معراج النبی ﷺ 

قرآن مجید و احادیث کی روشنی میں

 

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (الإسراء: ١)

وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ (١) مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ (٢) وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ (٣) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ (٤) عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ (٥) ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىٰ (٦)وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىٰ (٧) ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ (٨)فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ (٩) فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ (١٠) مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ (١١) (النجم،۵۳:۱-۱۱)

سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ (١٨٠) وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ (١٨١) وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (١٨٢)  (الصٰفٰت، ۳۷:۱۸۰-۱۸۲)

          اللہ تبارک و تعالیٰ جل جلالہ و عم نوالہ و عزاسمہ و جل مجدہ اپنے پیارے محبوب، شفیع المذنبین، رحمۃ  للعالمین ، خاتم النبیین ، عالم علوم اولین و آخرین جناب احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ  کے طفیل مجھے بھی اور آپ کو بھی اپنا کلام پاک پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے ، دنیا اور آخرت میں پیارے محبوب ﷺ  کا دامن رحمت ہمارے ہاتھ سے نہ چھوٹے ۔

          الحمد للہ ثم الحمد للہ ! اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم اور نبی کریم ﷺ  کی تائید و حمایت سے آج ہمارا یہ چھٹا درس قرآن حکیم ہے۔ آج کا یہ درس اس مبارک مہینہ یعنی رجب المرجب کی مناسبت سے منعقد کیا جا رہا ہے کیونکہ اسی ماہ مبارک کی ستائیس تاریخ کو نبوت کے بارہویں برس حضور پاک ﷺ  کو معراج کی سعادت نصیب ہوئی تھی ۔ سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں ماہ و سال کے حساب سے ہمیں پیارے محبوب ﷺ کی دو طرح کی زندگی ملتی ہے :ایک مکی زندگی اور دوسری مدنی زندگی ۔ نبوت کے بعد کی جو مکی زندگی ہے تو اسے نبوی سالوں پر تقسیم کیا جاتا ہے  اور مدنی زندگی مبارکہ کو ہجری سالوں پر۔ چنانچہ جب ہم کہیں کہ فلاں بات یا واقعہ حضور ﷺ کے نبوی سالوں کا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے اور جب کہا جائے کہ یہ واقعہ ہجری سالوں کا ہے تو یہ ہجرت فرمانے کے بعد کا تذکرہ ہے۔

واقعہ معراج ہجرت سے قبل بارہ سال نبوی میں پیش آیا ۔ حضور پاک ﷺ  نے چالیس برس کی عمر میں اعلانِ نبوت فرمایا اور پھر نبوت کے بارہویں سال حضور ﷺ کو معراج کی سعادت نصیب ہوئی۔ گویا باون (۵۲) برس کی عمر میں ۲۷ رجب المرجب کو آپ ﷺ  کو یہ عظیم الشان معجزہ نصیب ہوا ۔ چنانچہ دوست و احباب کے کہنے پر میں نے مناسب سمجھا کہ قرآن و احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں اس واقعہ مبارکہ کو بیان کیا جائے ۔

          اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس واقعہ کو واضح طور پر پندرہویں پارہ کی سورہ بنی اسرائیل میں بیان فرمایا اس سورہ کو ’’ اسریٰ‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور اس میں حضور نبی کریم ﷺ  کے مکہ مکرمہ سے لے کر بیت المقدس تک کے واقعات کا ذکر ہے اور اسے ’’ اسریٰ ‘‘ کہتے ہیں ۔ جب کہ ستائیسویں پارہ کی سورہ و النجم میں باقی واقعہ کو اشارتاً بیان فرمایا جو کہ بیت المقدس سے آسمانوں ، سدرۃ المنتہیٰ اور عرش معلیٰ تک کے واقعات پر مبنی ہے جسے معراج کہتے ہیں ۔ تو گویا یہ واقعہ دو حصوں پر مشتمل ہے ایک حصہ ’’اسریٰ ‘‘ اور دوسرا ’’ معراج‘‘ کہلاتا ہے۔لہٰذا علماء کا اتفاق ہے ،اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی قبروں کو اپنے نور سے روشن رکھے ، کہ واقعہ ’’ اسریٰ ‘‘ کا انکار کرنے والا کافر ہے اور واقعہ معراج کا منکر ملحدو گمراہ ہے۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد اسریٰ و معراج اور پندرہویں و ستائیسویں پارے کی آیتوں کا ربط و تعلق آپ کی سمجھ میں آگیا ہو گا۔

          اللہ تبارک و تعالیٰ جل جلالہ نے اپنے پیارے محبوب ﷺ کو بڑے بڑے عظیم معجزوں سے نوازا ۔ معجزہ کے معنی ہیں عاجز کر دینا ، قاصر کر دینا، بے بس کر دینا ، جتنے بھی عالَم ہیں اور ان میں جتنی مخلوقات ہے سب کے سب معجزہ کے سامنے عاجز و بے بس ہو جاتے ہیں اور پھر تمام معجزات میں سب سے بڑا معجزہ قرآن حکیم ہے۔ آپ اس کی عظمت کا اندازہ لگائیں کہ کوئی قوت آج تک قرآن مجید جیسی کتاب نہیں لا سکی بلکہ قیامت تک اور اس کے بعد بھی یہ کام ناممکن ہے ۔پورے قرآن تو کیا اس کے ایک ٹکڑے ، ایک سورہ اور ایک آیت کے برابر کا کلام فصاحت و بلاغت یا کسی بھی صورت میں آج تک کوئی بڑے سے بڑا عالم، دانشور محقق، مدقق، ادیب، شاعر، مفکر، مقرر اور بڑے سے بڑا انفس و آفاق جاننے والا نہ ہی لا سکا ہے اور نہ آئندہ کبھی لا سکے گا۔

           تمام عالم انسانیت، عالم ملوکیت اور عالم جنات کو اس کے سامنے بے بس اور عاجز کر دیا یہ اور دیگر بھی حضور ﷺ کے جتنے معجزات ہیں وہ اللہ تعالیٰ نے اس لئے آپ ﷺ کو عطا فرمائے تا کہ مخالفین ، توحید کو قبول کرنے میں کسی بھی قسم کی دلیل و حجت کے پیش کرنے سے عاجز آ جائیں ۔وہ پیارے محبوب ﷺ کے سامنے لا جواب ہو جائیں ، آقائے نامدار ﷺ کا جسم اطہر سر کے بال مبارک سے لے کر پاؤں کے ناخن مبارک تک سراپا معجزہ ہے ۔ صرف سمجھانے کیلئے ایک دو مثالیں بیان کر کے اصل مقصد کی طرف آتا ہوں۔

          پیارے محبوب ﷺ کے ہاتھ مبارک کی انگلیوں سے پانی جاری ہوا، حالانکہ انگلیوں میں اور جسم کے باقی تمام اعضاء میں خون ہوتا ہے اور تقاضائے بشریت تو یہ ہے کہ آپ ﷺ کی انگلیوں سے خون جاری ہوتا لیکن پانی جاری ہوا، یہ معجزہ ہے ۔

          اسی طرح ایک صحابی جنگ کے دوران آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں ۔ حضور میری تلوار ٹوٹ گئی ہے مجھے دوسری تلوار دیں! حضور ﷺ کے ہاتھ میں کھجور کی لکڑی تھی، آپ نے اسے وہ لکڑی دے کر فرمایا جا اس سے لڑ۔ اب صحابی کے ایمان اور یقین کا اندازہ فرمائیں ، اس نے یہ نہیں کہا کہ حضور ﷺ میں نے تلوار مانگی ہے اور آپ مجھے کھجور کی سبز لکڑی دے رہے ہیں بلکہ وہ کھجور کی لکڑی سے جا کر لڑنے لگا اور پھر لڑائی کے بعد اس نے قسم کھا کر کہا کہ ’’ میں نے اس کھجور کی لکڑی سے نو کافروں کو قتل کیا‘‘ میرے ہاتھ میں تو یہ کھجور کی لکڑی ہوتی تھی لیکن جب میں اس سے وار کرتا تھا تو یہ تیز دھار تلوار ہوتی تھی ۔ سبحان اللہ ! اب آپ اندازہ لگائیں کہ کاٹ دینا تلوار کا کام ہے ، لکڑی کا نہیں لیکن ہمارے پیارے محبوب ﷺ کے دست اقدس کی دی ہوئی لکڑی تلوار کی مانند کاٹ رہی ہے ۔

          قرآن کے بعد یہ واقعہ معراج پیارے محبوب ﷺ کا دوسرا بڑا معجزہ ہے ۔ اور اس عظیم الشان معجزے کے اندر سینکڑوں دیگر معجزے موجود ہیں جیسا کہ ابھی میں نے ذکر کیا کہ یہ معجزہ معراج النبی ﷺ آپ کو مکی زندگی میں نصیب ہوا ۔ اور مکی زندگی آزمائش و ابتلاء ، محنت و مشقت اور تکالیف و مصائب سے بھر پور زندگی تھی جس میں تین برس تک پیارے محبوب نبی کریم ﷺ اور آپ کے گھرانے کو شعب ابی طالب میں قید رکھا گیا ۔ حضور پاک ﷺ کا سماجی اور معاشی مقاطعہ کیا گیا ۔ لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے اشیائے خورد و نوش حتیٰ کہ پانی کی فراہمی بھی معطل کی گئی ، تو ان پریشان کن حالات میں حضور پاک ﷺ کو معراج کا یہ معجزہ دیا جا رہا ہے ۔

اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ ۔اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حَبِیْبَ اللہ۔ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللہ

          اللہ تبارک و تعالیٰ نے بڑے ہی عجیب و غریب انداز میں اس واقعہ کا ذکر فرمایا ہے

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (الإسراء: ١)

ترجمہ : پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے خاص بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک وہ (مقام کہ) اس کے ماحول کو ہم نے برکتوں سے بھرا ہوا ہے تا کہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں بیشک وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔

          اللہ تبارک و تعالیٰ نے لفظ سُبْحٰنَ سے آغاز فرمایا، لفظ سبحان حیرت و استعجاب کے موقع پر بولا جاتا ہے ۔ جب ہم کوئی نرالی بات یا چیز دیکھتے ہیں تو بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں ۔ سبحان اللہ ، اور سبحان کے معنی ہیں ’’پاک‘‘ یہ تنزیہہ اور تقدس کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ مفسرین کرام نے اپنی تفاسیر میں لکھا کہ اسریٰ  اور معراج کے متعلق انسان کے عقل و دماغ میں جتنے وہم اور اندیشے پیدا ہونے کا امکان تھا ، اللہ جل شانہ نے صرف ایک لفظ سبحان سے ان کا قلع قمع فرما دیا تا کہ قلوب و اذہان اندیشوں میں مبتلا نہ ہوں  کیونکہ وہ ذات تو پاک ہے ہر قسم کے عیب ، نقصان ، کمی ، عجز اور بے بسی سے ۔اس صاحب قدرت کیلئے یہ بات انہونی اور ناممکن نہیں ہے۔

          ایک بات اور یہاں پر بڑی توجہ اور غور کے قابل یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہاں اپنے کسی ذاتی یا صفاتی اسم مبارک کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ اپنی ذات اقدس کا ذکر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حوالے سے کیا کہ پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے عبد خاص کو راتوں رات۔ یعنی تم یہ گمان نہ کرو کہ آن کی آن میں رات کے تھوڑے سے حصے میں پیارا محبوب مکہ سے بیت المقدس تک ایک مہینہ کی مسافت پر کیسے گیا اور پھر مسجد اقصیٰ سے آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ تک کیسے پہنچا ۔ چنانچہ اس گمان اور اندیشے کو دور کرنے کیلئے فرما دیا کہ وہ محبوب کو لے جانے والا بڑی قدرت کا مالک ہے ،ہر قسم کی کمزوری سے پاک ہے وہ تو بڑی طاقت والا ہے اور عظمت و شان والے نبی کو راتوں رات لے جانا اس کیلئے کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔

          اس آیہ مبارکہ میں تین باتیں اَسْرٰیَ، لَیْلاً اور عَبْدِہِ وضاحت طلب ہیں ۔ اگر یہ صحیح طریقہ سے ذہن نشین ہو جائیں تو انشاء اللہ پورا واقعہ معراج آپ کی سمجھ میں آ جائے گا کیونکہ یہاں پر بعض لوگوں کو مغالطہ ہوا ۔ انہوں نے کہا اور اپنی کتابوں میں بھی لکھا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ معراج خواب میں ہوئی ۔بعض نے کہا کہ بیداری میں ہوئی مگر روح کو ہوئی جسم اپنی جگہ پر موجود تھا ، بعض نے لکھا کہ نیند اور بیداری کے درمیان ایک کیفیت تھی حالانکہ ایسا نہیں بلکہ صحابہ کرام اور جمہور اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ معراج شریف بحالت بیداری جسم و روح دونوں کے ساتھ ہوئی اور جب اَسْرٰیَ اور  لَیْلاً کے معنی قرآن حکیم کی روشنی میں بیان ہوں گے تو انشاء اللہ بات بالکل صاف ہو جائے گی اور تمام شکوک و شبہات دور ہو جائیں گے۔

          عربی بہت ہی فصیح و بلیغ زبان ہے ، اس کا ہر لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ، لیکن سیاق و سباق اور موقع محل کی مناسبت سے ہی وہ اپنے معنی دیتا ہے ، لفظ اَسْرٰیَ  بھی بہت سے معنوں میں آتا ہے اس کے معنی ہیں چشمہ، نہر، چٹیل زمین، کشادہ زمین اور رات کو سفر کرنا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے ضمن میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا (سورہ مریم،۱۹:۲۴)

ترجمہ : (اے مریم ) بے شک تیرے رب نے تیرے نیچے ایک نہر بہا دی ہے (کنز الایمان)

           ایک عربی شاعر کا کلام ہے :

بَسْرِ وَحَمِیْرَ اَبْوَاَلُ الْبِغَالِ بِہٖ (مفردات امام راغب۔ صفحہ۴۲۲)

حمیر کی کشادہ زمین میں جہاں خچروں کا پیشاب جمع ہو تا ہے ۔ یہاں پر یہ کشادہ زمین کے معنوں میں آیا ہے۔

          حضرت لوط علیہ السلام کو مخاطب کر کے اللہ جل شانہ نے فرمایا:

فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ (سورہ ھود،۱۱: ۸۱)

ترجمہ :۔  پس اپنے گھر والوں کوراتوں رات لے جاؤ  (کنزالایمان)

            یہاں پر اس کے معنی رات کو سفر کے ہیں یعنی جب کبھی اس کے ساتھ رات کا ذکر موجود ہو تو پھر یہ سفر کرنے ہی کے معنوں میں آتا ہے۔ اسی طرح آیہ مبارکہ  سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا میں لَیْلاً  فرما کر اَسْرٰیَ  کو مقید کر دیا کہ اب اس کے معنی نہ چشمہ یا  نہر کے ہیں نہ ہی چٹیل زمین کے اور نہ ہی اس کے کوئی اور معنی کئے جا سکتے ہیں بلکہ یہ راتوں رات لے جانے کے معنوں میں ہی استعمال ہو گا۔

          دوسرا لفظ عَبْد ہے ۔ یہ بندہ اور غلام کے معنوں میں آتا ہے جب عبد کی نسبت مخلوق کی طرف ہو تو اس سے مراد عام لوگ ہوتے ہیں اور جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف ہو تو اس کے معنی خاص بندہ کے ہوتے ہیں ۔اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ (الفرقان،۲۵:۱)

ترجمہ :۔ جس نے اپنے خاص بندے (محمد ﷺ) پر قرآن نازل فرمایا۔

          اسی طرح واقعہ اسریٰ میں بھی عبدہٗ فرمایا جس کے معنی خاص بندے کے ہیں۔ در اصل اس سورہ مبارکہ میں بنی اسرائیل کا ذکر ہے اور انہوں نے حضرت عزیر علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ’’عبدیت ‘‘(بندگی) سے نکال کر ’’ ابنیت ‘‘(اولاد) میں داخل کر دیا تھا لہٰذا اللہ تبارک و تعالیٰ نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس افراط و تفریط سے بچنے کیلئے فرما دیا کہ وہ (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نہ خدا ہے اور نہ ہی خدا کا بیٹا ہے بلکہ میرا خاص بندہ ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کیونکہ پیارے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والدین تھے ، اولاد تھی ، ازواجِ مطہرات تھیں‘ خاندان اور قبیلہ تھا اور عزت و شرف کے لحاظ سے تمام عرب میں کوئی دوسرا قبیلہ ایسا نہ تھا۔ عبد اور عبدہٗ کے فرق کو واضح کرنے کیلئے علامہ اقبال رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کیا خوب فرمایا:

عبد دیگر، عبدہٗ چیزے  دگر

ما سراپا انتظار، اُو منتظر

          عبد کا مقام یہ ہے کہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمتوں کے انتظار میں ہے کہ کب اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور علم و حکمت کے دروازے کھلیں ،مقامِ ولایت نصیب ہو ، رزق کی فراخی ، بیماریوں سے شفاء اور اولاد کی نعمت عطاء ہو غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور عنایتوں کے حصول کیلئے عبد انتظار کرتا ہے ۔ جبکہ عبدہ‘ کی شان یہ ہے کہ وہ کسی اور کو اپنے انتظار میں بٹھائے ہوئے ہے یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ خود اس کی ملاقات کا متمنی ہے، اس کے دیدار کیلئے منتظر ہے ۔

 

          پیارے محبوب ﷺ عبدہٗ ہیں۔ عبدہ‘ کی شان بہت ارفع و اعلیٰ اور بلند و برتر ہے ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ پیارے محبوب ﷺ نے وصال کے روزے رکھے ،وصال کے روزوں میں افطار نہیں کی جاتی بلکہ مسلسل روزہ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ کی صحت مبارک پر کوئی فرق نہ پڑا ، دین و دنیا کے تمام افعال برابر حسب معمول پورے فرما رہے ہیں۔ ایک صحابی نے جب حضور کو دیکھا کہ حضور نہ کچھ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں اور مسلسل روزے سے ہیں تو انہوں نے بھی وصال کے روزے رکھنے شروع کر دیئے ۔ قربان جاؤں صحابہ کرام کے ، وہ حضور کے عاشق تھے ، ہر کام میں حضور ﷺ کی اتباع کرتے تھے۔ اگر حضور ﷺ کو سمجھا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سمجھا ۔الغرض کچھ دن کے بعد وہ صحابی نماز کیلئے تشریف نہ لائے ۔آقائے نامدار ﷺ نے حضرت عمر فاروق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا جاؤ اور فلاں صحابی کے متعلق دریافت کرو کہ وہ کیوں نہیں آتا ، کیا بات ہے کہیں بیمار تو نہیں ؟حالانکہ حضور پاک ﷺ سب کچھ جانتے تھے یہ خیال دل میں نہ آئے کہ حضور کو علم نہ تھا لیکن آپ ﷺ نے امت کی تعلیم کیلئے ایسا کیا تا کہ جب تمہارے ساتھی دو چار دن نظر نہ آئیں تو تم ان کی احوال پرسی کر لیا کرو۔

          چنانچہ حضرت عمر فاروق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب اس صحابی کے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہ بستر پر مسطر بنے ہوئے ہیں، لیٹے ہوئے ہیں، چلنے پھرنے کی طاقت جسم میں نہیں ’کہنے لگے میں نے حضور سید پاک ﷺ کو وصال کے روزے رکھتے ہوئے جب دیکھا تو میں نے بھی حضور کی سنت ادا کرنے کی غرض سے وصال کے روزے رکھنے شروع کر دیئے لیکن اب حال یہ ہو گیا ہے کہ مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ اٹھ کر مسجد تک جا سکوں ۔

          جناب عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے آ کر یہ تمام ماجرا حضور کو سنایا تو آپ ﷺ نے دو آدمیوں کو بھیجا اور فرمایا کہ اسے پکڑ کر سہارا دیتے ہوئے یہاں لے آؤ’ جب وہ آ گئے تو حضور نبی کریم ﷺ نے پہلی بات تو یہ فرمائی کہ تم وصال کے روزے نہ رکھو۔ قربان جاؤں اس شفیق امت ﷺ پر کہ وہ امت پر کتنے مہربان ہیں ۔ ماں باپ ، پیر استاد اور حکیم و ڈاکٹر بھی اتنے مہربان نہیں جتنے پیارے محبوب ﷺ اپنی امت پر مہربان ہیں اور سید پاک ﷺ نے دوسری بات جو ارشاد فرمائی انتہائی غور طلب ہے ۔ اور اس سے عبد اور عبدہ‘ کا فرق بخوبی واضح ہو جاتا ہے ۔ حضور نے فرمایا  اَیُّکُمْ  مِثْلِیْ ۔ تم میں میری مانند کون ہے ؟ اور حضور ﷺ نے جب یہ فرمایا تو اس وقت جناب سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم ، جناب سیدنا ابوبکر  صدیق، جناب عمر فاروق، جناب عثمان غنی ، طلحہ ، زبیر ، عبدالرحمن بن عوف کے علاوہ دیگر بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور بیعت رضوان والی وہ مقدس ہستیاں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بخشش کی بشارت سے نوازا ہے موجود تھیں اور ان سب سے حضور نے فرمایا : تم میں میری مانند کون ہے ؟ سوچنے اور فکر کرنے کا مقام ہے کہ جب ان لوگوں میں کوئی حضور پاک ﷺ کی مثل نہیں ہو سکتا تو کیا چودھویں صدی میں کوئی شخص حضور نبی کریم ﷺ کی مثل ہو سکتا ہے ؟ہرگز نہیں‘ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،یہ ہے صحیح عقیدہ ۔ اور جب تک صاحب قرآن ﷺ کے متعلق یہ عقیدہ نہ ہو ، قرآن کو نہیں سمجھا جا سکتا۔

          آگے فرمایا حضور ﷺ نے  اَنَا اَبِیْتُ عِنْدَ رَبِّیْ ھُوَ یُطْعِمُنِیْ وَ یَسْقِیْنِیْ بلا کیف میں اپنے رب کے ہاں رات گزارتا ہوں وہ مجھے کھلاتا بھی ہے، اور پلاتا بھی ہے ۔ اب یہ اللہ کے ہاں رات گزارنا اور کھانا پینا ہماری سمجھ اور فہم سے بالا تر ہے اسی لئے میرے استاد محترم حضرت علامہ حافظ علی احمد جان صاحب  رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ یہ کیفیت ہماری سمجھ میں نہیں آ سکتی کیونکہ یہ عبدہ‘ کا مقام ہے اسی لئے اس کا ترجمہ کرتے وقت ’’ بلا کیف‘‘ کا لفظ شامل کرنا چاہئے۔

          پیارے محبوب ﷺ ابتداء میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے ، انہی دنوں کی بات ہے کہ آپ ﷺ کے قلب مبارک میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میرا قبلہ ، قبلہ ابراہیمی ہو۔ اللہ اکبر!

 حضور پاک ﷺ نے دعا نہیں کی اور نہ ہی زبان مبارک پر یہ الفاظ آئے بلکہ آپ کے ذہن مبارک میں یہ فکر پیدا ہوئی، دل میں خیال آیا اور آپ ﷺ نے کسی کے سامنے اس کا اظہار بھی نہیں کیا لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے فوراً  وحی بھیج دی ‘ فرمایا:

قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (البقرہ،۲:۱۲۴)

ترجمہ :۔  اے محبوب ! آپ کا یہ بار بار چہرۂ اقدس آسمان کی طرف اٹھانا میں دیکھ رہا ہوں، پس ضرور بالضرور ہم آپ کا منہ اس قبلے کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس پھیر دیں اپنا منہ مسجد حرام کی طرف ۔

          استاذِ محترم حضرت صاحبزادہ حافظ علی احمد جان صاحب  رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے ’’کہ ہے تو بڑی جرات کی بات مگر کہے دیتا ہوں کہ اللہ جل جلالہ کو اس وقت بڑا لطف آ رہا تھا جبکہ پیارے محبوب ﷺ اپنا چہرہ اقدس بار بار اٹھا کر اس کی طرف دیکھتے۔ ‘‘

           یہ مقام عشق ہے، دیکھنے والا دیکھ رہا ہے اور دکھانے والا دکھا رہا ہے ، یہ قرآن ہمیں عشق بتا رہا ہے ، احادیث شریف سب کی سب پیارے محبوب ﷺ کے عشق و محبت سے بھری پڑی ہیں ، بشرطیکہ انسان کے اندر ذوقِ سلیم موجود ہو تو پھر وہ اشارے ، کنائے اور رمز کی باتوں کو خود بخود سمجھ سکتا ہے ،اور لفظ’’ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ ‘‘میں لام تاکید کیلئے اور نون بھی تاکید کیلئے ہے ، اسی لئے اس کا ترجمہ کیا گیا ’’ضرور بالضرور ‘‘اور پھر اللہ جل جلالہ نے فرمایا کہ ’’ سبحان اللہ ‘‘ ۔ یہ ہے عبدہ ‘کی شان اسی لئے عبدہ۔ کا ترجمہ کیا گیا ’’اللہ کا خاص بندہ‘‘ ۔ عبد تو خدا کو راضی کرنے کی کوششوں میں لگا رہتا ہے اور دوسری طرف اللہ جل شانہ اپنے عبدہ‘ کی رضا چاہتا ہے، اپنے محبوب ﷺ کو راضی کر رہا ہے اور واقعہ اسریٰ والی آیت میں اللہ جل جلالہ نے عبدہ‘ فرمایا ۔ امید ہے عبدہ‘ کا معنی و مقام اور اس کی شان آپ کی سمجھ میں آ گئی ہو گی تواب آپ یہ آیہ مبارکہ پڑھیں اور اس پر غور فرمائیں :

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (سورہ بنی اسرائیل،۱۷:۱)

ترجمہ :  پاک ہے وہ ذات جو لے گیا اپنے خاص بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ،وہ (مقام کہ ) اس کے ماحول کو ہم نے برکتوں سے بھرا ہوا ہے تا کہ ہم اپنے اس خاص بندے کو اپنی نشانیاں دکھائیں بیشک وہ (اللہ تعالیٰ) سننے اور دیکھنے والا ہے۔

          اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت کے آخر میں اپنی دو صفتوں کا اظہار فرمایا ہے ، سننے اور دیکھنے کی صفات کا ذکر فرمایا یعنی اللہ جل شانہ اپنے پیارے محبوب ﷺ کے اس تمام واقعہ اسریٰ کو خود بھی ملاحظہ فرما رہا ہے ۔تمام منظر اس کے سامنے ہے ، جبرئیل علیہ السلام کا براق لے کر آنا اور پھر حضور ﷺ  کو کس انداز سے جگانا ، حضور ﷺ کا براق پر سوار ہونا ، مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جانا ، وہاں تمام انبیاء کرام کی امامت کرنا اور دعائیں کرنا ۔ یہ سب کچھ بلا کیف اللہ تبارک و تعالیٰ کی نظروں کے سامنے ہے اور وہ سن بھی رہا ہے۔

          پیارے محبوب ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں حطیم کے اندر سویا ہوا تھا ۔ حطیم کعبۃ اللہ کے اندر ہے ، اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی زیارت نصیب فرمائے ،اس کے گرد طواف کیا جاتا ہے اس کے اندر ۳۲۰انبیاء کرام دفن ہیں’ حضرت ہاجرہ کی قبر تو واضح طور پر موجود ہے اور یہ مقام اجابت ہے ۔ ہم اہل سنت و الجماعت کے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مقلدین یعنی حنفیوں کو یہ حکم ہے کہ طواف اور حجر اسود کو بوسہ دے کر مقام ابراہیم پر دو نفل پڑھ کر ملتزم پر دعا کرنے کے بعد حطیم کے اندر اور میزاب کے نیچے حضرت ہاجرہ کی قبر مبارک کے مقام پر کھڑے ہو کر دو رکعت نفل پڑھو اور دعا کرو کہ یہ مقام اجابت ہے ، یہاں دعا قبول ہوتی ہے ۔کتنا بڑا شرف حاصل ہے حطیم کو اور کتنی عظمت ہے اس حطیم کی ۔

          اور دوسری روایت میں آتا ہے کہ آپ ﷺ حضرت انس کے گھر پر تھے ۔ایک اور روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی چچا زاد بہن حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر پر آرام فرما رہے تھے کہ جبرئیل امین آئے ۔ حضرت میکائیل علیہ السلام بھی ساتھ تھے ۔ چھت کو پھاڑا اور پیارے محبوب ﷺ کو جگایا ۔ کیسے جگایا ؟ سبحان اللہ ! حضرت علامہ یوسف نبہانی صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب ’’حجتہ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین ‘‘میں حضرت جبرئیل امین کے جگانے کا وہ نرالا انداز بیان فرمایا ۔ لکھتے ہیں کہ ناموس اکبر نے اپنے گال پیارے محبوب ﷺ کے تلوؤں سے رگڑے اور آپ ﷺ نے آنکھیں کھول دیں۔

          ایک بڑا اہم مسئلہ یہاں پر آپ کو بتا دوں ۔ آپ غور سے سنیں اور وہ یہ ہے کہ اس وقت نبی کریم ﷺ بیدار تھے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ ’’ نبی کا دل نہیں سوتا اگر چہ اس کی آنکھیں بند ہوتی ہیں ‘‘ اور یہاں پر بھی پیارے محبوب ﷺ جبرئیل کا آنا اور چھت پھاڑنا اپنے قلب مبارک سے ملاحظہ فرما رہے تھے ۔ چنانچہ جبرئیل  نے کہا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جل جلالہ نے آپ کو ملاقات کیلئے بلایا ہے ، اللہ اکبر ! آپ لوگ غور فرمائیں عبدہ‘ کی شان پر کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کیسے اپنے پاس بلایا ۔ ذرا بلانے کا ڈھنگ تو دیکھیں کہ اپنے محبوب ﷺ کو اپنے پاس بلانے کیلئے سب سے محترم و مکرم فرشتے کو بھیجا ، وہ جو تمام فرشتوں میں عظمت و شرف کے لحاظ سے بڑھ کر ہے وہ آپ ﷺ کو لینے آیا ۔سبحان اللہ !

          پیارے محبوب ﷺ ایک براق پر سوار ہوئے جو حضرت جبرئیل امین ساتھ لائے تھے اور اس براق کی کیفیت حضور ﷺ نے بیان فرمائی ہے کہ یہ ایک جانور تھا جو خچر اور گدھے سے مشابہت رکھتا تھا لیکن نہ خچر تھا نہ ہی گدھا تھا بلکہ ان کے درمیان ایک چیز تھی اور اتنا تیز رفتار تھا کہ جہاں تک نظر کام کرتی تھی وہاں اس کا قدم ہوتا تھا وہ آپ ﷺ کو لے کر چلا ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں جب موسیٰ علیہ السلام کی قبر پر سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ   علیہ السلام  نماز پڑھ رہے ہیں ۔ اللہ اکبر ! اب دیکھئے، آپ غور کریں معجزے کے اندر معجزہ موجود ہے۔ پیارے محبوب ﷺ قبر مبارک کے اندر بھی ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ بیت المقدس پہنچ گئے ،وہاں تمام انبیاء کرام علیہم السلام آپ کے استقبال کیلئے موجود تھے ۔ حضرت آدم علیہ السلام آپ کے استقبال کیلئے موجود تھے ، حضرت آدم  علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک سب کے سب موجود تھے ، صفیں باندھے کھڑے تھے ، جبرئیل امین علیہ السلام   نے فرمایا آپ ﷺ آگے ہو جائیں ۔چنانچہ پیارے محبوب ﷺ امام ہوئے اور تمام انبیاء مقتدی اور انہوں نے آپ ﷺ کی امامت میں دو رکعت نماز پڑھی ۔

          اب یہاں میرے استاد محترم نے ایک عجیب بات کہی خدا ان کو غریق رحمت کرے آج ان کی ہر بات یاد آ رہی ہے ۔ فرمایا دیکھو پیارے محبوب ﷺ تو جسم اطہر اور روح مبارک کے ساتھ بیت المقدس میں تشریف لے گئے تھے تو باقی انبیاء علیہم السلام جن کو نماز پڑھائی کیا وہ مردہ تھے ؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ وہ بھی زندہ تھے ‘اپنی روح اور اجساد کے ساتھ وہاں موجود تھے ۔ یہاں تک کا واقعہ اسریٰ کہلاتا ہے اب آگے معراج شروع ہوتی ہے ۔صاحب ’’روح البیان ‘‘نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ آپ ﷺ کو چونتیس (۳۴) بار معراج نصیب ہوئی لیکن یہ خصوصی معراج ایک مرتبہ ہوئی۔

          سید عالم ﷺ فرماتے ہیں کہ جب میں بیت المقدس سے باہر نکلا تو ایک پتھر کے ساتھ براق بندھا ہوا تھا میں اس پر سوار ہوا اور وہ آسمانوں کی طرف روانہ ہوا‘ پہلے آسمان پر پہنچا ، یہ ہے معراج ، لفظ معراج عروج سے ہے اور عروج کے معنی ہیں سیڑھی بہ سیڑھی اوپر چڑھنا ، قدم بہ قدم اوپر چڑھنا، ایک آسمان سے دوسرے ، پھر تیسرے ، پھر چوتھے ، پانچویں ، چھٹے اور پھر ساتویں آسمان پر۔

          حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ جب ہم پہلے آسمان پر پہنچے تو جبرئیل امین نے دروازہ کھٹکھٹایا، آواز آئی کون ہے ، عرض کی جبرئیل ، کہا کیا تیرے ساتھ کوئی اور ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں میرے ساتھ جناب محمد رسول اللہ ہیں۔ پھر پوچھا کیا وہ بلائے گئے ہیں ،؟ فرمایا ہاں ‘آج اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب ﷺ کو خود بلایا ہے چنانچہ دروازہ کھول دیا جاتا ہے ۔جب اندر داخل ہوتے ہیں تو حضرت آدم   علیہ السلام استقبال کیلئے کھڑے تھے اور فرمایا اے میرے بیٹے ، اے پیغمبر مرحبا ۔ اس کے بعد آپ ﷺ دوسرے آسمان پر پہنچے تو وہاں حضرت یحییٰ   علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ   علیہ السلام استقبال کیلئے موجود تھے۔ انہوں نے کہا اے ہمارے صالح بھائی ، اے نبی صالح مرحبا ۔ پھر تیسرے آسمان پر گئے وہاں حضرت یوسف   علیہ السلام نے آپ ﷺ کا استقبال کیا ۔ چوتھے آسمان پر حضرت ادریس   علیہ السلام نے ، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون   علیہ السلام ، چھٹے پر حضرت موسیٰ  علیہ السلام  نے اور ساتویں پر حضرت ابراہیم   علیہ السلام نے آپ کا استقبال کیا ۔نیز ہر آسمان پر انبیاء کے علاوہ ستر ستر ہزار فرشتے بھی صفیں باندھے آپ ﷺ کے استقبال کیلئے کھڑے ہوتے اور مرحبا مرحبا کی صدائیں بلند کرتے ۔ (مشکوۃ المصابیح، باب فی المعراج )

          مولوی اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب ’’النشر الطیب‘‘ میں لکھا ہے کہ جب فرشتے آپ ﷺ کو دیکھتے تو ان الفاظ کے ساتھ سلام کرتے :

اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَوَّلُ۔اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اٰخِرُ

          سبحان اللہ !پیارے محبوب ﷺ بلحاظِ نور تمام مخلوق میں سب سے اول پیدا کئے گئے اور پھر انبیاء کرام میں سب سے آخر میں مبعوث کئے گئے ۔نبوت آپ ﷺ پر ختم کر دی گئی اسی لئے ملائکہ آپ ﷺ کو اول اور آخر کہہ کر صلوٰۃ و سلام پیش کر تے رہے ۔ بد قسمتی سے آج کل ایسی مخلوق پیدا ہو گئی ہے جو کہتی ہے اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ نہ کہو ‘ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب فرمائے اور ہمیں ہدایت پر استقامت نصیب فرمائے۔

           امیر المؤمنین، امام الاولیاء ، اسد اللہ الغالب ، حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں میں ان پتھروں اور درختوں کو پہچانتا ہوں جو آپ ﷺ کو دیکھ کر کہتے ہیں اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ دنیا کی ہر چیز نے’’ اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ‘‘ کہا۔ مگر آج لوگوں کی عقلوں پر پردے پڑ گئے ہیں جو اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ پڑھنے سے منع کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین !

          جبرئیل امین  علیہ السلام  ساتویں آسمان تک آپ ﷺ کے ساتھ تھے ۔اس کے بعد ایک مقام آیا سدرۃ المنتہیٰ ایک بیری کا درخت ہے۔ جبرئیل نے براق کو اس کے ساتھ باندھ دیا اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میری منزل ختم ہو گئی ہے ،میں اس سے آگے نہیں جا سکتا۔ جبرئیل   علیہ السلام کی اس عرضداشت کو حضرت شیخ سعدی صاحب نے ایک شعر میں یوں بیان فرمایا

اگر یک سر موئے برتر پرم

فروغِ تجلی بسوزد پرم

          اگر میں یہاں سے ایک بال کی نوک کے برابر بھی اوپر جاؤں تو میرے پرجن میں آسمانوں اور زمینوں کو گھیرنے والی قوت و طاقت اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات سے جل کر راکھ ہو جائیں گے ۔اس مقام پر پیارے محبوب ﷺ نے کیا فرمایا کہ میری منزل اب شروع ہوئی ہے ، سبحان اللہ! کیا ہے مقام نبوت ! عبدہ کے مقام پر غور فرمائیں ، اللہ تعالیٰ کے اس جلیل القدر اور بہت بڑی قوت و طاقت کے اختیار کے مالک فرشتے کا مقام جہاں ختم ہو جاتا ہے وہاں سے پیارے محبوب ﷺ کے مقام کی ابتداء ہوتی ہے ۔اس کے بعد کے واقعات اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ و النجم میں اشاروں کنایوں کے ساتھ بیان فرمائے ہیں!

وَ النَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ ۔ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ (والنجم،۵۳:۱-۲)

ترجمہ : اس پیارے چمکتے تارے(محمد ﷺ )کی قسم جب یہ معراج سے اترے تمھارے صاحب نہ بہکے ، نہ بے راہ چلے (کنز الایمان)

          اللہ جل شانہ نے اس آیہ مبارکہ میں پیارے محبوب ﷺ کو ستارے سے تشبیہ دی چونکہ ذکر آسمانوں کا ہو رہا ہے اور آسمان پر ستارے ہوتے ہیں اس لئے پیارے محبوب ﷺ کیلئے یہ تشبیہ استعمال کی گئی اور پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے اترنے کی قسم کھائی یعنی معراج کے بعد جب پیارے محبوب ﷺ واپس مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور جو مناظر پیارے محبوب ﷺ نے اوپر ملاحظہ فرمائے پھر جو کچھ تمہیں بیان فرمایا یہ حقیقت پر مبنی ہے ،تم کہیں یہ نہ سمجھ لو کہ یہ مجذوب کی بڑ ہے (نعوذ باللہ) ۔وہ تو اتنی قوت و برداشت اور ہمت و استقامت کا مالک ہے کہ سب کچھ دیکھ کر بھی اس کے ہوش اور عقل و خرد ضائع نہیں ہوئے ۔ نہ وہ بہکا اور نہ ہی گمراہ ہوا بلکہ جو کچھ کہہ رہا ہے صحیح کہہ رہا ہے ، واقعتاً اور حقیقتاً کہہ رہا ہے اور یہاں پر میرے استاد محترم نے ایک اور بڑی پیاری بات بیان فرمائی کہ سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے پیارے محبوب ﷺ کو عبدہ‘ کہہ کر مخاطب فرمایا اور یہاں صَاحِبُکُمْ فرمایا یعنی یہاں پر حضور کی نسبت امت سے بیان فرمائی کہ یہ تمہارا آقا و مالک ہے ۔ ارے بد بختو! کہیں تم میرے پیارے محبوب ﷺ  کا اور اپنے آقا کا انکار نہ کر بیٹھو ، یہ تو جو کچھ ارشاد فرما رہا ہے ، تمہارے ہی بھلائی کیلئے فرما رہا ہے ۔اس کی تمام عظمت و شان تمہارے ہی لئے ہے۔ اسے تو ہر وقت تمہاری ہی بھلائی کی فکر ہے ‘یہ تمہارا آقا ہے ، تمہارا مالک ہے، اس کی مالکیت کو مانو ، اس کی غلامی اختیار کرو۔ اعلیٰ حضرت احمد رِضا خان بریلوی صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے:

میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہیں مالک کے حبیب

کہ محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا

          نیز ایک اور شاعر فرماتے ہیں:

آپ ہیں آپ، آپ ہیں سب کچھ

اور ہیں اور، اور کچھ بھی نہیں

          عربی میں صاحب ساتھی کو کہتے ہیں ، صحابی کے معنوں میں بھی آتا ہے، استاد محترم نے فرمایا کہ حضور ﷺ اپنے ہر امتی کے ساتھ ہیں ، ان کا سایہ رحمت ہر امتی کے سر پر موجود ہے ، حضور ﷺ کی رحمت سب پر سایہ فگن ہے ۔ اللہ رب العزت آگے فرماتے ہیں:

وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ (والنجم۵۳: ۳-۴)

ترجمہ :- اور کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر وحی جو انہیں کی جاتی ہے۔  ( کنز الایمان)

          یعنی پیارے محبوب ﷺ نے یہ اسریٰ اور معراج کے جو واقعات بیان فرمائے تو یہ ہمارے حکم کے مطابق بیان فرمائے ہیں ،اس میں ان کی اپنی خواہش نفس کا کوئی دخل نہیں ۔اور جو کچھ آپ ﷺ نے بیان فرمایا یہ ہم نے ہی انہیں وحی کیا ہے ۔ لہٰذا اگر تم نے میرے محبوب کو جھٹلایا ، یا انکار کیا تو یہ تم نے مجھے جھٹلایا تم نے میرا انکار کیا تم میری طاقت و قوت کا انکار کر رہے ہو ۔

           اسی لئے پھر مجھے استاد محترم کی بات یاد آ گئی کہ انہوں نے فرمایا کہ آواز محمد رسول اللہ ﷺ کی تھی ، گلا محمد رسول اللہ ﷺ کا تھا ‘منہ محمد رسول اللہ ﷺ  کا تھا ، لیکن کہنے والا خدا تھا ۔ اسی لئے  فرمایا :

محمد سر ِقدرت ہے کوئی رمز اس کی کیا جانے

شریعت میں تو بندہ ہے حقیقت میں خدا جانے

          آگے ارشادِ باری تعالیٰ ہوتا ہے:

عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىٰ (والنجم۵۳:۵-۶)

ترجمہ:  انہیں سکھایا سخت قوتوں والے طاقت ور نے پھر اس جلوہ نے قصد فرمایا ۔

          یہاں اوپر والی آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے پیارے محبوب ﷺ کی ایک شان بیان فرمائی ہے کہ وہ صاحب علم ہیں ، انہیں تعلیم دی گئی ہے، اور یہ علم انہیں کس نے دیا ؟ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک صفت کا اظہار فرمایا کہ وہ (اللہ تعالیٰ) جس نے اپنے محبوب ﷺ کو تعلیم دی وہ بہت بڑی قوت والا ہے،  وہ ہرگز کمزور نہیں ،وہ تو عظیم ہے ۔اور آپ لوگ غور فرمائیں کہ اس عظیم ہستی نے سید دو عالم ﷺ کو جس علم سے نوازا ہے کیا کوئی شخص اس کا اندازہ کر سکتا ہے ؟ بالکل نہیں کر سکتا ۔

          اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں قرآن مجید پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ہم قرآن پڑھیں گے اسے سمجھیں گے تو ہمیں نبی کریم ﷺ کی عظمت کا پتہ چلے گا ، ہم نے آج قرآن کو بہت مظلوم بنا دیا ہے --- اللہ اکبر! اکبر الٰہ آبادی نے ایک بڑا طنزیہ شعر کہا ہے۔

لائی ہر ڈاک تیرے واسطے لنڈن سے کتاب

گھر سے ہمسائے کے قرآں بھی منگایا ہوتا

          کاش مسلمان قرآن پڑھتے تو پھر انہیں اپنے مقام کا بھی پتہ چلتا اور پیارے محبوب نبی کریم ﷺ کے مقام سے بھی آگاہ ہوتے ۔ علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے :

سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے

کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں

          پیارے محبوب ﷺ نے آسمانوں پر چڑھ کے بتا دیا کہ اے مسلمان یہ آسمان بھی تیرے تابع ہیں ، وہاں پر بھی تیری حکمرانی ہے، کائنات کی ہر چیز پر تو غالب ہے کیونکہ تیرا محبوب ﷺ ہر چیز پر غالب ہے اور اس نے اپنی اس شان کا اظہار بھی فرمایا ۔ ہاتھ کے اشارے سے سورج کو واپس پلٹا ، انگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے فرما کر اپنی غالبیت کا اظہار فرما دیا اور اگر تو مومن ہے تو پھر ہر جگہ تیری حکمرانی ہے، ہر شے تیرے تابع ہے، تو ولایت کبریٰ کے مقام پر فائز ہو کر سدرۃ المنتہیٰ سے اللہ جل شانہ کی معرفت حاصل کر سکتا ہے اور پھر انفس و آفاق پر تیری ہی حکومت ہو گی۔ حتیٰ کہ لوحِ محفوظ بھی تیرے سامنے ہو گی ، کوئی چیز تجھ سے چھپی ہوئی نہیں ہو گی۔ میرے غوث پاک ، محبوبِ سبحانی ، قطب ربانی ، غوثِ صمدانی ، شہبازِ لا مکانی ، قندیل نورانی ، ہیکل یزدانی حضرت سید ابو محمد شیخ عبدالقادر جیلانی نے فرمایا ’’ میری آنکھیں لوح محفوظ کے اندر لگی ہوئی ہیں، میں جب دعا کرتا ہوں تو اللہ تعالیٰ لوح محفوظ کے اندر قضائے مبرم کو بھی ٹال دیتا ہے ۔‘‘

وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىٰ (والنجم۵۳: ۷)

ترجمہ:۔  اور وہ آسمان بریں کے سب سے بلند کنارہ پر تھا ۔(کنز الایمان)

          حضرت علامہ محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور نے ستر ہزار نورانی حجابات طے کر کے افق اعلیٰ کو عبور کیا۔

ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ (والنجم۵۳: ۸-۹)

ترجمہ :۔ پھر وہ جلوہ نزدیک ہوا پھر خوب اُتر آیا تو اس جلوے اور محبوب میں دو ہاتھ کا فاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی کم۔ (کنز الایمان)

          آپ طرزِ تخاطب کو ملاحظہ فرمائیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کتنے پیارے انداز سے اس قرب کا ذکر فرما رہا ہے۔ ارشاد فرمایا قریب ہوا، اب اس قرب کو کون جان سکتا ہے ؟ اور کون اس کا بیان کر سکتا ہے ؟ ہاں وہی بیان کرے گا جسے یہ قرب نصیب ہو ۔ کمان ہے کمان ، یہ جس لکڑی سے بنائی جاتی ہے اس میں بڑی لچک ہوتی ہے ۔ اس میں ایک چلہ ہوتا ہے جس میں تیر رکھا جاتا ہے اور کمان میں جب تیر لگا کر اس کے دونوں کناروں کو کھینچتے ہیں تو اس کے دونوں کنارے آپس میں مل جاتے ہیں ، تب تیر کو چھوڑتے ہیں ۔ یعنی کمان کا ایک کنارہ تبارک تعالیٰ کی ذات اور دوسرا پیارے محبوب ﷺ ۔ یہ دونوں کمان کے کناروں کی طرح جذب و انجذاب کے ساتھ اتنے قریب ہوئے کہ مل گئے بلکہ فرمایا أَوْ أَدْنَىٰ بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ہوئے، یہاں تک کہ پھر نہ میں رہا نہ تو رہا ۔حضرت جامی صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس مقام پر فرمایا

جامی ز دوئی بکسل یک روح شوی و یک دل

باید کہ کنی منزل در عالم یکتائی

          اب آپ غور فرمائیں معراج پر کہ یہ معراج کیا چیز ہے ؟ معراج پیارے محبوب ﷺ کی عظمت ہے پیارے محبوب ﷺ کی شان ہے ، پیارے محبوب ﷺ کا ارفع و اعلیٰ مقام ہے ، اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے ختم نبوت ہے اور پھر اس مقام پر اللہ جل شانہ نے فرمایا :

فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ (والنجم۵۳:۱۰)

ترجمہ:۔  پس وحی کی اللہ نے اپنے خاص بندے کو جو وحی کرنی تھی۔

          واقعہ اسریٰ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ فرمایا اور پھر یہاں پر بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیہ مبارکہ میں عَبْدِہِ  فرمایا ۔  اب آپ اسریٰ اور معراج کے تعلق اور ربط پر غور فرمائیں ۔ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اپنے خاص بندے پر وحی کی ۔ واحد مذکر کا صیغہ ہے ۔ اب یہاں پر جبرئیل نہیں تھا کیونکہ وہ تو سدرۃ المنتہیٰ پر رہ گیا تھا اور پیارے محبوب ﷺ ستر ہزار نوری حجابات طے کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑے ہیں ۔ مقامِ قرب پر رونق افروز ہیں ، یہاں پر جو وحی کی گئی وہ بلا واسطہ تھی۔ اس مقام پر کیا وحی کی گئی ؟ جناب امام اولیاء و امام السلسلہ قادریہ امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے ایک دن ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ علم عطا فرمایا ہے جو جبرئیل امین کو نہیں ہے ، یہ ہے مقامِ ولایت ، اور جناب علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان یہ ہے کہ ان کی ٹھوکر سے ولی بنتے ہیں۔ چنانچہ اس موقع پر جناب حضرت ابو موسیٰ اشعری  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  (جید صحابی، قاضی اور تحکیم کے موقع پر حضرت علی المرتضیٰ کی طرف سے حکم تھے )کھڑے ہو گئے اور عرض کی یا امیر المؤمنین! آپ نے بڑی عجیب بات فرمائی ہے۔  جبرئیل امین تو ناموسِ اکبر ہے، تمام انبیاء کی طرف وحی لانے والا ہے ، وہ تو لوحِ محفوظ کو دیکھ کر آتا ہے ، اور آپ فرماتے ہیں کہ جو علم مجھے ہے اسے نہیں ہے ۔ اللہ اکبر ! چنانچہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا ، اے ابو موسیٰ !  بیٹھ جا اللہ سے ڈر اور سن۔ جب پیارے محبوب ﷺ معراج پر اللہ تعالیٰ کے حضور تشریف لے گئے اور وہاں اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے جو وحی اپنے محبوب ﷺ کو کی، اللہ تعالیٰ کے محبوب ﷺ نے وہ تمام وحی وہ سب علم مبارک مجھے عطا فرمایا ۔جبرئیل امین کو اس کا علم نہیں ہے۔

           اللہ تبارک و تعالیٰ نے چودہ ہزار علوم اس وقت ایک آن واحد میں پیارے محبوب ﷺ کو عطا فرمائے ۔ اب یہاں پر استاد محترم نے ایک نکتہ بیان فرمایا جو بڑا ہی قابل غور ہے۔ حضور پاک ﷺ نے اللہ تبارک و تعالیٰ کا دیدار کیا ، باری تعالیٰ کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔جناب سیدنا حضرت عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنی ان آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی زیارت کی جو میرے ماتھے میں لگی ہوئی ہیں ۔ تو استاد محترم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز غائب نہیں ہے اور پھر جو اللہ تعالیٰ کو دیکھ لے اس سے کیا غائب ہو سکتا ہے اور پھر اس آیہ مبارکہ میں لفظ مَا  اَوْحٰی موجود ہے ۔ یہ لفظ مَا عموم کیلئے آتا ہے ، یہ ہر چیز کو اپنے اندر لے رہا ہے لیکن ہمارا ایمان ہے کہ ہمارا خدا علم والا ہے، وہ یہ پہلے سے جانتا تھا کہ لوگ پیارے محبوب ﷺ کے علم مبارک کے متعلق باتیں کریں گے‘ ایسی مخلوق پیدا ہو گی جو پیارے محبوب ﷺ کے واقعہ معراج کا انکار کرے گی ۔ حضور سید دو عالم ﷺ کے ارشادات کا انکار کرے کی اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ (والنجم۵۳:۱۱)

ترجمہ:۔ نہ جھٹلایا دل نے جو دیکھا (چشم مصطفی ﷺ ) نے۔

          پہلی آیت میں مَا اَوْحٰی  فرمایا تھا یہاں  مَا رَأَىٰ فرمایا کہ میرے محبوب ﷺ نے اپنے قلب مبارک اور آنکھوں سے جو کچھ ملاحظہ فرمایا یہ سب کا سب سچ ہے ، اس میں جھوٹ کا شائبہ بھی نہیں اور ہم نے پیارے محبوب ﷺ کے ان ارشاداتِ عالیہ پر ایمان لانا ہے اور دل سے اس کی تصدیق کرنی ہے۔ اگر کوئی دل سے اس بات کی تصدیق نہ کرے تو وہ منافق ہے ۔اس کے اپنے دل میں کذب ہے ، جھوٹ ہے ۔ کیا شان ہے پیارے محبوب ﷺ کی ؟ اور کتنی عظمت کا مالک ہے وہ اللہ تبارک و تعالیٰ جس نے اپنے محبوب ﷺ کو اس شان سے نوازا۔ یہ مقام عطا فرمایا، اپنی تمام مخلوق میں اسے منتخب فرمایا! وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ  (البقرہ،۲:۱۰۵) اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اسے اپنی رحمت کیلئے مختص کر لیتا ہے۔  اور پھر معراج کیلئے اللہ تعالیٰ نے جناب محمد رسول اللہ ﷺ کو مختص فرما دیا اور اللہ تعالیٰ کا یہ انتخاب بھی کتنا لا جواب ہے، کتنا عجیب ہے، آپ غور فرمائیں ! پیارے محبوب ﷺ کے مقام پر ، بلا تشبیہ بلا تشبیہ ، توبہ توبہ ، استغفر اللہ ، طریقت کی ایک مثال آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں کہ جب کوئی پیر صاحب کسی کو اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہے ، اسے خلافت کیلئے منتخب کرتا ہے، تو وہ اس میں اہلیت دیکھتا ہے اس کی خصوصیت دیکھتا ہے اس میں ولایت کے کمالات اور اصلاح کو دیکھتا ہے اور پھر اس کے اندر اصلاح کرنے کا طریقہ بھی دیکھے گا۔ ہر قسم کی خوبیاں دیکھنے کے بعد تب جا کر اسے خلافت سے نوازے گا اور آپ اندازہ لگائیں کہ وہ نبی، وہ رسول، وہ پیغمبر ،کتنی خوبیوں اور خصوصیتوں کا مالک ہو گا جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اٹھارہ ہزار عالم میں سے منتخب فرما کر امام الانبیاء بنایا، معراج سے نوازا اور اپنا دیدار کروایا۔

سبحان اللہ ، اللہ اکبر ، اللہ اکبر!

          پیارے محبوب ﷺ جب واپس اپنے گھر تشریف لائے تو احادیث شریف میں آتا ہے کہ دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی ، بستر اسی طرح گرم تھا ، کٹورا میں پانی اسی طرح بہہ رہا تھا جس طرح حضور ﷺ  چھوڑ کر گئے تھے۔ میرے استادِ محترم نے یہاں ایک عجیب بات کہی ، قربان جاؤں ان کے پڑھانے پر ، آج قدم قدم پر یاد آ رہے ہیں ۔ فرمایا دیکھو انسان کے اندر جان ہے یعنی اگر جسم میں روح موجود ہے تو وہ زندہ ہے اور اسے وقت کا احساس ہوتا ہے، اگر جان نہیں تو جسم مردہ ہے کیا اسے وقت کا احساس ہو گا، ہرگز نہیں کیونکہ یہ احساس زندہ کو ہوتا ہے مردے کو نہیں ہوتا ۔ بات کو سمجھنے کی کوشش کریں حضور پاک ﷺ تمام جہان کی روح ہیں ۔اگر حضور دنیا میں موجود ہیں تو یہ جہاں حرکت کر رہا ہے ، وقت آگے بڑھ رہا ہے  لیکن جب حضور پاک ﷺ معراج کیلئے اس جہاں سے نکلے تو گویا اس جہاں کی روح نکل گئی۔ جو چیز جہاں تھی وہیں رک گئی، تمام جہاں کی حرکت بند ہو گئی کیوں کہ روح جو نہیں تھی اور جب روح دوبارہ آئی تو پھر وہیں سے اس کی حرکت شروع ہوئی جہاں رکی تھی کیونکہ حضور ﷺ  اصل کل ہیں ، اصل جہان ہیں، روحِ جہان ہیں ، حیاتِ جہان ہیں۔ اسی لئے حضور ﷺ قیامت تک حیات ہیں کیونکہ یہ جہاں چل رہا ہے۔

          صبح پیارے محبوب ﷺ جب حطیم میں تشریف فرما ہوئے ، بڑے بڑے صنادید قریش بھی موجود ہیں  اور آپ ﷺ معراج کے واقعات بیان فرماتے ہیں کہ میں رات کی رات بیت المقدس گیا ، انبیاء کو امامت کروائی ، پھر آسمان پر گیا ، پہلے ، دوسرے ، تیسرے ، چوتھے ، پانچویں ، چھٹے اور پھر ساتویں آسمان پر  اور وہاں پر انبیاء کرام جناب آدم   علیہ السلام ، حضرت یحییٰ   علیہ السلام ، حضرت یونس   علیہ السلام ، حضرت ہود   علیہ السلام ، حضرت موسیٰ   علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ   علیہ السلام ، اور حضرت ابراہیم  علیہ السلام  نے میرا استقبال کیا ،میں نے بہشت اور جنت کا نظارہ  دیکھا ، دوزخیوں کو مونہوں کے بل گرایا جاتا اور پھر نکالا جاتا اور پھر گرایا جاتا، بعض کی زبانوں کو قینچیوں سے کاٹا جا رہا تھا ، عورتوں کو دیکھا جنہیں عذاب ہو رہا تھا ، جنتیوں کو بھی دیکھا جو وہاں طرح طرح کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ پھر میں سدرۃ المنتہیٰ سے عرش پر گیا، لوح و کرسی کو ملاحظہ فرمایا ، اللہ تعالیٰ کی زیارت سے مشرف ہوا حتیٰ کہ تمام واقعات بیان فرما رہے ہیں۔ حضور کے یارِ غار حضرت ابوبکر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  گھر سے نکلے ۔ آپ کا نام عبد اللہ تھا راستے میں ابو جہل سے ملاقات ہو گئی ۔ ابو جہل آپ کو کہنے لگا کہ دیکھو میں تمہیں کہتا تھا کہ یہ تمہارا دوست ایسی ویسی باتیں کرتا رہتا ہے ، آج تو وہ ایک نئی بات کہہ رہا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا کیا فرما رہے ہیں۔ تو ابو جہل نے کہا کہ وہ کہتا ہے کہ میں آن کی آن میں بیت المقدس گیا، وہاں انبیاء کو نماز پڑھائی پھر آسمانوں پر گیا، اللہ تعالیٰ سے میں نے ملاقات کی ہے وغیرہ وغیرہ ۔  جناب ابوبکر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا اے ابو جہل یہ باتیں اگر تو اپنی طرف سے کہہ رہا ہے تو بالکل جھوٹ ہے اور اگر میرے محبوب ﷺ نے یہ سب کچھ فرمایا ہے تو اسی طرح سچ ہے جس طرح یہ سورج چڑھا ہوا ہے۔ اللہ اکبر ، اللہ اکبر !

          جناب ابوبکر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ فرمانے کے بعد حطیم تشریف لائے ، حضور سید پاک ﷺ ٹیک لگائے بیٹھے ہیں، جونہی ابوبکر  سامنے آئے حضور ﷺ نے فرمایا  انت صدیق، انت صدیق، انت صدیق تو صدیق ہے تو صدیق ہے ، تو صدیق ہے۔ صدیق کے معنی ہیں سچا لیکن حضرت ابوبکر  صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہم صدیق کا ترجمہ یوں کریں گے ’’ بن دیکھے تصدیق کرنے والا ‘‘ یعنی حضرت ابوبکر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے خود ابھی حضور کو نہ دیکھا تھا اور نہ ہی آپ کی زبان مبارک سے معراج کے واقعات سنے تھے بلکہ ابو جہل کی زبان سے سن کر اس واقعہ کی تصدیق فرمائی۔ چنانچہ اسی وقت سے صدیق آپ کا لقب پڑ گیا ۔ کیا مقام ہے جناب سیدنا ابوبکر  صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا۔ سبحان اللہ ۔ حضور ﷺ  کو اگر سمجھا ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے سمجھا ہے۔

جناب حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ایک ایسے مسلمان کو قتل کیا جس نے حضور سید دو عالم ﷺ کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اب اسلام تو یہ کہتا ہے کہ قتل کے بدلے میں قتل کرو یعنی اسلام قصاص دلواتا ہے لیکن اس قتل کے الزام سے قرآن نے حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بری الذمہ قرار دیا کیونکہ یہ قتل پیارے محبوب ﷺ کے نافرمان کا تھا ،یہ گستاخِ رسول کا قتل تھا۔ لہٰذا حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قصاص نہیں لیا گیا بلکہ انہیں بارگاہِ رسالت سے فاروق کا لقب ملا جس کے معنی ہیں حق اور باطل میں تمیز کرنے والا۔

          مسجد نبوی کیلئے جب زمین خریدنے کیلئے رقم کی ضرورت پیش آئی تو جناب سیدنا حضرت عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے تمام رقم مہیا کر کے غنی کا خطاب حاصل کیا اور حضرت عثمان غنی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہو گئے اور حضور نے فرمایا : حضرت عثمان نے جنت خرید لی۔

          خیبر کے مقام پر لڑائی ہو رہی ہے اور قلعہ فتح نہیں ہوتا ،پیارے محبوب ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کل ہم جھنڈا اس آدمی کو دیں گے جس کے ہاتھ خدا فتح دے گا۔ حضور پاک ﷺ کا ہر صحابی جھنڈے کے حصول کیلئے دعائیں مانگتا رہا لیکن دوسرے دن یہ جھنڈا جناب علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کو ملا اور آپ کے ہاتھ سے خیبر کا قلعہ فتح ہوا اور اسی دن آپ کی شان میں پیارے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا لَا فَتٰی اِلاَّ عَلِیْ لَا سَیْفَ اِلاَّ ذُوالْفِقَارْ۔

          صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو یہ عظمت و شان ، عشق و محبت ، تعظیم و توقیر اتباعِ رسول ﷺ کے صدقے میں نصیب ہوئی ، اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حضور پاک ﷺ کی محبت اور نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے ،  آمین ثم آمین۔

(29رجب المرجب 1410ہجری بروز پیر)

JSN Epic is designed by JoomlaShine.com

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries