Uncategorised

عظمت قرآن و حفظ قرآن

 

عظمت قرآن 

و

 حفظ القرآن

 

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

عظمت قرآن و حفظ القرآن

اﷲ تبارک وتعالیٰ نے قرآن حکیم عربی زبان میں حضورِ اکرم سیدا لکونین خاتم النبیّین حضرت محمد رسول اﷲکے قلب مبارک پر تیئس برس میں بواسطہ جبرئیل امین نازل فرمایا

وَ اِنَّہُ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo نَزَلَ بِہ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُo عَلَی قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ

الْمُنْذِرِیْنَo بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍo (الشعراء :۱۹۲- ۱۹۵)

ترجمہ : اور بیشک یہ قرآن رب العالمین کا اتارا ہوا ہے، اسے روح الامین لے کر اترا، تمہارے دل پر کہ تم ڈر سناؤ روشن عربی زبان میں۔ 

یہ وہ برکت اور عظمت والی کتاب ہے جو باطل کی چیرہ دستیوں سے بالاتر ہے جس میں کوئی طاقت وقوت بھی کسی قسم کا ذرّہ برابر دخل نہیں دے سکتی اور شیطانی طاقتیں نہ تو اس میں ترمیم وتنسیخ کر سکتی ہیں اور نہ ہی آگے پیچھے کر سکتی ہیں۔

وَاِنَّہُ لَکِتَابٌ عَزِیْزٌo لَّایَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَّیْنِ  یَدَیْہِ وَلَامِنْ 

خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیمٍ حَمِیْدٍo(حٰم السجدہ:۴۱ -۴۲)

ترجمہ : اور بیشک وہ عزت والی کتاب ہے ، باطل کو اس کی طرف راہ نہیں، نہ اُس کے آگے سے نہ اُس کے پیچھے سے۔ اُتارا ہوا ہے حکمت والے سب خوبیوں سراہے کا۔ 

اور اگر کسی کے ذہن میں شک پیدا ہو جائے یا شبہ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے کہ کلام الٰہی میں کسی غیر الٰہی قوت کا بھی کچھ دخل ہے تو اس کو نہایت ہی واضح اور زور دار طریقہ پر رَد فرما دیا ہے۔

وَمَا تَنَزَّلَتْ بِہ الشَّیٰطِیْنْo وَمَا یَنْبَغِیْ لَھُمْ وَمَا یَسْتَطِیْعُوْنَ o اِنَّھُمْ عَنِ 

السَّمَْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ o(الشعراء: آیت ۲۱۰ -۲۱۲)

ترجمہ : اور اس قرآن کولے کر شیطان نہیں اُترے اور وہ اس قابل نہیں اور نہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ وہ تو سننے کی جگہ سے دور کر دیئے گئے ہیں۔ 

قرآن کریم کے کلامِ الٰہی ہونے میں ، اس کی بلاغت، اس کے حسن نظم وترتیب میں، اس کے علومِ غیبیہ اور معارفِ الٰہیہ میں اگر کسی کو کسی قسم کا شک وشبہ ہو تو اﷲ تعالیٰ جل مجدہ نے تمام قسم کی طاقتوں کو چیلنج کیا کہ آؤ جمع ہو جاؤ اور ہر قسم کی قوتوں کو مجتمع کر لو تم قرآنِ حکیم جیسی کتاب نہیں بنا سکتے۔

قُلْ لَئِن اْجَتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلیٰ اَنْ یَّاتُواْ بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْآنِ لَا یَاتُوْنَ 

بِمِثْلِہٖ وَلَوْکَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْراًo(سورہ بنی اسرائیل : آیت ۸۸) 

ترجمہ :تم فرماؤاگر آدمی اور جن سب اس پر متفق ہو جائیں کہ اس قرآن کی مانند لے آئیں تو اس کا مثل نہ لا سکیں گے اگرچہ ان میں ایک دوسرے کا مددگار ہو۔

چونکہ اﷲ تعالیٰ نے اس کتاب مبین کو خود نازل فرمایا لہٰذا اس کتاب ہدایت کی ہرقسم کی حفاظت کی پوری پوری ذمہ داری بھی خود قبول کی ۔  

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الّذِکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحٰفِظُوْنَo(سورہ الحجر:۹)    

ترجمہ : بیشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بیشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔ 

بلکہ معلّم حقیقی نے اس بات کا ذمہ اٹھایا کہ وہ حضور اکرم  کو بذاتِ خود قرآن پاک کی تعلیم دیں گے اور انہیں ایسی قوت عطا فرما دیں گے کہ وہ کلامِ پاک کو یاد کریں اور اس کے فیوض وبرکات سے اقوام دنیا کو مستفید ہونے کا موقع بخشیں۔

لَا تُحَرِِّکْ بِہ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖo اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَقُرآنہٗo فَاِذَا قَرَاٰنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہُ o (سورہ القیٰمۃ :۱۶- ۱۸)

ترجمہ : تم یاد کرنے کی جلدی میں قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دو، بیشک اسکا محفوظ کرنا اور پڑھنا ہمارے ذمہ ہے تو جب ہم اسے پڑھ چکیں اسوقت اس پڑھے ہوئے کی اتباع کرو۔  

اور یہاں تک بشارت دی کہ محبوب  کو یہ حفظ قرآن کی نعمت بغیر کسی کوشش و محنت کے نصیب ہوئی اور یہ آپ  کا معجزہ ہے کہ اتنی بڑی کتاب عظیم بغیر محنت ومشقت اور بغیر تکرار کے آپ کو یاد ہو گئی اور آپ اس کوفراموش بھی نہ کرینگے۔

سَنُقْرِِئُکَ فَلَا تَنْسٰی ( الاعلٰی:۶ )

ترجمہ : اب ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم نہ بھولو گے۔  

یہ قرآن حکیم خداوند بزرگ وبرتر کے مقدس ترین اور اعلیٰ ترین صحیفوں میں سے ہے جو بزرگ اور نیک کاتبوں کے ہاتھوں سے لکھا ہوا ہے۔

کَلَّا اِنَّھَا تَذْکِرَۃٌo  فَمَنْ شَآءَ ذَکَرَہٗo فِیْ صُحْفٍ مُّکَرَّمَۃٍo مَّرْفُوْعَۃٍ 

مُّطَھَّرَۃٍ o بِاَیْدِیْ سَفَرَۃٍo کِرَامٍ بَرَرَۃٍo (سورہ عبس :۱۱- ۱۶)

ترجمہ : یوں نہیں یہ تو سمجھانا ہے تو جو چاہے اسے یاد کرے ان صحیفوں میں کہ عزت والے ہیں، بلندی والے، پاکی والے، ایسوں کے ہاتھ لکھے ہوئے جو کرم والے نکوئی والے ہیں۔ 

اس قرآن مجید کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو کہ پاکیزہ ہیں۔

اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌo فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ o لَایَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ (الواقعہ۷۷-۷۹)

ترجمہ : بیشک یہ عزت والا قرآن ہے، محفوظ نوشتہ میں، اسے نہ چھوئیں مگر باوضو۔ 

اﷲ جل وعلیٰ نے حضور سیّد پاک  کو اس کتاب مقدس کے پڑھنے کا حکم دیا۔

یَااَیُّھَا الْمُزَّمِلُo قُمِ الَّلیْلَ اِلَّا قَلِیْلاً o نِّصْفَہٗ اَوِانْقُصْ مِنْہُ 

قَلِیْلاًo اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا (المزمل:۱-۴ )

ترجمہ : اے جھرمٹ مارنے والے، رات میں قیام فرما ،سوا کچھ رات کے آدھی رات یا اس سے کچھ کم کرو یا اس پر کچھ بڑھاؤ ، اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔  

حضور مالک ومختار آقا ومولا  نے تو بزبانِ وحی یہاں تک ارشاد فرمایا وَ اَنْ اَتْلُوَا الْقُراٰنَج (النمل:۹۲)ترجمہ : اور یہ کہ قرآن کی تلاوت کرو۔ 

اورمسلمانوں کو بھی ارشاد فرمایا کہ قرآن مجید پڑھا کریں۔

فَاقْرَءُ وَامَا تَیَسَّرَ مِنْہُ (سورۃ المزمل:۲۰)

ترجمہ : تو جتناقرآن میسر ہو پڑھو۔ 

وہ اہل کتاب علماء جو حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ شب وروز کا بیشتر حصہ تلاوت قرآن مجید میں صرف کرتے تھے۔

لَیْسُوْا سَوَآءً ط مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ اُمَّۃٌ قَآئِمَۃٌ یَتْلُوْنَ 

اٰیٰتِ اﷲِ اٰنآَءَ الَّیْلِ وَھُمْ یَسْجُدُُوْنَ (اٰل عمران: ۱۱۳)

ترجمہ : سب ایک سے نہیں کتابیوں میں کچھ وہ ہیں کہ حق پر قائم ہیں اﷲ کی آیتیں پڑھتے ہیں رات کی گھڑیوں میں اور سجدہ کرتے ہیں۔ 

درحقیقت مومن ہی اس کتاب مبارک کی تلاوت کرتے ہیں اور وہی اس کو خوب پڑھتے ہیں اور اس پر مضبوطی سے قائم ہیں۔

اَلّذِیْنَ اٰتَیْنَا ھُمْ الْکِتَابَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ اُولٰئِکَ یُوْمِنُوْنَ بِہٖط 

وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ فَأُولٰئِکَ ھُمُ الْخَاسِرُونَ o(سورہ البقرہ:۱۲۱)

ترجمہ: جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ جیسا چاہیں اس کی تلاوت کرتے ہیں، وہی اس پر ایمان رکھتے ہیں اور جو اس کے منکر ہوں تووہی زیاں کار ہیں۔  

مومن کے سامنے جب کلام پاک کی تلاوت ہوتی ہے تو اس کے ایمان کی قوت میں عظمت اور رفعت پیدا ہو جاتی ہے۔

وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلِیْھِمْ اٰیَتَۃٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَاناً وَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ o(سورہ انفال ۸:۲ ع۱)

ترجمہ :۔ اور جب ان (مومنوں )پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں، ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کریں۔  

قرآن حکیم کی تلاوت کرنے والے افراد ایک ایسی تجارت کرتے ہیں جس میں کسی قسم کا گھاٹا اور نقصان نہیں بلکہ جناب باری تعالیٰ سے فضل واکرام کی زیادتی کے مستحق قرار دیئے جاتے ہیں۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ کِتَابَ اﷲِ وَاَقَامُوْا الصَّلوٰۃَ 

وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ سِرَّاً وَعلَاَنِیَۃً  یَرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَّنْ تَبُوْرَo 

لِیُوَفِّیَھُمْ اُجُوْرَھُمْ وَیَزِیْدَھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ ط اِنَّہُ غَفُوْرٌ شَکُوْرٌ (الفاطر:۲۹-۳۰ )

ترجمہ : بیشک وہ جو اﷲ کی کتاب پڑھتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دیئے سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں پوشیدہ اور ظاہر وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جس میں ہرگز گھاٹا نہیں تاکہ ان کے ثواب انہیں بھرپور دے اور اپنے فضل سے اور زیادہ عطاکرے۔ بیشک وہ بخشنے والا قدر فرمانے والا ہے۔ 

چونکہ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے اپنی اس آخری کتاب کی حفاظت کا وعدہ بذات خود فرمایا ہے اور اپنے ذمہ کرم پہ لیا ہے اسلئے ابتداء ہی سے کچھ ایسے اسباب مہیا فرمائے کہ پاک اور برکت والی کتاب کے تحفظ کی بنیاد اس کے نازل ہونے کے ساتھ ہی رکھ دی چنانچہ تیرہ سوبرس گزرنے کے باوجود دنیا کے طول وعرض میں ایک کتاب عظیم کے حفاظ کی کثرت اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ کلامِ پاک من و عن سینہ حفاظ میں محفوظ ہے۔ یہ حفاظ کرام اس وعدۂ الٰہی کے مظہر ہیں جس کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ گویا ازل ہی سے طے ہو چکا تھا اور مشیت ایزدی نے یہ التزام فرما دیا تھا کہ آیاتِ قرآنی اُمّتِ محمدیہ  کے قلوب میں محفوظ رہیں گی۔

بَلْ ھُوَ اٰیٰتٌ بَیِّنَاتٌ فِیْ صُدُورِ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْعِلْمَ ط (سورہ العنکبوت۲۹:۴۸ ع ۵)

ترجمہ : بلکہ وہ روشن آیتیں ہیں ان کے سینوں میں جن کو علم دیا گیا۔

قرآن پاک کا بعینہٖ اسی صورت میں موجود ہونا جس طرح کہ حضورِ اکرم  پر اس کا نزول ہوا تھا ایک مکمل واکمل کتاب کی حیثیت سے زندہ وتابندہ معجزہ ہے۔ لیکن تاریخ قرآن کے اس پہلو کا مطالعہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ یہ کتاب مبین کس طرح سید پاک  کے زمانہ سے لے کر آج تک بحفاظت تمام ہم تک پہنچی ہے؟ اور کس طرح تاقیام قیامت سینہ بسینہ محفوظ رہے گی۔بقولِ اقبالؔ

آن کتاب زندہ قرآنِ حکیم

7حکمتِ او لا یزال است و قدیم

ºقرآن کی جماعتیں قائم کر رکھی تھیں جن میں بنفس نفیس شرکت فرماتے ۔ حضرت ابوبکر صدیق صنے اپنے گھر میں تلاوتِ قرآن پاک کیلئے ایک جگہ مخصوص کررکھی تھی۔ مسجد نبوی  میں ایک چبوترہ تھا جو صفّہ کے نام سے مشہور تھا۔ یہاں وہ صحابہ کرام اقامت گزیں تھے جنہوں نے اپنے آپ کو اسلام کیلئے وقف کررکھا تھا اور جو حضوررسالت مآب  کی صحبت فیض بار سے مستفیض ہونا دو جہاں کی سعادت سمجھتے تھے۔ جب کوئی آیہ کریمہ نازل ہوتی آپ اسے یاد کر لیتے پھر اصحاب صفّہ کو حفظ کروا دیتے۔ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی یہ جماعت مدینہ منورہ کے گلی کوچوں میں پھر کر دوسرے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہ اجمعین کو وہ آیات طیبہ یاد کرواتے۔

اصحاب صفہ کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی ایک کثیر جماعت ایسی تھی جس کے افراد باری باری حضور اقدسکی خدمت بابرکت میں حاضر ہوتے آیاتِ کریمہ حفظ کرتے اور پھر دوسرے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہ اجمعین تک یہ پیغامِ ربانی پہنچاتے ۔ حضرت سیدنا امیر المومنین عمر فاروق ص مدینہ منورہ کے مضافات میں ایسے مقام پر رہتے تھے جہاں ایک انصاری ان کے ہمسایہ تھے جس کے ساتھ آپ نے یہ معاہدہ کر رکھا تھا کہ دونوں باری باری حضور سیدِ دوعالمکی صحبت مبارک میں حاضر ہوا کریں گے جو کچھ وحی الٰہی سے سنیں گے ،یاد رکھیں گے اور اس سے ایک دوسرے کو مطلع کرتے رہیں گے۔ (بخاری)

حفظ قرآن مجید کی اہم ترین وجہ نماز میں آیاتِ کریمہ کی تلاوت ہے۔ اس امر کی اہمیت کے پیش نظر صحابہ کرام حفظ کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ امورِ ضروریہ سے فراغت حاصل کرکے تلاوتِ قرآن اور نماز میں مشغول رہتے۔ قرآن مبین نے اﷲ تعالیٰ کے بندوں کی صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ راتیں حضور باری تعالیٰ میں نماز ادا کرتے گزار دیتے ہیں۔

وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِھِمْ سُجَّداً وَّقِیَاماً ط

عبدا ﷲ بن مسعود صکو حضور سید الکونیننے بنفس نفیس قرآن حفظ کروایا، آپ انکی قرأت کو پسند فرماتے تھے صاحب اتقان فرماتے ہیں بخاری نے عبد اﷲ بن عمرو بن العاص سے روایت کی ہے انہوں نے کہا ’’میں نے نبی کریمسے سنا ،آپفرماتے تھے قرأت کو چار شخصوں سے سیکھو: عبد اﷲ بن مسعود، سالم، معاذ اور ابی بن کعب سے‘‘۔

ان میں پہلے تو دو مہاجر ہیں اور دوسرے دو انصاری ہیں ۔کرمانی فرماتے ہیں کہ اس روایت سے احتمال ہوتا ہے کہ شاید رسول اکرمنے اپنے بعد واقع ہونے والی حالت کی اطلاع دینی چاہی ہو یعنی یہ بتانا منظورِ نظر ہوا کہ یہ چار صاحب آپکے بعد زندہ رہیں گے اور تعلیم قرآن کامرکز بنیں گے۔ نیز لکھا کہ ’’یہ لوگ تعلیم قرآن کے ساتھ منفرد نہیں ہوئے بلکہ زمانہ نبویکے بعدجو لوگ قرأت قرآن کے ماہر ہوئے وہ ان لوگوں سے دو چند و سہ چند تھے‘‘۔۱؂

یہ بات انتہائی قابل توجہ ہے کہ قراء اُن لوگوں کو کہتے ہیں جو قرآن شریف حفظ کرتے اور دوسروں کو قرآن شریف سکھلانے کیلئے مشہور ہوں۔ صاحب فتح الباری رحمہ الباری فرماتے ہیں ۔ 

’’الذین اشتھروا بحفظ القرآن والتصدی لتعلیمہ‘‘

صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی انتہائی کوشش ہوتی کہ وہ زیادہ سے زیادہ قرآن شریف حفظ کریں تاکہ وہ اپنی نمازوں میں کثرت سے تلاوت کر سکیں بلکہ وہ صحابی رسول جس کو زیادہ قرآن پاک حفظ ہوتا نمازباجماعت میں امام مقرر کیا جاتا۔ ابوداؤد کی ایک روایت ہے:

’’عن عمرو بن سلمۃ قال کنا بحاصر یمد بنا الناس اذا اتوا النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فکانوا اذا رجعوا مروبنا فاخبرونا انا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال کذا وکذا وکنت غلامًا حافظًا فحفظت من ذالک قراٰنا کثیرا فانطلق ابی واندًا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فی نفر من قومہ فعلمھم الصلٰوۃ و قال یؤمکم اقرؤکم

فکنت اقرؤھم لما کنت احفظ فقدمونی فکنت اؤمھم‘‘

ترجمہ: عمرو بن سلمہ صسے روایت ہے کہ ہم ایک بار کسی مقام پر قیام کئے ہوئے تھے جو پانی کے قریب تھا اور جو لوگ حضور سید دوعالم نبی مکرمکی خدمت اقدس میں حاضر ہوتے وہ اسی راستہ پرسے گزرتے جو ہمارے پاس سے گزرتا تھا جب یہ لوگ واپس ہوتے تو ہمیں وہ تمام وحی الٰہی جو حضورسے سن کر آتے تھے سناتے تھے ۔ میں اگر چہ بچہ ہی تھا پرمیری قوتِ حافظہ بہت اچھی تھی میں جو سنتا جاتا تھا حفظ کرتا جاتا تھا یہاں تک کہ کافی قرآن مجید اسی طرح حفظ کرلیا۔ کچھ عرصہ کے بعد میرا باپ قوم کے معززین کاایک وفدلے کر حضور سید الانبیائکی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، حضورنے ان کو مسلمان کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ نماز میں امام وہ شخص ہو جو تم میں بہت زیادہ قرآن پڑھنے والا ہو۔ چونکہ میں نے قرآن کا بہت حصہ حفظ کیا ہوا تھا اسلئے امامت کے فرائض مجھے سونپے گئے چنانچہ مجھے آگے کیا گیا اور میں نے امامت کے فرائض سرانجام دیئے۔

بہت سے صحابہ کرام (رضوان اﷲ علیہم اجمعین ) ایسے تھے جن کے اسماء گرامی حفظ قرآن کے سلسلہ میں سرفہرست ہیں:حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی المرتضیٰ ، عبد اﷲ بن مسعود،سالم مولیٰ حذیفہ ، ابی بن کعب ، معاذ بن جبل،طلحہ،سعد بن ابی وقاص، ابوہریرہ ،عبد اﷲ بن سائب ،عبد اﷲ بن عمرو بن العاص،ام المومنین عائشہ صدیقہ، حضرت حفصہ ، حضرت ام سلمیٰ ،عبادہ بن صامت، ابو حلیمہ ،مجمع بن جاریہ، فضالہ بن عبید، مسلمہ بن مخلد،تمیم داری ،عقبہ بن عامراور ابو موسیٰ اشعری رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین۔۱؂

حضور سید پاککے عہد مبارک میں جنگ بئرمعونہ کے موقعہ پر بقول قرطبی: 

’’ستر صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہ اجمعین جو حافظِ کلام پاک تھے شہیدہوئے‘‘۔

ابن سعد نے اپنی کتاب ’’الطبقات‘‘ میں روایت کی ہے: ’’ ہم کو فضل بن دکین نے اور اس کو ولید بن عبد اﷲ بن جمیع نے یہ خبر دی کہ اس سے اس کی دادی نے ام ورقہ بنت عبد اﷲ بن الحارث کا حال یوں سنایا کہ رسول اﷲاس کو دیکھنے کیلئے تشریف لائے اور اس کا نام شہیدہ رکھتے تھے، اس بی بی نے قرآن کو حفظ کر لیا تھا۔ جس وقت حضورغزوۂ بدر میں تشریف لے جانے لگے تو اُس نے آپ سے چلنے کی اجازت مانگی اور عرض کیا کہ اگر حکم ہو تو میں بھی مجاہدین کے ہمراہ چلوں، بیماروں کی تیمارداری اور زخمیوں کی مرہم پٹی کروں گی، شاید خداوند کریم مجھے بھی رتبہ شہادت مرحمت فرما دے۔ نبی کریمنے ارشاد فرمایا خدا نے تیرے لئے شہادت کا سامان کر رکھا ہے اور رسول اﷲنے اسے حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کیا کرے اور اُمِ ورقہ کا ایک مؤذن بھی تھا پھر یہ صورت پیش آئی کہ اُمِ ورقہ نے اپنے ایک غلام اور ایک باندی کو مدبر (مرنے کے بعد اجازت آزادی پانے والا) بنا دیا تھا۔ اتفاق سے اس کو ان کے بارے میں تشویش لاحق ہوئی اور وہ یہ خیال کرنے لگی کہ انہیں اس نے کیوں مدبر بنایا ہے چنانچہ غلام اور باندی دونوں نے مل کر اس کو حضرت عمر فاروق ص کے زمانہ میں قتل کر دیا۔ حضرت عمر صنے جب یہ خبرسنی تو فرمایا رسول اﷲسچ فرماتے تھے وہ ہم کو حکم دیا کرتے تھے کہ چلو ہمارے ساتھ ،چل کر شہیدہ کو دیکھیں ۱؂۔‘‘ 

اس سے واضح ہوتا ہے کہ صرف صحابہ کرام کی اکثریت ہی حافظِ کلام ربانی نہ تھی بلکہ صحابیات کی ایک کافی تعداد حافظات تھی۔انہی صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہ اجمعین سے تابعین نے قرآن مجید حفظ کیا۔ صاحب اتقان نے ذہبی کے حوالہ سے لکھا ہے : ’’پھر ان لوگوں سے یعنی صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین سے بکثرت تابعین نے قرأت کی تعلیم پائی منجملہ قراء تابعین کے مدینہ منورہ میں یہ لوگ تھے۔

ابن المسیب،عروہ،سالم،عمر بن عبد العزیز، سلیمان اور عطا جو دونوں یسار کے فرزند تھے، معاذبن الحارث المعروف بہ معاذ القاری، عبدالرحمن بن ہرمزالاعرج، ابن شہاب الزہری، مسلم بن جندب اورزیدبن اسلم مکہ مکرمہ میں عبید بن عمیر، عطا بن ابی رباح ،طاؤس، مجاہد، عکرمہ اور ابن ابی ملیکہ۔

کوفہ میں علقمہ الاسود، مسروق،عبیدہ ،عمرو بن شرجیل، حارث بن قیس، ربیع بن خثیم، عمرو بن میمون، ابوعبد الرحمن السلمی، زر بن جیش، عبید بن نضیلہ، سعید بن جبیر، نخعی اور شعبی، بصرہ میں ابو عالیہ ،ابو رجا، نصر بن عاصم، یحییٰ بن یعمر، حسن، ابن سیرین اور قتادہ شام (دمشق) میں مغیرہ بن ابی شہاب المخزومی (یہ حضرت عثمان صکے شاگرد تھے) اور خلیفہ بن سعد (یہ ابی الدرداء کے شاگرد تھے) اسی طرح قرآن مجید کے حفظ اور اَدائے تلّفظ کیلئے تبع تابعین نے بھی اپنی زندگیاں وقف کیں۔ چنانچہ مدینہ منورہ میں ابوجعفر یزید بن القعقاع، ان کے بعد شیبہ بن نصاع اور پھر نافع بن تمیم تھے۔ مکہ مکرمہ میں عبد اﷲ بن کثیر، حمید بن قیس الاعرج اور محمد بن ابی محیصن تھے۔

کوفہ میں یحییٰ بن وثاب، عاصم بن ابی النجود، اور سلیمان الاعمش یہ تینوں ہمعصر تھے، ان کے بعد حمزہ اور پھر کسائی بصرہ میں عبد اﷲ بن ابی اسحاق ،عیسیٰ بن عمر، ابو عمرو بن العلاء اور عاصم المجدری یہ چاروں ہمعصر تھے، ان کے بعد یعقوب الحضرمی۔

شام میں عبد اﷲ بن عامر، عطیہ بن قیس الکلابی اور عبد اﷲ بن المہاجر، پھر یحییٰ بن الحارث الذماری ۔ ان کے بعد شریح بن یزید الحفری ۔ 

صاحب اتقانفرماتے ہیں کہ انہی مذکورہ بالا اِماموں میں سے سات امام فن قرأت کے تمام دنیا میں مشہور ومعروف ہوئے وہ یہ ہیں: نافع، ابن کثیر، ابوعمرو، ابن عامر، عاصم، حمزہ اور کسائی۔ ان کے بعد قاریانِ کلام اﷲ تمام دنیا میں پھیل گئے ،ہر دور اور ہر زمانہ میں لاکھوں کی تعداد میں حافظ قرآن شریف پائے جائے ہیں اور ان شاء اﷲ یہ سلسلہ رہتی دنیا تک یونہی چلتا رہے گا۔

ختم قرآن مجید کاسلسلہ بھی صحابہ رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین سے چلا آرہا ہے اور یہ سنت سرورِ کائنات احمد مجتبیٰ محمد مصطفی  ہے ۔ ابوداؤد مسلم بن محراق سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا کہ میں نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے عرض کی کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ایک رات میں دو یا تین قرآن ختم کرتے ہیں تو انہوں نے فرمایا وہ پڑھیں یا نہ پڑھیں میں تو رسول اﷲکے ساتھ پوری رات نماز میں قیام کرتی تھی اور آپ سورۂ البقرہ ٗ آل عمران اور النساء پڑھتے تھے مگر اس طرح کہ جہاں کسی بشارت کی آیت پر گزرے تو دعا فرمائی اور اس سے متمتع ہونے کی رغبت ظاہر کی اور جس وقت کوئی تخویف کی آیت پڑھی تو دعا اور پناہ مانگی۔

کوئی صاحب ایک رات میں، کوئی صاحب دو راتوں میں اور کوئی صاحب تین راتوں میں قرآنِ مجید ختم کرتے تھے۔ احمد اور عبید نے سعید بن المنذرسے روایت کی ہے کہ اس نے کہا۔ ’’میں نے رسول اﷲسے عرض کیا آیا میں تین دن میں ایک پورا قرآن مجید پڑھوں‘‘  آپ نے فرمایا ’’ہاں اگر تو اتنی قوت رکھتا ہے‘‘۔

آخری اورا وسط طریقہ ختم قرآنِ پاک کا سات دن میں ختم کرنے کا ہے، اکثر صحابہ کرام اور تابعین کا اسی پر عمل رہا ہے ۔ شیخین نے عبد اﷲ بن عمرو بن العاص سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا ’’مجھ سے رسول اﷲنے فرمایا کہ ایک مہینہ میں قرآن کا ایک ختم کیا کر‘‘  میں نے عرض کیا ’’یارسول اﷲ () مجھ میں اس سے زائد قوت ہے‘‘تو آپ  نے فرمایا ’’دس دن میں پڑھا کر‘‘ میں نے عرض کیا ’’مجھ میں اس سے زائد قوت ہے ‘‘تو حضور نبی کریمنے فرمایا ’’تو پھر سات دنوں میں قرآن ختم کیا کرنا اور اس پر زیادتی نہ کرنا‘‘۔

مسند دارمی کی ایک حدیث ہے کہ عبد اﷲ بن عمرو نے سید دوعالمکی خدمت اقدس میں عرض کیا یا رسول اﷲ فی کم اختم القراٰن قال اختمہ فی شھرکتنی مدت میں قرآن ختم کیا کروں، فرمایا ایک ماہ میں ختم کیا کر۔قلت انی اطیق قال اختمہ فی خمسۃ و عشرین  میں نے عرض کیا کہ میں اس سے کم دنوں میں ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہوں، فرمایا پچیس دنوں میں۔قلت انی اطیق قال اختمہ فی عشرینمیں نے عرض کیا کہ میں اس سے کم دنوں میں ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہوں فرمایا بیس دنوں میں۔قلت انی اطیق قال اختمہ فی خمس و عشرینمیں نے عرض کیا کہ میں ا س سے بھی کم دنوں میں ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہوں فرمایا پندرہ دنوں میں۔قلت انی اطیق قال اختمہ فی عشر میں نے عرض کیا کہ میں اس سے بھی کم دنوں میں ختم کر سکتا ہوں، فرمایا دس دنوں میں۔ قلت انی اطیق قال اختمہ فی خمسمیں نے عرض کیا کہ میں اس سے بھی کم دنوں میں ختم کر سکتا ہوں، فرمایا پانچ دنوں میں۔قلت انی اطیق قال لامیں نے عرض کیا کہ میں اس سے بھی کم دنوں میں ختم کر سکتا ہوں، فرمایا نہیں۔

’’عن عبد الرحمٰن بن عبد القاری۱؂  قال خرجت مع عمر بن الخطاب لیلۃ الی المسجد فاذا الناس او زاع متفرقون یصلی الرجل لنفسہ فقال عمرانی لو جمعت ھٰولاء علی قاریٍ واحدٍ لکان امثل ثم عزم فجمعھم علٰی ابی بن کعب قال ثم خرجت معہ لیلۃ اخریٰ و الناس یصلون بصلٰوۃ قارئھم قال عمر نعمت البدعۃ ۱؂  ھذا و التی تنامون عنھا افضل من التی تقومون یرید

اٰخر اللیل وکان الناس یقومون اولہ رواہ البخاری‘‘۲؂

ترجمہ: حضرت عبد الرحمن بن عبد القاری کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ رات کو عمر صبن الخطاب کے ساتھ رمضان کے اندر مسجد میں گیا ،میں نے دیکھا کہ لوگ علیحدہ علیحدہ اور متفرق نماز تراویح پڑھ رہے تھے یعنی ہرشخص اپنی اپنی نماز پڑھ رہا تھا اور بعض اپنے قبیلے کے ساتھ پڑھ رہے تھے۔ حضر ت عمر صنے یہ دیکھ کر فرمایا کہ اگر میں ان سب لوگوں کو ایک قاری کی امامت میں جمع کر دوں تو بہتر ہوگا چنانچہ آپ نے اس کا ارادہ کر لیا اور ابی بن کعب کو امام بنایا۔ راوی عبد الرحمن کہتے ہیں کہ پھر ایک مرتبہ رات کے وقت اسی طرح رمضان میں مجھ کو عمرص کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا اور دیکھا کہ لوگ مسجد میں اپنے قاری کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں۔ عمر صنے یہ دیکھ کر کہا کہ یہ بدعت بہت اچھی ہے اور وہ نماز تراویح جس کو تم پڑھ کر سو رہتے ہو اس سے بہتر ہے جس کیلئے تم بیدار ہوتے ہو یعنی آخر رات میں اور اس زمانہ میں لوگ تراویح اول وقت پڑھ لیا کرتے تھے۔

’’عن السائب ابن یزید قال امرعمر ابی ابن کعب و تمیما الداری ان یقوما للناس فی رمضان باحدی عشرۃ فکان القارئ یقراء باالمئین حتٰی کنا نعتمد علی العصا من طول القیام تنصرف

الا فی فروع الفجر‘‘(رواہ مالک)

ترجمہ: سائب بن یزید کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا کہ وہ رمضان میں لوگوں کو گیارہ رکعتیں پڑھائیں اور اس زمانہ میں قاری نماز میں وہ سورتیں پڑھتا تھا جو سو آیتوں سے زیادہ ہوتی تھیں۔ یہاں تک کہ ہم قیام کی طوالت سے مجبور ہوتے تھے کہ عصا کا سہارا لے لیں اور ہم اس نماز سے فارغ ہو کر فجر کے قریب واپس ہوتے تھے۔

حضرت سائب صسے اس ضمن میں دوسری روایت ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے 

وَ عِنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ قَالَ کُنَّا نَقُوْمُ فِیْ عَہْدِ عُمَر بِعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَالْوَتْرُ رَوَاُہ البَہِیْقِیُّ فِی الْمَعْرِفَۃِ بِاالْاَسْنَادِ الصَّحِیْحِ قَالَ النَّوَوِیُّ فِی الْخُلَاصَۃِ اِسْنَادُہٗ

صَحِیْحٌ وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِلّبَہیْقِیّ وَعَلٰی عَھْدِ عُثْمَانَ وَعَلِیٍّ مِّثْلَہٗ

(ابو الحسنات سید عبداﷲ، زجاجۃ المصابیح اردو ترجمہ محمد منیر الدین ، فرید بکسٹال لاہور ۱۹۹۸ء جلد ۲ صفحہ۳۰۸)

ترجمہ :حضرت سائب بن یزید صسے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمر صکے زمانہ میں بیس (۲۰) رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے اور وتر کی نماز بیس رکعت کے سوا ہوتی تھی۔ اس کی افادیت بیہقی نے معرفہ میں سند صحیح کے ساتھ کی ہے اور امام نووی نے خلاصہ میں کہا ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور بیہقی کی ایک روایت میں اس طرح ہے کہ حضرت عثمان صاور حضرت علیص کے عہد خلافت میں بھی وتر کے سوا تراویح کے بیس رکعت پڑھے جاتے تھے ۔

اسی طرح حضرت ابن عباس صفرماتے ہیں : 

وَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کَانَ یُصَلِّیْ فِیْ رَمَضَانَ بِعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً فِیْ غَیْرِ جَمَاعَۃٍ وَالْوِتْرِ رَوَاہُ الْلبَھْقِیُّ وَالطِّبْرَانِیْ وَابْنُ اَبِیْ شَیْبَہْ

وَالْبَضَوِیْ ( ایضاً ابو الحسنات سید عبد اﷲ ، زجاجۃ المصابیح جلد ۲ صفحہ۳۰۷)

ترجمہ :حضرت ابن عباس صسے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم رمضان میں بغیر جماعت کے تنہا بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے اور نماز وتران بیس رکعت کے سوا ہوتی تھی ۔چنانچہ احناف اسی لئے بیس رکعت تراویح پڑھتے ہیں ۔ 

’’عن عبد اﷲ بن ابی بکر قال سمعت ابیا یقول کنا ننصرف فی رمضان من القیام فنستعجل الخدم باالطعام مخافۃ فوت السحور فی اخری مخافۃ الفجر‘‘( رواہ مالک)

ترجمہ:عبد اﷲ بن ابی بکر کہتے ہیں کہ میں نے اُبیّ سے یہ کہتے سنا ہے کہ ہم رمضان میں تراویح سے فارغ ہو کر آتے تو خادموں سے جلدی کھانے کیلئے کہتے اس خوف سے کہ کہیں سحر کا وقت ختم نہ ہو جائے اور دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ فجر کے اندیشہ سے۔

احادیث مذکورہ بالا سے واضح اور ثابت ہو گیا کہ سیدنا امیر المومنین عمر فاروق صنے نمازِ تراویح میں قرآن مجید کی تلاوت ایک حافظ قرآن (ابی بن کعب) مقرر فرما کر رائج فرما دی۔ آپ کے دورِ خلافت سے پیشتر تراویح جماعت کے ساتھ نہیں پڑھی جاتی تھی، اس طریقہ پر باجماعت نمازِ تراویح کی ادائیگی حفظ قرآن مجید کیلئے انتہائی اہم ذریعہ اور سبب بن گیا۔ آج تک امت محمدیہ  رمضان شریف میں تراویح کے دوران ختم کلامِ پاک کرتی ہے جوکہ پورے برس میں نہیں کر پاتی۔

عن ابن عمر قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم لاحسد الاعلی اثنین رجل اتا اﷲ القرآن ھو یقوم بہ اٰناء اللیل واٰناء النھار…… الی آخر الحدیث۔

ترجمہ: اِبن عمرصسے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور  نے فرمایا دو باتوں کے سوا اور کسی بات میں حسد (رشک) کرنا درست نہیں۔ ایک اس شخص کے بارے میں جسے خداوند کریم نے قرآن عطا فرمایا ہے (یعنی حافظ قرآن ہے) اور وہ شب و روز اس کے ساتھ قیام کرتا ہے۔ الی آخرالحدیث۔

صاحب اتقان فرماتے ہیں کہ ’’ابی داؤد نے تابعین کی ایک جماعت سے روایت کی ہے کہ ختم قرآن کے دن روزہ رکھنا مسنون ہے اور یہ بھی چاہئے کہ ختم قرآن میں اپنے گھر والوں اور دوستوں کو شریک کرے‘‘۔

طبرانی نے حضرت انس صکی نسبت روایت کی ہے کہ جس دن وہ ختم قرآن کرتے تھے تو اپنے کنبے والوں کو جمع کرکے خدا سے دعا مانگا کرتے تھے۔ابی داؤد نے حکم بن عتیبہ سے روایت کی ہے کہ ’’مجھ کو مجاہد نے بلوا بھیجا جب میں گیا تو ان کے پاس ابن ابی امامہ بھی موجود تھے ،ان دونوں نے مجھے کہا کہ ہم نے تم کو اس لئے بلوایا ہے کہ ہم قرآن ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ختم قرآن کے وقت دعا قبول کی جاتی ہے‘‘۔ مجاہد ہی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ’’صحابہ رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین ختم قرآن کے وقت اکٹھے ہو جایا کرتے تھے‘‘ اور یہ بھی فرماتے ہیں ’’ختم قرآن کے وقت رحمت کا نزول ہوتاہے‘‘۔

دارمی نے سند حسن کے ساتھ ابی وقاص سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا ’’اگر قرآن کا ختم آغازِ شب میں ہوتا ہے تو ملائکہ ختم قرآن والے کے واسطے صبح تک دعائے رحمت کرتے رہتے ہیں اور اگر وہ دن کے پہلے حصہ میں قرآن ختم کرتا ہے تو شام تک فرشتے اس کے حق میں رحمت کی دعائیں مانگتے جاتے ہیں‘‘۔

جس طرح قرآن مجید کا یاد کرناعظیم برکات اور اعلیٰ درجات کا حامل ہے اسی طرح قرآن پاک حفظ کرکے بھلا دینا بھی بڑی بدبختی اور خسران ہے۔صاحب اتقان فرماتے ہیں کہ ’’قرآن کا بھول جانا گناہِ کبیرہ ہے‘‘۔ ابی داؤد کی حدیث ہے رسول اﷲ  نے ارشاد فرمایا ’’میرے روبرو میری امت کے گناہ پیش کئے گئے اورمیں نے اُس سے بڑا کوئی گناہ نہیں دیکھا کہ کسی شخص کو قرآن کی کوئی سورت یا آیت یاد رہی ہو اور پھر اس نے بھلا دیاہو‘‘۔

ابوداؤد ہی نے یہ حدیث بھی روایت کی ہے کہ رسول اﷲنے فرمایا ’’جس شخص نے قرآن پڑھ کر اسے فراموش کر دیا وہ قیامت کے دن خدا کے سامنے جذام مرض میں مبتلا ہو کر لایا جائے گا‘‘۔

یہ کتابِ مبین جس کو اُمّ الکتاب کا نام دیا گیا ہے ایسی مکمل اور جامع کتاب ہے کہ جو ہر وقت اور ہر زمانہ کے تمام علوم کا سرچشمہ ہے۔ تمام علوم اسی کتاب شریف کے محتاج ہیں۔ ظاہر ہے کہ مجھ جیسا بے بضاعت ،فقیر بے نوا ایسی ایسی جامع علوم کتاب کے حفظ وتلاوت کے متعلق بالتفصیل لکھنے کی قابلیت اور اہلیت نہیں رکھتا اور نہ ہی اس مقدمہ کے یہ چند صفحات اس اہم موضوع کیلئے کافی ہیں۔ تاہم محض 

 

JSN Epic is designed by JoomlaShine.com

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries