد مسلم قط و ھو مکروب الا ستجا ب اللّٰہ دعاء ہ ۔"
۳؂
ترجمہ: جب کو ئی مسلما ن بندہ تکالیف میں مبتلا ہو اور اس مصیبت کے وقت وہ خاص طور پر اس آیۂ کریمہ کے وسیلے سے دُعا ء کرے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور قبول فرماتا ہے۔
صاحب لباب التاویل فی معانی التنزیل المعروف بالخازن
۴؂ حدیثِ مبارکہ نقل فرماتے ہیں:
" روی ابوھریرۃ مرفوعا قال اوحی اللّٰہ تعالیٰ الی الحوت أ ن خذہ ولا تخدش لہ لحما ولا تکسر لہ
عظما فئا خذہ ثمّ الھویٰ بہٖ الیٰ مسکنہ فی البحر فلما انتہی ربہ الأاسفل البحر سمع یونس حسا فقال فی نفسہ ما ھٰذا فاوحی اللّٰہ اِلیہ ھٰذا تسبیح دواب البحر قال فسبح ھوفی بطن الحوت فسمعت الملآ ئکۃ تسبیحہ فقالو ا یاربّنا نسمع صوتا ضعیفا بارض غریبۃ وفی روایۃ صوتا معروفا من مکان مجھول فقال ذٰلک عبدی یونس عصانی فحبسہٗ فی بطن الحوت فقالوا العبد الصالح الذی کان یصعد الیک منہ فی کل یومہ ولیلۃ عمل صالح قال نعم فشفعوالہ عند ذٰلک فائمرالحوت فقذ فہ فی الساحل"
ترجمہ :- ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مرفوعاً روایت کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کی طرف وحی کی یہ کہ اُن کو (یعنی یونس علیہ السلام) کو نگل لے اور نہ اُن کے گوشت کو کوئی گزند پہنچا اور نہ اُن کی ہڈیاں ٹوٹیں۔ پس اُ س نے (مچھلی) اُن کو نِگل لیا پھر دریا میں اپنے مسکن کی طرف لے گئی پس جب اُن کے ربّ نے اُن کو دریا کی تہہ میں پہنچا دیا یونس (علیہ السلام) نے سُنا از روُئے انسان کے پس اپنے دِل میں کہا یہ کیا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی طرف وحی کی کہ یہ دوا ب البحر (دریائی جانور) کی تسبیح ہے۔ رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا کہ پس انھوں نے تسبیح بیان کی اس حال میں کہ وہ مچھلی کے پیٹ میں تھے۔ تو فرشتوں نے اُن کی تسبیح سُنی اور کہااے ہمارے رب! ہم نادر مقام سے کمزور آواز سنتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ نامعلوم مقام سے جانی پہچانی آواز سنتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ میرا بندہ یونس علیہ السلام ہے اس نے بے جا کام کیا پس میں نے اُن کو مچھلی کے پیٹ میں محبوس کر دیا تو فرشتوں نے عرض کی کہ وہ پرہیز گار بندہ کہ اُن سے ہر صبح و شام نیک عمل آپ کی طرف بلند ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہاں! اس کی شفاعت اُس وقت قبول کی گئی اور مچھلی کو حکم دیا پس اُس نے اُن کو یعنی یونس علیہ السلام کو ساحل پر اُگل دیا۔ نیز دوسری جگہ پر " وکذٰلک ننجی المُؤ منین" کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
" ای من الکرب اذا دعونا و استغا ثو ا بنا "
۵؂ (اسی طرح مومنوں کو ہم نجا ت دیں گے یعنی جب وہ تکالیف و مصائب میں مجھے پکاریں اور مجھ سے مدد طلب کریں تو میں اُس وقت اُن کو نجات دُوں گا)۔
صَاحبِ دُرِّ مَنْثور
۶؂ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے ضمن میں بہت سی احادیثِ مبارکہ نقل فرماتے ہیں ہم اِن میں سے چند ایک احادیث نقل کرتے ہیں صاحبانِ علم و تقویٰ کے لئے یہی چند احادیث قبولیت ایمان کی دلیل ہے۔
" واخرج ابن ابی شیبۃ فی المصنف و عبد بن حمید و ابن مردویہ و ابن عساکر عن علی رضیٰ اللّٰہ تعالیٰ عنہ مرفوعاً لیس لعبد ان یّقول انا خیر من یونس بن متی سبح اللّٰہ فی الظّلمات۔"
ترجمہ:- ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور عبد ین حمید اور ابن مردویہ اور ابن عسا کرنے حضرت علی رضی اللہ تعالےٰ عنہ سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ کسی بندے کو یہ کہنا مناسب نہیں کہ میں بہتر ہوں یونس بن متی سے جنہوں نے تاریکیوں میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کی۔"
"واخراج احمد والترمذی والنّسائی والحکیم فی نوادر الا صُول والحاکم و صححہٗ وابن جریروابن ابی حاتم والبذاز وابن مردویہ والبیہقی فی الشعب عن سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ عن النّبیّ صلی اللّٰہ علیہ و سلم قال دعوۃ ذالنون اذھوفی بطن الحوت لَآ اِ لٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَنَکَ اِ نِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّلمِیْنَ
O لم یدع بہما مسلم ربہ فی شئی قط الا استجاب لہٗ "
ترجمہ :- احمد اور ترمذی اور نسائی اور حکیم نوادرالاصول میں اور حاکم نے روایت کی ہے اور تصحیح اس کی گئی اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم اور بزاز اور ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی، آپ نے فرمایا کہ ذوالنون کی دعا ء جو انھوں نے مچھلی کے پیٹ میں کی لا الٰہ الہّ انت سبحٰنک انی کنت من الظّٰلمین ہے جب کوئی مسلما ن ان کلمات کے وسیلے سے کسی حاجت کے لئے اپنے ربّ سے دُعاء کرتا ہے تو اس کی دُعاء قبول کی جاتی ہے۔
" واخرج ابن جریر عن سعدرضی اللّٰہ عنہٗ سمعت رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ و اٰلہٖ وسلم یقول اسم اللّٰہ الذی اذ دعیٰ بہٖ ا جاب و اذ سئل بہٖ ا عطی دعوۃ یونس بن متی قلت یا رسول اللّٰہ ھی لیونس خاصۃ اُ م لجماعۃ المسلمین قال ھی لیونس خاصۃ وللمومنین اذا دعوابھاالم تسمع قول اللّٰہ وکذٰ لک ننجی المؤمنین فھو شرط من اللّٰہ ممن دعا "
ترجمہ:- ابن جریر نے سعد رضی اللہ عنہٗ سے روایت کی کہ اُنہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سُنا کہ آ پ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نام کے وسیلے سے جب دُعا ء کی جائے گی تو قبول ہو گی اور جب سوال کیا جائے گا تو عطاء کیا جائے گا جو کہ یو نس بن متی کی دعا ء ہے تو مَیں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ دعا حضرت یونس علیہ السلا م کے لئے خاص ہے یا تما م مسلمانوں کے لئے تو آپ نے فرمایا حضرت یو نس کے لئے خاص ہے اور مسلمانوں کے لئے عام ہے کہ جب ان کلمات کے ساتھ دُعا کی جائے گی تو قبول ہو گی اور یہ شرط ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے کہ جو اس کو اُن الفاظ سے پُکارے ۔ آیا ! تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول نہیں سُنا کہ اِسی طرح ہم مؤمنوں کو نجا ت دیں گے۔"
" واخرج الحاکم عن سعد بن ابی وقاص ان النّبیّ قال ھل ادلکم علی اسم اللّٰہ الا عظم دعا ء یونس لا الٰہ الا انت سبحٰنک انی کنت من الظٰلمین فایما مسلم دعا بہ فی مرضہ اربعین مرۃ فما تٍ فی مرضہ ذٰلک اعطی اَ جر شھید وان برابرا مغفوراً لہٗ."
ترجمہ:- حا کم نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہٗ سے ورایت کی وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں اسم اعظم کے بارے میں نہ بتاؤ ں جو کہ دعائے یونس ہے پس جب بھی مسلمان اپنی بیماری میں ہی مر جائے تو اس کو ایک شہید کے برابر اجر ملے گااور اگر صحت مند ہو گیا تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دے گا۔
صاحب تفسیر " روُح البَیا ن"
۷؂ اسم اعظم کے عنوان کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں:
" صحیح المستد رک میں ہے کہ حضور سرور عالم ﷺ نے فرمایا کہ اسم اعظم یہ ہے کہ اس کے وسیلہ سے جو بھی دُعا مانگی جائے مستجاب ہوتی ہے اور اس کے وسیلہ سے جو سوال کیا جائے وہ دیا جاتا ہے اور اسم اعظم لا الہ الا انت الخ ہے"
صاحبِ تفسیر مظہری اسی آیت کے ضمن میں احادیثِ مبارکہ نقل فرماتے ہیں:
۸؂ " رسول اللہ ﷺنے فرمایا ، مچھلی کے پیٹ کے اندر ذوالنون نے اپنے رب کو پکارا تھا ان کی دُعا تھی لَآ اِلٰہَ اِ لاَّ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّلِمِیْنَ O اس دُعا ء کے ساتھ جو مسلمان کسی معاملہ میں اپنے رب کو پکارے گا اللہ اس کی دُعا ضرور قبول فرمائے گا (رواہ احمد الترمذی والحاکم و صححہ من حدیث سعد بن وقاص)حاکم کی ایک روایت ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو ایسی چیز نہ بتاؤں کہ اگر تم میں سے کسی پر کوئی دُکھ یا مصیبت آپڑے اور وہ اس چیز کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے تو اللہ ضرور اس کی مصیبت دور کر دے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ضرور ارشاد فرمائیے۔ فرمایا وہ ذوالنون کی دعا یعنی لَآ اِلٰہَ اِ لاَّ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّلِمِیْنَ O ہے"۔
امام شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے " القول الجمیل " کے نام سے عربی میں ایک کتاب لکھی جس کا اردو ترجمہ مولانا خرّم علی صاحب بلہوری شاگردِ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی بن شاہ ولی اللہ نے " شفاء العلیل" کے نام سے کیا۔اس کتا ب میں نماز برائے قضائے حاجات کے عنوان سے شاہ صاحب لکھتے ہیں:
" حاجاتِ مشکلہ کے بَر آنے کے واسطے پہلے چار رکعتیں پڑھے پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد لَآ اِلٰہَ اِلَّا لَآ اِلٰہَ اِلاّ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِ نِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّلِمِیْنَ O فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ و نَجّیْنٰہ مِنَ الْغَمِّ ط وَکَذٰ لِکَ نُنْجِی الْمُؤْ مِنِیْنَ O
کو سو بار پڑھے اور دوسری رکعت میں فاتحہ کے بعد
رَ بِّ اِنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ O سو بار پڑھے اور تیسری رکعت میں فاتحہ کے بعد
وَ اُفَوِّ ضُ اَمْرِیْ اِلیَ اللہ ط اِنَّ اللہ بَصِیْرٌ م بِا لْعِبَادِ O سو بار پڑھے اور چوتھی رکعت میں بعدِ فاتحہ کے قَالُوْ احَسْبُناَ اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ O سو با ر پڑھے پھر سلا م پھیر کے رَبِّ اِنِّیْ مَغْلُوْ بٌ فَا نْتَصِرُ O
۹؂ سو بار "
مولانا خرّم علی صاحب اس کا فائد ہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں۔ " مولانا (شاہ عبدالعزیز ) نے فرمایا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ یہ چاروں آیتیں اسم اعظم ہیں کہ جن کے وسیلے سے جو سوال کرے پاوے اور جو دعا کرے قبول ہو اور مجھ کو تعجب آتا ہے اُس شخص سے کہ بواسطہ ان کے دعا کرے اور قبول نہ ہو فائدہ جلیلہ حضرت شاہ اہل اللہ قدس سرہ، نے چارباب میں فرمایا کہ جو عمل کہ حصول ہر مطلب میں جلالی ہو یا جمالی حکم میں کبریت احمر کے ہے اور اُس کو اسم اعظم شمار کیا ہے وہ آیت یہ ہے’’ لا الہ الا انت سبحنک انّی کنت من الظٰلمین
O ‘‘ رسول علیہ السلا م نے فرمایا کہ یہ دُعا ذوالنون علیہ السلام کی ہے کہ مچھلی کے پیٹ میں فرمائی جو مسلمان جس مطلب کے واسطے اس آیت سے دُعا ء کرے گا قبو ل ہو گی اور حق یہ ہے کہ یہ دعا نہایت مجرّب التاثیر اور کمال سریع الاثر ہے جس امر میں چاہے اس آیت سے دُعا کرے اور مشائخ اس کی سُرعتِ تاثیر اور عدم تخلف پر اجماع اور اتفاق رکھتے ہیں اور طریقہ دُعا کا انہوں نے باقسام متعددہ ذکر کیا ہے آسا ن تر دو(۲) طریقے ہیں ایک یہ کہ بارہ دن تک بہ نیّتِ حصُول مطلب بارہ ہزار بار پڑھے اور اگر نہ ہو سکے تو بارہ سو بار پڑھے اول اور آخر چند بار دروُد پڑھ کے اور دُوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک لاکھ پچیس ہزار بار پڑھے خلاصہ یہ ہے کہ اُس کی قوت تاثیر میں کچھ شک نہیں اس واسطے کہ ایسا کوئی عمل نہیں کہ جس کی صحت قرآن مجید سے بھی ہو اور صحیح حدیث سے بھی اور مشائخ کے اقوال سے بھی " ۰۱؂
نیز مولانا موصوف اِسی کتا ب کے حاشیے میں اپنے اُستاد حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمتہُ اللہ علیہ کی تفسیر سے نقل کرتے ہوہے تحریر کرتے ہیں ۔ " جنا ب مولانا عبد العزیز صاحب علیہ الرحمتہ نے بیچ تفسیر سورۂ نوُ ن کے یہ آیت لَوْ لاَ اَنْ تَدَ ارَ کَہٗ نِعْمَۃٌ اَلْاٰ یَۃَ کے لکھا ہے کہ مشائخ معتبرین سے واسطے دفع ہر غم و اندوہ کے آیت لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ اَلْاٰ یَۃْ کا پڑھنا تریاق مجرب ہے اور طریق اُس کے پڑھنے کے دو ہیں ایک تو یہ کہ سوا لاکھ با بہیئت اجتماعی ایک مجلس میں پڑھے، دوسرے یہ کہ ایک شخص تن تنہا اس آیت کو تین سو بار بعد نماز عشاء کے تاریک مکان میں بیٹھ کر ساتھ شرائط طہارت اور استقبال قبلہ کے پڑھے اور پیالہ پانی کا بھر کر اپنے پاس رکھ لیوے اور لمحہ لمحہ اس پانی میں ہاتھ اپنا ڈال کر اپنے بدن اور منہ پر پھیر تا رہے تین روز یا سات روز یا چالیس روز اسی ترتیب سے پڑھے انتہٰی " ۔
۱۱؂
صاحب تفسیر اکسیر اعظم فرماتے ہیں
۱۲؂ " حضرت یونس علیہ السلام نے یہ دعا لا الٰہ الّاانت سبحٰنک اِنِّیْ کنت من الظٰلمینO اللہ تعالےٰ ان کی دعا قبول فرمائی کہ قیامت تک جمیع مومنین کی رَدِّ بلا کے لئے کافی ہے جو کو ئی مومن رفع حاجت کے لئے اس کو وظیفہ کرے اللہ تعالیٰ اُس کی حاجت کو پُورا کرے گا۔"چنانچہ صاحب تفسیر اس دلیل پر حدیثِ صحیحہ سے استدلال فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
