شیخ العلماء جناب سیّد زین العابدین صاحب سلطان پوری رحمۃ اللہ علیہ ( ہزارہ )
بن سیّد حسن بادشاہ صاحب قادری پشاوری رحمۃ اللہ علیہ
آپ کا نام نامی و اسم گرامی سیّد زین العابدین ہے جبکہ جناب سیّد حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ پشاور پہنچے تو جس مقام پر آپ کا قیام تھا اس کے کوئی ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں بنام کوٹلہ محسن خان ہے اس گاؤں کے ارباب اس وقت بہت صاحب ِ اقتدار و صاحب احترام تھے نیز اس وقت کی حکومت کی طرف سے بھی بڑے بڑے عہدوں پر متمکن تھے۔ ان ارباب صاحبان نے ایک لڑکی بطور نیاز آپ کو دی آپ نے اس سے نکاح کر لیا، اور اس کے بطن سے اللہ جل جلالہ نے آپ کو فرزند عنایت فرمایا۔
آپ کی تعلیم و تربیت اپنے والد گرامی کے زیر سایہ بڑے بڑے علماء فضلا نے کی۔ اٹھارہ برس کی عمر میں آپ ظاہری علم سے مکمل ہو چکے تھے۔ تفسیر و حدیث اس وقت کے فاضل ترین عالم جناب حافظ عنایت اللہ صاحب سے پڑھی۔ علم حدیث میں آپ کو اتنی دسترس تھی کہ جب آپ کے سامنے کوئی حدیث بیان کرتا تو جب تک ہر ایک راوی پر تنقید و تبصرہ نہ فرما لیتے آرام نہ ہوتا ، علم سے فراغت کے بعد آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اور ساتھ ہی ساتھ والد محترم سے راہ سلوک بھی اختیار کیا اور اصلاحِ باطنی بھی شروع کر دی، ۲۱ برس کی عمر میں والد محترم نے منشور خلافت لکھ دیا۔ جب آپ کو خرقہ خلافت مل گیا تو آپ نے سیاحت کی اجازت چاہی۔ آپ اجازت لیکر ہندوستان تشریف لے گئے۔ بڑے بڑے علما اور مشائخ کی صحبت میں رہے اور فیض اٹھایا، مزارات اولیاء کرام پر حاضر ہوئے اور باطنی طور پر مستفیض ہوئے، ساتھ ہی ساتھ آپ تبلیغ اسلام میں کوشاں رہے اور دین اسلام کی خدمت میں مصروف رہے نیز اپنے سلسلہ عالیہ کے ارشادات کی بھی تبلیغ کرتے رہے۔ آپ نے یہ سفر تین سال میں طے کیا۔ اس کے بعد واپس آ کر آپ نے کابل کا سفر کیا۔ اِس طرف کے علما ء اور مشائخ کے ہم صحبت رہے اور طریقہ عالیہ قادریہ میں ہزاروں لوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے ،بڑے اعاظم علماء آپ کے مرید ہوئے تقریباً ڈیڑھ سال کے بعد آپ واپس پشاور تشریف لائے ، چونکہ آپ نہایت ہی پابند سنّت نبویﷺ تھے اس لئے اگر کسی شخص کو خلافِ سنّت کام کرتے دیکھ پاتے ، تو آپ کا چہرہ متغیر ہو جاتا اور سختی کے ساتھ اس کو روک دیتے ، انہی نازیبا حرکات کی وجہ سے بڑے بڑے امراء کو اپنی مجلس سے اٹھا دیتے اور اس علم و تصوف اور پابندی سنّت کی وجہ سے علاقہ ہائے کابل میں آپ کو بہت ہی عزت اور قدر و منزلت کی نظر سے دیکھا گیا۔ آپ کی اس ’’ حق گوئی ‘‘اور ’’ بے باکی ‘‘ کا یہ عالم تھا کہ گورنر نواب امیر خان جب آپ کے والد ماجد کے حضور میں آتا اور جناب سیّد زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ موجود ہوتے تو قطعاً گفتگو نہ کرتا اور خاموش مودٔب بیٹھا رہتا۔
کا بل کی واپسی کے بعد کشمیر کا سفر اختیار کیا۔ جب آپ سلطان پور ؎ پہنچے تو آپ کو یہ مقام پسند آ گیا ، یہ جگہ نہایت ہی پر فضا مقام پر واقع ہے ، نیچے دوڑ بہتی ہے گاؤں کے پاس صاف و شفاف چشمہ ہے ،آپ نے اِس جگہ مستقل سکونت اختیار کر لی۔ چونکہ آپ کے علم کا شہرہ صوبہ سرحد اور ماورأ سرحد تک تھا اِس لئے آپ کے درس شریف میں ہر جگہ کے لوگ آ آ کر شامل ہوئے۔ طلبا کا ہجوم ہو گیا، اور مریدین کا تانتا بندھ گیا، ایک طرف حدیث شریف اور تفسیر مبارک کا درس جاری ہے تو دوسری طرف تزکیہ نفوس اور تہذیب اخلاق ہو رہا ہے آپ کی خدمت دینی کا علم جب آزاد خان درانی کو ہوا جو کہ گورنر کشمیر تھا حاضر خدمت ہوا ، طلبا اور مریدین کا یہ ہجوم دیکھ کہ حیران ہو گیا کہ ایک ’’ فقیر آدمی ان سب کے کھانے اور لباس کا انتظام بھی کرتا ہے تو اس نے بطور نذر موضع مذکورہ اور اس کے متصل گاؤں جو کہ دوڑ کے پار واقع ہیں، دئیے اور سند بھی لکھ دی نیز اپنی صاحبزادی بھی آپ کے حبالۂ عقد میں کر دی ، آپ پھر کشمیر گئے ، صرف چند دن کشمیر رہ کر واپس سلطان پور تشریف لائے اور وہی سلسلہ درس و تدریس کا شروع کر دیا۔ اور وسیع پیمانے پر لنگر شریف جاری کر دیا، اب درس کو باقاعدہ صورت دے کر اور علوم کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ آپ خود حدیث شریف اور طریقت کے شغل میں مصروف ہوئے۔ اِسی لئے آپ کو اس علاقہ میں ’’ وڈے میاں صاحب ‘‘ یعنی بڑے استاد ( صدر مدرس ) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تادم وفات یہ سلسلہ جاری رہا۔
آپ کے حلقہ ارادت میں والئ تنول سخی صوبہ خان تنولی بھی شامل ہوا۔ اس کی اولاد کا سلسلہ ارادت اب تک آپ کے خاندان سے وابستہ ہے۔ اس نے آپ کو موضع مانگل ( جو کہ ابیٹ آباد سے ۸ میل سڑک مانسہرہ پر واقع ہے ) بطور نذر دیا اور سند بھی لکھ دی۔ اور بھی بہت سے حضرات نے بطور نذر گاؤں اور زمینیں وغیرہ دیں۔ کثرتِ طلباء اور ہجوم مریدین کو دیکھ کر پھر بھی یہ آمدن خرچ کے مقابلہ میں کم ہوتی مگر ہاں جو شخص اللہ جل جلالہ کی رضا اور اس کے حبیب لبیب ﷺ کو خوش کرنے کے لئے ان کے دین کی خدمت کریں۔ ان کو کسی چیز کی کمی نہیں ہوتی۔
آپ کی ذات ستودہ صفات حضور ﷺ کی زندگی کا مکمل نمونہ تھی ، سخاوت ، عطا، عبادت، ریاضت، زہد، تبلیغ ارشادات سلسلہ عالیہ قادریہ، کرامت ، اور خصوصاً تبلیغ دین میں یگانہ روزگار تھے۔
بقول صاحب بحر الجمان صفحہ ۱۱۰ سیّد محمد فاضل صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی دختر نیک اختر سے چھ صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں تولد ہوئیں۔ اور آزاد خان درانی کی صاحبزادی کے بطن سے دو لڑکے اور ایک لڑکی پیدا ہوئی، چھ صاحبزادے میر حبیب شاہ صاحب، سیّد عبدالقادر صاحب، میر اسماعیل شاہ صاحب، یعقوب شاہ صاحب، میر اسحاق شاہ صاحب، اور شاہ عبداللہ صاحب ہیں اور دوسرے دو صاحبزادے میر فقیر شاہ صاحب اور سیّد شاہ علی اصغر تھے، یہ ہر دو برادران یہ ارشاد محترم موضع سجیکوٹ ( ہزارہ ) میں مقیم ہوئے ، یہ ہر دو برادر زہد و کرامت میں بے مثل تھے۔
جناب سیّد زین العابدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات
آپ کی اولاد احفاد کا ذکر صاحب بحر الجمان جناب سیّد محبوب شاہ صاحب داتوی نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہاں پر صرف آپ کے صاحبزادوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
جناب میر حبیب شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ
آپ اپنے والد محترم کے خلیفہ تھے، آپ کو والد محترم نے موضع مانگل میں مریدوں کے تزکیہ اور اصلاح قلب کے لئے مقر ر فرمایا اور وصیت فرمائی کہ ’’ لنگر جاری رکھنا، دنیاوی مخمصوں میں نہ پھنسنا، شریعت و طریقت کی خدمت کرنا ‘‘۔ آپ نے اِس وصیت پر پورا پورا عمل کیا۔ لنگر جاری کیا، قرآن حدیث کا درس شریف جاری کیا۔ اور سلسلہ عالیہ قادریہ کی خوب ترویج و اشاعت کی۔
میر اسما عیل شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ
شرافت و کرامت اور ولایت موروثی رکھتے تھے، اعلیٰ درجے کے ادیب ، متین ، متورع، متواضع، بڑے مجاہد اور ریاضت کیش نیز پابند شریعت ، کثیر الکرامت تھے، آپ کو آزاد خان درانی نے بطور جاگیر سات مواضعات عطا کئے تھے، جلال آباد، انبور، ربانی، دھنی، سندگران، ساگردھنی، اردکھیر۔
سیّد شاہ عبداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ
آپ اپنے والد ماجد کے مرید و خلیفہ ہیں۔ باقاعدہ لنگر جاری رکھا ، شریعت و طریقت کی خوب خدمت کی ، درانیوں نے آپ کو موضع سیالکوٹ ضلع ہزارہ میں جاگیر دی تھی ، اِس لئے آپ وہاں مقیم رہتے ، آپ نے مساجد کو خوب آباد کیا، جہاں پر بھی جاتے مساجد میں قیام فرماتے ، اور ان کی غذا ذکر الٰہی تھی۔ آپ اپنے والد ماجد کی زیارت کے لئے ۱۱۸۹ ہجری میں سلطان پور تشریف لائے ، وہاں پر ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ اور والد ماجد کے پہلو میں دفن ہوئے۔