FAQs

معراج النبی ﷺ 

قرآن مجید و احادیث کی روشنی میں

 

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (الإسراء: ١)

وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ (١) مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ (٢) وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ (٣) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ (٤) عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ (٥) ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىٰ (٦)وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىٰ (٧) ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ (٨)فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ (٩) فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ (١٠) مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ (١١) (النجم،۵۳:۱-۱۱)

سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ (١٨٠) وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ (١٨١) وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (١٨٢)  (الصٰفٰت، ۳۷:۱۸۰-۱۸۲)

          اللہ تبارک و تعالیٰ جل جلالہ و عم نوالہ و عزاسمہ و جل مجدہ اپنے پیارے محبوب، شفیع المذنبین، رحمۃ  للعالمین ، خاتم النبیین ، عالم علوم اولین و آخرین جناب احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ  کے طفیل مجھے بھی اور آپ کو بھی اپنا کلام پاک پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے ، دنیا اور آخرت میں پیارے محبوب ﷺ  کا دامن رحمت ہمارے ہاتھ سے نہ چھوٹے ۔

          الحمد للہ ثم الحمد للہ ! اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم اور نبی کریم ﷺ  کی تائید و حمایت سے آج ہمارا یہ چھٹا درس قرآن حکیم ہے۔ آج کا یہ درس اس مبارک مہینہ یعنی رجب المرجب کی مناسبت سے منعقد کیا جا رہا ہے کیونکہ اسی ماہ مبارک کی ستائیس تاریخ کو نبوت کے بارہویں برس حضور پاک ﷺ  کو معراج کی سعادت نصیب ہوئی تھی ۔ سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں ماہ و سال کے حساب سے ہمیں پیارے محبوب ﷺ کی دو طرح کی زندگی ملتی ہے :ایک مکی زندگی اور دوسری مدنی زندگی ۔ نبوت کے بعد کی جو مکی زندگی ہے تو اسے نبوی سالوں پر تقسیم کیا جاتا ہے  اور مدنی زندگی مبارکہ کو ہجری سالوں پر۔ چنانچہ جب ہم کہیں کہ فلاں بات یا واقعہ حضور ﷺ کے نبوی سالوں کا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے اور جب کہا جائے کہ یہ واقعہ ہجری سالوں کا ہے تو یہ ہجرت فرمانے کے بعد کا تذکرہ ہے۔

واقعہ معراج ہجرت سے قبل بارہ سال نبوی میں پیش آیا ۔ حضور پاک ﷺ  نے چالیس برس کی عمر میں اعلانِ نبوت فرمایا اور پھر نبوت کے بارہویں سال حضور ﷺ کو معراج کی سعادت نصیب ہوئی۔ گویا باون (۵۲) برس کی عمر میں ۲۷ رجب المرجب کو آپ ﷺ  کو یہ عظیم الشان معجزہ نصیب ہوا ۔ چنانچہ دوست و احباب کے کہنے پر میں نے مناسب سمجھا کہ قرآن و احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں اس واقعہ مبارکہ کو بیان کیا جائے ۔

          اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس واقعہ کو واضح طور پر پندرہویں پارہ کی سورہ بنی اسرائیل میں بیان فرمایا اس سورہ کو ’’ اسریٰ‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور اس میں حضور نبی کریم ﷺ  کے مکہ مکرمہ سے لے کر بیت المقدس تک کے واقعات کا ذکر ہے اور اسے ’’ اسریٰ ‘‘ کہتے ہیں ۔ جب کہ ستائیسویں پارہ کی سورہ و النجم میں باقی واقعہ کو اشارتاً بیان فرمایا جو کہ بیت المقدس سے آسمانوں ، سدرۃ المنتہیٰ اور عرش معلیٰ تک کے واقعات پر مبنی ہے جسے معراج کہتے ہیں ۔ تو گویا یہ واقعہ دو حصوں پر مشتمل ہے ایک حصہ ’’اسریٰ ‘‘ اور دوسرا ’’ معراج‘‘ کہلاتا ہے۔لہٰذا علماء کا اتفاق ہے ،اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی قبروں کو اپنے نور سے روشن رکھے ، کہ واقعہ ’’ اسریٰ ‘‘ کا انکار کرنے والا کافر ہے اور واقعہ معراج کا منکر ملحدو گمراہ ہے۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد اسریٰ و معراج اور پندرہویں و ستائیسویں پارے کی آیتوں کا ربط و تعلق آپ کی سمجھ میں آگیا ہو گا۔

          اللہ تبارک و تعالیٰ جل جلالہ نے اپنے پیارے محبوب ﷺ کو بڑے بڑے عظیم معجزوں سے نوازا ۔ معجزہ کے معنی ہیں عاجز کر دینا ، قاصر کر دینا، بے بس کر دینا ، جتنے بھی عالَم ہیں اور ان میں جتنی مخلوقات ہے سب کے سب معجزہ کے سامنے عاجز و بے بس ہو جاتے ہیں اور پھر تمام معجزات میں سب سے بڑا معجزہ قرآن حکیم ہے۔ آپ اس کی عظمت کا اندازہ لگائیں کہ کوئی قوت آج تک قرآن مجید جیسی کتاب نہیں لا سکی بلکہ قیامت تک اور اس کے بعد بھی یہ کام ناممکن ہے ۔پورے قرآن تو کیا اس کے ایک ٹکڑے ، ایک سورہ اور ایک آیت کے برابر کا کلام فصاحت و بلاغت یا کسی بھی صورت میں آج تک کوئی بڑے سے بڑا عالم، دانشور محقق، مدقق، ادیب، شاعر، مفکر، مقرر اور بڑے سے بڑا انفس و آفاق جاننے والا نہ ہی لا سکا ہے اور نہ آئندہ کبھی لا سکے گا۔

           تمام عالم انسانیت، عالم ملوکیت اور عالم جنات کو اس کے سامنے بے بس اور عاجز کر دیا یہ اور دیگر بھی حضور ﷺ کے جتنے معجزات ہیں وہ اللہ تعالیٰ نے اس لئے آپ ﷺ کو عطا فرمائے تا کہ مخالفین ، توحید کو قبول کرنے میں کسی بھی قسم کی دلیل و حجت کے پیش کرنے سے عاجز آ جائیں ۔وہ پیارے محبوب ﷺ کے سامنے لا جواب ہو جائیں ، آقائے نامدار ﷺ کا جسم اطہر سر کے بال مبارک سے لے کر پاؤں کے ناخن مبارک تک سراپا معجزہ ہے ۔ صرف سمجھانے کیلئے ایک دو مثالیں بیان کر کے اصل مقصد کی طرف آتا ہوں۔

          پیارے محبوب ﷺ کے ہاتھ مبارک کی انگلیوں سے پانی جاری ہوا، حالانکہ انگلیوں میں اور جسم کے باقی تمام اعضاء میں خون ہوتا ہے اور تقاضائے بشریت تو یہ ہے کہ آپ ﷺ کی انگلیوں سے خون جاری ہوتا لیکن پانی جاری ہوا، یہ معجزہ ہے ۔

          اسی طرح ایک صحابی جنگ کے دوران آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں ۔ حضور میری تلوار ٹوٹ گئی ہے مجھے دوسری تلوار دیں! حضور ﷺ کے ہاتھ میں کھجور کی لکڑی تھی، آپ نے اسے وہ لکڑی دے کر فرمایا جا اس سے لڑ۔ اب صحابی کے ایمان اور یقین کا اندازہ فرمائیں ، اس نے یہ نہیں کہا کہ حضور ﷺ میں نے تلوار مانگی ہے اور آپ مجھے کھجور کی سبز لکڑی دے رہے ہیں بلکہ وہ کھجور کی لکڑی سے جا کر لڑنے لگا اور پھر لڑائی کے بعد اس نے قسم کھا کر کہا کہ ’’ میں نے اس کھجور کی لکڑی سے نو کافروں کو قتل کیا‘‘ میرے ہاتھ میں تو یہ کھجور کی لکڑی ہوتی تھی لیکن جب میں اس سے وار کرتا تھا تو یہ تیز دھار تلوار ہوتی تھی ۔ سبحان اللہ ! اب آپ اندازہ لگائیں کہ کاٹ دینا تلوار کا کام ہے ، لکڑی کا نہیں لیکن ہمارے پیارے محبوب ﷺ کے دست اقدس کی دی ہوئی لکڑی تلوار کی مانند کاٹ رہی ہے ۔

          قرآن کے بعد یہ واقعہ معراج پیارے محبوب ﷺ کا دوسرا بڑا معجزہ ہے ۔ اور اس عظیم الشان معجزے کے اندر سینکڑوں دیگر معجزے موجود ہیں جیسا کہ ابھی میں نے ذکر کیا کہ یہ معجزہ معراج النبی ﷺ آپ کو مکی زندگی میں نصیب ہوا ۔ اور مکی زندگی آزمائش و ابتلاء ، محنت و مشقت اور تکالیف و مصائب سے بھر پور زندگی تھی جس میں تین برس تک پیارے محبوب نبی کریم ﷺ اور آپ کے گھرانے کو شعب ابی طالب میں قید رکھا گیا ۔ حضور پاک ﷺ کا سماجی اور معاشی مقاطعہ کیا گیا ۔ لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے اشیائے خورد و نوش حتیٰ کہ پانی کی فراہمی بھی معطل کی گئی ، تو ان پریشان کن حالات میں حضور پاک ﷺ کو معراج کا یہ معجزہ دیا جا رہا ہے ۔

اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ ۔اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حَبِیْبَ اللہ۔ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللہ

          اللہ تبارک و تعالیٰ نے بڑے ہی عجیب و غریب انداز میں اس واقعہ کا ذکر فرمایا ہے

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (الإسراء: ١)

ترجمہ : پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے خاص بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک وہ (مقام کہ) اس کے ماحول کو ہم نے برکتوں سے بھرا ہوا ہے تا کہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں بیشک وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔

          اللہ تبارک و تعالیٰ نے لفظ سُبْحٰنَ سے آغاز فرمایا، لفظ سبحان حیرت و استعجاب کے موقع پر بولا جاتا ہے ۔ جب ہم کوئی نرالی بات یا چیز دیکھتے ہیں تو بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں ۔ سبحان اللہ ، اور سبحان کے معنی ہیں ’’پاک‘‘ یہ تنزیہہ اور تقدس کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ مفسرین کرام نے اپنی تفاسیر میں لکھا کہ اسریٰ  اور معراج کے متعلق انسان کے عقل و دماغ میں جتنے وہم اور اندیشے پیدا ہونے کا امکان تھا ، اللہ جل شانہ نے صرف ایک لفظ سبحان سے ان کا قلع قمع فرما دیا تا کہ قلوب و اذہان اندیشوں میں مبتلا نہ ہوں  کیونکہ وہ ذات تو پاک ہے ہر قسم کے عیب ، نقصان ، کمی ، عجز اور بے بسی سے ۔اس صاحب قدرت کیلئے یہ بات انہونی اور ناممکن نہیں ہے۔

          ایک بات اور یہاں پر بڑی توجہ اور غور کے قابل یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہاں اپنے کسی ذاتی یا صفاتی اسم مبارک کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ اپنی ذات اقدس کا ذکر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حوالے سے کیا کہ پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے عبد خاص کو راتوں رات۔ یعنی تم یہ گمان نہ کرو کہ آن کی آن میں رات کے تھوڑے سے حصے میں پیارا محبوب مکہ سے بیت المقدس تک ایک مہینہ کی مسافت پر کیسے گیا اور پھر مسجد اقصیٰ سے آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ تک کیسے پہنچا ۔ چنانچہ اس گمان اور اندیشے کو دور کرنے کیلئے فرما دیا کہ وہ محبوب کو لے جانے والا بڑی قدرت کا مالک ہے ،ہر قسم کی کمزوری سے پاک ہے وہ تو بڑی طاقت والا ہے اور عظمت و شان والے نبی کو راتوں رات لے جانا اس کیلئے کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔

          اس آیہ مبارکہ میں تین باتیں اَسْرٰیَ، لَیْلاً اور عَبْدِہِ وضاحت طلب ہیں ۔ اگر یہ صحیح طریقہ سے ذہن نشین ہو جائیں تو انشاء اللہ پورا واقعہ معراج آپ کی سمجھ میں آ جائے گا کیونکہ یہاں پر بعض لوگوں کو مغالطہ ہوا ۔ انہوں نے کہا اور اپنی کتابوں میں بھی لکھا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ معراج خواب میں ہوئی ۔بعض نے کہا کہ بیداری میں ہوئی مگر روح کو ہوئی جسم اپنی جگہ پر موجود تھا ، بعض نے لکھا کہ نیند اور بیداری کے درمیان ایک کیفیت تھی حالانکہ ایسا نہیں بلکہ صحابہ کرام اور جمہور اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ معراج شریف بحالت بیداری جسم و روح دونوں کے ساتھ ہوئی اور جب اَسْرٰیَ اور  لَیْلاً کے معنی قرآن حکیم کی روشنی میں بیان ہوں گے تو انشاء اللہ بات بالکل صاف ہو جائے گی اور تمام شکوک و شبہات دور ہو جائیں گے۔

          عربی بہت ہی فصیح و بلیغ زبان ہے ، اس کا ہر لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ، لیکن سیاق و سباق اور موقع محل کی مناسبت سے ہی وہ اپنے معنی دیتا ہے ، لفظ اَسْرٰیَ  بھی بہت سے معنوں میں آتا ہے اس کے معنی ہیں چشمہ، نہر، چٹیل زمین، کشادہ زمین اور رات کو سفر کرنا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے ضمن میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا (سورہ مریم،۱۹:۲۴)

ترجمہ : (اے مریم ) بے شک تیرے رب نے تیرے نیچے ایک نہر بہا دی ہے (کنز الایمان)

           ایک عربی شاعر کا کلام ہے :

بَسْرِ وَحَمِیْرَ اَبْوَاَلُ الْبِغَالِ بِہٖ (مفردات امام راغب۔ صفحہ۴۲۲)

حمیر کی کشادہ زمین میں جہاں خچروں کا پیشاب جمع ہو تا ہے ۔ یہاں پر یہ کشادہ زمین کے معنوں میں آیا ہے۔

          حضرت لوط علیہ السلام کو مخاطب کر کے اللہ جل شانہ نے فرمایا:

فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ (سورہ ھود،۱۱: ۸۱)

ترجمہ :۔  پس اپنے گھر والوں کوراتوں رات لے جاؤ  (کنزالایمان)

            یہاں پر اس کے معنی رات کو سفر کے ہیں یعنی جب کبھی اس کے ساتھ رات کا ذکر موجود ہو تو پھر یہ سفر کرنے ہی کے معنوں میں آتا ہے۔ اسی طرح آیہ مبارکہ  سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا میں لَیْلاً  فرما کر اَسْرٰیَ  کو مقید کر دیا کہ اب اس کے معنی نہ چشمہ یا  نہر کے ہیں نہ ہی چٹیل زمین کے اور نہ ہی اس کے کوئی اور معنی کئے جا سکتے ہیں بلکہ یہ راتوں رات لے جانے کے معنوں میں ہی استعمال ہو گا۔

          دوسرا لفظ عَبْد ہے ۔ یہ بندہ اور غلام کے معنوں میں آتا ہے جب عبد کی نسبت مخلوق کی طرف ہو تو اس سے مراد عام لوگ ہوتے ہیں اور جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف ہو تو اس کے معنی خاص بندہ کے ہوتے ہیں ۔اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ (الفرقان،۲۵:۱)

ترجمہ :۔ جس نے اپنے خاص بندے (محمد ﷺ) پر قرآن نازل فرمایا۔

          اسی طرح واقعہ اسریٰ میں بھی عبدہٗ فرمایا جس کے معنی خاص بندے کے ہیں۔ در اصل اس سورہ مبارکہ میں بنی اسرائیل کا ذکر ہے اور انہوں نے حضرت عزیر علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ’’عبدیت ‘‘(بندگی) سے نکال کر ’’ ابنیت ‘‘(اولاد) میں داخل کر دیا تھا لہٰذا اللہ تبارک و تعالیٰ نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس افراط و تفریط سے بچنے کیلئے فرما دیا کہ وہ (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نہ خدا ہے اور نہ ہی خدا کا بیٹا ہے بلکہ میرا خاص بندہ ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کیونکہ پیارے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والدین تھے ، اولاد تھی ، ازواجِ مطہرات تھیں‘ خاندان اور قبیلہ تھا اور عزت و شرف کے لحاظ سے تمام عرب میں کوئی دوسرا قبیلہ ایسا نہ تھا۔ عبد اور عبدہٗ کے فرق کو واضح کرنے کیلئے علامہ اقبال رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کیا خوب فرمایا:

عبد دیگر، عبدہٗ چیزے  دگر

ما سراپا انتظار، اُو منتظر

          عبد کا مقام یہ ہے کہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمتوں کے انتظار میں ہے کہ کب اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور علم و حکمت کے دروازے کھلیں ،مقامِ ولایت نصیب ہو ، رزق کی فراخی ، بیماریوں سے شفاء اور اولاد کی نعمت عطاء ہو غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور عنایتوں کے حصول کیلئے عبد انتظار کرتا ہے ۔ جبکہ عبدہ‘ کی شان یہ ہے کہ وہ کسی اور کو اپنے انتظار میں بٹھائے ہوئے ہے یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ خود اس کی ملاقات کا متمنی ہے، اس کے دیدار کیلئے منتظر ہے ۔

JSN Epic is designed by JoomlaShine.com