حضرت علامہ شیخ الطریقت میر سیّد عابد شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ
آپ کا اسم گرامی والدین نے میر عابد شاہ رکھا اور شاہ محمد عابد صاحب خانیاری رحمۃ اللہ علیہ سے مشہور ہوئے ، آپ جناب حضرت شاہ محمد غوث صاحب علیہ الرحمت کے بڑے فرزند تھے بقول مؤرخ کشمیر آپ ’’ ۱۱۱۱ ہجری میں پیدا ہوئے ‘‘ آپ کی تعلیم و تربیت اپنے والد محترم کے زیر سایہ ہوئی۔ قرآن مجید حفظ کیا علوم درسیہ سے فراغت حاصل کی۔ پھر والد محترم کے ہی دست حق پرست پر بیعت سے مشرف ہوئے۔ مؤرخ کشمیر صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’ قرآن مجید کی باتجوید حفظ سے فراغت حاصل کر کے دوسری فارسی، عربی کتابوں کا خط اٹھایا ، علمی فضائل کی کافی دستگاہ حاصل کی ، والد ماجد سے بیعت کا ہاتھ پکڑ کر طریقہ شریفہ کے ارشادات کی منزلیں طے کیں ‘‘ صاحب تاریخ کبیر کشمیر لکھتے ہیں۔
’’ کسب فیوض معنوی از والد خود نمودہ و اقطاعی پدری بدست آوردہ بر سجادہ ارشاد نشست، و مرجع خاص و عام و مستجاب الدعوات بود ‘‘
آپ کے علم و فضل ، تورع، تواضع، منکسر المزاجی ، اور کثیر الکرامت ہونے کا شہرہ آج تک زبان زد خلائق ہے، علما کی خدمت ، غرباء کی پرورش ، آپ کا خاص وصف تھا۔ والد محترم سے رخصت حاصل کر کے سری نگر کے ایک محلہ ببری باغ میں آ کر قیام کیا، اپنے بزرگان کرام کی روش کے مطابق لنگر جاری کر دیا۔ درس تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا، تہذیب اخلاق، اور تزکیۂ نفوس شروع ہو گیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں اپنے اخلاص اور بے لوث خدمت کی وجہ سے مقبول ہو گئے اور بقول مؤرخ کشمیر ’’ اولیاء اور علما ء کے مرکز بن گئے ‘‘۔آپ کے علم کا اتنا چرچا ہوا کہ کشمیر اور اطراف و جوانب سے جو ق در جوق طلباء اور فقرا آنے لگے، اور آپ کے علمی کمالات اور فیوض باطنی سے مستفید ہونے لگے ، آپ کی عام فیاضی اور نان دہی کا اتنا چرچا ہوا نیز آپ کی حسن سیرت اور مخصوص اوصاف اتنی شہرت پا گئے کہ بقول مؤرخ کشمیر ’’ حکام کے کانوں تک اِس بات کی اطلاع پہنچی ، حکومت کے ارباب حل و عقد نے حسب ذیل تیرہ گاؤں کانر، کچھ، لامورہ، ڈاڈہ اویزہ، کھڈھہ، کرم سیر، سمپورہ ، والورہ، برن وار، دارپیردار،، باجی ، حیدو، اور انگر بطور جاگیرات آپ کے نام منتقل کر دئیے ‘‘ ۔نیز فرماتے ہیں ’’ آپ ان جاگیرات کی آمدنی مستحق غربا کی ضرورت اور اخراجات کے لئے تقسیم کرتے تھے ‘‘ آپ کی سیاسی دسترس اتنی ہمہ گیر تھی کہ جب کبھی کسی حاکم یا گورنر کی تبدیلی کا مسئلہ پیش آتا تو آپ سے مشورہ کرنے کے بعد وہ مسئلہ حل ہوتا، اور آپ کی رائے سے اتفاق کیا جاتا، جب درانی عہد ختم ہوا اور سکھوں کی حکومت قائم ہوئی تو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے آپ کی تمام جاگیرات ضبط کر لیں، اور خود ان جاگیرات پر متصرف ہوا، جنا ب علامہ محمد دین صاحب فوقؔ مرحوم تحریر فرماتے ہیں۔
’’ آپ کے نام شاہان مغل کی طرف سے جاگیر و عطایات کی سندات راقم الحروف نے بھی سری نگر میں دیکھی ہیں ‘‘
نیز فرماتے ہیں۔
’’ خانیار کے متصل ببرہ باغ ایک محلہ ہے وہاں بھی سادات گیلانیہ کے کئی گھر آباد ہیں، ان کے مورث اعلیٰ سیّد شاہ محمد غوث رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ لیکن افسوس ہے ایسے جلیل القدر سلف کے خلف زمانہ کے انقلاب سے بے حس ہیں بلکہ سنا ہے کہ انہوں نے اپنی مفلوک الحالی کی وجہ سے اپنے خاندانی کاغذات، شجرے، جاگیروں کے پٹے، شاہی احکامات، وغیرہ اور کئی قلمی کتابیں کہیں فروخت کردی ہیں ‘‘
آپ کی وفات ۱۳ ربیع الاول ۱۱۹۳ ہجری میں واقع ہوئی۔ جناب مؤرخ کشمیر مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ
’’ آپ کی دفن گاہ کی تخصیص میں عجیب قسم کا اختلاف پیدا ہوا ، بعض یہ کہتے تھے کہ محلہ خانیار میں بمقام سیّد شاہ محمد فاضل صاحب قادری رحمۃ اللہ علیہ دفن ہونا چاہیے۔ بعض یہ کہتے کہ آپ کی نعش کو لاہور میں پہنچا کر جناب سیّد محمد غوث رحمۃ اللہ علیہ کی قبر شریف کے پاس دفن کیا جاوے۔ مختصر یہ کہ جناب جان محمد صاحب سیالکوٹی نے یہ رائے پیش کی کہ قرعہ اندازی کی جاوے، قرعہ اندازی کی بنا پر آپ کا مدفن جناب شیخ عبدالرشید صاحب قادری کے صحن میں قرار پایا، احباب نے قبر شریف کے گرد روضہ کی صورت میں عمارت بنوائی تھی جو کہ منہدم ہو گئی ہے ‘‘
جب یہ فقیر زیارت کے لئے گیا تو زیارت شریف بالکل گری ہوئی تھی اور قبر شریف سے تمام پتھر اٹھا کر مجاور نے اپنا مکان تعمیر کر لیا تھا، عمارت کا صرف ایک بڑا دروازہ بطور یادگار باقی ہے ، آپ کی تاریخ وفات ’’ ہست بہشت جائے اُو ‘‘ بنتی ہے۔آپ کے چار فرزند تھے ( ۱ ) سیّد رسول شاہ صاحب ( ۲ ) غلام شاہ صاحب ( ۳ ) موسیٰ شاہ صاحب ( ۴ ) یوسف شاہ صاحب۔