" احمد، ترمذی اور حاکم نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور تصحیح اس کی بیہقی نے کی کہ سعد بن ابی وقاص نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سُنا ہے آپ نے فرمایا کہ دعائے یونس ابن متی کی اسم اعظم ہے جو کوئی اس کو پڑھے گا اور اللہ سے دعا مانگے گا وہ قبول ہو گی۔ سعد رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا آنحضرت ﷺ سے ، کہ یا رسول اللہ یہ دعا حضرت یونس علیہ السلا م کے لئے خاص تھی یا کُل مسلمانوں کے لئے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ یونس بن متی کے لئے خاص تھی اور عام مومنین کے لئے عام ہے جو کوئی اس کو پڑھے گا اس کی حاجت پوری ہو گی پھر آپ نے یہ آیت پڑھی وکذالک ننجی المؤ منین یعنی ایسے ہی ہم مومنین کو بھی نجات دیتے ہیں جیسے کہ حضرت یونس علیہ السلام کو تکلیف شکم ماہی سے نجات دی تھی"۔
نیز صاحب مواھبُ الرّ حمٰن
۳۱؂ نے اس ضمن میں یہ روایت بھی نقل کی ہے۔! "امام احمد نے سعد بن ابی وقاص سے روایت کی کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کے پاس مسجد میں گزرا اور میں نے اُن پر سلام کیا انھوں نے مجھے آنکھ بھر کر دیکھ لیا پھر مجھے سلام کا جواب نہیں دیا تو میں عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہٗ کے پاس آیا اور میں نے کہا یا امیرالمؤمنین کیا اسلام میں کوئی نئی بات پیدا ہوئی ہے یا پھر کیا اسلام میں نیا طریقہ نکلا ہے آپ نے فرمایا کہ نہیں تو۔ اور یہ کیا بات ہے میں نے کہا کہ کچھ اور نہیں سوائے اس کے کہ میں ابھی مسجد میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کے پاس گزرا اور ان پر سلام کیا انہوں نے مجھے آنکھیں بھر کر دیکھ لیا مگر مجھے سلام کا جواب نہ دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے آدمی بھیج کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کو بلایا اور کہا کہ تجھے کس چیز نے روکا کہ تو نے اپنے بھائی مسلم پر سلام کا جواب نہ دیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ نے کہا کہ میں نے تو یہ نہیں کیا۔ میں نے کہا کہ ہاں آپ نے کیا تو ہے حتیٰ کہ انہوں نے قسم کھائی اور میں نے قسم کھائی پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کو یاد آیا تو اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کی اور کہا کہ ہاں ہاں آپ ابھی گئے تھے اور میں اُ س وقت اپنے دل میں ایک بات کی یا د کرتا تھا جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سُنی تھی اور مجھے وہ ہر گز یا د نہ آئی اور اسی کا پردہ میرے آنکھوں و دل پر چھایا ہوا تھا۔
سعد رضی اللہ عنہٗ نے کہا کہ اچّھا میں آپ کو آگاہ کرتا ہوں ایک روز رسول اللہ ﷺ نے اوّل دعوت (پہلے پہلے دعا کاذکر فرمایا) کا ذکر کیا پھر ایک اعرابی نے آکر آپ کو اپنی طرف مشغول کر لیا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو گئے پھر میں آپ کے پیچھے ہو لیا جب مجھے یہ خوف ہوا کہ شاید آپ جلدی سے حجرہ تشریف لے جائیں گے تو میں نے اپنے پاؤ ں کی آہٹ آپ کو سنائی تو آ پ نے میرے جانب التفات فرما کر پوچھا کہ یہ کو ن ہے۔ ابو اسحاق سے میں نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ ﷺ آپ نے فرمایا کہ کیا مقصد ہے میں نے عرض کیا کہ صرف یہ بات ہے کہ آپ اوّل دعوت کا ذکر فرمایا پھر اس اعرابی نے آکر آپ کو مشغول کر لیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں وہ دُعائے ذوالنون ہے جب وہ مچھلی کے پیٹ میں تھے تو انہوں نے دُعا کی کہ لَآاِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
O تو مسلمان جب کبھی کسی بات کے لئے اپنے رب سے ان کلمات سے دعا کرے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی دُعا قبول فرمائے گا۔ رواہ الترمذی والنسائی فی الیوم و الیلۃ قلت و قدرواہ البیہقی والحاکم وقال صحیح الا سناد۔
عُلمائے دیو بند کے مفتی اعظم اور مفسر قرآن اس عنوان کے تحت کہ " دُعائے یونس علیہ السلام ہر شخص کے لئے ہر زمانے میں ہر مقصد کے لئے مقبول
۴۱؂ ہے ۔ تحریر کرتے ہیں۔
" و کذٰ لک ننجی المؤمنین" یعنی جس طرح ہم نے یو نس علیہ السلام کو غم اور مصیبت سے نجا ت دی اسی طرح ہم سب مومنین کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرتے ہیں۔ جبکہ وہ صدق و اخلاص کے ساتھ تمہاری طرف متوجہ ہوں اور ہم سے پناہ مانگیں۔ حدیث (شریف) میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ذوالنون کی وہ دعا جو انھوں نے بطن ماہی کے اندر کی تھی یعنی لآ الٰہ الاّ انت سبحٰنک انّی کنت من الظّٰلمین
O جو کوئی مسلمان اپنے کسی مقصد کے لئے ان کلمات کے ساتھ دعا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرماویں گے۔ رواہ والحاکم و صححہ من حدیث سعد بن ابی وقاص ازمظہری
مفسر قرآن پیر کرم شاہ بھیروی
۵۱؂ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
" امام احمد ترمذی اور دیگر محدثین سے منقول ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ’’دعوۃ ذی النون اذا دعا ر بہ و ھو بطن الحوت لا الٰہ الاّ انت سبحٰنک انی کنت من الظّٰلمین
O لم یدع بہار جل مسلم فی شیئی الاّ استجاب لہٗ "۔ یعنی حضرت ذی النون کی وہ دعا ء جو مچھلی کے شکم میں انہوں نے کی تھی جو مسلمان جس مشکل میں ان الفاظ سے دعا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے گا۔
حاکم نے ایک اور ارشادِ نبوی اس طرح نقل کیا ہے ’’الا اخبر کم شیئی اذا نزل باحد منکم کرب او بلاء فد عا بہ الاّ فرّج اللّٰہ عنہ قیل بلیٰ یا رسول اللّٰہ !‘‘ حضور نے اپنے صحابہ سے پوچھا کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتا دوں کہ جب تمہیں کو ئی غم اور مصیبت لا حق ہو اور تم اس سے بارگاہِ الٰہی میں التجا ء کرو تو اللہ تعالیٰ مشکل آسان فرما دے ۔ صحابہ نے عرض کی، اے اللہ کے رسول ضرور ارشاد فرمائیے تو حضور ﷺ نے یہی دُعا ارشاد فرمائی۔
قارئین کرام نے قرآن مجید فرقان حمید ، احادیثِ نبویہ ﷺ اور حضرات مشائخِ عظام و علمائے کرام کے ارشادات ملاحظہ فرمائے جن سے درج ذیل امور کھُل کر سامنے آگئے۔
۱۔ حضرت یونس علیہ السلام کو جب مچھلی نے نگل لیا تو اس مشکل اور مصیبت کے وقت آپ علیہ السلام نے اس آیۂ کریمہ کا ورد فرمایا جس کی برکت اور وسیلے سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی رحمت کے ساتھ ان کی طرف رجوع فرمایا اور انہیں صحیح سالم مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالا۔
۲۔ امام الا نبیاء ، شفیع المذنبین ، رحمتہ اللعالمین، احمد مجتبیٰ حضر ت محمّد مصطفےٰ ﷺ نے اپنی امت کے لئے اس آیۂ کریمہ کا پڑھنا عام فرمایا۔
۳۔ حضرات مشائخ عظام نے رسول کریم ﷺ کے اس ارشاد مبارک پر عمل کرنا اپنا شعار بنا لیا اور اجتماعی صورت میں جمع ہو کر سوالاکھ مرتبہ اس آیۂ مبارکہ کو پڑھنا اپنا معمول بنا لیا اور اس کی برکت و وسیلے سے دُعا کی قبولیت اور حل مشکلا ت میں اس کی تا ثیر پر اجماع فرمایا۔
۴۔ ارشاداتِ الٰہی، فرموداتِ نبوی ﷺ اور معمولات و ملفوظات علمائے مستر شدین کی روشنی میں یہ حقیقت ثابت ہو گئی کہ مشکلا ت و مصائب اور حاجاتِ براری کے لئے اس آ یۂ کریمہ کا ورد کرنا اور اجتماعی طور پر ختم شریف کرنا امر مستحسن ہے۔ جبکہ ا س کے منکر اور منع کرنے والے نہ صرف اپنی عاقبت برباد کر رہے ہیں بلکہ مسلمانوں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔ لہٰذا عامتہ المسلمین کو چا ہیئے کہ وہ اُن کی لغو اور بے ہودہ باتوں پر کان نہ دھریں اور جب کبھی کوئی انکار کی بات سنیں تو فوراً اپنے حنفی علمائے اہلِ سنّت سے رابطہ کر کے اس کی حقیقت معلوم کر لیا کریں اس طرح یہ گندم نما جَو فروش مُلاّ انہیں گمراہ نہیں کر سکیں گے۔ (انشاء اللہ تعالیٰ)


وَمَا عَلَیْنَا اِلاَّ الْبَلَا غْ
حواشی:
۱؂ قرآن مجید ، الانبیاء ۱۲:۷۸- ۸۸
۲؂ امام فخر الدین رازی ، تفسیر کبیر ، دارالفکر بیروت ۴۹۹۱ ج ۱۱۷۱۲؂
۳؂ اما م فخر الدین رازی، تفسیر کبیر ، دارالفکر بیروت ۴۹۹۱ ج ۱۱۷۱۲؂
۴؂ امام علا ء الدین علی المعروف خازن ، لباب التاویل (حاشیہ جاری ہے)
(بقیہ عاشیہ
۰۱؂ فی معانی التنزیل ، تقدم علمیہ مصرج ۴۷۵۲،۹۵۲؂
۵؂ امام علاء الدین علی المعروفِ خازن ، لباب التاویل جی معانی التنزل ، تقدم علمیہ مصرجلد۴ صفحہ۵۵۲،۴۵۲
۶؂ امام جلال سیوطی، تفسیر دُرمنثور ، دارالمعرفتہ بیروت جلد ۴ صفحہ ۴۴۳
۷؂ علامہ اسماعیل حقی ، تفسیر روح البیان اودو ترجمعہ فیض محمد اویس ، مکتب اولیس رضو یہ بہاولپور ۷۱ صفحہ۶۶۱
۸؂ قاضی ثنا ء اللہ پاتی پتی ، تفسیر مظہری اردو ترجمعہ مولانا عندالدائم جلالی دارالاشاعت کراچی ، جلد ۷ صفحہ ۱۲۵
۹؂ امام شاہ ولی اللہ ، القول الجمیل اردو ترجمعہ شفآء العلیل از خرّم علی، ایچ ایم سعید کمپنی ، کراچی اشاعتِ دوم، ۴۷۹۱ء صفحہ ۸۲۱
۰۱؂ مولانا خرّم علی، شفاء العلیل ، ایچ ایم سعید کراچی اشاعت دوم ۴۷۹۱ ؁ ء صفحہ ۹۲۱،۰۳۱
۱۱؂ مولانا خرم علی ، شفا ء العلیل ، ایچ ایم سعید کراچی اشاعت دوم ۴۷۹۱ء صفحہ ۹۲۱
۲۱؂ احتشام الدین مراد آبادی ، تفسیر اکسیر اعظم ، مطبع احتشامیہ مراد آباد ج ۱۱ صفحہ۶۸
۳۱؂ سیدامیر علی تفسیر مواہب الرحمٰن ، مطبوعہ قرآن کمپنی لاہور ج ۵ صفحہ ۴۴۱
۴۱؂ مفتی محمد شفیع ، تفسیر معارف القرآن ، ادارہ معارف کراچی ج ۲ صفحہ۴۲۲
۵۱؂ پیر کرم شاہ ، تفسیر ضیاء القرآن ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور ج ۳ صفحہ۳۸۱ ، ۴۸۱

JSN Epic is designed by JoomlaShine.com

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries