Uncategorised

حضرت شیخ العلماء و الفقرا سیّد عیسیٰ شاہ صاحب رحمت اللہ علیہ

حضرت علامہ کبیر سیّد موسیٰ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند ارجمند حضرت شیخ العلماء و الفقراء سیّد عیسیٰ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سری نگر کشمیر میں پیدا ہوئے۔ا پنے والد محترم کے زیر سایہ تعلیم و تربیت سے آراستہ و پیراستہ ہوئے۔ قرآن مجید حفظ کیا۔ مختلف علماء سے علوم درسیہ کی فراغت حاصل کی، احادیث اپنے والد بزرگ سے پڑھی ، جب تکمیل کر چکے تو والد محترم سے بیعت ہوکر سلسلہ عالیہ قادریہ حسنیہ میں صاحب مجاز و معنعن ہوئے۔آپ کو حضور غوثِ پاک رضی اللہ عنہنے حکم دیا کہ ’’ تم پشاور میں جا کر سکونت اختیار کرو ‘‘ چنانچہ آپ نے اپنے بزرگانِ عظام کے مزارات پر حاضری دینے کے بعد پشاور میں قیام فرمایا پہلے آپ لاہور میں حضرت شیخ المحدثین علامہ اجل سیّد شاہ محمد غوث صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پر حاضر ہوئے۔ پھر جہلم میں حضرت زبدۃ العارفین صدر الکاملین حضرت سیّد میر شاکر شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ بن شیخ المحدثین حضرت شاہ محمد غوث صاحب رحمۃ اللہ علیہ لاہوری کے مزار مقدس پر حاضر ہوئے پھر اثنائے سفر میں مشائخ ، مجاذیب اور فقرا ء و علماء سے ملتے ہوئے پشاور آئے۔ آپ نے ہندوستان کا سفر بھی کیا تھا۔ اولیاء کرام کے مزارات پر حاضر ہوئے ، علماء مشائخ سے ملے اور پہلی شادی بھی یو۔پی کے مشہور معروف سادات رجوعہ کے ہاں سے کی تھی۔ چونکہ آپ کو حکم تھا اس لئے مستقل سکونت پشاور میں اختیار کی۔ حضرت ابوالبرکات سیّد حسن بادشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ عالیہ پر حاضر ہوکر فیوض و برکات سے مالا مال ہوئے۔ پشاور شہر میں درس شروع کیا۔ قرآن حکیم کا روزانہ صبح و شام درس دیتے۔ لنگر جاری کیا، تزکیہ نفوس اور تہذیب اخلاق میں مصروف ہو گئے۔ آپ نہایت ہی صاحب حال اور کثیر الکرامت تھے، ہر طرف سے لوگ آ آ کر داخل سلسلہ ہوئے اور طلباء کا درس میں اژدھام ہو گیا آپ کے لنگر شریف کا خرچ اتنا بڑھ جاتا کہ آپ قرضدار ہو جاتے تو اللہ تعالیٰ غیب سے ایسے اسباب مہیا فرما دیتا کہ تمام قرض اتار دیتے۔ حضور پاک ﷺ کا نام نامی و اسم گرامی لیا جاتا تو آپ پر بے ساختہ رقت طاری ہو جاتی اور کیفیت کے آثار نمایاں ہو جاتے۔ اِسی عشق اور محبت کے جذبہ صادقہ کی وجہ سے آپ کو ’’ اویس قرنی ‘‘ کے پیارے نام سے پکارا جاتا۔

آپ کے حلقۂ ارادت میں ہر قسم کے لوگ شامل تھے جیسے فقراء ، غرباء، امراء ، حکمران ، تاجر ، اور علما کرام ، آپ میں کمال درجے کا استغنا تھا، کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کسی کی جگہ پر جاتے تھے۔ آپ نے تحائف اور ہدایا تک قبول نہیں کئے۔ دنیاوی مخمصوں سے الگ ہو کر تبلیغ دین نبویﷺ، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور ذکر الٰہی کو اپنا شعار بنا لیا تھا۔ اپنی تمام زندگی اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی اور حضور پاک سیّد دوعالم ﷺ کی سنّت مبارک کی اتباع میں گزار دی۔ ۱۳ شعبان ۱۲۵۶ ہجری میں فوت ہو کر حضرت ابوالبرکات سیّد حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک کے اندرونی احاطہ کے دروازہ کے بالکل سامنے تھڑے پر دفن ہوئے۔ آپ کے دو فرزند تھے حضرت شاہ غلام صاحب المعروف بہ آغا میر جی صاحب، اور حضرت سیّد اکبر شاہ صاحب المعروف بہ آغا پیر جان صاحب رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما۔

حضرت علامہ کبیر سیّد موسیٰ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ

حضرت شیخ الطریقت جناب سیّد محمد عابد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے تیسرے فرزند سیّد محمد موسیٰ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ قرآن مجید حفظ کیا، اور علوم عقلیہ و نقلیہ میں تکمیل کی۔ احادیث مبارک کے حافظ تھے۔ والد محترم کے دست مبارک پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے۔ آپ نے پوری زندگی زہد و عبادت اور درس تدریس میں گذاری۔ تین برس تک بالکل الگ تھلگ رہ کر ذکر الٰہی میں سلوک و معرفت کی منزلیں طے کیں۔ نہ کچھ کھایا اور نہ پیا۔ سب کچھ یادِ الٰہی اور عشق ِالٰہی میں بھول گئے۔ شعر

جبھی جا کے مکتبِ عشق میں سبق مقام فنا کیا​

جو لکھا پڑھا تھا نیازؔ نے سو وہ صاف دل سے بھلا دیا​

تقریباً ساڑھے پانچ برس کشمیر کے جنگلوں میں طلب حق کے لئے پھرتے رہے، بڑے بڑے اکابر فقراء اور مشائخ کی صحبتوں سے فیض یاب ہوئے۔ والد گرامی سے صاحب مجاز اور معنعن تھے ، جب سلوک و معرفت کی تکمیل کر لی ، تو والد گرامی کی جگہ پر رونق افروز ہوئے ، اپنے بزرگانِ کرام کی روش پر قائم ہوکر دوس و تدریس ، تبلیغ اور تزکیۂ نفوس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ لنگر غوثیہ جاری فرمایا، مخلوق خدا کی خدمت فقراء اور مساکین کی پرورش کرتے۔ طلباء کی ہر قسم کی سہولت کو مہیا فرماتے ، خود حدیث شریف کا درس دیتے۔ اور دیگر علوم پڑھانے کے لئے اور علماء مقرر کئے۔ گویا آپ کی خانقاہ بیک وقت علوم حقہ کا سرچشمہ اور سلوک و معرفت کا مرکز و محور تھی۔ شعر

در کفے جامِ شریعت در کفے سندان عشق

ہر ہوسنا کہ نداند جام وسندان باختن

انتہائی پابند سنّت اور صاحب زہد و ورع تھے، صاحب تاریخ کبیر کشمیر تحریر کرتے ہیں

 ’’ سیّد محمد موسیٰ فرزند سیّد محمد عابد ، صاحب زہد و تقویٰ و جود و سخا بود ‘‘

کشمیر آپ کے علومِ ظاہری و باطنی کے فیض سے منور تھا۔ آپ کی غرباء پروری کا شہرہ ہر طرف پھیلا ہوا تھا، کوئی بھی وارد و صادر آپ کی سخاوت سے محروم نہیں لوٹا۔ آپ کی وفات ۱۷ جمادی الثانی ۱۲۳۶ ہجری میں ہوئی۔ آنجناب کے دو فرزند تھے۔ حضرت عارف باللہ سیّد عیسیٰ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت قدوۃ السالکین سیّد قطب الد ین شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ۔

حضرت علامہ شیخ الطریقت میر سیّد عابد شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ

 

آپ کا اسم گرامی والدین نے میر عابد شاہ رکھا اور شاہ محمد عابد صاحب خانیاری رحمۃ اللہ علیہ سے مشہور ہوئے ، آپ جناب حضرت شاہ محمد غوث صاحب علیہ الرحمت کے بڑے فرزند تھے بقول مؤرخ کشمیر آپ ’’ ۱۱۱۱ ہجری میں پیدا ہوئے ‘‘ آپ کی تعلیم و تربیت اپنے والد محترم کے زیر سایہ ہوئی۔ قرآن مجید حفظ کیا علوم درسیہ سے فراغت حاصل کی۔ پھر والد محترم کے ہی دست حق پرست پر بیعت سے مشرف ہوئے۔ مؤرخ کشمیر صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’ قرآن مجید کی باتجوید حفظ سے فراغت حاصل کر کے دوسری فارسی، عربی کتابوں کا خط اٹھایا ، علمی فضائل کی کافی دستگاہ حاصل کی ، والد ماجد سے بیعت کا ہاتھ پکڑ کر طریقہ شریفہ کے ارشادات کی منزلیں طے کیں ‘‘ صاحب تاریخ کبیر کشمیر لکھتے ہیں۔ 

 ’’ کسب فیوض معنوی از والد خود نمودہ و اقطاعی پدری بدست آوردہ بر سجادہ ارشاد نشست، و مرجع خاص و عام و مستجاب الدعوات بود ‘‘

آپ کے علم و فضل ، تورع، تواضع، منکسر المزاجی ، اور کثیر الکرامت ہونے کا شہرہ آج تک زبان زد خلائق ہے، علما کی خدمت ، غرباء کی پرورش ، آپ کا خاص وصف تھا۔ والد محترم سے رخصت حاصل کر کے سری نگر کے ایک محلہ ببری باغ میں آ کر قیام کیا، اپنے بزرگان کرام کی روش کے مطابق لنگر جاری کر دیا۔ درس تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا، تہذیب اخلاق، اور تزکیۂ نفوس شروع ہو گیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں اپنے اخلاص اور بے لوث خدمت کی وجہ سے مقبول ہو گئے اور بقول مؤرخ کشمیر ’’ اولیاء اور علما ء کے مرکز بن گئے ‘‘۔آپ کے علم کا اتنا چرچا ہوا کہ کشمیر اور اطراف و جوانب سے جو ق در جوق طلباء اور فقرا آنے لگے، اور آپ کے علمی کمالات اور فیوض باطنی سے مستفید ہونے لگے ، آپ کی عام فیاضی اور نان دہی کا اتنا چرچا ہوا نیز آپ کی حسن سیرت اور مخصوص اوصاف اتنی شہرت پا گئے کہ بقول مؤرخ کشمیر ’’ حکام کے کانوں تک اِس بات کی اطلاع پہنچی ، حکومت کے ارباب حل و عقد نے حسب ذیل تیرہ گاؤں کانر، کچھ، لامورہ، ڈاڈہ اویزہ، کھڈھہ، کرم سیر، سمپورہ ، والورہ، برن وار، دارپیردار،، باجی ، حیدو، اور انگر بطور جاگیرات آپ کے نام منتقل کر دئیے ‘‘ ۔نیز فرماتے ہیں ’’ آپ ان جاگیرات کی آمدنی مستحق غربا کی ضرورت اور اخراجات کے لئے تقسیم کرتے تھے ‘‘ آپ کی سیاسی دسترس اتنی ہمہ گیر تھی کہ جب کبھی کسی حاکم یا گورنر کی تبدیلی کا مسئلہ پیش آتا تو آپ سے مشورہ کرنے کے بعد وہ مسئلہ حل ہوتا، اور آپ کی رائے سے اتفاق کیا جاتا، جب درانی عہد ختم ہوا اور سکھوں کی حکومت قائم ہوئی تو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے آپ کی تمام جاگیرات ضبط کر لیں، اور خود ان جاگیرات پر متصرف ہوا، جنا ب علامہ محمد دین صاحب فوقؔ مرحوم تحریر فرماتے ہیں۔

 ’’ آپ کے نام شاہان مغل کی طرف سے جاگیر و عطایات کی سندات راقم الحروف نے بھی سری نگر میں دیکھی ہیں ‘‘ 

نیز فرماتے ہیں۔

’’ خانیار کے متصل ببرہ باغ ایک محلہ ہے وہاں بھی سادات گیلانیہ کے کئی گھر آباد ہیں، ان کے مورث اعلیٰ سیّد شاہ محمد غوث رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ لیکن افسوس ہے ایسے جلیل القدر سلف کے خلف زمانہ کے انقلاب سے بے حس ہیں بلکہ سنا ہے کہ انہوں نے اپنی مفلوک الحالی کی وجہ سے اپنے خاندانی کاغذات، شجرے، جاگیروں کے پٹے، شاہی احکامات، وغیرہ اور کئی قلمی کتابیں کہیں فروخت کردی ہیں ‘‘ 

آپ کی وفات ۱۳ ربیع الاول ۱۱۹۳ ہجری میں واقع ہوئی۔ جناب مؤرخ کشمیر مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ

’’ آپ کی دفن گاہ کی تخصیص میں عجیب قسم کا اختلاف پیدا ہوا ، بعض یہ کہتے تھے کہ محلہ خانیار میں بمقام سیّد شاہ محمد فاضل صاحب قادری رحمۃ اللہ علیہ دفن ہونا چاہیے۔ بعض یہ کہتے کہ آپ کی نعش کو لاہور میں پہنچا کر جناب سیّد محمد غوث رحمۃ اللہ علیہ کی قبر شریف کے پاس دفن کیا جاوے۔ مختصر یہ کہ جناب جان محمد صاحب سیالکوٹی نے یہ رائے پیش کی کہ قرعہ اندازی کی جاوے، قرعہ اندازی کی بنا پر آپ کا مدفن جناب شیخ عبدالرشید صاحب قادری کے صحن میں قرار پایا، احباب نے قبر شریف کے گرد روضہ کی صورت میں عمارت بنوائی تھی جو کہ منہدم ہو گئی ہے ‘‘

جب یہ فقیر زیارت کے لئے گیا تو زیارت شریف بالکل گری ہوئی تھی اور قبر شریف سے تمام پتھر اٹھا کر مجاور نے اپنا مکان تعمیر کر لیا تھا، عمارت کا صرف ایک بڑا دروازہ بطور یادگار باقی ہے ، آپ کی تاریخ وفات ’’ ہست بہشت جائے اُو ‘‘ بنتی ہے۔آپ کے چار فرزند تھے ( ۱ ) سیّد رسول شاہ صاحب ( ۲ ) غلام شاہ صاحب ( ۳ ) موسیٰ شاہ صاحب ( ۴ ) یوسف شاہ صاحب۔

مولوی جی ہسپتال

 

 

 

٥ مئی ٢٠١١ کو حکومت خیبر پختون خواہ کے وزیر صحت سید ظاہر شاہ نے پشاور کی عظیم روحانی و علمی شخصیت حضرت سید محمّد امیر شاہ گیلانی کے نام سے خواتین اور بچوں کے ایک ہسپتال کا افتتاح کیا - حضرت سید محمّد امیر شاہ گیلانی کو 'مولوی جی' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ہسپتال شہر کے بڑے ہسپتالوں سے بوجھ کو کم کرے گا اور اوم کو سہولت فراہم کرے گا 

ہسپتال میں gyne­col­ogy, pedi­atric, radi­ol­ogy, pathol­ogy اور fam­ily plan­ning کی جدید سہولیات موجود ہوں گی

وزیر صحت نے اس موقع پر کہا کہ " حضرت سید محمّد امیر شاہ گیلانی انتہائی نیک انسان تھے آپ نے سا ری زند گی انسانیت کی خدمت میں صرف کی اسی لئے یہ ہسپتال آپ
کے نام سے منسوب کیا گیا ہے " انہوں نے ہسپتال کے عملے سے کھا کے وو یہاں انسانیت کی خدمت کے جذبے سے کا م کریں

 

 

 

 

 عمدۃ المفّسیرین شیخ المحدثین ، قدوۃ السالکین، زبدۃ العارفین، حضرت العلامہ سیّد شاہ محمد غوث رحمۃ اللہ علیہ قادری لاہوری بن جناب سیّد حسن بادشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ قادری پشاوری

اسم شریف

 آپ کا نام گرامی والدین رحمہما اللہ تعالیٰ عنہما نے ’’ محمد غوث ‘‘ رکھا اور ’’ جناب سخی شاہ محمد غوث صاحب رحمۃ اللہ علیہ ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔

ولادت با سعادت

جنا ب سیّد حسن بادشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دوسری شادی باشارۂ باطنی جناب غوث اعظمرضی اللہ عنہ ،سادات کنڑ خاندان حضرت پیر بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کی تھی اور وہ اتنی نیک و پاک بیوی صاحبہ تھی کہ ’’ رابعہ عصر ‘‘ کے نام سے موسوم تھی۔  بقول مؤرخ کشمیر جناب مفتی محمد شاہ صاحب ’’ سعادت ‘‘ آپ کی ولادت باسعادت ۱۰۸۴ ہجری میں ہوئی ،آپ اسی عفیفہ بیوی صاحبہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ جبکہ ڈاکٹر ام سلمی گیلانی صاحبہ نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں کافی تحقیق کے بعد سن ولادت ۱۰۹۱ ہجری قرار دیا ہے۔ 

تعلیم و تربیت


آپ کی تعلیم و تربیت اپنے والد محترم کے زیر سایہ ہوئی چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں کہ 

 ’’یعنی جب اِس احقر کی عمر سات سال کی ہوئی تو بہتیرا ہی قرآن مجید پڑھا مگر ضبط نہ ہوا ، بڑا ہی کم فہم تھا، جناب قبلہ گاہی والد نے باطنی طور پر حضرت پیر دستگیر رحمۃ اللہ علیہ کے حضور میں عرض کی کہ اِس لڑکے پر مہربانی فرما دیں، آپ نے مہربانی کی اور علم ظاہر و باطن کا حصہ ملا۔ اس کے بعد تو خدا کا فضل سے علوم کے دروازے کھل گئے اور قلیل عرصے میں علم ظاہری حاصل ہو گیا، چنانچہ اٹھارہ سال کی عمر میں مروجہ کتابوں کو پڑھ لیا، مطول کو چھ ماہ میں پورا کیا۔ نیز دوسری کتابوں کو بھی بڑی جلدی پڑھ لیا‘‘

 آپ نے تلویح توضیح جناب عالم علوم ظاہری و باطنی اخوند مولانا محمد نعیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھی، اور آنجناب یعنی مولانا محمد نعیم صاحب کابل کے پرگنہ ’’ محمود کار ‘‘ میں رہتے تھے، سبحان اللہ علم کی پیاس آپ کو پشاور سے کشاکش کابل لے گئی اور پھر ایسے وقت میں جبکہ سفر نہایت ہی تکلیف دہ تھا، کوئی آرام و راحت کا سامان نہ تھا بلکہ تقریباً سفر پیدل ہوا کرتا تھا کوئی موٹر لاری، ریل گاڑی کا سفر نہ تھا مگر آپ کا علمی شوق و ذوق آپ کو اتنا دور و دراز سفر طے کرنے پر مجبور کرتا تھا۔ جب آپ سوائے حدیث کے تمام علوم سے فارغ ہو گئے تو پھر احادیث کے لئے لاہور تشریف لائے۔ چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں کہ

  یعنی استماع حدیث میاں جان محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو کہ منڈی فالیزا آباد میں سکونت پذیر تھے۔ اور اجازت حدیث بھی لی۔ اور بعض علوم آپ نے میاں نور محمد صاحب مدقق، حاجی یار بیگ صاحب، مولانا مولوی عبدالہادی صاحب اور میاں محمد مراد صاحب نابینا سے اخذ کئے، چنانچہ آپ ارشاد فرماتے ہیں

 حصول سلوک

آپ تحریر فرماتے ہیں

’’ یعنی اثنائ تعلیم میں ہی اس فقیر کو طلب حق کا شوق دامن گیر تھا لیکن حضرت قبلہ گاہی والد ماجد فرماتے تھے کہ حصول علم کے بعد تمہیں کچھ بتایا جائے گا‘‘

 جب آپ تحصیل علم کر چکے تو اس وقت آپ کی عمر اٹھارہ سال کی تھی۔ والد محترم سے عرض کیا کہ اب علم سے فارغ ہو چکا ہوں۔ التماس ہے کہ راہ حقیقت بتلائیے۔آپ تحریر فرماتے ہیں۔

  یعنی میری اِس عرضداشت کو قبول فرماتے ہوئے طریقہ عالیہ قادریہ میں بیعت فرما کر شغل اور ذکر بتا کر خلوت میں بٹھا دیا، چنانچہ چار چلے والد محترم کے حضور میں گذارے ، یعنی اعمال و اشغال کو بھی عمل میں لایا گیا، اِن چلوں کے بعد چھ سال تک ایک علیحدہ مکان میں یک سو رہا۔ ذکر لسانی و جہر، خفیہ و ذکر قلبی و مراقبات کرتا رہا استعداد اور قسمت کے مطابق حالات وارد ہوتے ، اِن واردات کی حقیقت ہمیشہ آنجناب کی خدمت میں عرض کرتا، جو صحیح ہوتا اِس پر تحسین فرماتے اور جہاں غلطی ہوتی اس کا تدارک کرتا۔ ان باتوں کو تفصیل حیطہ تحریر سے باہر ہے شغل اور کرنے سے معلوم ہوتی ہے۔نیز آپ فرماتے ہیں کہ ’’ چھ سال کے بعد منشور خلافت تحریر فرما دیا ‘‘۔

اِسی سال{ FR 1511 }؎ یعنی جس سال آپ کو والد محترم نے منشور خلافت لکھ دیا تو اسی سال آپ کے والد گرامی کا انتقال ہو گیا۔

منشور خلافت

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ْ

الحمد للہ الذی نور قلوب العارفین بنور معرفتہٖ و فضل اللہ احوال السالکین علی العالمین بکمال فضلہٖ و کرمہٖ والصلوٰۃ و السلام علی سیّد الانبیاء محمّد و الہٖ واصحابہ اجمین

قال شیخ العارفین القطب ربّانی محّی الدّین سیّد عبدالقادر الحسنی الحسینی الجیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ وارضاہ فیما اوصیبہ مریدہ قال اوصیتک بتقویٰ اللہ وحفظ طاعتہ و لزوم ظاہر الشرع و حفظ حدودہ و ان طریقا ھذا مبنی علی سلامت الصدور و بشاشت الوجود و بذل الید و کشف الاذی و الصفح عن عشرات الاخوان و نصحیتہ الاصاغر و الا کابر و تدک الخصومت و کلا زمتہ الاشیاء و مجانتہ الاکثار و بترک صحبۃ من لیس من طبقہم و المعاونتہ فی امور الدین والدنیا و حقیقۃ الفقران لا تفتقر الی من ہو مثلک و حقیقۃ الغنی ان تستغنی عمّن ھو مثلک و لیس التصرف القیل و القال لٰکن عن الجوع و قطع الشھوات و اللذات المستحسنات و اوصیک اذا لقیت فقیرا ایاک ان لایبداء ہ با العلم بل باالرفق نان العلم بو حشۃ و الرفق یونسٖہ و اوصیک بن لاتصحب الاغنیاء با التواضع و الفقراء بالتذلل و حسبک من الدنیا صحبتہ ولیی و خدمۃ فقیر ھذہ و صیۃ لمن سمعھا و سآیئر الفقراء و المریدین کثرھم اللہ تعالٰی و وفقک اللہ تعالٰی و ایانا لما ذکرنا و بعد فیقول العبد الفقیر الفانی سیّد حسن القادری انی البست الخرقۃ الشریفۃ لا جازت الطریقۃ باذن القطب ربانی و الغوث الصمدانی سیّد عبدالقادر الجیلانی رضی اللہ عنہ ولدیی و ابنیی سیّد محمد غوث جعل اللہ با العھدو افیا قویاً فیی دینہ ثابتا بصفاء یقیند و استخرت اللہ تعالٰی فا اَجبتُ ان اجیزہ فاخذت علیہ العھد و جعلتہ خلیفۃ علی تسلیک السالکین و کتبت المریدین و الفقراۗء و الصالحین و الانقیاء و المعتبرین فی طریق القادریۃ فی الارض شرقا و غربا و ان یجلس علی السجادۃ سالکاً وَّکان بالذھد وَّ الورع وان یلبھالمن اراہ ایلا و ان یلقن الذکر کما تلقن منیی من غیر زیادۃ و نقصان و ان یتقی اللہ فی سرہ و جھرہ و ان لا ینسانیی من الدعاء ثم لبست الخرقۃ المشرفۃ من والدی و مرشدی سیّد عبداللہ و ھو من والد ہ و مرشدہ سیّد محمود و ھو من والدہ و مرشدہ سیّد عبدالقادر و ھومن والدہ و مرشدہ سیّد عبدالباسط و ھو من والدہ ومرشدہ سیّد حسین و ھو من والدہ و مرشدہ سیّد احمد و ھو من والدہ و مرشدہ سیّد شرف الدین قاسم و ھو من والدہ و مرشدہ سیّد شرف الدین یحییٰ و ھو من والدہ و مرشدہ سیّد بدر الدین حسن و ھو من والدہ و مرشدہ سیّد علاؤالدین علی و ھو من والدہ ومرشدہ سیّد شمس الدین محمد و ھو من والدہ و مرشدہ سیّد شرف الدین یحییٰ بزرک و ھو من والدہ و مرشدہ سیّد شھاب الدین احمد و ھو من والدہ و مرشدہ سیّد ابی صالح النصر و ھو من والدہ و مرشدہ سیّد عبدالرزاق و ھو من والدہ و مرشدہ سیّد السادات قطب ربانیی غوث صمدانی سیّد عبدالقادر الحسنی و الحسینی الجیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ و ھو لبس من مرشدہ شیخ ابو سعید بن مبارک الحزومی رضی اللہ عنہ و ھو من مرشدہ و شیخہ شیخ ابوالحسن علی بن محمد بن یوسف القریشی الھنکاری و ھو من مرشدہ و شیخہ شیخ ابو الفرح طرطوسی و ھو من مرشدہ و شیخہ ابوالفضل عبدالواحد بن عبدالعزیز یمنی و ھو من مرشدہ و شیخہ شیخ ابو بکر شبلی و ھو من مرشدہ و شیخہ شیخ جنید بغدادی سیّد الطآئفہ و ھو من مرشدہ و شیخہ شیخ سری سقطی و ھومن مرشدہ و شیخہ شیخ معروف کرخی و ھو من مرشدہ و شیخ داود طائی و ھو من مرشدہ و شیخہ شیخ حبیب عجمی و ھو من مرشدہ و شیخہ شیخ حسن بصری و ھو من مرشدہ و شیخہ شیخ الاولیآء و سیّد ابن عم الرسول امیر المؤمنین علی المرتضیٰ ابن ابی طالب کرم للہ وجہ و من مرشدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایضاً معروف الکرخی لبس الخرقۃ من مرشدہ و امام علی موسیٰ الرضیی و ھو من والدہ و مرشدہ امام موسیٰ الکاظم و ھو من والدہ مرشدہ امام جعفر صادق و ھو من والدہ و مرشدہ امام العلمین امام محمد باقر و ھو من والدہ و مرشدہ سیّد تاج الدین امام زین العابدین و ھو من والدہ و مرشدہ سبط رسول الثقلین قرۃ العین سیّد الکونین یعنی ابی عبداللہ الحسین و ھو من والدہ اسد اللہ الغالب امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجھہ و ھو من ید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

ترجمہ منشور خلافت

حقیقی معنوں میں صفت اور ثنا کے لائق وہی ذاتِ باری تعالیٰ ہے جس نے اپنے پاک بندوں کو اپنی معرفت کے نور سے آراستہ کیا اور اپنے طالبوں اور سیدھے راستے پر چلنے والوں کو اپنے کمال فضل سے تمام مخلوق پر ممتاز کر دیا اور درود شریف اور سلام حضرت سالار انبیاء پر ہو اور ان کی اولاد اور ان کے اصحاب پر۔ حضرت قطب ربانی عارف باللہ باکمال محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی حسنی و حسینی حنبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ و ارضاہ نے مندرجہ ذیل وصیت اپنے مرید کو کی۔ اور فرمایا۔ اے میرے مرید میں منجملاً چار باتوں کی وصیت کرتا ہوں ( ۱ ) اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا ( ۲ ) اس کی عبادت ہمیشہ کرتے رہنا ( ۳ ) ظاہری شریعت پر لازمی طور سے پا بند رہنا ( ۴ ) شریعت کی حدود کی حفاظت کرتے رہنا اور تفصیلاً مندرجہ ذیل وصیت ہے۔

ہمارا یہ طریقہ گیارہ امور پر مبنی ہے۔ یعنی ( ۱ ) سینہ جو کہ قلب کی جگہ ہے اس کو اللہ کی یاد سے پر رکھنا ( ۲ ) اپنے چہرے کو ہمیشہ بشاش رکھنا ( اندرونی طور پر اس کی یاد سے اور بیرونی طور پر خوش خلقی کی وجہ سے ) ( ۳ ) ہاتھ سے نیکی کرنا ( ۴ ) دکھ دور کرنا معناً و مجازًا ( ۵ ) اپنے بھائیوں کی لغزشوں اور غلطیوں کو معاف کرنا ( ۶ ) چھوٹوں اور بڑوں کو نصیحت کرتے رہنا ( ۷ ) اوقات کی پابندی کرنا ( ۸ ) نیکی کے مواقع پر اپنی قربانی پیش کرنا ( ۹ ) کسی پر زیادتی کرنے سے پرہیز کرنا ( ۱۰ ) جو اپنا ہم مشرب و ہم مذہب نہ ہو اس کی صحبت کو ترک کرنا ( ۱۱ ) دینی اور دنیاوی امور میں ایک دوسرے کی مدد کرنا۔

فقر کی حقیقت

اور فقر کی حقیقت یہ ہے کہ تو دست سوال اس کے آگے دراز نہ کرے جو تجھ جیسا ہے اور تصوف محض باتیں نہیں ہے بلکہ وہ ایک ٹھوس چیز ہے جو کہ پانچ باتوں سے پیدا ہوتا ہے۔ ( ۱ ) نفس کو ظاہری طعام سے بھوکا رکھنا ( ۲ ) کمینی دنیا کو ترک کرنا ( ۳ ) خواہشات نفس امارہ کو بالکل کاٹ دینا ( ۴ ) دنیاوی لذات کو خیر باد کہنا ( ۵ ) نفس کو جتنی مطبوع اور پسند چیزیں ہیں ان سے دور رکھنا اور میں تجھ کو وصیت کرتا ہوں کر جب کسی درویش کو پائے تو شروع شروع میں اس پر اپنا علم ظاہر نہ کرو بلکہ نرمی پیش کرو۔کیونکہ طالب کو علم ڈراتا ہے اور پیر کامل کی نرمی مائل کر لیتی ہے۔ یعنی اس کو اِس راستے کی طرف کھنچتی ہے ،اور میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ امیروں اور صاحبان دولت و جاہ کے پاس اپنی عاجزی اور حاجت لیکر نہ جاؤ اور دنیا میں صرف دو چیزیں تمہارے لئے کافی ہیں۔ ولی کی صحبت اور کسی فقیر کی خدمت۔

یہ وصیت اس کے لئے جس نے سنی اور پھر یہ تمام سالکین اور مریدوں کے لئے ہے اللہ تعالیٰ ان کو زیادہ کرے اور جو کچھ اوپر ذکر کیا ہے۔ تجھے اور ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔

اس کے بعد فقیر، فانی سیّد حسن القادری کہتا ہے کہ میں نے یہ خلافت کا لباس پہنا اور اِس پاک طریقہ قادری کی اجازت دینا حضرت قطب ربانی، غوث صمدانی شیخ عبدالقادر رضی اللہ عنہ جیلانی سے حاصل کیا اور جب میں نے اپنے بیٹے اور عزیز سیّد محمد غوث کو اسرار ربانی کا کماحقہ جاننے والا، اللہ کے دین پر مستقیم اور یقین میں کامل صفائی رکھنے والا پایا تو اللہ تعالیٰ سے استخارہ کیا اور اس کے بعد میں نے پسند کیا کہ ا س کو اِس طریقہ کی اجازت دیدوں۔ پس میں نے اس سے عہد بیعت لیا اور اس کو خلیفہ بنایا تا کہ اپنے طالبوں کو سیدھے راستے پر چلاوے اور مریدوں کی تربیت کرے اور تمام درویشوں اور پر ہیز گاروں کی شرقاً و غرباً اس زمین میں اس نورِ قادری سے پرورش کرے اور سالک بن کر اور زہد اور تقویٰ کا لباس پہن کر اِس گدی پر بیٹھے اور پھر یہ لباس اپنے بعد اس کو پہنا و ے جس کو اِس کے اہل دیکھے۔ یہاں شیخ نے دوسرا نکتہ حل کر دیا۔ یعنی خلافت موروثی نہ رہی بلکہ اھلیتی رہی۔ یعنی جو اس کے اہل ہو وہ لے گا۔ ( ساداتِ کرام کے لئے مقام عبرت ہے۔ شیخ کے رتبے کو دیکھ کر وصیت کو دیکھیں )

اور اِس ذکر قادری کو تلقین کرے جیسا اس نے مجھ سے لیا۔ اور سیکھا اور تلقین کماحقہ بغیر کمی یا بیشی کے کرے یعنی جس طرح مجھ سے اُوراد پہنچے اسی طرح بغیر کم یا بیش کرنے کے پہنچا دے اور خفیہ طور پر اور ظاہری طور پر اللہ سے ڈرتا رہے اور مجھ کو دعا سے یاد کرتا رہے۔

میں نے یہ خرقہ شریفہ پہنا اپنے والد اور مرشد سیّد عبداللہ سے اور انہوں سے اپنے والد اور مرشد سیّد محمود سے انہوں نے اپنے والد اور مرشد سیّد عبدالقادر سے اور انہوں نے اپنے والد اور مرشد سیّد عبدالباسط سے انہوں نے اپنے والد اور مرشد سیّد حسین سے انہوں نے اپنے والد اور مرشد سیّد احمد سے اور انہوں نے اپنے والد اور مرشد سیّد شرف الدین قاسم سے اور انہوں نے اپنے والد اور مرشد سیّد شرف الدین یحییٰ سے اور انہوں نے اپنے والد اور مرشد سیّد بدرالدین حسن سے اور انہوں نے اپنے والد اور مرشد سیّد علاؤ الدین علی سے اور انہوں نے اپنے والد اور مرشد سیّد شمس الدین محمد سے اور انہوں نے اپنے والد اور مرشد سیّد شرف الدین یحییٰ بزرگ سے اور انہوں نے اپنے والد اور مرشد سیّد شہاب الدین احمد سے اور انہوں نے اپنے والد اور مرشد سیّد ابی صالح النصر سے اور انہوں نے اپنے والد اور مرشد سیّد عبدالرزاق سے اور انہوں نے اپنے والد اور مرشد سیّد السادات قطب ربانی غوث صمدانی سیّد عبدالقادر الحسنی الحسینی الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انہوں نے اپنے مرشد شیخ ابوسعید بن مبارک المحزومی رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے اپنے مرشد و شیخ، شیخ ابوالحسن علی بن محمد بن یوسف القریشی الھنکاری سے اور انہوں نے اپنے شیخ و مرشد شیخ ابولفرح طرطوسی اور انہوں نے اپنے شیخ و مرشد ابوالفضل عبدالواحد بن عبدالعزیز یمنی سے اور انہوں نے اپنے شیخ و مرشد شیخ ابو بکر شبلی سے اور انہوں نے اپنے شیخ و مرشد شیخ جنید بغدادی سیّد الطآیفہ سے اور انہوں نے اپنے شیخ و مرشد سری سقطی سے اور انہوں نے اپنے شیخ و مرشد شیخ معروف کرخی سے اور انہوں نے اپنے شیخ و مرشد شیخ داؤد طائی سے اور انہوں نے اپنے شیخ و مرشد شیخ حبیب عجمی سے اور انہوں نے اپنے شیخ و مرشد شیخ حسن بصری سے انہوں نے اپنے شیخ و مرشد شیخ الاولیآء و سیّد ابن عم الرسول امیر المومنین علی المرتضیٰ ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے اور انہوں نے اپنے مرشد رسول اللہﷺ سے

ایضاً

معروف الکرخی نے خرقہ شریفہ اپنے مرشد و امام علی ابن موسیٰ الرضی سے اور انہوں نے اپنے والد اور مرشد امام موسیٰ الکاظم سے اور انہوں اپنے والد اور مرشد امام جعفر صادق سے اور انہوں نے اپنے والد اور مرشد امام العلمین امام محمد باقر سے اور انہوں نے اپنے والد اور مرشد سیّد تاج الدین امام زین العابدین سے اور انہوں نے اپنے والد اور مرشد سبط رسول الثقلین قرۃ العین سیّد الکونین یعنی ابی عبداللہ الحسین سے اور انہوں نے اپنے والد اسد اللہ الغالب امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے اور انہوں نے ید رسول اللہ ﷺسے۔

سفر

آپ تحریر فرماتے ہیں کہ

 ’’ چوں فقیر را شوق و طلب بسیار بود ، بقصد دیدن اہل اللہ بطریق کردنی سیاحت از خانہ روان شدم ‘‘  

 چنانچہ اِسی جذبہ صالحہ کے ماتحت آپ نے فقراء کو ملنے کے لئے سفر اختیار کیا ، سب سے پہلے اپنے شہر میں جناب حافظ عبدالغفور صاحب کشمیری پشاوری نقشبندی صاحب اثر و جذب بزرگ رہتے تھے، ان سے آپ کی اکثر صحبت رہتی ، آپ فرماتے ہیں

’’ اگرچہ صحبت ایشاں مفید بود لیکن فقیر را اصلا تشفی نمی شد ‘‘  

 ’’یعنی اگر چہ ان کی صحبت فائدہ مند تھی مگر در حقیقت اطمینان خاطر میسر نہ تھی‘‘

 پشاور ہی میں پوٹھوار کے ایک فقیر شاہ چراغ نامی سے ملے ، آپ نے فرمایا ہے کہ مجھ پر بڑی مہربانی کرتے تھے۔ایک فقیر شاہ حسین صاحب کی خدمت میں بھی آپ جاتے تھے ، فرماتے ہیں ’’ ان کے اُوراد کے سماع میں دل پر رقت طاری ہوتی تھی ‘‘ ان کی ملاقاتوں کے بعد آپ اٹک تشریف لے گئے ، اٹک میں جناب حضرت جیو ( جی ) صاحب یعنی جنا ب یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کی، حضرت جی صاحب آپ سے نہایت ہی شفقت اور محبت سے پیش آئے ، آپ تحریر فرماتے ہیں۔

 ’’ مہربانی بسیار کردند، ذکر قلبی در صحبت ایشاں غالب بود، چنانچہ ذکر قلب ، طریقۂ حبس و بعضی مقامات کہ در حبس ضرور بودند از صحبت ایشاں حاصل شد و نیز اجازت طریقہ نقشبندیہ فرمودند ‘‘  

’’یعنی حضرت یحییٰ { FR 1516 }؎ صاحب المعروف بہ حضرت جیو ( جی ) صاحب نے بہت مہربانی فرمائی ان کی صحبت میں ذکر قلبی غالب ہوا ، ذکر قلبی ، طریقہ حبس اور بعض دیگر مقامات جو کہ حبس کے لئے ضروری ہیں ان کی صحبت سے حاصل ہوئے ، نیز آپ نے طریقہ نقشبندیہ اجازت مرحمت فرمائی ‘‘

 اٹک میں شاہ ربانا مجذوب کے فیض یافتہ میاں نور محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ محمد فاضل صاحب نیز اٹک کے گرد و نواح میں شاہ زندہ فقیر صاحب کی صحبتوں میں بھی آپ حاضر ہوئے اور ان حضرات کی توجہات کاملہ سے فیض وافر اٹھایا۔ راولپنڈی کے قریب نور پور شاہاں میں شاہ لطیف مجذوب سے بھی ملے ، فرماتے ہیں۔

 ’’ توجہ در حق فقیر کردند، اثر آں در خود معلوم شد، لیکن بعد یک روز اثر آں معدوم گشت و باقی نماند ‘‘

آپ نے اِس سفر کے بعد ایک لمبا سفر اختیار فرمایا۔ اثنایٔ سفر میں آپ گجرات کے نواح نوشہرہ میں پہنچے وہاں ایک ’’ صاحب نظر ‘‘ بزرگ حاجی گلگو صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کی۔فرماتے ہیں

 ’’ اس قدر جذبہ تھا کہ توجہ کی ایک ہی نظر سے حرارت ، ذکر قلبی ، گریہ ، اور حال کی حالت طاری ہو جاتی ‘‘

 حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک چھوٹے سے باغ میں پڑے رہتے ، اور خادم پاؤں دباتے رہتے ، آپ فرماتے ہیں کہ

 ’’ میں نے آپ کے پاؤں دبانے شروع کر دئیے ، فوراً حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا،کدام کس است کہ از دست ایں آواز ِ ذکر می آید ‘‘  آپ کافی دن ان کی صحبت میں رہے وہ اپنے ہاتھ سے آپ کے منہ میں نوالے ڈالتے ، رخصت کرتے وقت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ٹوپی اور چادر مرحمت فرما کر آپ کو رخصت کیا۔ نواح گجرات قصبہ کنجاہ میں درویش محمد جعفر صاحب سے ملے ، آپ فرماتے ہیں کہ ’’ انہوں نے بڑی سخت ریاضتیں کروائیں۔ اور ان تمام کو بذریعہ چلوں کے عمل میں لایا گیا، مگر کچھ زیادہ اثر معلوم نہیں ہوا ‘‘ گجرات کے بعد آپ لاہور تشریف لائے ، اس وقت لاہور بزرگانِ کرام و اولیاء عظام اور علما ذی الاحترام کا مسکن تھا ، آپ تمام کے پاس گئے ان سے ملے ، فائدہ حاصل کیا چنانچہ تحریر فرماتے ہیں۔

 ’’ مجاذیب، گوشہ نشینان و سالکان و اہل شوق را بسیار دیدم، در مزارات بزرگان ہم شب ہا گذرانیدہ شد ‘‘ 

 لاہور میں میاں جان محمد، میاں جان محمد ثانی صاحب قصاب پورے والے، میاں نور محمد صاحب مدقق، حاجی یار بیگ، مولوی عبدالہادی صاحب، میاں محمد مراد صاحب نا بینا، حاجی محمد سعید صاحب اور دیگر بزرگان کی ملاقات کی۔ میاں جان محمد صاحب ( جو کہ محلہ پرویز آباد میں مقیم تھے ) اور حاجی محمد سعید صاحب سے علاوہ دیگر فوائد کے اسماء اللہ کی اجازت بھی حاصل کی۔ تقریباً لاہور کے مزارات پر آپ نے راتیں بھی گذاریں چنانچہ ایک رات آپ میاں میر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مقبرہ پر گذارنے کے لئے گئے انہوں نے خواب میں آپ کو ایک شغل بتایا اور منع کیا کہ کسی سے اظہار نہ کرنا۔ صبح آپ جناب شیخ حامد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ( جو کہ صاحب حال و کمال بزرگ تھے ) کو ملنے کے لئے گئے شیخ صاحب نے آپ کو فرمایا کہ جو شغل رات کو جناب میاں میر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو بتایا ہے وہی کیجئے۔ اس کے بعد نواح سر ہند میں سیّد بھیکہ چشتی رحمۃ اللہ علیہ ( جو کہ فرد وقت اور صاحب کمال تھے ) کی ملاقات کے لئے تشریف لے گئے۔ آپ فرماتے ہیں

 ’’ اجازت و استفادہ بعضے اذکار و اشغال حاصل نمودم۔ چنانچہ اجازت شغل سہ پایہ ہشت رکنی را از خدمت اُو شاں حاصل کردم ‘ 

 پھر آپ بزرگان کرام نقشبندیہ ( جو کہ سر ہند شریف میں مقیم تھے ) کے پاس گئے ، سرہند شریف میں جناب شیخ صبغۃ اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت میاں عبدالاحد صاحب رحمۃ اللہ علیہ المعروف بہ میاں گل صاحب، اور میاں فرخ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ملاقات کی۔ حضرت میاں گل صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو حضرت مجدد صاحب الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پرلے جا کر توجہ دی، اور اپنی کتاب مسمیٰ بہ معجزات نبویﷺ بھی عنایت فرمائی، میاں فرخ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق آپ تحریر فرماتے ہیں۔

 ’’ کہ جامع علم باطن و ظاہر ، و اعلم زمان و مصنف وقت و محدث بودند، زیارت کردم و صحبتہا نمودم ‘‘ 

پھر آپ شاہ جہان آباد ( یعنی دہلی ) آئے ، یہاں پر شیخ محمد چشتی اور شیخ کلیم اللہ صاحب اور دیگر بہت سے بزرگوں کی ملاقات کی اور مزارات پر راتیں بھی کاٹیں۔ آپ فرماتے ہیں۔

   شیخ کلیم اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مصنفہ کتاب لقیمات آپ کو عنایت کی۔ پھر آپ اکبر آباد تشریف لے گئے۔ وہاں بھی اولیاء اور علماء سے ملے۔ وہاں ایک معمر مجذوب شاہ مشتاق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آپ اکثر جایا کرتے تھے۔ مگر آپ کو فائدہ اس سے بہت کم ؎ ہوا۔بعدازاں آپ اجمیر شریف گئے۔ اور حضور خواجۂ بزرگ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضر ہوئے۔ آپ اپنے قلمی رسالہ کے صفحہ ۶۷ پر تحریر فرماتے ہیں۔

 ’’ در باطن مہربانی فرمودند و توجھات و عنایات کردند ‘‘

آپ اِس دور دراز سفر کے بعد واپس لاہور پہنچے۔ لاہور پہنچ کر آپ پھر گجرات ( حاجی گلگو صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان کے ایک بزرگ صاحب کو دیکھنے کے لئے ) گئے، آپ فرماتے ہیں کہ ’’ اگرچہ وہ علم ظاہر اور راہ سلوک سے بے بہرہ تھے مگر طریقت کے اوصاف سے موصوف تھے، نیز جذبہ کی نسبت غالب تھی، کبھی سماع کے وقت توجہ کرتے تھے ، حاضرین پر رقت ِ قلب اور گریہ کا اثر ہوتا۔ بعض عام لوگوں پر رقص اور بے خودی کی حالت طاری ہو جاتی۔ میں بھی آپ کی صحبت سے مستفیض ہوا۔ اگرچہ حرکت قلب پہلے ہی تھی لیکن رونا اور درد ان کی صحبت سے زیادہ ہوا۔ جب گھر پہنچا تو بہت کم اثر باقی تھا۔ ایک سال بعد پھر ان کی خدمت میں حاضر ہوا اثر بڑھ گیا۔ جب بھی واپس ہوتا کم ہو جاتا۔ یونہی بارہ سال تک ان کی خدمت میں بار بار آتا جاتا رہا۔لیکن اثر کا وہی پہلا حال رہا ‘‘۔ ؎ لاہور کے قریب سیام چوراسی ایک گاؤں ہے۔ جہاں شیخ عبدالغنی صاحب رحمۃ

اللہ علیہ رہتے تھے۔ وہ اتفاقاً اِن دنوں لاہور آئے تھے۔ آپ دوبار ان کی ملاقات کے لئے گئے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں۔

 یعنی ’’ مجھے ان کی خاص صحبتیں خلوت میں میسر ہوئیں۔ ’’ نسبت ذات بحت ‘‘ { FR 1536 }؎کی توجہ کرتے تھے ، چنانچہ بے خودی ، اور بے رنگی غلبہ کرتی تھی۔ اسی نسبت اور دیگر شغل اور مراتب ذکر کی اجازت دی چنانچہ کبھی وہ نسبت غالب آتی ہے اور کبھی نہیں ‘‘

یہ تمام اور اتنا لمبا سفر طے کرنے کے بعد جب آپ پشاور پہنچے تو فرمایا کہ

  شعر

ہمہ شب بزاریم شد کہ صبا نہ داد بویٔ                         نہ دمید صبح بختم چہ گنہ نہم قضا را

یعنی اکثر بزرگان کرام سے ، سالکوں ، مجذوبوں، صلحاء اور مرتاض لوگوں کی زیارت کی۔ تمام نے مہربانی فرمائی جس قدر قسمت میں تھا حاصل ہوا مگر میری دلی مراد پوری نہ ہوئی۔

سفرِ کشمیر

جناب مؤرخ کشمیر مفتی محمد شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ’’ سرزمین  کشمیر میں متواتر چند دفعہ تشریف فرما کر قدرتی مظاہر و مناظر سے لطف اٹھایا۔ تبلیغ دین کا فریضہ بجا لایا، مشائخ کرام کی ملاقات سے کامیاب رہے۔، طریقہ شریفہ کے نشر و اشاعت میں پوری توجہ سے کام لیا ‘‘۔

اِستغنایٔ قلبی

آپ کے علم و فقر کی شہرت اتنی عام ہوئی کہ ہر کہ ومہ کی زبان پر آپ کی دینی تبلیغ ،خدمت فقراء درس المبارک اور لنگر شریف کا تذکرۂ تھا۔ یہاں تک کہ آپ اِسی بے لوث اور بے غرض خدمت اِسلام کی وجہ سے بقول مؤرخ کشمیر صاحب ’’ دہلی  کے شاہی دربار تک پہنچے ‘‘ آپ جب بادشاہ دہلی کے پاس گئے تو اس نے آپ کے سامنے ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی پیش کی، مگر آپ نے لینے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ مستحق لوگوں میں بانٹ دو، مجھے اِس کی ضرورت نہیں ، یہ غریبوں اور مفلوک الحال لوگوں کا حق ہے۔ آپ کے والد محترم کے انتقال کے فوراً بعد اورنگزیب عالمگیر ؒنے آپ کے اور آپ کی اولاد کے نام ۴۰ جریب زمین ( جو کہ آپ کے والد کی زیارت کے گرد تھی ) کی سند لکھ کر بھیجی، مگر آپ نے قطعی جواب دے دیا۔ ؎ کہ ’’ میں فقیر آدمی ہوں ، اللہ تعالیٰ کا دروازہ مجھے کافی ہے ، وہی میرا کارساز ہے وہی میرا مولیٰ ہے اور بہت اچھا آقا ہے ‘‘۔اِسی طرح جو ہدایا اور تحائف آتے آپ فقراء اور مساکین پر صرف فرما دیتے۔ بیواؤں اور یتیموں کے وظائف لنگر شریف کی طرف سے مقرر تھے، مسافر اور مفلوک الحال لوگ لنگر سے پرورش پاتے، اور کسی وقت بھی آپ کے چہرہ مبارک پر میل نظر نہ آتی اور کبھی بھی کسی امیر کے دروازے پر نہیں گئے۔ جب محمد شاہ  }؎ بادشاہ ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو اس نے پشاور سے آپ کے نام لاہور میں حکم نامہ لکھا کہ دربار میں حاضر ہوں اور میرے لئے دعا کریں، آپ نے محمد شاہ بادشاہ کو صاف جواب لکھ بھیجا، صاحب خزینۃ الاصفیا صفحہ ۱۸۸ پر تحریر فرماتے ہیں۔

 ’’ آنحضرت انکا نوشت کہ طریق پیر ما نیست کہ نزد بادشاہ روند، و باستمداددی پرداز ند کہ برایٔ ہر یک استمداد حق جل و علا کافی است ‘‘

درس تعلیم و تعلیم سلوک اور تبلیغ اِسلام

جب آپ لاہور میں مقیم ہوئے تو آپ نے باقاعدہ سلسلہ تدریس شروع کر دیا، درس القرآن ، درس الحدیث طریقہ مبارکہ کے ارشادات خود فرماتے۔ آپ کے درس شریف میں بڑے بڑے علماء کے لڑکے اور مشائخ کرام کے صاحبزادے آ کر فیض لیتے اور مستفید ہوتے، حدیث شریف کا درس اتنا وسیع تھا کہ علاوہ پنجاب و سرحد کے کابل و غزنی کے طلباء جوق در جوق آ آ کر شامل ہوتے ، نیز تمام طلبا ء کی جائے رہائش ، لباس اور طعام کا انتظام بھی آپ ہی فرماتے ، دوسری طرف اپنے طریقہ ٔ مبارک کی نشر و اشاعت میں ان تھک کوشش فرماتے۔ سینکڑوں مریدین و معتقدین آتے اور رشد و ہدایت سے بہرہ ور ہو کر واپس لوٹتے۔ ہر وقت اور ہر آن ذکر الٰہی اور قرآن خوانی میں مصروف رہتے۔ آپ کے ذکر الٰہی کرنے کا یہ عالم تھا کہ ایک ایک سانس گن کر بتائے۔ بارہ برس تک دریائے راوی میں بیٹھ کر نفی اثبات کا ذکر کیا۔ جب آپ پانی سے باہر نکلے تو ہڈیاں ہی ہڈیاں تھیں، گوشت کو پانی کھا گیا تھا، آپ فرماتے ہیں۔

 ’’ سالک جب ذکر جہر میں مشغول ہو تو مناسب ہے کہ نفی اثبات کے ذکر کو بارہ ہزار دفعہ ضرب سے کرے اور ذکر اسمِ ذات کو کہ اللہ ہے اور ذکر اثبات کہ جو الا اللہ ہے بارہ ہزار دفعہ دل پر کرے جو کہ مل کر چوبیس ہزار دفعہ ہوتا ہے کیونکہ دن اور رات میں انسانی نفس اسی قدر خارج ہوتے ہیں اور ہر دم کے مقابلہ میں ذکر ضروری ہوتا ہے بس اِسی طرح برابر ہو گا ‘‘ 

اِسی لئے جب آپ کی مجلس میں کوئی شخص آتا، تو آپ فرماتے ’’ ذکر کر بیکار نہ بیٹھ ‘‘ آپ کی خانقاہ میں باقاعدہ تزکیہ نفس اور تہذیب ِاخلاق کی تعلیم دی جاتی تھی، کوئی قرآن حکیم ، احادیث شریف اور تصوف کی کتابیں پڑھ رہا ہے تو کوئی نفی اثبات کے ذکر میں مشغول ہے، کوئی صرف اسم ذات کے ذکر میں محو ہے تو کوئی صرف اثبات کے ذکر میں مصروف ہے ، کوئی مراقبہ کر رہا ہے تو کوئی رابطۂ قلب کے ساتھ درد و شوق بڑھا رہا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ سب پر آپ کی نظر کرم موجود ہے۔ ذکر الٰہی ، علم اور آپ کی توجہ سے حسب ِاستعداد ہر ایک اپنے اپنے مقامات کی سیر میں کوشاں ہے۔ سبحان اللہ کتنے پاکیزہ اور مقدس لوگ تھے کہ طلب حق کے لئے سب دنیاوی علائق سے کنارہ کش ہو کر ایک ’’ اللہ والے ‘‘ کے حضور میں بیٹھے ہوئے یاد ِ الٰہی میں مستغرق ہیں۔ تمام رات اللہ جل جلالہ کے آگے سر بسجدہ رہنا، عاجزی کرنا، اپنے برے اعمال پر پشیمانی کا اظہار کرنا اور تزکیۂ نفس کرنا۔ یہ وہ جذبہ صادقہ تھا جس کے تحت دین اسلام کی تبلیغ اور سنّت نبوی کی اشاعت ہوتی تھی۔ تمام رات قیام اور تمام دن مخلوقاتِ خدا کی خدمت کرنے ، بھوکوں کا پیٹ پالنے، ننگوں کے لئے کپڑا مہیا کرنے اور اس نبوی طریقہ مبارکہ کے مطابق تزکیہ نفس کرانے میں بسر ہوتا تھا۔ ان لوگوں کی زبان میں اثر ، عمل میں برکت اور دعا میں قبولیت تھی۔یہی لوگ تھے جنہوں نے صرف یاد الٰہی اور مکارم اخلاق حمیدہ کی بدولت ہندوستان سے کفر و شرک اور جاہلی مراسم کو ختم کر کے اسلام کے نورانی دین کو روشن کیا اور جگمگایا۔ جب سے مسلمانوں نے یاد الٰہی اور تزکیۂ نفس کو چھوڑ کر صرف علم کو لیا یا علم سے بھی غفلت برتی اِس وقت سے قعر مذلت میں گرنے لگے وہ تمام بداعمالیاں اور بداخلاقیاں پیدا ہو گئیں جو ایک جاہل قوم کا شیوہ ہو سکتی ہیں اب پھر انہی افراد کی ضرورت ہے جن کے قلب اور دماغ یاد الٰہی سے معمور اور شوق تبلیغ و جہاد سے ان کے عمل آراستہ و پیراستہ ہوں تا کہ دنیائے عالم کے کونے کونے میں کلمہ طیبہ کی صدا پہنچ جاوے اور غالب ہو کر پہنچے ، کہاں سے وہ تپش والے وہ جذبہ صادقہ کے مالک وہ شوقِ شہادت اور جوش ِ جہاد سے سرشار، وہ شوق تبلیغ اسلام سے معمور وہ کفر کو نور سے بدلنے والے انسان پیدا ہوں۔

اس وقت جب کہ نہ ریل تھی ، نہ موٹر، اور نہ کوئی اور سفر کی سہولتیں میسر تھیں اور وہ ہندوستان کے ایک کونے یعنی ٹھٹہ نگر کراچی سے ہزاروں میل کے رقبے میں کلمہ توحید کا پیام سناتے ہوئے لاکھوں مدعیان کفر و شرک کو خالص توحید کا پرستار بناتے ہوئے ہندوستان کے دوسرے کونے پشاور میں آ کر تبلیغ اسلام اور تزکیہ نفس کا مرکز قائم کرتے نظر آتے ہیں۔ اور پھر تمام ہندوستان میں پھیل جاتے ہیں۔ یعنی ٹھٹہ نگر ( کراچی ) میں جناب سیّد عبداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ الملقب بہ صحابی رسول، پشاور میں سیّد حسن بادشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ المعروف بہ میراں سرکار ، سری نگر ( کشمیر ) میں شاہ محمد فاضل صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، اکبر آباد میں عنایت اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، لاہور میں شاہ محمد غوث رحمۃ اللہ علیہ ، جہلم میں حضرت میر شاکر شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، مظفر آباد میں جناب شاہ میر صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور سلطان پور ( ہزارہ ) میں سیّد زین العابدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ دین الٰہی کی تبلیغ ، سنّت نبویﷺ کی اشاعت اور تزکیہ نفس کے ذریعے مکارمِ اخلاق پھیلا رہے ہیں۔ آج پھر اِن ہی جیسے اسلام کی شمع کے پروانوں کا جذبِ صادق رکھنے والے لوگوں کی ضرورت ہے۔

تصانیف

حضرت سیّد شاہ محمد غوث صاحب رحمۃ اللہ علیہ جس طرح علوم باطنی سے مشرف تھے اِسی طرح ظاہری علوم سے بھی آراستہ و پیراستہ تھے، جناب مؤرخ کشمیر صاحب فرماتے ہیں۔

 ’’ خواجہ{ FR 1401 }؎ محمد مراد بیگ صاحب جیسے حقیقت شناس بزرگ نے آپ کی تعریف و توصیف میں یہ لکھا ہے کہ بکلی علم آراستہ است بذکر و فکر اشغال دارد ‘‘

صاحب خزینۃ الاصفیا  ؎ و حدیقۃ الاولیا فرماتے ہیں

’’ جامع علوم ظاہر و باطن کاشف رموز ِطریقت و حقیقت بود ‘‘

 جس علم و عرفان کی آپ تقریباً چالیس سال تک اشاعت کرتے رہے آپ نے ان بے بہا موتیوں کو سلکِ کتب میں نہایت خوبصورتی سے پرویا ہے۔اِس طرح یہ سرمایہ محفوظ ہو گیا ہے اور ان میں سے چند کتابوں کا تذکرۂ درج ذیل ہے۔

شرح غوثیہ ( قلمی فارسی )

آپ نے ۱۱۳۱ ہجری میں بخاری شریف کی شرح لکھی ، جو کہ شرح غوثیہ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ شرح علم حدیث کا ایک بحر ناپیدا کنار ہے۔ نیز تقریباً جتنے علوم احادیث کے متعلق ہیں۔ آپ نے ان سب کو حل فرمایا۔ اِس شرح میں علاوہ اور متعلقہ علوم کے بخاری کے اسماء الرجال کو مکمل طور پر حل کیا ہے۔ قرآن مجید ، حدیث شریف ، اور فقہ مبارک کے علوم کے جواہر پارے ہیں جو کہ کتاب کے صفحوں پر پھیلے ہوئے ہیں،اور بقول جناب محدث جلیل استاذی و مکرمی علامہ حافظ علی احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث ’’ گویا لوح محفوظ آپ کے سامنے تھی جبکہ آپ یہ کتاب لکھ رہے تھے ‘‘ اور بقول جناب مولانا عبدالحق صاحب محدث دار بھنگوی ’’ جس طرح نووی مسلم شریف کی دیگر شروح سے بے نیاز کر دیتی ہے اسی طرح بخاری شریف کی یہ شرح بخاری کی اور شروح سے بے نیاز کر دیتی ہے ‘‘ نیز جناب شیخ الحدیث جامع اسلامیہ ڈابھیل جناب مولانا محمد یوسف شاہ صاحب بنوری فرماتے ہیں ’’ یہ شرح اپنی نظر آپ ہے ‘‘ یہ شرح صاحبزادہ حضرت سیّد فضل صمدانی صاحب کے کتب خانہ واقعہ پشاور میں موجود ہے۔ ۱۹۴۸ ء میں نوادر کتب کی نمائش پشاور شہر میں کی گئی تو یہ کتاب بھی من جملہ اور کتب کے اس نمائش میں موجود تھی۔ پہلے تین پاروں کی شروح تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔تقطیع بھی بڑی ہے، اس فقیر نے پہلے دو پاروں کا اردو ترجمہ کیا ہے۔

 کتاب در بیان کسب سلوک و بیان طریقت و حقیقت ( فارسی قلمی )

جیسا کہ رسالہ کے نام سے ظاہر ہے رسالہ تصوف پر لکھا ہے۔یہ رسالہ ایک مکمل و اکمل مرشد ہے۔ سالک کو قدم قدم پر ہدایت کرتا اور سمجھاتا جاتا ہے ، چنانچہ آپ خود اسی رسالہ میں صفحہ ۷۰،۷۱ پر فرماتے ہیں۔

 ’’ کہ طالب کو اگر اِس راہ کی طلب ہے تو اول مرشد کند کہ کار بدون اُو نمیکشائید و وصل ایں عقدہ بوصل اُوست، اگر ایں چنیں مرشد نہ یابد پس آنچہ دریں رسالہ مسطور است از محققان و صاحب کمالان حاصل نمودہ خلاصہ آں نوشتہ باید کہ بریں عمل نماید البتہ از فائدہ و پنہائی ایں راہ خالی بخواہد ماند د انتفاعی خواہد شد، و اگر استعداد کامل داشتہ باشد شائید کہ بمقصود برسد ‘‘

 اس رسالہ میں ایک دبیاچہ اور چھ فصلیں ہیں ، دیباچہ میں آپ فرماتے ہیں ’’ مبتدی کے لئے دوچیزیں ضروری ہیںا یک تو ’’ ذکر مدام ‘‘ اور دوسری ’’ فکر تام ‘‘ پھر آپ تحریر فرماتے ہیں ’’ ذکر موجب شوق و محبت است ‘‘ ، ’’ فکر تام موجب فنا و معرفت است ‘‘ اس کے بعد ذکر کی بھی آپ نے کئی قسمیں بیان فرمائیں۔ ذکر کی تعریف میں آپ فرماتے ہیں کہ ’’ جب سالک کے قلب پر ذکر جاری ہو جاتا ہے تو بند بند ، رگ رگ ، بلکہ اس کے وجود کا ذرہ ذرہ ذاکر بن جاتا ہے۔ اور یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ اعضاء اور عروق کا ذکر مسموع اور محسوس ہونے لگتا ہے۔ بلکہ دنیا کی تمام اشیاء اور ذرات عالم کے ذکر کو سن سکتا ہے اس سے اس کو بڑا ہی حظ اور لطف حاصل ہوتا ہے ، تجلیات اور انوار الٰہی اس کو نظر آتے ہیں بلکہ اس پر نازل ہوتے ہیں ، خدا کے سوا ہر قسم کے تعلقات سے آزاد ہو جاتا ہے اس کو ہر وقت اس کی لو لگی رہتی ہے۔ ’’ فکر ‘‘ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں ’’ فکر وہ ہے کہ اس کی قوت متخیلہ ہر وقت ذات باری کی طرف متوجہ رہے غیر اللہ سے مطلق خالی رہے،ہر وقت اِسی کے خیال میں مستغرق رہے، ہر آن اسی کا دھیان رہے، یہاں تک کہ اپنے معمولی دنیاوی کاموں میں بھی مشغول ہو تو اسی طرح کہ دِل بیار ود ست بکار ‘‘ پہلی فصل شریعت کے بارے میں ہے اس فصل میں سب سے پہلے آپ فرماتے ہیں کہ ’’ سالک کو شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت میں سے ہر ایک پر عمل کرنا ضروری ہے ‘‘ نیز فرمایا کہ

 ’’ اول سالک را لازم است کہ سعی در متابعت نبوی علیہ الصلوۃ و السلام نماید ، و قدم از متابعت اُو بیرون نہ نہد، و در عقائد و اعمال و افعال و احوال در تبیعت آنحضرت ﷺ کو شد ‘‘

 نماز کی پابندی ، نبوی استخارہ کا طریقہ ، حضور پر نور ﷺ پر درود ، طریقہ تہجد ، طریقت سے کیا مراد ہے اور ذکر کے طریقے وغیرہ کا بیان ہے ، ان میں سے ہر ایک مسئلہ کو اس وضاحت سے بیان کیا ہے کہ سالک اگر ان پر دِل جمعی سے عمل کرے تو اس پر راہ مولیٰ کریم جل جلالہٗ آسان ہو جاتی ہے دوسری فصل میں ان مراقبوں کا ذکر ہے جو کہ ’’ ذکر ‘‘ کے بعد کئے جاتے ہیں ، چنانچہ آپ نے مراقبۂ حضور ، مراقبہ شہود ، مراقبہ معیت، احاطہ ذاتیہ، اور نور محمدی ﷺ پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ تیسری فصل حقیقت کے بیان میں ہے ، چوتھی فصل معرفت کے بیان میں ہے، پانچویں فصل مراتب وجود اور ظہور حق کے بیان میں ہے اور چھٹی فصل میں اپنے والد محترم کا تذکرۂ اور خرقٔہ خلافت کا بیان ہے جو آپ کو اپنے والد گرامی سے ملا۔ اور جن جن بزرگانِ کرام کی زیارت کی اور ملے ان کا ذکر ہے نیز شجرہ بھی درج کیا ہے۔ 

رسالہ ذکر جہر

اس رسالہ میں آپ نے قرآن مجید ، احادیث شریف ، کتب فقہ اور کتب علماء کرام سے ذکر جہر کا مدلل طریقہ پر ثبوت دیا ہے اور نہایت ہی احسن وجوہ بیان فرمائے ہیں۔

ترجمہ قصیدہ غوثیہ شریف

قصیدہ شریف کی عام فہم اور صوفیانہ شرح ہے۔ صرف اور نحو کے مشکل مقامات کو حل فرمایا ہے۔ یہ رسالہ پیر عبدالغفار صاحب لاہوری نے ۱۹۱۰ ء میں شائع کیا تھا۔ اس شرح کا نام آپ نے ’’ شرح خمریہ ‘‘ رکھا ہے۔

اسرار التوحید

یہ رسالہ توحید کے موضوع پر ہے۔ اگرچہ اس رسالہ کا پتہ نہیں مگر آپ نے خود اِس کا تذکرۂ کیا ہے، چنانچہ آپ جب فصوص الحکم کا مطالعہ کرتے تھے تو آپ کو دو مقامات پر بہت اشکال پیدا ہوئے۔آپ فرماتے ہیں۔ ’’ ایک تو وجودِ مطلق کی تحقیق اور اس سے کثرت کے ظاہر ہونے کی کیفیت ، دوسرا خاتم الاولیاء کا مسئلہ میری سمجھ میں نہیں آیا، آخر ایک رات حضرت شیخ ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ صدر الدین قونیوی کہ جو کہ شیخ کے اجل اصحاب میں سے تھے ، معہ مولوی جامی رحمۃ اللہ علیہ کے خواب میں دیکھا ، خدا ان سب پر اپنی رحمت کرے جنہوں نے ان ہر دو مسئلوں کو خاکسار کے سامنے حل کر دیا اور سمجھا دیا ، جب میں بیدار ہوا تو میری مکمل تسلی تھی، بلکہ اس خواب کے بعد علم میں قضیہ وارد ہوتا ہے۔ ایسا صاف ہو جاتا ہے کہ اس کی تصویر آنکھوں کے آگے آ جاتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا پنے وجدان سے حاصل ہوا ہے اور جو شخص ان مسئلوں میں تصرف کرتا ہے اس کا منشاء شبہہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ یہ ناسمجھی کے باعث ایسا کہہ رہا ہے اس کا جواب فوراً سوجھ جاتا ہے ذرا بھی سوچنے کی ضرورت نہیں پڑتی ،گویا اس علم کے مسئلے حاضر ہیں، چنانچہ اس علم میں کئی رسالے لکھے ، اِن میں سے ایک کا نام اسرار التوحید عربی میں کلاں رسالہ ہے دوسرا فارسی میں اس میں بعض وجدانی حقائق بھی درج کئے گئے ہیں ‘‘  

آپ کی تصانیف بکثرت ہیں مگر افسوس کہ دستبرد ِزمانہ سے محفوظ نہ رہ سکیں، اس فقیر نے آپ کی کتابوں کی خوب تلاش کی جن کا علم ہوا ان کا ذکر کر دیا ہے اگر کسی صاحب کے پاس آپ کی کوئی کتاب ہو تو مطلع فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔

کرامات

آپ کے کشف و کرامات کو اگر جمع کیا جاوے تو ایک مکمل الگ کتاب کی ضرورت ہو گی مگر آپ کی ذات ستودہ صفات ان باتوں سے ارفع ، اعلیٰ اور بلند ہے اور آپ نے خود بھی اِن باتوں کو درخور ِاعتنا نہیں سمجھا، چنانچہ آپ ارشاد فرماتے ہیں ’’ سالک کو بعض اوقات ذکر کی حالت میں اپنے اور غیر کے قلب کا بھی مشاہدہ ہوتا ہے اور بعض اوقات اور باتیں بھی کھل جاتی ہیں، کشف قبور بھی حاصل ہو جاتا ہے ، لیکن اِن باتوں کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ ( سالک ) مطلوب حقیقی سے محروم رہ جاتا ہے ‘‘ اور کیوں نہ ہو کہ آپ ایک ایسے روحانی درسگاہ کے فیض یافتہ تھے، جس کے استاد  والا قدر کا یہ ارشاد ہے کہ

 ’’ ایں ہمہ ( کشف و کرامات وغیرہ ) آنچہ دیدی و شنیدی بازی طفلاں است، و کار دیگر است، سالک را ایں کار آفات است و مانع علو درجات است ‘‘

اسی وجہ سے اِس مضمون کو اختصار کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ اور آپ کی وہ کرامتیں لکھی جاتی ہیں جن سے آپ کا تعلق بااللہ ظاہر ہوتا ہے۔نیز جن کرامات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیاوی عزت و وجاہت کو آپ نے کس طرح پائے استحقار سے ٹھکرایا ہے۔ صاحب ِیاد رفتگان فرماتے ہیں۔ ’’ ایک دفعہ ایک نابینا آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ آپ سیّد آل رسولﷺ ہیں مجھ دم کریں،آپ نے بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ پڑھ کر اس کی آنکھوں پر دم کیا اور ہاتھ پھیرا ، وہ شخص فوراً بینا ہو گیا ‘‘  

جب آپ لاہور جاتے ہوئے اٹک پہنچے تو ایک مہاتما بمعہ اپنے چیلوں کے آپ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ چونکہ آپ درویش ہیں، آپ کے لنگر سے سینکڑوں آدمی روٹی کھاتے ہیں ، اِسی لئے آپ کی ضروریات کے لئے ایک ٹکڑا کیمیا کا حاضر ہے۔ آپ جتنا چاہیں اس سے سونا بن سکتا ہے ، آپ نے فرمایا ، بہت اچھا ، مگر وہ ٹکڑا لے کر آپ نے دریائے اٹک میں پھینک دیا۔ وہ مہاتما بہت خفا ہوا۔ اور بہت ہی ناراضگی کا اظہار کیا۔ آپ نے کلمہ توحید پڑھ کر دریائے اٹک کی طرف اشارہ کیا ، دریا پھٹ گیا، تو اس مشرک کو ہر طر ف سنگ پارس ہی سنگ پارس نظر آئے۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ جل جلالہ ، کا مجھ پر اتنا عظیم احسان ہے جو تم نے دیکھا ہے اور یہ احسان عظیم تم پر بھی ہو سکتا ہے بشرطیکہ ایمان لے آؤ۔ وہ مہاتما بمعہ چیلوں کے مسلمان ہو گیا، پھر وہی مہاتما آپ کا خلیفہ ہوا اور ہزاروں لوگ اس کے فیض سے مستفیض ہوئے اس کی قبر آپ کی مزار کے باہر پاؤں کی طرف ہے۔ محمد شاہ بادشاہ جب پشاور پہنچا تو اس نے اپنے امراء سے پوچھا کہ کوئی خدا رسیدہ آدمی ہو تو اس سے دعا کروائی جاوے تا کہ کامیابی نصیب ہو۔ امراء نے حضرت سیّد شاہ محمد غوث صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا نام لیا۔آپ کو لاہور میں حکم لکھا گیا کہ محمد شاہ آپ کو بلاتا ہے۔ آپ نے جواب میں لکھا۔

 ’’ طریق پیر ما نیست کہ نزد بادشاہان بروند، و بہ استمدادوی پرداز ند کہ برایٔ ہر یک استمداد حق جل وعلا کا فی ست ‘‘

 بادشاہ بہت برآفروختہ ہوا اور حکم دیا کہ سب سے پہلے لاہور پہنچ کر شاہ محمد غوث صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اِس حکم عدولی پر سزا دوں گا۔اس کے بعد دہلی کی طرف قدم بڑھاؤں گا۔ رخت سفر باندھ کر پشاور سے کوچ کیا۔ جب دریائے اٹک پر پہنچا تو دریا میں طغیانی تھی ، اور دن بدن بڑھ رہی تھی، بہت پریشان ہوا۔ امرا ء سے مشورہ کرنے کے بعد محمد غوث{  ؎ کی خدمت میں ایک شخص بھیجا تاکہ وہ دعا کرے اور بادشاہ کی مشکل حل ہو جائے۔ اس پر محمد غوث نے جواب میں لکھا

 ’’ کہ ایں ہمہ توقف از شامت ارادۂ بد بادشاہ است کہ نہ نسبت حضرت سیّد شاہ محمد غوث ؒ اندیشیدہ است اگر شاہ ازاں ارادہ باز آید ممکن است کہ از آب دریا عبور نماید ‘‘

 بادشاہ نے توبہ کی فوراً طغیانی ختم ہو گئی۔ بادشاہ نے لاہور کو روانگی کی اور لاہور پہنچ گیا۔ محمد شاہ نے لاہور پہنچ کر آپ کو پھر اپنے حضور بلایا۔ مگر آپ نے شدت کے ساتھ انکار کر دیا۔ وہ خود آپ کے پاس آیا اور اشرفیاں پیش کیں، آپ شاہ کو اعلیٰ اخلاق کے ساتھ ملے مگر اشرفیاں لینے سے انکار کر دیا، اور فرمایا ، میرا تقویٰ اور اعتماد اللہ جل جلالہ پر ہے اور وہی مجھے کافی ہے۔{ FR 1546 }؎ صاحب حدیقۃ الاولیاء جنا ب مولانا مفتی غلام سرور صاحب لاہوری اپنی کتاب کے صفحہ ۲۶ پر تحریر فرماتے ہیں ’’ حضرت کی کرامتیں اکثر مشہور ہیں ،مگر چشم دید یہ ہے ،جب رنجیت سنگھ کے بعد کھڑک سنگھ جانشین حکومت لاہور ہوا تو، اس کے بیٹے نونہال سنگھ نے جو بااختیار حاکم تھا ، حکم دیا کہ لاہور کی فصیل کے باہر چار ہزار قدم تک زمین صاف کی جاوے ، مکانات گرائے جاویں ، اور درخت کاٹے جاویں، دلآروس فرنگی اِس کام پر مقرر ہوا، اس نے مکانات کرانے شروع کر دیئے، حضرت کے مزار کی چار دیواری بھی گرائی گئی اور تمام درخت کاٹے گئے، جب اندرون دیوار خاص مزار کی چار دیواری گرائی گئی تو قدرت الٰہی سے اسی روز کھڑک سنگھ مر گیا، اور نونہال سنگھ جب نعش جلا کر آیا تو سلامی کی توپوں کے زلزلے سے قلعے کی دیوار کا پتھر جدا ہوکر نونہال سنگھ کے سرپر آ گرا ، اور وہ جوان مرگ ہوا، اس کی والدہ چندر کور ڈری اور حکم دیا کہ مزار حضرت کا نہ گرایا جاوے ، چنانچہ گرا ہوا مکان اِسی وقت تعمیر ہو گیا۔

وفات

حضرت سیّد سخی شاہ محمد غوث صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات ۱۷ ربیع الاول ۱۱۵۲ ہجری کو ہوئی ،آپ کی مزار پُرانوار بیرون دہلی دروازہ لاہور مرجع عوام و خلائق ہے ، ہر سال آپ کا عرس مبارک ربیع الاول کی ۱۷، ۱۸ تاریخ کو نہایت ہی تزک و احتشام سے ہوتا ہے۔  ؎لاہور اور بیرونجات کے ہزاروں لوگ زیارت کے لئے آتے ہیں۔ نعت خوانی اور ذکر الٰہی کے حلقے ہوتے ہیں۔ لنگر تقسیم کیا جاتا ہے۔ آپ کی تاریخ وفات صاحب خزینۃ الاصفیاء نے صفحہ ۱۸۹ پر لکھی ہے کہ۔

چوں محمد غوث رفت از دارد دن                                           سال وصل آں ولی متقی

                                    ۱۱۵۲

عارف مخدوم سالک کن رقم                                    ہم بفرط راہ بر سیّد سخی

اور جناب مولانا غلام سرور صاحب لاہوری نے یوں کہی۔ 

شاہ محمد غوث شیخ متقی                                 گشت چوں در باغ جنت جائیگیر

 گفت سرورؔ سال وصل آنجناب                                والی حق، پیر کامل ،دستگیر

                                                                                                                        ۱۱۵۲

اور جو لو ح پر تاریخ وفات لکھی ہوئی ہے وہ یہ ہے۔

چو شد سیّد محمد غوث عارف                         غریق رحمت غفار معبود

سروشم گفت تاریخ وفاتش                                     ہزار و یک صد و پنجاہ و دو بود

                                                                                                                        ۱۱۵۲

محترم ڈاکٹر ام سلمی گیلانی صاحبہ نے کافی تلاش و تحقیق و چھان بین کے بعد تاریخ وفات ۱۱۷۳ ہجری تحریر کی ہے۔  

آپ کے خلفاء

آپ کے چاروں فرزند ( یعنی میر سیّد محمد عابد شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، میر سیّد شاکر شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، میر باقر شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، میر سیّد شاہ میر صاحب مظفر آبادی رحمۃ اللہ علیہ ، حافظ محمد سعید صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، حافظ محمد صدیق صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، جناب محمد غوث رحمۃ اللہ علیہ اور جناب شیخ وجیہہ الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ المعروف بہ پیر زہدی لاہوری  آنجناب کے خلفائے نامدار تھے۔ نیز آپ کے پوتے جناب شاہ غلام صاحب بھی آپ کے مرید اور خلیفہ تھے۔

JSN Epic is designed by JoomlaShine.com

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries