حیات النبی

Title:      حیات النبی
Categories:      کُتب
BookID:      11
Authors:      فقیر سید مؒحمد امیر شاہ قادری گیلانیؒ
ISBN-10(13):      1590598482
Publisher:      شاہ محمد غوث اکیڈیمی یکہ توت پشاور شہر
Publication date:      1962-63
Number of pages:      57
Language:      Not specified
Price:      0.00
Rating:      0 
Picture:      cover
Ebook:      Download ebook1.pdf
Description:     

حیات النبی

ترجمہ

تحفۃ الفحول فی استغاثۃ بالرسول

از

(حضرت محدثِ اعظم مولانا مولوی محمد ایوب صاحب حنفی پشاوری(مرحوم

مترجم

فقیر) محمد امیرشاہ قادری گیلانی)

معنون

اس کوشش کو اپنے استاذِ محترم ، عالم اجل، فاضل اکمل، شیخ التفسیر و الحدیث، خطیب اسلام، حامل علومِ تصوف حضرت مولانا مولوی الحاج حافظ گل فقیر احمد صاحب خلیفہ مجاز حضرت قبلۂ عالم گولڑوی کے نام نامی و اسم گرامی سے معنون کرتا ہوں۔

گر قبول افتد زہے عز و شرف

سگ درگاہِ عالیہ قادریہ سید حسن صاحب

فقیر) محمد امیر شاہ قادری)

یکہ توت پشاور

۱۵ شعبان المعظم ۱۳۸۲ھ…… ۲۵نومبر ۱۹۶۲ء

تعارف

اگر چہ صوبہ سرحد کی تاریخ کے اوراق ان علماء کرام اور مشائخ عظام کی مبارک زندگیوں سے یکسر خالی پڑے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی انتہائی کوششوں اور کاوشوں سے اس شجرۂ طیبہ (دین اسلام) کی قرآن و حدیث کی اشاعت کر کے آبیاری کی۔ اپنی زندگی کے آرام و آسائش کو اسی درخت مبارکہ کی پرورش کرنے پر نچھاور کیا، اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر اس کی حفاظت کی، ہرطرح کے کفر و شرک، بدعات سئیہ اور رسم و رواج سے تحریر تقریر اور عملی طور پر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے ذریعہ انتہائی سعی کرکے محفوظ رکھنے کی امکانی کوشش کی۔ ان علماء کرام کے شاگردانِ رشید اور مشائخ کرام کے خلفاء عظام ایک جیتی جاگتی پاکیزہ زندگی لئے ہوئے صوبہ سرحد کے شہرشہر، گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ میں موجود ہیں۔ انہی نفوس قدسیہ کی برکت سے آج جگہ جگہ قرآن و حدیث کے درس جاری ہیں،ہدایت و معرفت کی مشعلیں فروزاں ہیں۔ یہ ہمت و استقامت کے پیکر اپنی بے بضا عتی اورکم مائیگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے قرآن و حدیث کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں۔

جس وقت دہلی میں حضرت علامہ امام شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی موطا امام مالک کی شرح مصفیٰ مسویٰ فارسی و عربی میں لکھ رہے تھے، عین اسی وقت یعنی ۱۱۳۱ ھ میں حضرت شیخ المشائخ محدثِ جلیل قطب الا قطاب علامہ اجل سید شاہ محمد غوث صاحب قادری گیلانی ۱؂ بن ابوالبرکات سید حسن صاحب قادری گیلانی پشاور میں بخاری شریف کی مفصل شرح فارسی میں تحریر فرما رہے تھے اور حدیث شریف کا درس دے رہے تھے۔ نیز آپکے بھائی حضرت صدرالمدرسین شیخ المحدثین علامہ سید زین العابدین رحمتہ الله علیہ ٥٥ برس تک یعنی ١١١۴ھ سے لیکر ١١٦٩ھ تک پشاور اور ہزارہ میں صحاحِ ستہ کا درس فرماتے رہے

۱؂ حضرت محدث کبیر سید شاہ محمد غوث قادری گیلانی ۱۷ ربیع الاول۱۱۷۳ھ کو فوت ہوئے۔ آپ کا مزار اقدس بیرون دلی دروازاہ لاہور مرجع خلائق ہے

۲؂ حضرت سید زین العابدین قادری گیلانیکی وفات ۱۱۶۹ھ میں ہوئی اور آپ کا مزار ہزارہ میں بمقام حویلیاں موضع سلطان پور میں مرجع خلا ئق ہے

حضرت علامہ شیخ اکمل سید میر عیسیٰ شاہ صاحب ۱۲۲۷ھ سے لے کر ۱۲۴۸ھ تک کشمیر، پنجاب،ہزارہ میں درسِ حدیث دینے کے بعد ۱۲۴۸ھ سے لے کر ۱۲۶۹ھ تک مستقل طور پر پشاور شہر میں حدیث شریف کا درس پڑھاتے رہے۔ آپ کے جلیل القدر فرزند حضرت علامہ سید غلام صاحب المعروف ’’میرجی صاحب ‘‘ ۱۲۶۹ھ سے لے کر ۱۲۸۳ھ تک قرآن و حدیث کا درس پڑھاتے رہے۔ اس دور میں پشاور شہر علم و عرفان کا مرکز تھا۔ جس طرف بھی نظر اٹھتی ہے علم و عرفان کے آفتاب نظر آتے ہیں جو کہ قرآن و حدیث اور فقہ حنفی کو اپنی عالمانہ ضیاء باریوں سے منور کر رہے ہیں اور گم گشتہ بادیہ ضلالت کی اپنی نورانی شعاعوں سے راہ ہدایت کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں۔ عقائد حقہ اہلسنّت و جماعت کے یہ وہ مضبوط و مستحکم قلعے تھے کہ جب بھی کبھی عقائد باطلہ کا کفرزا سیلاب اٹھا، تو ان قلعوں سے ٹکرا کر خود بخود پاش پاش ہو گیا۔ پشاور ان علماء ربانین کے وجودوں سے بقعہ نو ر بناہوا تھا۔

پشاور شہر میں استاذ الاساتذہ ،عمد ۃ المحدثین، علامہ دوران و اعظ خوش بیان شارح صحیح البخاری حضرت حافظ محمد احسن صاحب المعروف حافظ دراز صاحب محدث جلیل عالم اجل فاضل اکمل مولانا مولوی مفتی محمداحسن صاحب ۱؂ ساکن کوٹلہ رشید خان علاقہ گنج پشاور۔ قطب وقت سند المحدثین مولانا مولوی حافظ مفتی محمد عظیم ۲؂ صاحب المعروف ’’حافظ جی صاحب گنج والے‘‘ مفسر قرآن شارح حدیث مولانا بالفضل اولیٰنا حضرت حافظ غلام جیلانی۳؂ المشہور ’’میاں صاحب آسیا والے‘‘ حضرت عظیم البرکت مولانا مولوی مفتی برکت اﷲ صاحب ۴؂ کریمپورہ پشاور ،حضرت عمدۃ المفسّرین والمحدثین، فقیہ عصر، خطیب اسلام، شاعربے بدل ، صوفی باصفا، استاذ الاساتذہ میاں نصیر احمد صاحب ۵؂ المعروف ’’میاں صاحب قصہ خوانی‘‘حضرت علامہ سید السادات فخر علماء مولانا مولوی سید اکبر شاہ صاحب ساکن بھانہ ماڑی پشاور۱؂،حضرت شیخ المشائخ علامہ وقت قطب ارشاد حضرت سیّداکبر شاہ صاحب المعروف ’’آغاپیر جان صاحب‘‘ یکہ توت پشاور ۲؂ ۔ حضرت علامہ مولانا مولوی مفتی محمد غیور صاحب چاہ کا لا پشاور۔ حضرت محدث کبیر، استاذ الاساتذہ فقیہ عصر مولانا مولوی پیر علی شاہ صاحب ڈھکی نعلبندی بندی پشاور ،حضرت مولانا مولوی صاحبزادہ شکرالدین صاحب موچی پورہ پشاور، حضرت محدث جلیل مولانا مولوی عبدالرب صاحب ساکن موضع دارمنگی پشاور صاحبانِ درس و افتاء تھے۔ یہ تو صرف پشاور کی کیفیت ہے کہ تقریباً ہر علاقہ میں علماء کرام قرآن و حدیث اور دوسرے علوم متداولہ کی ترویج واشاعت میں مصروف نظر آرہے ہیں۔

۱؂ مولوی مفتی محمد احسن صاحب بروز ہفتہ ۸ شعبان المعظم ۱۲۸۳ہجری فوت ہوئے

۲؂ حافظ محمد عظیم صاحب نے ۱۲۷۵ھ میں وفات پائی

۳؂ حافظ غلام جیلانی کی وفات بروز بدھ ۹ شوال ۱۲۷۸ھ کو ہوئی

۴؂ مولوی مفتی برکت اﷲ صاحب نے ۱۴جمادی الاول ۱۲۸۵ ھ کو انتقال فرمایا

۵؂ میاں نصیر احمد صاحب ۸ رجب المرجب ۱۳۰۸ھ بروز شنبہ واصل بحق ہوئے

معلوم نہیں کہ باقی صوبہ سرحد میں کتنے علماء کرام کس کس مقام پر یہ خدمت سر انجام دے رہے ہوں گے ۔تاریخ کا طالب علم اگر صوبہ سرحد کے اس تاریخی پہلو پر کچھ بھی محنت کرے تو علماء اور مشائخ کی مکمل تاریخ مرتب ہو سکتی ہے۔ اور یہ قرآن، حدیث اور فقہ کی اس علاقہ میں جو اشاعت ہوئی ہے، اس کی بھی ایک تاریخ بن جائے گی نیز یہ ایک نہایت ہی اہم خدمت ہو گی۔ یہ انتہائی بد قسمتی اور افسوس کی بات ہے کہ یہاں کے علماء اور مشائخ جنہوں نے اس علاقہ میں مذہبی تعلیمی بیداری کے ساتھ سیاسی بیداری بھی پیدا کی، کے متعلق کوئی تاریخی دستاویز نہیں۔ کاش کہ کوئی بالغ نظر عالم صوبہ سرحد کے اس اہم تاریخی پہلو پر توجہ کرے ؟

۱۲۹٠ھ سے لیکر ١٣٣٥ھ پشاور شہر اور صوبہ سرحد میں محدث جلیل، مفسّر عظیم حضرت علامہ مولانا مولوی محمد ایوب صاحب نوراﷲ مرقدہٗ علماء کرام کی صف اوّل میں نظر آتے ہیں ۳؂ آپ پشاور شہر سے مشرقی جانب تقریباً پندرہ میل کے فاصلہ پر موضع زخی چارباغ علاقہ اکبر پورہ میں حضرت مولانا لطیف اﷲ صاحب کے گھر ۱۲۵۰ھ میں تولد ہوئے آپ قبیلہ بے سود سے تعلق رکھتے ہیں ۔ چونکہ آپ کے والد علماء کے گھر انے سے تعلق رکھتے تھے اور خود بھی عالم تھے لہٰذا آپ کی تعلیم و تربیت پر انہوں نے پوری پوری توجہ دی۔

۱؂ مولو ی سید اکبر شاہ صاحب کی تاریخ وفات ۱۴رجب المرجب بروز دوشنبہ ۱۳۱۲ھ ہے

۲؂ حضرت سید اکبر شاہ قادری گیلانی المعروف آقا پیر جان صاحب ۲۷جمادی الثانی بروز سہ شنبہ ۱۳۱۵ھ کو واصل بحق ہوئے

۳؂ مولوی محمد ایوب کے اس رسالہ تحفت الفحول فی الاستغاثہ باالرسول کا عربی سے اردو ترجمہ کیا جا رہا ہے اسلئے اس فقیر نے ضروری سمجھا کہ آپ کی ذات گرامی قدر کا تعارف بھی ہدیہ ناظرین کرایا جائے

مولانا محمد ایوب صاحب ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد صوبہ سرحد کے مشاہیر علماء کی خدمت میں حاضر ہوئے اور علوم متداولہ کی تکمیل کی۔ جناب حضرت شیخ اکمل، علامہ صاحبزادہ صاحب۱؂ اتمانزئی (علاقہ چارسدہ) اور حضرت استاذ کل مولانا مولوی سعید احمد صاحب المشہور ’’کافور ڈھیری مولانا صاحب‘‘ کی خدمت میں حاضر ہو کر علوم متداولہ کی تکمیل کی ۔ حضرت علامہ محدثِ جلیل ’’مولانا صاحب ڈاگی یار حسین‘‘ کی خدمت میں رہ کر حدیث شریف کی تکمیل کی۔ احمد صاحب۲؂ مدظلہ العالی اور دوسری عم محترم عالم و فاضل ، فخر علماء ، سیّد السادات حضرت آقا سیّد مقبول شاہ صاحب ساکن چاہ کالا پشاور نور ﷲ مرقدہ کو مرحمت فرمائیں۔ آپ چار بار زیارت بیت ﷲ شریف سے مشرف ہوئے اور آخری بار دو برس تک کا شانۂ اقدس حضور شفیع المذنبین صاحبِ لواء حمد، مالک شفاعت کبریٰ احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب درسِ حدیث شریف پڑھایا۔

۱؂ حضرت علامہ صاحبزادہ صاحب علم منقول و معقول میں یگانہ ٔ روزگار تھے، آپ نے میر زاہدکی شرح تہذیب میر زاہد امور عامہ پر بہترین حواشی لکھے ہیں

۲؂ حضرت گرامی مرتبت مولوی گل فقیر احمد صاحب نے بکمال شفقت و مہربانی اس فقیر کو ۲۷ رجب المرجب ۱۳۸۲ھ بروز منگل سند حدیث ’’ثبت ِمیری‘‘ مرحمت فرمائی اگر چہ یہ فقیر اس قابل نہ تھا۔ نیز اپنے برخوردار حافظ عالم و فاضل مولوی بشیر احمد صاحب اور مولانا مولوی حافظ عبدلحمید صاحب کو بھی اجازت مرحمت فرمائی۔

حرمین شریفین سے واپس تشریف لا کر پشاور شہر میں مستقل سکونت اختیار کی۔ پشاور کے مشہورتاجر سیٹھی کریم بخش مرحوم نے آپ کو ’’مدرسہ تعلیم القرآن ‘‘ محلہ جٹان پشاور میں صدر مدرس بنایا۔ ۱۲۹۰ ھ سے لے کر ۱۳۳۵ ھ تک پشاور میں حضورکی حدیث شریف کی اشاعت و ترویج آپ ہی کی ذاتِ ستودہ صفات کی کوششوں کی رہین منت ہے۔صوبہ سرحد، افغانستان، بخارا، غزنی، ہرات، قندھار، وزیر ستان، سوات، باجوڑ اور تمام علاقوں سے سینکڑوں طلباء آپ کے درس میں حاضر ہوئے اور فارغ التحصیل ہو کر لوگوں کی ہدایت کا سبب بنے۔ آپ ہی کی ذاتِ گرامی تھی جس کی سعی سے ان علاقوں میں حدیث مبارک کی ایمان افروز مشعلیں روشن ہوئیں اور علم و حکمت کے دریا بہے جن سے شائقین علوم اسلامیہ سیراب ہوئے۔ آپ کے شاگردوں میں جلیل القدر علماء محدث، مفسّر، فقیہ اور مفتی پیدا ہوئے جن کے اسماء سے صوبہ سرحد کا ہر ایک شہری واقف ہے۔ شیخ الاسلام مفتی اعظم سرحد، فقیہ عصر، حضرت علامہ مولانا مولوی آقا سیّد حبیب شاہ صاحب خطیب جامع مسجد مہابت خان، استاذ محترم گرامی قدر عالی مرتبت ، محدث اعظم خطیب اسلام، عالم علوم باطنی حضرت علامہ مولوی گل فقیر احمد صاحب چشتی خطیب جامع مسجد میاں صاحب قصّہ خوانی ۔ حضرت محدث جلیل، فقیہ بے نظیر، شاعر بے بدل، عارف با ﷲ حضرت مولانا مولوی سیّد مقبول شاہ صاحب ، استاذِ محترم عزتِ مآب شیخ التفسیر والحدیث صدر المدرسین، محدثِ عظیم ، فقیہ اعظم، واعظِ بے نظیر، حضرت مولانا مولوی صاحبزادہ حافظ علی احمد جان صاحب نقشبندی خطیب جامع مسجد کچہری ہا۔ حضرت علامہ استاذ عالم اجل، فاضل اکمل، مولانا مولوی عبدالجلیل صاحب صدر الحدیث ساکن اتمان زئی، حال صدر مدرس صحاح شریف دارالعلوم چارسدہ، حضرت علامہ مولانا مولوی علی اﷲ صاحب المعروف ’’صریخ مولانا صاحب‘‘۔ حضرت علامہ اجل مولانا مولوی سیف الرحمان صاحب المعروف میاں صاحب نصیر زئی دوآبہ، حضر ت علامہ مولانا مولوی حافظ عبداﷲ صاحب ساکن موضع لنڈی اور صوبہ سرحد کے مشہور و معروف عالم با عمل حضرت علامہ مولانا مولوی محمد غفران صاحب المشہور’’شہباز گڑھے مولانا صاحب‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ غرضیکہ آپ کے شاگردوں نے بھی اپنی تمام عمر قرآن و حدیث اور علوم متداولہ کی تعلیم، اشاعت، اور خدمت دین محمدیکیلئے وقف کی اور جو بقید حیات ہیں اس وقت بھی دین اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہیں۔

سلسلہ درس تدریس کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا محمد ایوب صاحب نے تصنیف و تالیف کو بھی جاری رکھا۔ چنانچہ آپ نے درسی کتب پر حواشی لکھے۔شرح نخبتہ الفکر اور شرح تہذیب پر لکھے ہوئے حواشی طلباء کیلئے بہت نفع بخش ہیں۔

رسالہ ھدیته المسلمین لزیارۃ سیّد المرسلین مواھب المنان فی مناقب ابی حنیفة النعمان درالحکمة فی ظھر الجمعه ، حدیقة النصیحه فی الخلة و العزلة. عیون الادلة لرویة الاھلة حلیة الاولیاء و جلوۃ الا صفیاء. تحفة الفحول فی الاستغاثة بالرسول۔

اسی طرح مختلف مسائل پر آپ کے کئی رسائل لکھے ہوئے ہیں اور آپ کی تمام تحریریں عربی میں ہیں۔بروز چہار شنبہ (بدھ) عشاء کی نماز کے دوران سجدہ کے اندر بتاریخ ۷ ربیع الثانی ۱۳۳۵ ھ میں آپکی روح مبارکہ قفسِ عنصری سے عالم جاودانی کی طرف پرواز کر گئی۔ اس وقت آپکی عمر ۸۵ بر س تھی۔ اس آفتا ب علم کو اپنے آبائی قبرستا ن موضع زخی چار باغ میں دفن کیا گیا۔ آپکے تین فرزند تھے۔ ایک تولاولد فو ت ہوئے، دوا ور جناب مولانا محمد نعمان صاحب اور مولوی حکیم عبداﷲ جا ن صاحب تھے۔ ہر دو عالم و فاضل تھے۔ حکیم عبداﷲ جان صاحب تو قومی اور سیاسی کارکن بھی تھے۔ اتمان زئی میں حکمت کی دکان کرتے تھے۔ آپ کے صاحبزادہ مولانا مولوی حکیم عبدالباری صاحب والد کی جگہ حکمت کی دکان کرتے ہیں اور مدرس بھی ہیں۔

فقیر) محمد امیرشاہ قادری گیلانی)

یکہ توت پشاور

Joomla Book Library, by OrdaSoft!
JSN Epic is designed by JoomlaShine.com

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries