ابوالبرکات حضرت سیّد حسن بادشاہ صاحب قادری ؒبغدادی ثم پشاوری
اِسم مبارک
حضور کا نام نامی اور اسم گرامی سیّد حسن قادریؒ ہے مگر مختلف ممالک میں آپ مختلف ناموں سے مشہور ہیں۔ مثلاً بر صغیر ہند و پاک میں آپ کو سیّد حسن ؒ ، علاقہ ہائے کشمیر و پونچھ میں شاہ ابو الحسن ؒ اور صوبہ سرحد میں سیّد حسن بادشاہ ؒ سے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اہل پشاور آپ کو از راہِ خلوص و عقیدت ’’ میراں سرکار ‘‘ کے دل پسند نام سے یاد کرتے ہیں، مؤخر الذکر نام حضور کی اس نسبت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جو آپ کو حضر ت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی ذات بابرکات سے ہے۔
نسبِ عالی
-
آپ صحیح النسب سیّد ہیں۔ آپ کا سلسلۂ نسب پندرہ پشتوں کے بعد حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ اور اٹھائیس پشتوں کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک پہنچتا ہے، شجرۂ مبارک حسب ذیل ہے:-
(۱)۔ حضرت علی ابن ابی طالب(۲) حضرت امام حسن(۳) حضرت حسن مثنیٰ (۴) حضرت عبداللہ محض(۵) حضرت موسیٰ الجون(۶) حضرت عبداللہ(۷) حضرت موسیٰ (۸) حضرت داؤد(۹) حضرت محمد (۱۰) حضرت یحییٰ زاہد(۱۱) حضرت ابو عبداللہ(۱۲) حضرت ابو صالح موسیٰ(۱۳) حضرت شیخ المشائخ سیّد عبدالقادر جیلانی(۱۴) سیّد عبدالرزاق(۱۵) سیّد ابو صالح نصر(۱۶) سیّد شہاب الدین احمد(۱۷) سیّد شرف الدین احمد یحییٰ(۱۸) سیّد شمس الدین(۱۹) سیّد علاؤ الدین علی(۲۰) سیّد بدر الدین حسن(۲۱) سیّد شرف الدین یحییٰ(۲۲) سیّد شرف الدین قاسم(۲۳) سیّد احمد(۲۴) سیّد حسین (۲۵) سیّد عبد الباسط(۲۶) سیّد عبد القادر(۲۷) سیّد محمود(۲۸) سیّد عبداللہ(۲۹) سیّد حسن ، رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمین۔
متذکرہ بالا سلسلۃ الذہب اتنا صحیح ، مستند اور مشہور ہے کہ اس کے بارہ میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ، تاریخ انساب کی جملہ مستند کتابوں سے اس کی صحت کا ثبوت ملتا ہے نیز اولیائے و سادات کے حالات و سوانح سے متعلق جملہ اہم مطبوعات میں بلا کم و کاست آپ کی یہی شجرہ مرقوم ہے اور اس ضمن میں کسی نوع کے اختلاف کا کوئی اظہار آج تک نہیں کیا گیا۔ اِس سلسلہ میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت اما م حسن علیہ السلام کے فرزند سیّد حسن مثنیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عقد حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دختر فرخندہ اختر حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہوا تھا اور ان دونوں بزرگوں کی جملہ اولاد حسنی اور حسینی کہلاتی ہے اس کے علاوہ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت سیّد الشہداء کی اولاد میں سے ہیں لہٰذا ان ہر دو بنا پر یہ کہ دینا بے محل نہ ہو گا کہ حضرت سیّد حسن قادری ؒ بلحاظ نسب حسنی اور حسینی ہونے کی مقدس خصوصیت سے ممتاز ہیں۔
ولادت با سعادت
-
حضرت سیّد حسن قادری ؒ ماہ جمادی آلاخر ۱۰۲۳ ہجری میں ٹھٹہ کے مقام پر کتمِ عدم سے منصۂ شہود میں آئے جو کراچی سے ۵۲ میل اور جنگ شاہی ریلوے اسٹیشن سے گیارہ میل سے فاصلہ پر واقع ہے ۔ اس شہر کو سند ھ کی ملکی اور سیاسی تاریخ میں کافی اہمیت حاصل ہے۔ آپ کی ولادت با سعادت کے متعلق سیّد غلام صاحب ؒ نے اپنے جد امجد حضرت سیّد شاہ محمد غوث ؒ کی زبانی یوں روایت کی ہے ’’ چون اُو شاں (سیّد عبداللہ صاحب ؒ ) بعزم سیاحت از بغداد شریف کہ وطن اصلی آباد و اجداد ایشاں بود۔ برآمدند اتفاقاً در ملک تہتہ (ٹھٹہ) رسیّد ند۔ در انجا بموجب قید الماءِ اشد من قید الحدید، چند روز توقف بوقوع آمد ، پس در خانۂ بعضی سادات صحیح النسب کہ متوطن آں ملک بودند متاہل شدند ، حق تعالٰی بایشان دو فرزند عطا ء فرمود ، یکے را بحضرت سیّد حسن و دوئم را بحضرت سیّد محمد فاضل نامیدند ‘‘ قارئین کرام کی سہولت کے لئے اِس اقتباس کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے۔
’’ جب آپ (یعنی آپ کے والد محترم سیّد عبداللہ صاحب) اپنے آبائی وطن بغداد شریف سے بغر ض سیر و سیاحت نکل پڑے ۔ تو اتفاق سے ’’ ٹھٹہ ‘‘ پہنچے اور وہاں پر بمصداق اس عربی مقولہ کے ’’ کہ آب و دانہ کی زنجیریں فولادی زنجیروں سے بھی مضبوط تر ہوتی ہیں۔ ‘‘ توقف وقوع میں آیا ۔ یہاں پر آپ نے مقامی صحیح النسب سادات کے ایک گھرانے میں شادی کی، خداوند بزرگ و برتر نے آپ کو دو فرزند عطا ء فرمائے۔ آپ نے ایک کا نام سیّد حسن اور دوسرے کا نام سیّد محمد فاضل رکھا۔ ‘‘
حضرت سیّد شاہ محمد غوث ؒ نے آپ کی ولادت کے متعلق ایک قلمی رسالہ میں یوں تحریر فرمایا ہے کہ
’’ جدّ ِفقیر سیّد عبد اللہ از بغداد بملک تہتہ تشریف آوردند و در آ نجا در خانۂ بعضے سادات منسوب شدند والدِ فقیر در آنجا متولد گشتند ‘‘
یعنی ’’ مجھ فقیر کے دادا سیّد عبداللہ ؒ بغداد سے ٹھٹہ تشریف لائے اور وہاں سادات کے ایک گھرانے میں رشتہ کیا۔ مجھ فقیر کے والد وہیں تولد ہوئے۔ ‘‘
کسی کو کیا معلوم تھا کہ اشاعت دین متین ، علم اور تصوف کی خدمت کا جو فریضہ خاندان قادریہ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے یہ نومولود اس کی ادائیگی میں اس عالی ہمتی ، ثابت قدمی اور فہم و فراست کا ثبوت دے گا کہ جس کی مثال ڈھونڈھے سے نہ ملے گی ، کوئی کیا جانتا تھا کہ آسمان ولایت کا یہ چمکتا ہو ا سورج ہند قدیم کے ظلمت کدۂ کفر و شرک کو اپنی نورانی کرنوں سے روزِ روشن میں بدل دے گا۔ اور اپنی قوت ِایمانی سے لاکھوں ترستی ہوئی روحوں کو نشۂ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ سے سرشار کرکے ایمان کی دولت سے مالامال کر دے گا!کوئی کیا تصور کر سکتا تھا کہ حضور سرور کائنات ﷺ کی سنت مطہرہ ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے نقشِ قدم، حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے مسلک اور اپنے آبا و اجداد کی جادۂ مستقیم پر چلتے ہوئے یہ روشن ضمیر، فقر اور علم کے پھریرے اڑاتا ہوا طول و عرض ہند میں اسلام کی سر بلندی کے لئے منزل بہ منزل آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ اور اس کی حیات کا ہر لمحہ صرف ذکر الٰہی اور اشاعت دین ِ نبوی ﷺ کے لئے وقف رہے گا۔
تعلیم و تر بیت
-
آپ کی تعلیم و تربیت اپنے والد محترم کے زیر سایہ ہوئی، چونکہ آپ کا گھر علم و فضل اور فقر و طریقت کا گہوارہ تھا ۔ اس لئے آپ نے چھوٹی عمر میں ہی جملہ علوم درسیہ کی تکمیل کر لی، اور ان سے فراغت حاصل کرنے کے بعد کمال استقامت و استقلال سے منازل سلوک و تصوف طے کرنے میں مصروف ہو گئے، آپ کے والد گرامی نے سلسلہ عالیہ قادریہ کو بلادِ سندھ میں خوب فروغ دیا تھا۔ ہزاروں لوگ آپ کے دستِ حق پرست پر بیعت کرکے یادِ الٰہی اور سنت ِنبویﷺ پر عامل ہو چکے تھے نیز سینکڑوں افراد سلوک و عرفان کی تکمیل کے بعد بے راہروں کو راہِ نیک دکھانے ، اخلاقِ حسنہ ، اتباع سنت نبویﷺ اور یادِ الٰہی کی تلقین میں مصروف ہو چکے تھے ۔ آپ کے والد اور ان کے خلفاء کا سب سے اہم اور مرکزی اصول تبلیغِ دین متین، اشاعتِ سنت نبویﷺ اور دعوت ذکر الٰہی تھا۔ آپ کے والد گرامی کی خشیت الٰہی کا یہ عالم تھا کہ جب بھی کوئی آپ کے سامنے خداوند بزرگ و برتر کا اسم مبارک لیتا تو آپ پر رِقت طاری ہو جاتی اور آنکھوں سے آنسوؤں کے سیلاب امڈ پڑتے ۔ جناب عنایت اللہ صاحب قادری اکبر آبادی جو کہ آپ کے والد کے خلفاء میں سے ایک تھے، موصوف نے اپنی زندگی ’’ امر بالمعروف ‘‘ اور ’’ نہی عن المنکر ‘‘ کے لئے وقف کر دی تھی۔آپ متواتر دورہ پر رہتے ، بیواؤں کے عقد کرواتے، وعظ و نصیحت فرماتے، اور حضور ﷺ کے نقش قدم پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیتے۔ انہوں نے ہزاروں لوگوں کو سنت نبویﷺ پر عامل کیا۔ ’’ صدقِ مقال ‘‘ اور ’’ اکل حلال ‘‘ کی دعوت آپ کے پند و نصائح کا عنوان ہوا کرتا تھا، اور یہی وہ دو مرکزی نکات ہیں جن پر سلسلۂ عالیہ قادریہ کا مدار ہے ۔ اگر آج بھی ہم ان دو اصولوں کی پیروی کریں تو ہماری دعاؤں میں اثر ، عبادت میں قبولیت، اور دل میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ڈر پیدا ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جس ماحول میں سیّد حسن صاحب نے پرورش پائی، تعلیم و تربیت حاصل کی، اور معرفت و حقیقت کے مقامات طے کئے، وہ علم و حکمت اور عرفان و حقیقت کی نورانیت سے جگمگا رہا تھا چونکہ آپ اوائل ہی سے فطرتاً حق بین و حق شناس واقع ہوئے تھے اس لئے آپ نے اپنی خاندانی عظمت و شرافت ، علمی فضلیت، اور فقر نبویﷺ سے کافی حصہ پایا، حضرت سیّد غلام بن سیّد محمد عابد اپنے رسالہ ’’ خوارق عادات ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں ’’ تربیت از پدر مشفق خود بیحد و بعیدد با فتند، و زیر سایۂ لطفِ ایشاں معرفت حاصل نمودند، و بدرجۂ انتہا رسیدند ‘‘ یعنی ’’ آپ نے اپنے مہربان باپ سے خوب وسیع و بے انتہا تربیت حاصل کی، اور ان کی زیر سایہ حصولِ معرفت کیا اور فقر کی انتہا تک جا پہنچے ‘‘
آپ کے فرزند رشید حضرت علامہ سیّد شاہ محمد غوث محدث جلیل شارح صحیح البخاری لکھتے ہیں ’’ چوں ایشاں را در صغر سن محبت الٰہی غالب بود، بخدمت والد خود و بعضے بزرگان دیگر مشغول گشتہ بریاضات و مجاہدات و کسبِ باطنی و انزواد خلوت ، اشتغال نمودند ‘‘ یعنی ’’ چونکہ بچپن ہی سے آپ کی طبیعت پر محبت الٰہی غالب تھی اس لئے آپ اپنے والد کی صحبت بعض دیگر بزرگانِ کرام کی صحبت ، ریاضات ،مجاہدات، باطنی جدوجہد اور مکمل خلوت میں مصروف رہتے تھے۔ ‘‘
مورخ کشمیر حضرت علامہ سیّد محمد شاہ صاحب مفتی سعادتؔ فرماتے ہیں۔ ’’ اپنے والد ماجد سیّد شاہ عبداللہ صاحب ؒ سے روحانی تعلیمات کا سرمایہ حاصل کیا۔ ‘‘
آپ کے سلسلۂ طریقت کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس سلسلہ کے ہر ایک فرد نے اپنے والد سے فیض اور خرقۂ خلافت حاصل کیا۔ اور تمام فیوضات باطنی سینہ بسینہ اکتساب کئے ہیں اس سلسلہ میں سب کے سب افراد صاحب ِ ولایت تھے اور استقامت فی الدین میں درجۂ کمال تک پہنچے ہوئے تھے۔ نیز اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی بڑے صاحب عز و جاہ تھے۔ غرضیکہ حضرت مولائے کل اسد الغالب علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے لیکر حضرت ابوالبرکات سیّد حسن صاحب قادری ؒ اور ان کے بعد تک سب کے سب افرادِ خاندان ، عالم، فاضل، متورع، مبلغ اسلام اور صاحبِ کرامت تھے اور آج تک ان کے مزارات ان کی پاکیزگی اور عظمت کے شاہد ہیں جہاں پر ہر وقت تلاوتِ قرآن مجید، درود شریف، اور یادِ الٰہی ہوتی رہتی ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضور ﷺ کی برکت سے جاری ہے۔
سلسلہ بیعت
-
جناب ابوالبرکات حضرت سیّد حسن ؒ نے خرقۂ خلافت اپنے والد گرامی جناب سیّد عبد اللہ صاحب ؒ سے حاصل کیا، انہوں نے اپنے والد سیّد محمود صاحب ؒ سے ، انہوں نے اپنے والد سیّد عبدالقادر صاحب ؒ سے ، انہوں نے اپنے والد سیّد عبدالباسط صاحب ؒ سے، انہوں نے اپنے والد سیّد حسین صاحب ؒ سے، انہوں نے اپنے والد سیّد احمد صاحب ؒ سے، انہوں نے اپنے والد سیّد شرف الدین قاسم سے، انہوں نے اپنے والد سیّد شرف الدین یحییٰ صاحب ؒ سے ، انہوں نے اپنے والد سیّد بدر الدین حسن ؒ سے، انہوں نے اپنے والد سیّد علاؤ الدین علی سے، انہوں نے اپنے والد سیّد شمس الدین محمد سے ،انہوں نے اپنے والد سیّد شرف الدین یحییٰ بزرگ سے، انہوں نے اپنے والد سیّد شہاب الدین محمد سے ،انہوں نے اپنے والد سیّد ابوصالح نصر سے ، انہوں نے اپنے والد سیّد عبدالرزاق سے ، انہوں نے اپنے والد قطبِ ربانی ، غوث صمدانی ، ہیکل یزدانی سیّد عبدالقادر الحسنی و الحسینی سے، انہوں نے اپنے مرشد شیخ ابو سعید مبارک مخزومی سے، انہوں نے اپنے مرشد شیخ ابوالحسن علی بن محمد یوسف القرشیی الھنکاری سے، انہوں نے اپنے مرشد ابوالنصر ابوالفرح طرطوسی سے، انہوں نے اپنے مرشد ابوالفضل عبدالواحد سے، انہوں نے اپنے مرشد شیخ عبد العزیز یمنی سے، انہوں نے اپنے مرشد شیخ ابوبکر شبلی سے، انہوں نے اپنے مرشد شیخ جنید بغدادی سے، انہوں نے اپنے مرشد شیخ سری سقطی سے، انہوں نے اپنے مرشد معروف کرخی سے، انہوں نے اپنے مرشد شیخ داؤد طائی سے، انہوں نے اپنے مرشد شیخ حبیب عجمی سے، انہوں نے اپنے مرشد شیخ حسن بصری ؒ سے، انہوں نے اپنے مرشد شیخ الاولیاء و سیّد ہم ابن عم رسول اللہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے اور انہوں نے اپنے مرشد ِ ارشد سیّد المرسلین و خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ سے ۔مند رجۂ بالا سلسلہ بیعت میں سب بزرگان کرام حضور غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ تک اپنے والد کے مرید تھے۔ اور پھر سرور کائنات ﷺ تک مشائخانہ سلسلہ تھا، اب وہ سلسلہ بھی نیچے لکھا جاتا ہے جو کہ حضور غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ سے حضور سیّد الکونین ﷺ تک اپنے والد کے مرید تھے اور وہ یہ ہے۔
حضور غوثِ اعظم سیّد عبد القادر جیلانی نے اپنے والد سیّد عبد اللہ جونی سے خرقۂ خلافت حاصل کیا، انہوں نے اپنے والد سیّد یحییٰ زاہد سے، انہوں نے اپنے والد سیّد شمس الدین احمد زکریا سے، انہوں نے اپنے والد سیّد ابوبکر سے، انہوں نے اپنے والد سیّد موسیٰ ثانی سے، انہوں نے اپنے والد سیّد عبداللہ صالح سے، انہوں نے اپنے والد سید موسیٰ الجون سے، انہوں نے اپنے والد سید عبد اللہ المحض سے، انہوں نے اپنے والد سید حسن مثنیٰ سے، انہوں نے اپنے والد امام حسن سے ، انہوں نے اپنے والد امام الاولیاء حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے اور انہوں نے رسالت پناہ خاتم الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے بیعت کر کے خرقۂ خلافت حاصل کیا۔
مجاہدہ
-
والد محترم کے انتقال کے بعد ذکر و فکر ،ریاضات نفس اور مکمل خلوت میں مصروف تھے کہ یکایک آپ کی طبیعت میں وحشت و نفرت پیدا ہو گئی جناب سیّد غلام صاحب ؒ تحریر فرماتے ہیں کہ جناب حضرت شاہ محمد غوث صاحب ؒ نے فرمایا کہ والد محترم سیّد حسن ؒ صاحب فرمایا کرتے تھے ۔ ’’ دلم از انس انساں وحشت کلی گرفت و از خویش و بیگانہ نفرت محض پذیرفت ‘‘ ۔ اس کے بعد کیا ہوا ، انہی کی زبانی سنیۓ۔ ’’ پس بعزم ریاضات و مجاہدات در جزائر شور رفتم و ہفت سالہ چلہ کشیدم تا ستر عورت تمام شب درمیان آب می استادم ،و روزانہ بر کنارِ آب می نشتم و قوتم از برگ درختان بود کہ خود بخود می ریختند۔ ‘‘ یعنی آپ ریاضات اور مجاہدات کے لئے جزائر شور میں تشریف لے گئے، اور سات سال کا چلہ کاٹا، رات ستر عورت تک اس پانی میں گذارتے اور تمام دن پانی کے کنارے پر بیٹھے رہتے، آپ کی غذا درختوں کے پتے تھے جو خود بخود گرتے تھے، جناب حضرت سیّد شاہ محمد غوث صاحب گیلانی ؒ تحریر فرماتے ہیں۔’’ در اکثر بلاد در خدمت بزرگان در خلوت و اربعین نشستند و فوائد حاصل نمودند ‘‘ یعنی اکثر شہروں میں بزرگانِ کرام کی خدمت میں رہ کر چلے کاٹے، اور فوائد حاصل کئے۔
جناب سیّد غلام صاحب گیلانی ؒ اپنے رسالہ میں تحریر فرماتے ہیں۔ ’’ سیّد حسن صاحب جب سند ھ سے نکلے تو ہندوستان میں ایک گاؤں پہنچے ، وہاں پر ایک کنواں تھا، آپ نے اس میں چھ ماہ تک عبادت کی، تمام دن روزہ ہوتا اور شام کو صر ف ایک گھونٹ پانی اور ایک سپاری کے ساتھ افطار فرماتے۔ ‘‘
سفر
-
محدث جلیل حضرت سیّد شاہ محمد غوث صاحب گیلانی ؒ تحریر فرماتے ہیں۔ ’’ بعد حصول کسب کمالات و رحلتِ والدِ خود قصد سیاحت نمودہ بطرف بلادِ ہند و عربستان سیر نمودند ‘‘ ۔ یعنی کمالات ظاہری و باطنی کے حصول کے بعد اور والد محترم کے انتقال کے بعد آپ نے ہندوستان اور ممالک عرب کی سیر و سیاحت کی ارادہ کیا۔ آپ نے ایسے زمانے میں سفر اختیار کیا جب کہ مسافر کو آج کل کی سہولتیں اور آرام میسر نہ تھا، تقریباً سارا سفر پیدل ہوا کرتا تھا اور اثنائے سفر میں طرح طرح کی تکالیف کا سامنا کر نا پڑتا تھا۔ اور پھر یہ کہ یہ سفر کسی دنیاوی طمع و لالچ کے لئے نہ تھا بلکہ تلاش ِحق ، تبلیغ اسلام ،اشاعت سنت نبویﷺ اور یاد الٰہی کے لئے تھا۔ بزرگان کرام کے سفر انہی پاکیزہ مقاصد کے لئے ہوا کرتے ہیں، دوران سفر میں مستفید ہو کر لوگوں کو مستفیض کرتے ہیں، یعنی اپنی اصلاح بھی کرتے ہیں اور گمراہوں کو راہِ راست پر لانے کی سعی بھی کرتے ہیں ۔ آپ کے سلسلہ عالیہ میں یہ بات بہت ہی نمایاں نظر آتی ہے۔
جب آپ سفر کے لئے نکلے تو آپ کے چھوٹے بھائی سیّد شاہ محمد فاضل صاحب گیلانی ؒ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ اثنائے راہ میں آپ نے ان کو تصوف و حقیقت کی تعلیم سے اتنا آراستہ فرمایا کہ بقول آپ کے ’’ وہ آپ جیسے ہو گئے ‘‘ ۔ ’’ تا مثل ِ خود ساختم ‘‘ دورانِ سفر میں آپ ایک گاؤں پہنچے اس گاؤں کی کیا حالت تھی ، اور اس گاؤں کے رہنے والوں کا کیا عالم تھا ، آپ کی زبانی سنیۓ۔ ’’ کہ بغیر از کفر و بت پرستی بویٔ از دین و آئین در آں سرزمین نہ بود ‘‘ ۔ یعنی سوائے کفر اور بت پرستی کے اس سر زمین کا دین و آئین نہ تھا ، واقعی سچ بات ہے ، تاریکی میں روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ خشک اور بنجر زمین کو پانی کی اشد ترین ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا وجود اللہ جل جلالہٗ کی یاد کی بدولت نور اور رحمت ہوتا ہے جہاں بھی ایسے بابرکت افراد پہنچتے ہیں وہاں سے کفر اور معصیت کا دور ختم ہو جاتا ہے اور ان کی وجہ سے رحمت الٰہی اس وطن کے رہنے والوں کو توحید و معرفت سے سرشار کر دیتی ہے جب آپ نے ایک ایسا وطن دیکھا جہاں پر اللہ جل جلالہ کا نام لینے والا کوئی نہ تھا، اس کے حبیب ﷺ کے اخلاق حمیدہ اور اوصاف شریفہ سے کوئی واقف نہ تھا، عدل و انصاف کا نا م و نشان تک نہیں تھا، آپ اِس میں اتر گئے اور اپنے بھائی سیّد محمد فاضل گیلانی ؒ کو ہدایت کر دی کہ ’’ بیاد حق مشغول باش و اوقاتِ خمسہ اطلاع ام دادہ باش ‘‘ ۔ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کی یاد میں مصروف رہیے اور پانچ نمازوں کے اوقات کی مجھے خبر کر دیا کیجئے۔ اِسی طرح چھ مہینہ کا عرصہ گزر گیا۔ تمام دن روزہ رہتا اور شام کو سپاری کے ایک ٹکڑے سے افطاری فرما لیا کرتے، اس کے بعد آپ نے ہر نماز کے بعد تبلیغ شروع کی۔ آپ کی صحبت بابرکت کے فیوض سے لوگ مسلمان ہونے لگے، آپ کی تبلیغی مساعی کی خبر ، اخلاقِ حمیدہ اور اوصافِ شریفہ کی شہرت حکمرانوں تک پہنچی ، راجہ عمال حکومت اور اپنے راہبوں کے ہمراہ آیا۔ اس نے کہا یہ عجیب بات ہے کہ دو مسلمان آئے ہیں اور چھ ماہ میں اس ملک کی تسخیر کا ارادہ رکھتے ہیں، تمام قوم کے دین کو تبدیل کرنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ اس نے حضرت شاہ محمد فاضل گیلانی ؒ کو کہا کہ ’’ اے درویش پیر خود را خبر کن کہ بیرون آمدہ با ما جنگ بکند ‘‘ ۔ سیّد محمد فاضل ؒفرماتے ہیں کہ میں نے آواز دی اور عرض کی کہ یہ واقعہ درپیش ہے۔ جب آپ باہر تشریف لائے تو اس گروہ نے آپ کو دیکھا اور بحث مباحثہ شروع کر دیا ، ایک راہب نے کہا کہ اے فقیر لڑائی کے بغیر تمہارا چھٹکارا مشکل ہے اگر کچھ طاقت یا کمال رکھتے ہو تو سامنے آؤ، آپ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ ’’ شرط آئین اسلام عدم مبارزت است در جنگ و جدال ‘‘ یعنی جنگ و جدال کے معاملہ میں آئین ِاسلام کی شرط یہ ہے کہ پہل نہ کی جائے تم اپنی طاقت استعمال کر و، جائے غور ہے کہ ایک طرف تو ہر قسم کی طاغوتی طاقتیں ہیں، حکومت ہے اقتدار ہے اور حکمران خود موجود ہے مگر دوسری طرف پھٹے پرانے کپڑوں سے ملبوس اور دنیاوی ساز و سامان سے عاری دو نہتے مسافر بھائی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے کلمے کو بلند کرنے کے لئے کثرت تعداد و سامان کو پرکاہ کے برابر وقعت نہ دیتے ہوئے موت سے نبرد آزما ہیں ، مگر ہاں ان کی پشت پناہ ایک طاقت ہے جو سب طاقتوں پر غالب ہے اور وہ طاقت اللہ تعالیٰ جل جلالہ کی طاقت ہے اس راہب نے ایک لکڑی سے کمان اور دوسری سے تیر تیار کیا، کمان کے چلے سے وہ تیر کھنچ کر آپ پر حملہ کیا ۔ فرماتے ہیں کہ ’’ دید م ہمراہ آں چوب شعلہ آتش می آید ‘‘ ۔ آپ فرماتے ہیں میں نے اپنا ہاتھ منہ پر رکھ لیا، وہ تیر آ کر میر ے ہاتھ کی پشت پر لگا ۔ جس کی وجہ سے میر ے ہاتھ کی پشت تھوڑی سی جل گئی، اس راہب نے نہایت ہی تعجب سے کہا ’’ ایں عجب عزیز است کہ ازیں آتش من زندہ است بخدایٔ خود کہ اگر بکوہی میزدم دود از نہادش می کشیدم ‘‘ ۔ عجب دوست ہے میر ی اس آگ سے زندہ بچ گیا ہے ۔ مجھے اپنے رب کی قسم ہے اگر میں اس آگ کو پہاڑ پر پھینکتا تو اس کے بیچ سے دھواں نکال دیتا،آپ نے اس کو کہا کہ اے کافر! اگر تمہارے پاس اس سے بھی زیادہ کوئی شیطانی طاقت ہے تو لے آ۔ اس نے جواب میں کہا کہ اب تیری باری ہے ۔ فرماتے ہیں ’’ آنگاہ دست در جیب کردم دیدم کہ سپاریٔ نیم خوردہ از افطار ماندہ است کشیدم و نام قادر ذوالجلال گرفتہ بطرف ساحر زدم ‘‘ ۔ یعنی اس وقت میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا ، دیکھا کہ ایک آدھی کھائی ہوئی سپاری افطار سے باقی بچی ہے، میں نے اس کو نکالا، اور قادر ذوالجلال کا نام لے کر راہب کی طرف پھینکا۔ وہ سپاری اس اسم کی برکت سے اس راہب کے سر کے ایک طرف لگی اور دوسری طرف نکل گئی،وہ فی الفور زمین پر گر ا اور اس نے جان دے دی ، اس کے ہمراہیوں نے جب یہ بات دیکھی تو بہت سے بھاگ گئے اور بہتوں نے میر ے پاؤں پڑ کر اسلام قبول کر لیا۔ اللہ تعالیٰ کی مدد سے یہ ایک ایسا کام ہوا جس کے باعث ہزاروں لوگ مسلمان ہوئے، اور دین اسلام کی اتنی ترقی ہوئی کہ اس سارے علاقہ میں مساجد تعمیر ہوئیں، اور ہر طرف ذاکر ، عالم اور تہجد خوان نظر آنے لگے، پس ظاہر ہے کہ جو اپنا رشتہ ماسوا اللہ سے کاٹ کر ایک اور صرف ایک اللہ جل جلالہٗ سے جوڑ لیتے ہیں، خوف و حزن سے کلیتاً مخلصی حاصل کر لیتے ہیں، ارشاد الٰہی ہے أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُونَ چونکہ آپ بھی اسی جماعت سے تعلق رکھتے تھے ، آپ کا قلب مبارک صرف ’’ ایک اللہ ‘‘ کی خشیت سے لبریز تھا اور اسی ’’ ایک ہی ‘‘ کی عظمت و کبریائی کے استحضار و شعور میں محو تھا ، یہی وجہ تھی کہ طاقتوں ، ساز و سامان، بادشاہت ، شیطانی سحر، اور استدراج سے آپ کی نگاہ حق بیں خم تک نہ ہوئی اور ایسے ہوتا ہی کیوں جبکہ آپ کا یقین کامل تھا اور حَسْبُنَا اللَّهُ وَ نِعْمَ الْوَكِيلُ نِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَ نِعْمَ النَّصِيرُ کی غیر متزلزل چٹان پر آپ اپنے آپ کو کھڑا پاتے، آپ کا مضبوط ایمان اس بات پر شاہد تھا کہ خواہ قتل کر دیا جاؤں یا موت کے گھاٹ اتار دیا جاؤں۔ ہر حالت میں کامیاب و کامگار ہوں ، سرخرو ہوں، اسی کے حضور مقدس میں پیش ہوں گا ، جس کے ’’ وحدہ لا شریک ‘‘ ہونے کا اقرار کر رہا ہوں ۔وَ لَئِن مُّتُّمْ أَوْ قُتِلْتُمْ لَإِلَى اللَّهِ تُحْشَرُونَ (اگر تم مرے بھی یا قتل ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاؤ گے ) پھر آپ کسی طرح اپنی منزل ِ مقصود کو جو کہ روشنی کے منیار کی طرح آپ کے سامنے جگمگا رہی تھی چھوڑ سکتے تھے، آپ کے اس ’’ یقین محکم ‘‘ اور ’’ عملِ پیہم ‘‘ کو دیکھ کر تمام کفار حیران و ششدر رہ گئے فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ اور آپ کا مقدس و اعلیٰ کام ہر طرح سے آپ کی مسلسل جدوجہد سے کامیاب ہوا اور کفر خائب و خاسر ہوا۔ کافی عرصہ آپ نے اس علاقہ میں گزارا وہاں پر باقاعدہ طور پر پانچ خلفاء مقر ر کئے اور ان کو وصیت کی کہ یاد الٰہی ، اتباع سنت نبویﷺ، تبلیغ اسلام اور امر با المعروف و نہی عن المنکر پر عمل پیرا رہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ و ناصر ہو گا۔ یہ نصیحت کر کے آپ وہاں سے شاہ جہان آباد تشریف لائے۔اس وقت شہنشاہ جہانگیر کی حکومت تھی ، وہاں پر بھی ذکر ِالٰہی ، امر با المعروف اور نہی عن المنکر کا سلسلہ شروع کر دیا، آپ کی پر خلوص اور بے لوث خدمت اسلام کی وجہ سے خوب شہرت ہوئی۔ آپ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ رجوع عالمے از زنان و مردان شد کہ اوقاتم خلل پذیر گشت ‘‘ یعنی مرد اور عورتوں کا اتنا اژدھام ہوا کہ عبادت کے اوقات میں نقص پیدا ہونے لگا بلکہ ’’ مردم رویٔ مرا دیدہ سر سجدہ می نہادند ‘‘ یعنی اکثر لوگ میرا چہرہ دیکھتے ہی سجدہ میں سر رکھ دیتے، آپ کو یہ غیر شرعی بات بڑی نا گوار گزری اور لوگوں کو اس فعل شنیع سے شدت کے ساتھ منع فرمایا اور آدمی مقرر کئے جو اس طرح غیر شرعی حرکتوں کے مرتکبوں کو فوراً منع کرتے مگر آپ نے وہاں رہنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ چونکہ جناب غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی روحانی امداد و تائید سے آپ تمام کام سر انجام دیتے اس لئے آپ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی جناب میں عرض کیا کہ اب کیا کروں۔ آنجناب کی طرف سے حکم ہوا، آپ پشاور کی طرف جائیں اور وہاں مستقل سکونت اختیار کریں۔ ’’ تاکہ ایں طریقہ ما از شما رونق بگیرد ‘‘ ۔آپ حضور سرکار غوثیت مآب کے اس ارشاد گرامی کے مطابق پشاور روانہ ہوئے۔
آپ نے بہت سے اولیاء کرام کو اثنائے سفر میں دیکھا۔چنانچہ لاہور میں حضرت میاں میر صاحب ؒ سے ملے اور کافی دیر ان کے ہاں ٹھہرے، لاہور میں اشاعت و تبلیغ میں خوب سرگرمی دکھائی بڑے بڑے علماء اور فضلاء آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے۔ کافی مدت آپ لاہور میں رہے نہایت دلجمعی کے ساتھ تبلیغ کی۔ یہاں سے چل کر آپ گجرات پہنچے، گجرات میں جناب شاہ دولا صاحب ؒ سے ملاقات کی۔ جناب موصوف نہایت محبت و التفات سے آپ کو ملے، آپ کو چند دن اپنے ہاں مہمان رکھا، آپ نے چند دنوں کے بعد اجازت لینے کی کوشش کی مگر انہوں نے انکار کیا، یہاں تک کہ ان کو آپ نے کہا کہ میں پشاور کا عزم رکھتا ہوں وہاں سے آپ کی ملاقات کے لئے پھر آؤں گا، جناب شاہ دولا صاحب نے فرمایا ’’ اے سیّد ، صحبت بس غنیمت است کہ باز میسر نیست، شما را ایں جہاں بخشیدند و ما را بآں طلبیدند ‘‘ یعنی اے سیّد یہ صحبت غنیمت ہے کیونکہ پھر میسر نہیں، آپ کو اِس جہاں کی ولایت بخشی گئی اور مجھے اُس جہاں میں طلب کیا گیا ہے۔ آپ وہاں سے رخصت ہو کر پھوٹوار پہنچے اور جناب شاہ لطیف مجذوب سے ملے ۔ ان کے متعلق آپ نے فرمایا ’’ خیلے صاحب اثر بودند ‘‘ بامن بسلوکِ تمام ملاقات کردند ‘‘ ۔ اِن سے رخصت ہو کر پشاور کی طرف رخ کیا اور ۱۰۸۷ ہجری میں پشاور پہنچے، پشاور شہر سے ایک میل کے فاصلہ پر ایک قصبہ جو سلطان پور کے نام سے موسوم تھا قیام فرمایا حضور سرکارِ غوثیت مآب رضی اللہ عنہ کی طرف سے آپ کو بامر باطنی اسی مقام پر قیام اور سکونت کا حکم ہوا آپ فرماتے ہیں کہ مجھے حکم ہوا ’’ اے بیٹا ، یہ تیرے رہنے کی جگہ ہے ، یہاں اقامت اختیار کرو ‘‘ ، ’’ و ما را در ہر حال با خود مقصور داری ‘‘ ۔آپ کو جناب غوث ِ الاعظم ؒ نے اپنے عصاء سے بتایا کہ اس جگہ مسجد ، اس جگہ مکان، اور یہاں تمہاری قبر ہو گی اور اللہ جل جلالہ ، کو اپنے ہر کام میں کار روا اور مشکل کشا جان کیونکہ وہی اس قابل ہے ، اور جو کچھ میں بتا یا ہے خود بخود مہیا ہو جائے گا۔ آپ صبح کو اٹھے اذان دی نماز پڑھی۔ فرماتے ہیں ’’ ہنوز اشراق نخواندہ بودم کہ مردم شہر و اطراف و جوانب فوج در فوج می آیند، برسوخ و اعتقاد ملاقاتم می کنند کہ گویا آشنایٔ صد سالہ من بودند ‘‘ پٹھا نوں کے بڑے بڑے سردار اور ارباب بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت ہوئے ۔ جس باغ میں آپ نے قیام کیا تھا اس کے مالک نے آپ کو نذر کر دیا ، وہی لوگ تعمیر مکان اور تعمیر مسجد میں مصروف ہو گئے سلسلۂ ارشاد شروع ہو گیا لنگر جاری ہو گیا، جو بھی آتا اپنی قسمت اور قابلیت کے مطابق معرفت الٰہی حاصل کرتا اور نجات اخروی پا جاتا، فرماتے ہیں ’’ ہر کہ بطلب مولای آمد موافق استعداد تعلیمش مے کردم ‘‘ یعنی جو بھی اللہ جل جلالہٗ کی راہ کو چاہتا اس کی استعداد کے مطابق تعلیم دیتا۔
شادی
-
جناب سیّد غلام صاحب ؒ تحریر فرماتے ہیں ’’ پشاور کے پٹھان ارباب صاحبان کے خاندان سے ایک ارباب صاحب نے آپ کو اس امر پر بہت مجبور کیا کہ آپ اس کی لڑکی اپنے عقد میں لے لیں، آپ نے اس کی خواہش کو قبول کر لیا، اللہ جل جلالہٗ نے اسی بیوی صاحبہ کے بطن سے آپ کو ایک فرزند عطا ء فرمایا جس کو نام سیّد زین العابدین رکھا گیا۔
کچھ عرصہ کے بعد آپ کو بامرِ باطنی غوث اعظم ؒ کنڑ کے صحیح النسب سادات گھرانے کے ہاں شادی طلب کی ، ان دنوں حضرت سیّد علی ترمذی المعروف بہ پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے دو پوتے حضرت سیّد عباس و سیّد عیسیٰ صاحبانِ سجادہ تھے ، ان کی ہمشیرہ صاحبہ بھی تھی جو عابدہ ، صالحہ اور تمام اوصاف حسنہ سے متصف تھیں، آپ نے جیسے کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے، حضور غوثِ اعظم ؒ کے حسب الارشاد چند اشخاص کی وساطت سے ممدوحہ سے شادی کا پیغام بھیجا ، جب سیّد عیسیٰ اور سیّد عباس کی خدمت میں یہ بات عرض کی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ چونکہ آپ مسافر ہیں اس لئے ہم آپ کے حسب و نسب سے واقف نہیں لہٰذا اس پر غور مشکل ہے۔ انہوں نے رات کو خواب میں دیکھا کہ ان کے دادا پیر بابا ؒ ان کو فرما رہے ہیں۔ ’’ ایں خواستگاری را قبول کنید و مبارک دانید، کہ ایں شخص از فرزندانِ خاص حضرت سیّد عبدالقادر الحسنی و الحسینی و الجیلانی است، از شما یک نسب ما فوق است ، دور حسب چنان است کہ در زمان خود نظیرے نہ دارد ‘‘ ۔ یعنی اس خواستگاری کو قبول کر لیجئے، اور مبارک سمجھئے کہ یہ حضور غوثِ اعظم ؒ کے فرزند خاص ہیں ، اور آپ سے ایک درجہ بالاتر ہیں۔ اور اس زمانہ میں یہ لحاظ نسب اپنی نظیر نہیں رکھتے۔ اس خواب کے بعد انہوں نے بلا تاخیر آپ کو بلا کر اپنی ہمشیرہ صاحبہ کی شادی آپ سے کر دی، اِس نیک اور پاکیزہ سیّدہ کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو فرزند عطا ء فرمائے، ایک کا نامِ نامی( حضرت )شاہ محمد غوث اور دوسر ے کا نام (حضرت )سیّد علی رکھا گیا، صاحب خزینۃ الاصفیا صفحہ ۱۷۵ پر لکھتے ہیں۔ ’’ زوجہ وے نیز سیّدہ بود از اولاد سیّد علی ہمدانی کہ در طاعت، بندگی و عبادت رابعہ عصر بودند ‘‘ یعنی آپ کی بیوی نیز سیدہ تھی جو کہ سیّد علی ہمدانی کی اولاد ہے، اطاعت ، بندگی اور عبادت میں ’’ رابعۂ عصر ‘‘ تھیں، محدث جلیل حضرت سیّد شاہ محمد غوث صاحب ؒ اپنی قلمی رسالہ کے صفحہ ۵۱ پر تحریر فرماتے ہیں۔
’’ حسب الارشاد عالی تفحص فرمودند کہ اگر کدام خاندان سادات صحیح النسب و بزرگان باشد نسب نمایند، چوں حضرت سیّد عباس کہ ماموں فقیر بودند سیّد صحیح النسب از اولاد سیّد علی ترمذی و حضرت سیّد علی ہمدانی بودند، نہایت ورع، تقویٰ و کمالاتِ ظاہری و باطنی داشتند ، والدہ احقر ہمشیرہ اُو شاں بودند نسبت شد ‘‘
یعنی حضور غوثِ اعظم کے ارشاد عالی کے مطابق آپ نے کوشش کی کہ اگر صحیح النسب سادات کا کوئی خاندان ہو تو وہاں شادی کی جاوے، حضرت سیّد عباس جو کہ سیّد علی ترمذی (پیر بابا ؒ ) اور سیّد علی ہمدانی کی اولاد سے صحیح النسب سیّد تھے نیز ورع، تقویٰ اور کمالات ظاہری و باطنی میں بھی کامل تھے ان کی ہمشیرہ سے آپ کی نسبت ہوئی جو کہ اس فقیر کی والدہ ہے۔
سفرِ کشمیر
-
عادت اصفیاء و اتقیا یوں جاری رہی ہے کہ اعلائے کلمۃ الحق ، تبلیغِ دین متین اور تلاش مقربین کے لئے دور و دراز ممالک کا سفر اختیار کرتے ہیں ،لفجوائے مضمون آیئہ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ ایسا سفر مبنی بر مصالح ہو تا ہے، اوراقِ ماقبل جناب ابوالبرکات سیّد حسن صاحب ؒ کی اسی قسم کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہیں۔
آپ ایک عرصہ پشاور میں قیام فرما کر عازمِ کشمیر ہوئے تاکہ اس علاقہ کے صوفیاء کرام مشائخ عظام اور علماء ذی الاحترام سے ملاقات کریں۔ اور ساتھ ساتھ اشاعت اسلام کے اہم فریضے کی ادائیگی سے سبکدوشی حاصل کریں، چنانچہ آپ ۱۰۹۰ ہجری میں پشاور سے روانہ ہوکر دھمتوڑ پہنچے، اس جگہ ایک شخص مسمّی مظفر خان خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی حضور چند روز کے لئے اس کلبۂ احزان کو اپنے ورود سے بقعۂ نور بنائیں۔ آپ نے اس کے اخلاص کو دیکھ کر اس کے سوال کو رد نہ کیا۔ اور چند روز تک ان کی ضیافت کو شرفِ قبولیت بخشا۔
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدارا
جب حسب سنت نبویﷺ آپ نے اپنے میز بان سے اجازت روانگی چاہی تو اس کے دست بستہ عرض کی ’’ بسیار پریشانم واز دستِ سلاطین پکھلی و دھمتوڑ مغلوبم ‘‘ ۔ آپ کو اِس کی حالت زار پر رحم آیا۔ یا یوں کہیۓ گا کہ اس کی قسمت کا ستارہ چمکنے لگا۔ حضور نے اپنی تلوار اس کو عنایت کرکے فرمایا ’’ ترا سلطنت آں ملک دادیم، و حاکمان را محکوم تو کردیم، دل خوش دار و مارا باخود پندار انشاء اللہ تعالیٰ بہر طرف کہ روآری مظفر و منصور باشی ‘‘ جناب سیّد غلام ؒ فرماتے ہیں کہ ’’ حضور کے قول کے مطابق اس شخص نے اتنی کامیابی حاصل کی کہ تمام پہاڑی علاقہ اس کے قبضہ میں آ گیا۔ گویا تقدیر نے پلٹا کھایا اور بگڑی ہوئی قسمت سنور گئی۔ مفلوک الحالی دور ہوئی اور خوش حالی نصیب ہوئی۔ دریا کو عبور کرکے اپنے نام پر ایک شہر مظفر آباد بسایا۔؎
اولیاء را ہست قدرت از اِلٰہ
تیر گشتہ باز گرد اند ز راہ
اس شخص کا بیا ن ہے کہ جس وقت میں کسی دشمن کے ساتھ دوچار ہوتا تو جناب سیّد حسن صاحب ؒ کو اپنے سامنے اسی طرح پاتا جیسا ’’ پیش روئے من ایستادہ باشند ‘‘ ۔
جناب مورخِ کشمیر مفتی محمد شاہ صاحب سعادتؔ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ آپ نے ۱۰۹۱ ہجری میں کشمیر پہنچ کر تشنگان ہدایت کو علومِ باطنی سے سیراب کیا۔خواجہ عبدالرحیم قادری، میرا فضل اندرابی،شاہ عنایت قادری وغیرہم حاضر خدمت ہو کر آپ کے توجہات اور فیوضِ رحمت سے بہرہ اندوز ہوئے ‘‘ ۔ جناب محمد افضل صاحب نے مرید ہو کر خرقۂ خلافت بھی حاصل کیا۔ علامہ محمد دین صاحب فوقؔ اپنی کتاب تواریخِ اقوام کشمیر صفحہ ۱۵۸،۱۵۹ پر بحوالہ تاریخ اعظمی( صفحہ ۲۰۵) رقم طراز ہیں۔ ’’ در ہزار و نو دوچند بہ کشمیر رسیدند ، قریب صد کس از اہل و عیال و خادمان و مسافران در سایہ عاطفش می گزرانیدند ‘‘ سیّد محمد فاضل صاحب ؒ بھی آپ کی معیت میں تھے، جناب سیّد محمد شاہ صاحب مورخ کشمیر کے ہاں ایک قلمی کتاب بنام ’’ غوثیہ شریف ‘‘ مصنفہ مولیٰنا خواجہ بہائو الدین صاحب نظر سے گزری جس میں کشمیر کے سلسلہ ہائے قادریہ کا تذکرۂ منظوم کیا ہے۔یہ کتا ب تواریخ کشمیر میں بہت اہم اور مستند ہے، اِس کتاب کے صفحہ ۳۱۴ پر سیّد حسن ؒ اور سیّد محمد فاضل صاحب رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا ذکر نہایت ہی شاندار الفاظ کے ساتھ کیا ہے انہوں نے ممدوح کی پشاور سے تشریف آوری کا نقشہ مندرجہ ذیل اشعار میں کھینچا ہے
سیدے کہ بصد جلیلے بود
او ز احفا و شاہ جیلے بود
یعنی اندر نسب بحقانی
می رسد تا بہ شاہ جیلانی ؒ
نور مخفی سر بدن کردند
نام او ’’ شاہ ابوالحسن ‘‘ کردند
آں ہندوستان کشید علم
زد بہ کشمیر بارگاہ حشم
خادمان ہمرش ز حد بودند
کہ قرون از چہار صد بودند
بقول سیّد غلام صاحب ؒ ’’ در محلہ عید گاہ در خانۂ منصب داری نزول فرمودند ‘‘ آپ نے تقریباً چھ ماہ سر ی نگر میں قیام فرمایا، اس عرصہ میں اپنی سخاوت اور بخشش کا طریقہ بد ستور جاری رکھا۔ چنانچہ سیّد غلام صاحب فرماتے ہیں۔ ’’ بطریقِ معہود لنگرے می بخشیدند و بدرویشان شب و روز می دادند ‘‘ یعنی آپ کے لنگر مبارک سے ہر دو وقت درویشوں کو کھانا ملتا تھا، آپ جہاں کہیں تشریف لے گئے اور جس جگہ قیام کیا، اپنے لنگر مبارک سے سینکڑوں غربا، مسافروں ، عاجزوں اور بے وسیلہ لوگوں کی خدمت فرماتے، اس لحاظ سے اس جگہ اور اس وطن کے مسکینوں کے لئے آپ وجود رحمت الٰہی اور نعمت غیر مترقبہ ہے۔ خواجہ بہائو الدین صاحب فرماتے ہیں ،آپ کے لنگر سے تقریباً چھ سو نفر روزانہ پیٹ بھر کر کھانا کھاتے اور جو مفلوک الحال ہوتے ان کو کپڑا بھی عنایت کرتے۔
آپ کا اپنا ارشاد ہے۔ ’’ کہ حق تعالیٰ چناں نواز شم فرمودہ است و چناں دولتم عطا ء نمودہ است کہ اگر اہل مشرق و مغرب جمع شوند دہر روز از من نفقہ خواہند ہمہ را بدھم و ہر گز عجز و ملامتم نیابم‘‘ ترجمہ ’’ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اتنی نوازش کی ہے اور اس قدر دولت مرحمت فرمائی ہے کہ اگر تمام دنیا کے لوگ جمع ہو کر مجھ سے نفقہ طلب کریں، تو سب کو دوں اور کسی قسم کی کمی نہ ہوـ ‘‘ ۔
آپ کے اس جو د و سخا کو دیکھ کر تواریخ اعظمی کے مصنف فرماتے ہیں ’’ باوجود ازیں قلیل البضاعت احیتاج استکشاف نہ نود ‘‘۔ د ر حقیقت خاصان بارگاہِ ایزدی کا بھروسہ اور اعتماد اللہ تعالیٰ کی ذات با برکات پر ہو تا ہے اور نہایت یہ صادق جذبہ کے تحت ہوتا ہے، اس لئے اللہ حق سجانہٗ بھی ان پر نظر کرم نہیں ہٹاتا۔
وَمَن يَتَّقِ ٱللَّهَ يَجْعَل لَّهُۥ مَخْرَجًۭا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُۥٓ
اور جو اللہ سے ڈرے، اللہ اس کے لئے نجات کی راہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان نہ ہو۔ اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے۔(سورۃ الطلاق :۲)
وعدہ الٰہی سچا ہے ۔ اولیاء اللہ رضائے الٰہی کے لئے زندگی وقف کر دیتے ہیں ۔ اس لئے ہر وقت اللہ تعالیٰ ان کی کارسازی فرماتا ہے۔
سفر کشمیر کے زمانہ میں آپ نے طریقہ شطاریہ میں بابا عثمان قادری شطاری سے فیض حاصل کیا۔ صاحب تواریخ اعظمیٰ و تواریخ کبیر کشمیر تحریر فرماتے ہیں۔ ’’ چوں حضرت شاہ ابوالحسن برادر کلاں شاہ محمد فاضل خا نیاری دریں شہر( سرنیگر ) نزول فرمودند خدمت بابا عثمان قادری رجوع نہ صحبتش نمودند بلکہ رابطۂ معنوی ہم نمودند ‘‘ ۔ صاحب خزنیۃ الاصفیا اپنی کتاب کے صفحہ ۹۹۳ پر لکھتے ہیں ’’ چوں خواجہ ابوالحسن برادر کلاں شاہ محمد فاضل لاہوری شطاری در عہد دے بکشمیر رونق افروز شد دے بخدمت آنجناب ہم حاضر شدہ استفادۂ فیض شطاریہ نمود ‘‘ ۔ یعنی جب شاہ ابوالحسن صاحب کشمیر رونق افروز ہوئے تو آپ بابا عثمان قادری شطاری کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے اور استفادہ حاصل کیا نیز طریقہ مبارکہ شطاریہ میں فیض سے مشرف ہوئے۔
آپ کی تبلیغ ِ اسلام ، اشاعت سنت رسول انامﷺ ، یادِالٰہی ، سلوک و تصوف کی تعلیم ، زہد و ریاضت اور خدمت فقراء و مساکین کی شہرت اتنی عام ہوئی کہ ہر طرف سے لوگ جوق در جوق اصلاح قلوب، تزکیہ اور تہذیب نفوس کے لئے آنے لگے۔ چھ ماہ کے قیام کے بعد آپ نے واپسی کا ارادہ کیا، عقیدت مند حضرات کو جب یہ معلوم ہوا کہ آپ واپس تشریف لے جا رہے ہیں تو بقول جناب سیّد غلام صاحب ؒ ’’ کار بجائے رسید کہ ہزاراں شنید ند و گروہ در گروہ بخدمت آں حضرت مے دویدند تا آنکہ ہمہ روساءِ شہر جمع شدند و التجا آوردند کہ در ہمیں ملک اقامت نمایند و مارا از دولت خود محروم نہ سازید ‘‘ یعنی جب اہالیان کشمیر کو آپ کی روانگی کا علم ہوا تو لوگ ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوئے ، یہاں تک کہ تمام امراء شہر بھی آ گئے، اور التجا کی کہ یہاں ہی ٹھہرئیے۔ اپنے فیوضات اور باطنی علم کی دولت سے ہمیں محروم نہ کیجئے، اور ادھر ان کا اپنا خیال نہ کام، وہاں تو یہ عالم تھا کہ
رشتہ در گردنم افگندہ دوست
می برد ہر جا کہ خاطر خواہ دوست
آپ نے حضور سرکار غوثیت مآب ؒ کی روحانیت سے استمداد کی ، حضور کی طرف سے ارشاد ہوا ’’ شما بروید بمسکن مالوف خود ‘‘ یعنی آپ اپنے وطن چلے جائیں ۔آپ نے اپنے چھوٹے بھائی سیّد محمد فاضل صاحب ؒ کو خلافت عطا ء فرما کر وہاں رہنے کی تلقین کی۔ اور خود واپس تشریف پشاور لے آئے۔
سفر کابل
-
آپ نے تین بار کابل کا سفر کیا۔ پہلی بار تو آپ تمام کابل اور اس کے مضافات کی سیاحت کی، اس سفر میں علماء فقراء اور مشائخ سے ملاقات کی ۔ خود مستفید ہو کر اوروں کو مستفیض کیا۔ اِس سفر میں مشائخ نقشبندیہ سے بہت فوائد حاصل کئے، ہزار ہاتشنہ کامانِ ہدایت کو مرید فرما کر سلسلہ عالیہ قادریہ میں داخل فرمایا۔ آپ کا یہ سفر تقریباً ۹ ماہ تک رہا۔ واپسی کے وقت گورنر کابل نواب امیر خان سلسلۂ بیعت میں داخل ہوا، دوبارہ اس کی دعوت پر آپ کابل تشریف لے گئے، اس دوسرے سفر میں مشاہیر علماء فصلاء اور امرا مرید ہوئے، بُرے رسم و رواج کے خلاف عملاً جہاد فرمایا اور سنت نبوی ﷺکی پا بندی پر عوام الناس کو عموماً امرا کو خصوصاً عامل بنایا، یہاں پر بھی لنگر جاری کیا اور حضرت مولینٰا محمد عظیم صاحب کابلی فرماتے ہیں کہ ’’ آپ کے لنگر کا یہ عالم ہے کہ ہزاروں بھوکے، پیا سے اور ننگے پیٹ بھر کر روٹی کھا رہے ہیں اور کپڑے پہن کر بدن ڈھانک رہے ہیں۔ بیوائوں اور یتیموں کی امداد ہو رہی ہے، بیواؤں اور یتیم لڑکیوں کی شادی کرا رہے ہیں۔ جو تحائف اور نذور لوگ پیش کرتے تھے لنگر میں داخل کر کے عوام اور غریبوں میں تقسیم فرما دیتے تھے ‘‘ ۔ یعنی حضور سرکار دوعالم ﷺ کے اس ارشاد گرامی کی پوری پوری اطاعت کرتے کہ توخذ من اغنیآء ھم و تقسم علی فقرآ ء ھم ، امت کے اغنیاء سے لیکر امت کے غریبوں پر مال و دولت تقسیم کی جائے۔ اِس سفر میں امر باالمعروف اور نہی عن المنکر خوب کیا، بڑے بڑے بدکار نیکوکار بن گئے۔ اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل رہنے والے یاد الٰہی میں مشغول ہو گئے۔ آپ کی بابرکت ذکر کی مجلسوں کی بدولت راہ ِسلوک طے کرنے والے عارفانِ الٰہی ہو گئے۔ آپ کی نظر کرم کی برکت سے عارف واصل بحق ہو گئے۔ تقریباً نو ماہ کابل میں رہ کر آپ واپس پشاور تشریف لے آئے، تیسری بار پھر آپ موسم گرما گذارنے کے لئے کابل تشریف لے گئے۔ اب کی دفعہ آپ نے یہ سفر بالکل تنہائی میں گزارا۔ مریدین کی تعلیم و تربیت آپ کی خلفاء کرتے ۔ آپ صرف ان حضرات سے ملاقات کرتے جو منتہی سالک ہوتے اور جن کا مقصد اعلیٰ مقاماتِ سلوک طے کرنا ہوتا یا جو اسماء ربانی کی اجازت لیتے ، باوجود نقاہت اور کمزوری کے نماز پنجگانہ ہمیشہ باجماعت ادا فرماتے ۔ لنگر شریف باقاعدہ جاری کیا تقریباً ۱۵ روز قیام کے بعد ایک دن اچانک صبح کے وقت آپ نے نواب امیر خان حاکم اعلیٰ کو بلایا اور فرمایا اے امیر اس ملک سے کوچ کرنا چاہیے کہ ’’ وباء عظمیٰ و عذاب الیم برسر ایں ملک نازل می گردو ہیچ متنفس بسلامت نخواہد ماند ‘‘ ۔اس دن تو نواب صاحب نے تساہل کے کام لیا لیکن دوسرے روز آپ نے نواب کو پھر تاکید کی۔ نواب نے جواب دیا ۔ جو کچھ آپ فرماتے ہیں اس پر میرا یقین کامل ہے کہ آپ کا ارشاد ہو کر رہے گا ۔ مگر ادھر نوکر ی کا معاملہ ہے اِس لئے میں مجبور ہوں۔ آپ نے فوراً رخت سفر باندھا اور کوچ کر دیا، چند دِنوں کے بعد آپ پشاور پہنچ گئے۔ ادھر کابل میں وبا پھیل گئی۔ لوگ ہزاروں کی تعداد میں مرنے لگے حتیٰ کہ آپ کو اطلاع ملی کہ نواب امیر خان بھی اس دار ِ فانی سے دار بقا کو سدھارے آپ کے تیسری بار سفر کابل کا یہ مختصر سا حال تھا۔
اخلاق
-
اللہ جل جلالہٗ نے آپ کو تمام اخلاق حمیدہ اور اوصافِ ستودہ سے مزین فرمایا تھا اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے جن کا ہر ایک سانس یادِ الٰہی اور جن کا ہر کام عبادت الٰہی ہو۔ اگر وہ پاکیزہ اخلاق و اعمال کے مالک نہ ہوں گے تو پھر اور کون ہو گا، آپ کی حیات محمودہ صفات مکمل و اکمل طور پر ، حضور اکرم ، فخر دو عالم ﷺ کی زندگی کی نمونہ تھی اور مفخرِ موجودات ﷺ کو بارگاہ ِ خداوندی سے یہ ارشاد ہوا تھا وَ إِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ ،جب آپ حضور ﷺ(روحی فداہ) کی زندگی کا مکمل نمونہ تھے تو لاریب آپ اخلاقِ محمدی کا بھی مکمل نمونہ تھے، غربا کی دلجوئی ، مسافروں کی ساتھ حسن سلوک، امرا اور حکماء سے تحائف کا قبول نہ کرنا اور ان کی غیر شرعی حرکات پر بلا خوف لوم لائم متنبہ کرنا اور خصوصاً یاد الٰہی کو اپنا طرہ اِمتیاز رکھنا ، یہ سب وہ باتیں تھیں کو مقناطیسی کشش کی طرح قلوب خاص و عام کو شرمندہ احسان کرتی تھیں۔
محدث جلیل حضرت علامہ امام طریقت و شارعِ صحیح بخاری، جناب شاہ محمد غوث صاحب رحمت اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:-
’’ خدمت فقرا و مساکین بسیار مے کردند و بر عالم خلائق چناں شفقت مے فرمودند کہ گویا ، عیال ایشاں بودند و ہر روز چند ہزار کسانِ وارد و صادر را طعام مے دادند، چنانچہ تا نصف شب طبخ و اطعام بود و از لباس و نقد ہم بسائلین بلسیار مے دادند گاہے ملالت خاطر نمے شدند و ہمیشہ بشاشت مے بودند در جوع و التفات بمخلوقات اصلاً نداشتند دوجۂ معیشت از حکام و سلاطین قبول و منظور نمے فرمودند و مدد از خزائن غیب داشتند و عند الاحتیاج ہر چہ مطلوب مے شد باگہاں بے سبب موجود مے شد ‘‘
(ترجمہ) یعنی فقراء اور مساکین کی خدمت کرتے اور تمام لوگوں کے ساتھ بڑی مہربانی سے پیش آتے تمام لوگوں کو اپنے عیال کی طرح خیال کرتے ، روزانہ لاتعداد لوگ کھانا کھاتے ۔ ان کی آمد و رفت کی مطابق صبح سے لیکر عشاء تک کھانا پکتا رہتا۔ بغیر ملال سائلین کو نقدی اور لباس عنایت فرماتے اور ہمیشہ بشاش رہتے، نیز لوگوں سے کوئی چیز نہ مانگتے،نہ ہی دستِ سوال دراز کرنے کے ان سے میل جول کرتے اپنی گزر اوقات لے لئے حکام اور سلاطین سے کچھ بھی قبول نہ فرماتے ، خزانہ غیب سے امداد حاصل تھی، اور ضرورت کے وقت بغیر کسی سبب کے جو کچھ ہوتا موجود ہو جاتا۔
حضرت علامہ سیّد غلام صاحب ؒ تحریر فرماتے ہیں۔ ’’ بر عموم خلقت چناں شفقت در آفت و مہربانی داشتند ، کہ پدر بہ پسر داشتہ باشد ‘‘ ۔ یعنی مخلوق خدا پر اس قدر نرمی اور شفقت اور مہربانی رکھتے تھے جس طرح بیٹے پر باپ رکھتا ہے۔ اور آپ فرماتے ہیں کہ جہاں کہیں بھی بیمار ہوتا اس کی عیادت لے لئے وہاں تشریف لے جاتے، نیز اس کے علاج اور ادویہ متعلقہ علاج کیلئے بھی رقوم حتی الامکان اپنی جیب سے ادا کرتے ۔ قرضدار کو اس کے قرضہ سے نجات دلاتے۔ بسا اوقات جب آپ نے پاس رقم نہ ہوتی تو آپ قرضہ اپنے ذمہ لے کر پھر ادا فرما دیتے، اور عموماً جب آپ امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے باہر دورے پر تشریف لے جاتے تو نادار ، مفلوک الحال اور غریب لڑکیوں کی شادی اپنی گرہ سے خرچ کرکے کرا دیتے۔ جناب سیّد غلام صاحب ؒ فرماتے ہیں۔ ’’ ہر کہ از برائے تزویج پسر و دختر نارسا بود از خود جہیز او تیار کردہ سردائش مے فرمودندــ ‘‘ ۔ غازیوں کو اسلحہ اور سپاہیوں کو گھوڑے اور کپڑے مہیا فرماتے کوئی شخص بھی آپ کے آستانِ فیض نشان سے نامراد نہیں لوٹتا تھا۔ غربا و مریدوں پر اپنی شفقت فرماتے کہ اِس کی نظیر نایاب ہے ایک دفعہ ایک مرید جو کہ صبح و شام لنگر سے کھانا کھاتا تھا۔ شام کونہ پہنچ سکا ۔ آپ نے لانگری کو کہا۔ اِس کی روٹی میرے پاس لاؤ، پھر تمام رات اِس کے کھانے کو گرم کرتے رہے جب صبح کو وہ شخص آیا تو آپ نے وہ روٹی اس کو دی اور فرمایا ۔ ’’ چونکہ تم شام کو کھانے کے وقت موجود نہ تھے ۔ مجھے خیال ہوا کہ معلوم نہیں تم کس وقت آؤ گے اور بھوکے ہو گے، پھر ٹھنڈی روٹی نہ کھا سکو گےــ ’’ پس تمام شب بر آتش گذاشتم و خود ہم در انتظارت بودم از ان ایں نان را گرم بینی ‘‘ ۔
خاصانِ خدا کے اعمال و افعال پاکیزگی اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ ہوتے ہیں۔یہی برگزیدہ ہستیاں تھیں جنہوں نے صرف اپنے بلند اخلاق اور حسنِ سلوک کی برکت اور بدولت ہندوستان کے گوشے گوشے میں اسلام کے نور کو چمکایا اور سرور کائنات روحی فداہﷺ کی سنت کا احیا کیا۔ نیز ہزار ہا گم گشتگان بادیۂ ضلالت کو نیک اعمال کی ہدایت کی اور تعلیم و ارشاد کے ذریعہ سے راہ ہدایت و نجات دکھلائی۔آپ کی سخاوت ، بخشش اور دادودہش کا چرچا ہر ایک امیر و غریب کی زبان پر تھا آپ کے لنگر شریف سے روزانہ ہزار ہا لوگ پیٹ بھر کر کھانا کھاتے اور بقول جناب محدث جلیل حضرت شاہ محمد غوث صاحب ؒ ’’ دہر روز ہزار کس وارد د صادر را طعام مے دادند‘‘
عفو و کرم
-
آپ کی ذات ستودہ صفات عفو و کرم کے لحاظ سے وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ کا مکمل اور اکمل نمونہ تھی ، ذیل میں صرف ایک مثال تحریر کی جاتی ہے ویسے تو سینکڑوں مثالیں موجود ہیں مگر تمام کا تذکرۂ باعثِ طوالت و ملال ہو گا۔جب آپ کابل تشریف لے گئے تھے تو آپ کے مکان پر خادم رہتے اور کام کاج کرتے تھے۔آپ کا ہمسایہ نواب ناصر خان کا عزیز اور رشتہ دار تھا ۔ کسی بات پر آپ کے خادم اور اِس ہمسائے کے درمیان تنازعہ ہوا ۔ ہمسایہ نے آپ کے خادم کو پکڑ کر خوب پیٹا اور بہت بے عزتی کی جس کی وجہ سے آپ کے گھر کے لوگوں کو بہت صدمہ پہنچا۔ اتفاقاً اِسی رات مالک مکان پاگل ہو گیا ، خویش و بیگانہ کو قتل کرنے پر آمادہ ہوا، اس نے بدن سے تمام کپڑے اتار دئیے اور ہوش و حواس کو خیر باد کہی ۔ اِس کی اولاد آپ کے گھر آ کر عذر خواہی کرنے لگے اور خواستگار معافی ہوئی لیکن مالک مکان کی حالت دن بدن ابتر ہونے لگی ۔ اَب پابہ زنجیر ہوا اور اپنے جنون و وحشت کی وجہ سے سب کے لئے باعث پریشانی بنا۔
آخر کار حضرت سیّد حسن صاحب ؒ کی واپسی کی خبر مشہور ہوئی تو آپ کے استقبال کے لئے جوق در جوق لوگ ایک یا دو منزل آگے گئے۔ اِس پاگل کے متعلقین بھی اِس کو ساتھ لے کر معافی مانگنے کی غرض سے حاضر ہوئے ۔ آپ نے جب دیوانے کی زبوں حالی کو دیکھا تو آپ کو بہت رحم آیا۔ پھر اِس کا سبب پوچھا تو انہوں نے تمام داستان بیان کردی۔ آپ نے اسی وقت اللہ جل جلالہ سے دعا کی اور خود بھی اس کی تقصیر اور گستاخی کو معاف فرما دیا ۔ جناب سیّد غلام صاحب ؒ فرماتے ہیں ’’ فی الحال احوال مبدل شد و مزاجش بافاقت آمد ‘‘ یعنی آپ کی دعا کے بعد معاً وہ شخص تندرست اور صحیح و سالم ہو گیا۔
اِستغنائے قلبی
-
آپ حکامِ وقت سے وظائف یا تنخواہ یا جاگیر کبھی بھی قبول نہ فرماتے تھے ، بسا اوقات ان کے تحائف اور پیش کشوں کو پائے استحقار سے ٹھکرا دیا ،اور عموماً ان لوگوں کو ان کی زندگی کا صحیح مقصد یعنی انصاف ، دیانتداری ، مساوات، اخوت، عدل، غرباء پروری اور حسن سلوک کی نصیحت فرماتے، نیز ان
لوگوں کو رقوم خرچ کرنے کا صحیح مصرف بتاتے، چنانچہ گورنر کابل نواب امیر خان اور نگ زیب عالمگیر سے آپ کے فرزند جناب شاہ محمد غوث صاحب ؒ کے نام گرامی پر بطورِ انعام یا گزران معیشت قطعہ اراضی لکھوا کر لایا اور حضور سیّد حسن صاحب ؒ کی خدمت میں پیش کیا ۔ آپ نے وہ سند دیکھی اور فرمایا۔ ’’ یا امیر جزاک اللہ، کہ خیر خواہی فقراء مرکوز خاطر داری، اما من طالب ِ ایں نیتم و احتیاج ایں ندارم ‘‘ ۔ یعنی اے امیر، اللہ تعالیٰ تجھے جزاء خیر دے کہ تو اپنے دِل میں فقراء کی خیر خواہی رکھتا ہے مگر مجھے اِس کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اِس کی خواہش رکھتا ہوں ۔ اور پھر غور طلب بات یہ ہے کہ آپ اِس کو اسکا صحیح مصرف بتاتے ہیں۔ کہ ’’ باید بحاجت مندان و مستمندان بدہی کہ قوتِ لایموت شاں شود ‘‘ ۔ یعنی ان لوگوں کو جو کہ محتاج اور ضرورت مند ہیں، یہ رقم دینی چاہیے تاکہ اِن کی زندگی بسر ہو سکے۔
اتنا بڑا حاکم اپنی کمال عقیدت سے آتا ہے اور شہنشاہ وقت اورنگ زیب عالمگیر کی طرف سے چالیس جریب زمین کی جاگیر عطاء کرتا ہے ۔ لیکن چونکہ یہ پیش کش صحیح نہیں ہوتی اس لئے آپ قبول نہیں فرماتے نیز اس حاکم وقت نواب امیر خان کی صحیح رہنمائی فرماتے ہیں اور ساتھ ہی تلقین و ارشاد بھی فرماتے ہیں ’’ تر ا سعادت گردد ‘‘ یعنی غریبوں ، عاجزوں ، مفلوک الحال اور مستحق لوگوں کی خدمت کرنا۔ تاکہ تیرے لئے باعث سعادت ہے۔ یہی وہ جذبۂ کاملہ و صالحہ تھا جس کی وجہ سے بڑے بڑے امراء و بادشاہ ،خاک و بوریا نشین فقراء کی خدمت کو مایۂ صد نازش و افتخار سمجھتے تھے اور حق بات کہنے پر اتنے بے باک ہوتے کہ ا ن کی نظر میں بمقابلہ حق سب کو کچھ ہیچ ہوتا تھا۔ اور اِسی لئے نگاہِ فقیر کے سامنے سکندری نہیں ٹھہر سکتی ۔ نواب صاحب نے آپ کو بہت مجبور کیا اور اصرار کیا کہ اِس تحفے کو قبول فرما لیں تا کہ دعا سے محروم نہ رہوں ۔ آپ نے فرمایا ’’ من دِل از اسباب ایں جہان بالکل برداشتہ ام۔ واز ہمہ بگستہ بمولیٰ بستہ ام۔ نخواہم کہ بما سوی اللہ خاطر م متعلق باشد ‘‘ ۔
آپ کے اِس ارشاد ِگرامی کا ایک ایک لفظ سچائی ، دیانت ، امانت ، اور اخلاص کا مظہر ہے اور آبِ زر کے ساتھ لکھنے کے قابل ہے ۔ اگر آج ہم اِن ارشادات کو اپنا نصب العین قرار دیں، حطامِ دینوی اور متاع ِ قلیل پر اعتماد و بھروسہ ترک کرکے اللہ تعالیٰ کی ذات قدیم و اقدس پر کلی اعتماد کر لیں اور پھر اللہ کی یاد ، سنت ِنبوی ﷺ کی متابعت ، امر باالمعروف ، نہی عن المنکر اور خدمتِ خلق کا طریقہ اختیار کر لیں تو آج ہم پر بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب نبی کریمﷺ کے فضل و انعام کی بارشیں ہوں گی، اور دنیاوی شہود و نمود بے معنی ہو جائے گا۔
اصل میں عزت تو ہی قابل ِرشک ہے جس کا مآخذ دربار لم یزلی اور سرکار مدنی ہے وہ عزت جو سلاطین یا امراء و وزراء کی طرف سے منسوب ہو تو وہ سراسر روسیاہی و ذلت ہے کیونکہ وہ خود محتاج باری ہیں اور دینوی عز و جاہ و حشمت یا اِس فانی مال و منال کے لئے اسباب و علل کے متلاشی ہیں ۔ یہاں بحیثیت سوال ، سائل اور مسئول ہر دو برابر ہیں جیسا کہ ان کا مقام اعتباری دکھا رہا ہے کیونکہ مسئول بھی سائل ہے ۔ بعض صوفیاء کرام کا قول ہے کہ از روئے احتیاج کیا عجب جو مسئول ، سائل سے زیادہ ذلیل ہو۔ تو ذلیل کسی کو کس طرح عزیز کر سکتا ہے ۔ پش ثابت ہوا کہ حقیقی عزت وہی ہے جس کا منبع ، رب العزت کی بارگاہ ہو۔ اِسی لئے حضرت سیّد حسن ؒ نے اورنگ زیب کے دربار کے آمدہ حاکم کو فرمایا ’’ اے حاکمِ وقت میں تیرے لئے ایک مثال بیان کرتا ہوں۔ سن ! تو عالمگیر کا نوکر ہے اگر تو کسی اور بادشاہ کی حمایت کرے یا اس کی طرف فقط میلان کرئے تو اپنے عالمگیر بادشاہ سے کیا توقع رکھے گا۔ اور پھر فرمایا اسی طرح ’’ من غلام بادشاہ واجب الوجودم، معاذ اللہ اگر روئے امید بدرگاہ ٔبے پناہ ممکن الوجود آرم چہ خواہم دید ‘‘ ۔شعر
غلام ہمت آنم کہ زیر چرخ کبود
زہر چہ رنگ تعلق پذیرد آزاد است
جب نواب نے یہ جواب آپ سے سنا تو لاجواب ہو کر واپس لوٹ گیا۔ اور وہ سند اورنگزیب عالمگیر کو واپس کر دی، آپ نے یہی استغناء اپنے خلفاء میں بدرجہ اتم پیدا کرنے کی کوشش کی۔ کامل اور اکمل انسان اور صحیح معنوں میں ہادیِ راہ ھدیٰ و سالک ِ جادہ ٔ مستقم و ہی ہے جو پنی مقدس ذات میں علم و عمل، زہد و تقویٰ ، اخلاق و آداب اور تہذیب و شستگی کو انتہا تک پہنچا کر اِسی طرح دوسروں کو بھی اپنے نقش قدم پر چلا کر ان کو عوام الناس کی ہدایت کے لئے مامور کرے۔ چنانچہ حضرت سیّد حسن صاحب ؒ نے اپنے فرزند ارجمند محدث جلیل حضرت علامہ شاہ محمد غوث ؒ کو یہ وصیت فرمائی کہ ’’ التجا و رجوع بدولت منداں نکنی ‘‘ ۔ اور آپ یعنی علامہ شاہ محمد غوث صاحب ؒ آپ کی سیرت کا کس طرح مکمل نمونہ ثابت ہوئے کہ جب نادر شاہ بادشاہ کابل ہندوستان کو فتح کرنے کے لئے پشاور پہنچا تو کاملانِ وقت سے طالب دعا ہوا تاکہ ہندوستان جلدی فتح ہو جائے چنانچہ نادر شاہ کو بتایا گیا کہ اِس وقت کامل و مکمل شخص حضرت شاہ محمد غوث صاحب ؒ نامی لاہور میں موجود ہے ۔ اگر وہ شخص تمہارے لئے دعا کرے تو بہت جلد اللہ تعالیٰ کامیابی عطا ء کرے گا۔ نادر شاہ نے خود ایک حکم نامہ آپ کی طرف بھیجا کہ آپ فوراً پشاور آئیں۔ آپ نے جواب دیا کہ ’’ طریق پیر ما این نیست کہ نزد پادشاہ روند با ستمداد دے پرداز ند کہ برائے ہر یک استمداد حق جل جلالہ ، کافی است ‘‘ اِس جگہ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ کس طرح سیّد حسن صاحب ؒ نے اپنی اعلیٰ اور مکمل سیرت میں اپنی خلفا ء اور فرزندوں کو ڈھالا تھا اور استغناء قلبی کا جوہر بے بہا ان میں پیدا کر دیا تھا۔
جناب حضرت جیو جی صاحب پشاوری فرماتے ہیں.
’’ کہ بزرگی شیخ را از بزرگی مرید متیواں شناخت ‘‘
توجہ ، صفائی قلب اور کشف
-
آپ کی تعلیم کا اصل اصول ذکر الٰہی تھا۔ آپ کی صحبت بابرکت میں جو شخص آتا۔ آپ اس کو یہی فرماتے کہ بیکار نہ بیٹھ ، ذکرِ الٰہی کر ، چنانچہ کوئی وقت بھی آپ کی مجلس میں کسی شخص کو ذکر الٰہی سے خالی نہ ہوتا۔ اور آپ سربجسیب مراقبہ رہتے۔ حضرت علامہ ، امام الطریقت جناب حضرت سیّد سخی محمد غوث صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ بارہا لوگوں نے ایسا دیکھا کہ آپ ذکر اور فکر کی عبادت میں اِس قد ر مشغول رہتے کہ رات کو نیند نصیب نہ ہوتی ، تمام سب بھر مراقبہ اور عبادت میں منہمک رہتے۔ رقت قلب کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی شخص تلاوتِ قرآن مجید کرتا ، یا اللہ تعالیٰ کا نام مبارک زبان پر لاتا تو آپ کے آنسو جاری ہو جاتے۔ اور اکثر دیر تک روتے رہتے ۔ نیز جس پر بھی توجہ فرماتے وہ بھی مرغ بسملِ کی طرح جذبۂ عشق سے تڑپنے لگتا۔ دمِ واپسیں تک آپ ذکر ، فکر ، مراقبہ، شغل لسانی اور قلبی میں مشغول رہے۔ جن عزیزوں کو آپ نے اسماء الٰہی سے کسی اسم کی اجازت دیتے یا کوئی اور وظیفہ ظاہری بتاتے۔ ان کو بھی آپ ایسا ہی لائحہ عمل اختیار کرنے کی نصیحت فرماتے، اور اِسی طرح آثار بھی ظاہر ہوتے۔ جب اسباب اور علل ٹھیک ہوں تو نتیجہ بھی صحیح اور درست ہوتا ہے ۔ آپ کی عادت تھی کہ ظاہری علل اور اسباب کو دیکھ کر قلب کا علاج کیا کرتے تھے ۔ اِس لئے بعض اصحاب اور طالبانِ ہدایت کو سلوک باطن پر چلاتے اور خفی اذکار اور اشغال سے فیض یاب کرتے اور بعضوں کو جذبہ اور توجہ سے مردہ قلب کو زندہ کرنے کے طریقے بتلاتے۔ سات برس تک آپ نے نفی اثبات کا ذکر جزائر شور کے جنگلات میں کیا۔ اور جمعہ کے روز اِسی ذکر میں مشغول رہنے کے لئے زیادہ تاکید کیا کرتے۔ جمعہ کے روز آپ کے پاس اکثر چہل پہل رہتی ۔ طالبوں کا ہجوم ، اور اِسی طرح شب جمعہ سے لیکر نماز ِ جمعہ کی ادائیگی تک تمام لوگ ذکر جہر میں مشغول رہتے اور ان اوقات میں ایک عالم، محویت اور ہو طاری رہتا۔ حضرت شاہ محمد غوث صاحب فرماتے ہیں۔ ’’ در عہد آں حضرت مقرر بود کہ بروز جمعہ از صبح تا نمازِ جمعہ ہمہ طالبان بذکرِ جہر مشغول مے بودند ‘‘ ۔ اور آپ کی حالت کا نقشہ حضر ت شاہ محمد غوث صاحب ؒ نے بایں الفاظ کھینچا ’’ آں حضرت سر بمراقبہ مے بودند چوں ذاکراں از ذکر ساکت مے شدند، جناب سر برداشتہ نظرے بہ ایشاں مے کردند ۔ بہر کہ آں نگاہ مے رسید، فی الفور از ناسوت سوئے لاہوت مے رسید ، و بہر صالح و طالح کہ آں نگاہ مے افتاد۔ درہموں زماں عارف اللہ مے شد ‘‘ ۔ یعنی جناب سیّد حسن صاحب ؒ مراقبے میں مشغول رہتے ، جب ذاکر اپنے ذکر سے خاموش ہو جاتے تو آں جناب ان کی طرف ایک نگاہِ عارفانہ ڈالتے جس پر آپ کی نگاہ پڑتی وہ فوراً منزل ناسوت سے منزل لاہوت میں پہنچ جاتا اور ہر ایک نیکو کار یا گنہگار عارف باللہ ہو جاتا۔ یہ تو انسانوں کی حالت تھی اور اگر آپ کی توجہ باطنی کے وقت آپ کی نگاہ کسی پرندے یا وحشی پر پڑتی تو وہ صید نیم بسمل کی طرح تڑپتا رہ جاتا۔
جناب آقا سیّد سعید احمد شاہ صاحب ؒ فرمایا تھا کہ جب آپ اختتام نماز کے وقت دائیں طرف سلام پھیرتے اِس طرف کے نمازی سب کے سب ولی ہو جاتے اور جب بائیں طرف سلام پھیرتے تو سب کے سب حافظ قرآن ہو جاتے اور یہ کیف اس وقت مشاہدے میں آتا جب آپ پر جذبے کا غلبہ ہو جاتا۔ جناب سیّد غلام صاحب ؒ اپنے مرشد ارشد جناب سیّد شاہ محمد غوث صاحب ؒ کی زبانی تحریر فرماتے ہیں کہ جب آپ کی اِس توجۂ باطنی اور جذبے کا بہت شہرہ ہوا تو پنجاب سے ایک شخص جو کہ جامعِ کمالات ظاہری و باطنی تھے اور عالم و فاضل بے بدل و حافظ ِ جید تھے یعنی حافظ عنایت اللہ بقصد ِ امتحان و آزمائش آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اور بقول جناب شاہ محمد غوث صاحب ؒ ’’ بطریقِ مباحثہ عرض کرد ، من شنیدہ ام کہ تو بر مردم جُہال و عوام نظرے مے فرمائی کہ از اثر آں مردماں از حالے بحالے تغیر مے پابند لہٰذا آمدم کہ اگر باشد بمن نیز اشارہ فرمائی ‘‘ ۔ آپ ہمیشہ کے لئے بحث و مباحثہ اور مناظرہ سے کنارہ اختیار فرماتے اور اگر کوئی مسلمان سخت یا درشت لہجہ اختیار کرتا تو آپ درگذر فرماتے اور لہٰذا اِس قسم کے مناظرے کو مجادلہ قرار دیکر عموماً اجتناب فرماتے۔ کیونکہ یہ فعل عبث _اور لغو ہے لفجوائے آیۂ مبارک
وَ إِذَ ا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا
(سورۃ الفرقان : ۷۲)
بہر حال آپ نے خندہ پیشانی سے فرمایا کہ وقت آنے پر سب کچھ ہو جائے گا۔ آپ نے اس عالم سے جس نے ظفر اور کبر کا لہجہ اختیا ر کیا ہوا تھا، الجھنا مناسب نہ سمجھا مگر وہ صاحب تو پہلے ہی سے بحث کی ٹھان کر آئے تھے اور اپنے علم و فضل کی دھاک جس پر ان کو بڑا ناز تھا بٹھانا چاہتے تھے فوراً کہا کہ ’’ شما ابوالوقت اید ، قید وقت چگونہ مے فرمایند ‘‘ ادھر اس کے منہ سے اِن الفاظ کا نکلنا ہی تھا کہ اِدھر آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا، آنکھیں سرخ ہو گئیں اور بغایت جوش میں آ گئے بقول جناب شاہ محمد غوث صاحب ؒ ’’ آں حضرت بغیرت آمدہ چناں نگاہ فرمودند کہ از زمین بالا رفت و در ہوا مے رقصید ۔ بعد از ساعتے بر زمیں آمدہ پارچہ ہارا پارہ پارہ ساخت، نعرہ ہائے زد و نالہ مے کرد ‘‘ ۔ یعنی آپ نے غیرت میں آ کر اس پر ایسی توجہ کی کہ زمین سے ہوا میں پھینکا گیا۔ اور ناچنے لگا۔ پھر کچھ دیر بعد زمین پر آ گرا۔ کپڑے پھاڑ ڈالے ، آہ و فغان کے نعرئے لگائے ۔ نالہ و فریاد و اثبورا سے واویلا شروع کیا۔ ؎
نعرہ مے زد و اثبورا و اثبورا
ہمچناں کہ کافراں روز نشور
پھر خادموں نے مُلّاں جی کو اٹھا کر مسجد کی کوٹھڑی میں بند کر دیا۔ چنانچہ تین دن تک وہاں بے ہوش مدہوش پڑے رہے۔ تیسرے دن حضور بنفس نفیس مُلّاں صاحب کے پاس گئے۔صاحب خوراق العادات فرماتے ہیں۔ ’’ توجھے فرمودند پس یک بار چشماںرا وا کرد و بافاقت آمد ‘‘ اب تو مّلاں صاحب کو تمام بحث و مباحثہ بھول چکا تھا اور کتابوں کو ’’ بدریا انداخت ‘‘ یعنی تمام کتابوں کو دریا میں پھینک دیا۔عالمانہ لباس اتار دی گئی ، فقیرانہ لباس پہن لی۔ اور اب کیا حالت تھی، عینی شہادت سنئیے ۔ ’’ سر بنعلین مبارک سائیدہ مے گریست۔ و ایں آیۂ تلاوت و تکرار مے نمود سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ (الأعراف: ١٤٣)۔آپ کے قدموں پر سر رکھ کر دیر تک روتا رہا اور اس آیۂ کریمہ کی بار بار تلاوت کرتا رہا۔ آپ نے حافظ صاحب کو کہا۔ ’’ اب حالے بحالے تغیر مے یابند ‘‘ کا جو طنز تھے اس کو ملاخطہ کر لیا۔وہ عالم و فاضل جس کے علو شان کے بڑے بڑے امراء اور علما ء مداّح تھے اور جس کے ہزار ہا شاگرد تھے ۔پھر جس کی آواز سے حکامِ وقت تھرتھراتے تھے ان کی حالت کس طرح دفعۃً بدل گئی ۔ ایک اللہ والے کو آزمانے آئے تھے۔؎
یک نظر کر دی و آدابِ فناہ آموختی
خوشا وقتے کہ خاشاک مرا وا سوختی
طرفہ یہ کہ اس اللہ والے کا بلند اخلاق اور پاکیزہ کردار دیکھئے اور اس کا عفو ، درگذر ، اور حلمِ حسنی ملاخطہ کیجئے کہ کس طرح اِن دنیا کے بندوں کو ، حب و جاہ کے بھوکوں کو ، اور ظاہری نمود کے فریب کے جال میں پھنسے ہوؤں کو تمام خباثتوں سے پاک کر کے يُزَكِّيهِمْ کے تحت نیابت رسول کا حق ادا کرتے ہوئے اس ذات باری کے ساتھ ان کا رشتہ اور تعلق قائم کر دیا حتیٰ کہ ان کے انجام کو پاک کرکے ان کی جنس ایمان کو گوہر آبدار کی طرح چمکا دیا، پھر بیعت کرکے اپنے سلسلہ میں داخل کیا۔ غفلت اور نخوت کے سفلی حجابات کو شغف ِ قلب سے ایک عارفانہ نظر سے دور کرکے اس کو مشاہدہ تجلی اسما و صفات بنا دیا۔
جناب سیّد غلام صاحب فرماتے ہیں ــــ ’’ از ماسویٰ اللہ ترکِ کلی ساخت۔ واز خلق و جہاں چناں مستغنٰی شد کہ شاہ و گدا ، امیر و فقیر در نظر برابر بودند و تدریجًا بمرتبہ فناہ فی الشیخ و فناہ فی الرسول فائز گشت ‘‘ ۔ ماسویٰ اللہ سے کلی طور پر ترک اختیار کر لیا اور مخلوق خدا سے اس قدر مستغنیٰ ہو گیا کہ اس کی نظر میں امیر و فقیر ، شاہ و گدا ، برابر ہو گئے۔ دیکھئے وہی بر مردم جہال و عوام نظر می فرمائی کا طنز کرنے والا حافظ قرآن ، عالم و فاضل آپ کی توجہ باطنی اور نظر کیمیا اثر کی بدولت مرتبہ فنا فی الشیخ اور فنا فی الرسول حاصل کر لیتا ہے بلکہ اِسی پر اکتفا نہیں ہوتا ۔ رحمت الٰہی کا اتم ظہور ہوتا ہے ’’ بمقام باقی باللہ رسید و صحبت رسول اکرم ﷺ و صحبت سیّد نا غوثِ الاعظم در اختیار ش آمد ‘‘ ۔یعنی وہی متعرض مقام بقا باللہ پر پہنچا اور حضور فخر دوعالم ﷺ و غوث الثقلین کی صحبت بابرکت اس کو نصیب ہوئی ۔ شہادت دینے والے بھی عینی شاہد ہیں ۔ اور وہ بھی شاہ محمد غوث صاحب لاہوری ؒ جن کے مندرجہ ذیل الفاظِ درخشاں نہایت ہی قابل توجہ و غور ہیں۔
’’ چنانچہ آن حضرت را (یعنی جناب سیّد حسن ؒ ) ہر گاہ عرضے مے بود۔ بادی فرمودند۔ اُو بموجب ارشاد ایشاں بلاتوقف در حجرہ خود رفتہ بجنابِ عالی حالے می کردو فی الفور جواب با سواب مے آورد ‘‘
یعنی جب کبھی غوث الاعظم کی بارگاہِ عالیہ میں عرض کرنا ہوتی تو آپ حافظ صاحب کو فرماتے وہ بلا تاخیر اپنے حجرے میں جاتے اور فی الفور جواب باصواب لاتے۔
اولیاء کرام کی مثال سورج کی سی ہے۔ جس تاریکی پر سورج کی روشنی پہنچتی ہے تو وہ بعینہ اس تاریکی کو اپنی طرح روشن بنا دیتی ہے گویا کہ قلب ماہیت رونما ہوتی ہے ۔ اولیاء عظام بھی جس پر باطنی توجہ فرماتے ہیں اس کو اپنی طرح منور اور مطہر کر دیتے ہیں۔ جناب سیّد حسن صاحب ؒ نے حافظ عنایت اللہ صاحب ؒ پر تو جہ کاملہ فرما کر ان کو بالکل اپنے جیسا بنا دیا۔؎
آنانکہ خاک را بنظر کیمیا کنند
آیا بود کہ گوشہ چشمے بما کنند
حضرت سیّد میر شاکر شاہ صاحب ؒ بن حضرت شاہ محمد غوث صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ ایک بار ، کابل ، قندھار اور غزنی تک یہ افواہ پھیل گئی کہ اورنگ زیب عالمگیر راہی ملک بقا ہو گئے ہیں ۔ اِس افواہ سے ملک میں ابتری پھیل گئی ۔ نواب امیر خان گورنر کابل نہایت سراسیمگی اور پریشانی کے عالم میں جناب سیّد حسن شاہ صاحب ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے اپنی پریشانی کے واقعات بیان کئے،
آپ نے سن کر فرمایا ’’ اے امیر مطمئن رہ، بادشاہ بالکل صحیح اور تندرست ہے ۔ و ہمہ شہرت غلط است ‘‘ پھر فرمایا ’’ امید است کہ بفضل علام الغیوب روز سوام خبر صحیح الاثر خواہد رسید ، و تسکین حاصل خواہد گردید و ایں علم الیقین را بعین القین خواہی دید ‘‘ ۔ ’’ امید ہے کہ بفضل ِباری جو کہ عالم الغیوب ہے تیسرے دن صحیح خبر آ جائے گی اور تسکین حاصل ہو جائے گی۔ اور یہ علم الیقین والی بات عین الیقین سے ثابت ہو جائے گیــ ‘‘ ۔ جناب میر شاکر شاہ صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ جب تیسرے دن صبح ہوئی تو جہان آباد (دہلی) سے قاصد خطوط لے کر آیا کہ بادشاہ بخیر و سلامت ہے ۔ نواب صاحب آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا ۔ اور اس نے بہت ہی خوشی کا اظہار کیا۔ آپ نے وہ تحائف غریبوں ، بیواؤں اور مفلوک الحال لوگوں میں تقسیم کر دئیے۔
حضرت سیّد محمد عابد ؒ بن سیّد شاہ محمد غوث صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ موسم گرم میں نواب امیر خان کی التجا و التماس پر آپ کابل تشریف لے گئے۔ چند دن قیام کرنے کے بعد نواب کو کہا کہ اِس ملک سے نکل جانا چاہیے کیونکہ اِس پر وبائے عظیم اور عذابِ الیم اتر رہا ہے جس سے کوئی جاندار محفوظ و مامون نہ رہ سکے گا۔ تواب نے اس دن سہل انگاری سے کام لیا لیکن دوسرے دن آپ نے بتاکید وہی الفاظ مبارک دہرائے ۔ نواب نے جواب دیا۔ ’’ آپ جو کچھ فرماتے ہیں مجھے اس پر یقین کامل ہے کہ وہ ہوکر رہے گا،مگر نوکر ی کا معاملہ ہے اور میں مجبور ہوں ‘‘ ۔ آپ نے فوراً رخت سفر باندھ کر وہاں سے کوچ کر دیا اور پشاور پہنچ گئے۔ چند دنوں کے بعد کابل میں ایسی بیماری پھیلی کہ لوگ ہزار ہا کی تعداد میں روزانہ لقمہ اجل ہونے لگے ، جو لوگ لاشوں کو دفن کرنے جاتے وہ بھی وہاں طعمہ ء مرگ ہو جاتے۔ حتیٰ کہ ایک روز یہ اطلاع بھی پہنچ گئی کہ نواب امیر خان بھی اِس دار فانی سے دار بقا کو سدھارے ۔ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
یہی امیر خان حاکم و ناظم کابل اکثر پشاور میں رہتا تھا اور حضور کا بغایت مخلص و معتقد تھا۔ خدمت اقدس میں روزانہ چل کر حاضر ہوتا۔ مگر اعتقاد شیعہ تھا۔ ایک بار اس کے رشتہ داروں نے کہا کہ تو اتنا عالی رتبہ ہو کر ایک درویش کی اس قدر قدر و منزلت کرتا ہے اور پھر طرفہ یہ ہے کہ اختلاف مذہب و ملت حائل ہے ۔ امیر نے کہا ،آپ لوگ حکومت پر مغرور نہ ہوں نیز آپ حضرت سیّد حسن صاحب کے دربار دربار میں شیعہ سنی اختلافات پر نظر نہ کریں۔ ’’ بخدا من یقین دارم کہ سلطنتِ عالمگیر در دست ایشاں است ‘‘ ۔ لیکن پابند جاۂ دنیا و عزّ و جلال حکومت نے نواب کو پھر مجبور کیا ۔ نواب صاحب ان سب کی معیت میں حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔
اِدھر حضور کا یہ عالم تھا کہ بقول جناب سیّد محمد عابد صاحب ؒ آپ نے ’’ بصفائی آئینہ قلبی ماجرا دریافتہ بود فرمودند، اے امیر نزدِ فقرا بہ امتحان آ مدن موجب ِ نقصان است ‘‘ یعنی قلبی صفائی یا کشف سے تمام واقع دریافت کر لیا اور فرمایا کہ اے امیر فقراء کے پاس بطورِ امتحان آنا نقصان کا موجب ہے ، امیر نے بادب دست بستہ عرض کی ۔ ’’ میری عقیدت مندی آپ پر واضح ہے یہ اِن ہمراہیوں کی گفتگو ہے جو آپ کی ضمیر منیر پر ہویدا ہے ۔ آپ نے نظر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا ۔ نظر کا اٹھنا ہی تھا کہ اشرفیوں کی بارش ہونے لگی۔ تمام صحن اشرفیوں اور روپوں سے بھر گیا، دیکھنے والے حیران و ششدر رہ گئے ۔ انکار کرنے والوں نے اپنے منہ گریبانوں میں چھپا لئے ، رونے لگے اور اپنے گناہوں کی وجہ سے معذرت کرنے لگے ۔ آپ نے امیر خان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔
’’ حق تعالٰی بفضل و کر م خود چناں نوازشم فرمودہ است و چناں دولتم عطا ء نمودہ است کہ اگر اہل مشرق و مغرب جمع شوند و ہر روز از من نفقہ خواہند ہمہ را بدہم و ہر گز عجز و ملامتم نیابم ۔ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ‘‘ ۔ ’’ اللہ جل جلالہ نے اپنے خاص فضل کرم کے ساتھ مجھ پر نوازش کی ہے اور اتنی دولت بخشی ہے کہ اگر تمام مشرق و مغرب کے لوگ جمع ہوکر روزانہ مجھ سے کھانا طلب کریں تو میں نہ توعاجز ہو سکتا ہوں اور نہ کمی کی وجہ سے قابل ملامت بن سکتا ہوں۔ یہ اللہ کا فضل ہے جس پر چاہتا ہے کرتا ہے ‘‘ ۔
کرامات
جناب سیّد غلام صاحب فرماتے ہیں ’’ کرامات ایشاں مثل قطراتِ مطرات لا یعدو لا یحصی است ‘‘ یعنی آپ کی کرامات ، بارانِ رحمت کے قطروں کی طرح اَن گنت اور بے شمار ہیں۔ جناب محدث جلیل شاہ محمد غوث صاحب لاہوری فرماتے ہیں ’’ خوارق ِ عادت از ایشاں بحدے ظہور یافتہ کہ تحریر آں دریں مختصر گنجائش ندارد ‘‘ ۔ یعنی آپ کے کرامات اِس حد تک ظاہر ہوئے ہیں کہ ان تمام کی تفصیل اِس مختصر عجالہ میں سما نہیں سکتی ‘‘ ۔چنانچہ حاجی محمد صدیق اور حافظ محمد عظیم صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ نواب امیر خان آئے اور عرض کیا۔ ’’ حضور آج میرے ساتھ شکار کو تشریف لے چلیں ‘‘ ۔ آپ نے اس کی درخواست کو قبول کیا۔ شکار گاہ میں ایک ہرن نظر آیا۔ امیر نے حکم دیا کہ اِس ہرن کو گھیر لو مگر ہرن کو وہی مارے جس کے آگے سے وہ گذرے تمام لشکر ہرن کو گھیر کر تیار کھڑا ہو گیا۔ وہ ہرن صف کو چیرتا ہوا نکل گیا۔ نواب نے آپ کی خدمت میں عرض کیا۔ ’’ سیّد ی آہو از پشیگاہِ شما بدررفت۔ لہٰذا متوجہ اُو نگر دید حالاہر چہ ارشاد باشد بعمل آوردہ شود یعنی حضور یہ ہرن آپ کے آگے سے ہو کر نکل گیا اس لئے کسی نے اس کی طرف توجہ نہیں کی۔ اب جو حکم حضور ہو ۔ اس کی تعمیل کی جائے گی۔ پھر آپ نے گھوڑے کی باگ کو موڑتے ہوئے آواز دی ’’ اے صید کجا مے روی کہ رزق مائی ‘‘ ۔ ’’ اے ہرن تو کہاں جا رہا ہے حقیقت یہ ہے کہ تو ہمارا رزق مقسوم ہے ‘‘ ۔آپ کی اس آواز کے ساتھ ہی ’’ یک بار دیدند کہ آہو از رمیدن ماند و بر زمین بیفتاد ‘‘ یعنی لوگوں کو یہ دیکھ تعجب ہوا کہ ہرن بھاگنے سے عاجز آ کر زمیں پر گرا ۔پھر آپ نے فرمایا کہ اب پہنچو اس کے جگر میں سوارخ ہو گیا ہے۔
جناب سیّد غلام صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ جنا ب سیّد نا غوث اعظم نے فتوح الغیب میں ارشاد فرمایا ہے ۔ ’’ چوں سالک بدرجہ انتہا رسد ولایت حاصلش گرود متخلق مے شود با خلاق اللہ و ظہور مے کند، از حکم کن فیکون اَلفَقْرُا إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ (ترجمہ) جب سالک سلوک کے انتہائی درجے کو پہنچ جاتا ہے تو اس کو ولایت ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے اخلاق میں رنگا جاتا ہے پھر اللہ کی مشیت کے تحت اس سے کن فیکون کا معاملہ اس طرح صادر ہوتا ہے کہ وہ جس وقت کسی کام کے ہو جانے کو چاہتا ہے تو اسے کن کے لفظ سے یاد کرتا ہے پس وہ ہو جاتا ہے سبحان اللہ کیوں نہ ہو سرور دوجہاں ﷺ کا یہ ایک زندہ معجزہ ہے کہ آپﷺ کی امت کے ایسے اولیاء پیدا ہوتے رہے گے جن کے متعلق کسی شاعر نے کہا ہے؎
عیسیٰ کے معجزوں نے مردے جلا دئیے ہیں
حضرتﷺکے معجزوں نے عیسیٰ بنا دیئے
آپ کا ایک خادم ہروقت آپ کے سامنے گذشتہ اولیاء کرام کی کرامات بیان کرتا اور آپ سے طلب کرامت کرتا رہتا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اے درویش کرامت کے درپے نہ ہو ، یاد الٰہی میں مصروف رہو اور حضور ﷺ کی سنت مطہرہ کی متابعت کر، کیونکہ نجات اِسی میں ہے لیکن وہ طلب کرامت پر مصر رہا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ آپ امر با المعروف کے لئے دو آبہ ہشتنگر کی طرف تشریف لے گئے ۔ دو آبہ کے راستے میں دریائے کابل بہتا تھا۔ جس کو بذریعہ کشتی عبور کیا جاتا تھا ۔ آپ اس وقت عراقی گھوڑے پر سوار تھے اور وہی خادم گھوڑے کی رکاب تھامے ہوا تھا جب آپ کشتی کے قریب پہنچے تو آپ نے گھوڑے کی لگام کھینچی اور گھوڑا کشتی میں سوار ہونے کی بجائے دریا میں کود پڑا۔ وہ خادم جو رکاب تھامے ہوا تھا وہ بھی دریا میں گر پڑا ۔ تمام مرید و معتقد پریشان ہو گئے ۔ اور ایک کہرام مچ گیا کہ آپ بمع خادم و سواری دریا میں غرق ہو گئے۔ لیکن چند منٹوں کے بعد آپ بمع سواری و خادم دریا کے دوسرے کنارے پر نظر آنے لگے ۔ اب حیرانگی اور تعجب کا عالم تھا ۔ کوئی آپ کے قدموں کو چومتا، کوئی ہاتھ ۔آپ کے کپڑے ، گھوڑا، اور خادم یہ سب بالکل خشک تھے۔ جب آپ منزل مقصود کو پہنچے ۔ آپ نے خادم کو بلا کر فرمایا۔ ’’ یا عبداللہ ! دید ی قدرتِ الٰہ را ‘‘ ۔ ’’ اے اللہ کے بندے اللہ کی قدرت کو تو نے دیکھ لیا ‘‘ ۔ اس نے نہایت ادب سے عرض کیا کہ ہاں جناب!پھر آپ نے بیان فرمایا کہ پہلے تو گذشتہ اولیاء کی کرامات بیان کیا کرتا تھا۔ ۔ اب اپنی آنکھوں سے یہ ماجرا بھی دیکھا لیا مگر یہ بات یاد رکھنا کہ ’’ ایں ہمہ آنچہ دیدی و شنیدی بازی طفلاں است و کار دیگر است ۔ سالک را ایں کار آفت است و مانع علو درجات است ‘‘ یعنی یہ سب کچھ جو تم نے دیکھا اور سنا چھوٹے بچوں کا کھیل ہے اصلی مقصد کچھ اور ہے نیز سالک کے لئے یہ کرامات جتلانا باعث آفت ہے او ر یہ برتری سلوک اور درجات کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے۔
محدث جلیل جناب شاہ محمد غوث صاحب ؒ فرماتے ہیں ۔ ’’ والد بزرگوار جناب سیّد حسن ؒ ، ایک دفعہ اٹک سے پشاور کی طرف تشریف لا رہے تھے ۔ اتفاق ایسا ہوا کہ آپ وظائف کی کتاب آپ کے خادم سے دریائے اٹک میں گر گئی ۔ خادم بہت پریشان ہوا اور سراسیمگی کے عالم میں اِس پر سکتہ چھا گیا۔ لیکن وہ حضور کی خدمت میں یہ واقعہ بیان کر نے سے قاصر رہا۔ جب آپ نے آٹھ کوس کی مسافت طے کرنے کے بعد قیام کیا اور تہجد کی نماز ادا کرنے کے بعد حسب معمول و ظائف کی کتاب طلب کی، تو خادم پر ہیبت طاری ہوئی اور وہ جواب نہ دے سکا۔ جب آپ نے دوبارہ کتاب مانگی تو اس نے تمام واقعہ بیان کر دیا۔آپ نے جواب دیا ، مجھے تم نے اس وقت اطلاع کیوں نہ دی پھر زبان فیض نشان سے یہ کلمات ارشاد فرمائے۔ ’’ بروبر آبِ ایں دریا کہ بداں دریا ملحق باشد و دست بہ آب کردہ بگو کہ سیّد حسن کتاب خود مے خواہد ‘‘ ۔ ’’ اس دریا کے پانی کی طرف جاؤ جو کہ اس دریا سے ملتا ہے اور ہاتھ بلند کر کے کہو کہ اے دریا ، سیّد حسن ؒ اپنی کتاب تم سے چاہتا ہے اس خادم نے عرض کیا ’’ کہ یا سیدی کتاب از گذرِ اٹک رفتہ است ‘‘ ۔ ’’ جناب کتاب اٹک کو عبور کرتے وقت ہاتھ سے گر گئی تھی ‘‘ ۔آپ نے فرمایا ’’ اے بے خبر کار پروردگار از تدبیرات بیرون است ‘‘ یعنی ’’ اے بے خبر اللہ تعالیٰ کا موں کو تو سمجھنے سے قاصر ہے ۔پھر یہ خادم آپ کے اس ارشاد کے مطابق دریا پر چلا گیا اور بآواز بلند کہنے لگا ’’ اے دریا سیّد حسن اپنی کتاب طلب کرتے ہیں ‘‘ ۔ اِدھر زبان سے یہ الفاظ نکلے ادھر کتا ب سطح آب پر نمودار ہوئی۔ خادم نے فوراً کتاب کو اٹھا لیا۔ تعجب کا مقام تو یہ تھا کہ کتاب جوں کی توں خشک تھی۔ اب تو خادم خوشی سے دوڑتا ہوا ۔ کتاب لیکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ حضرت سیّد غلام صاحب ؒ یہ کرامت تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔ ’’ اولیاء اللہ مظہر ذات و صفات الٰہی اند ہمہ صفات الہٰیہ از ایشاں ظہور مے کنند ‘‘ ۔ ’’ اولیا اللہ ، ذات و صفات باری تعالیٰ ظاہر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے تمام صفات ان کے وجود سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ جب اِس شہباز اَوجِ ولایت کا انتقال ہوا تو ہر شہر اور ہر قریہ سے لوگ آئے ، اور ان میں وہ حضرات بھی موجود تھے جن کا آپ پر قرضہ تھا ۔ حضرت شاہ محمد غوث ؒ فرماتے ہیں کہ جب اس قسم کے لوگ آپس میں گفتگو کرنے لگے تو میں نے یہ خیال کیا کہ یہ اپنے قرضے کی وصولی کے متعلق چہ گوئیاں کر رہے ہیں۔ اِس لئے میں نے ان سے پوچھا کہ تم کیا سرگوشیاں کر رہے ہو ، تو انہوں نے جواب دیا ۔ ’’ کہ اے صاحبزادہ سخن از کشف و کرامات پدر بزرگوار شما مے گوئیم و صنعت ِ پروردگار را مے بینیم کہ بندگانِ خود را چساں تربیت کردہ بمراتب رسانیدہ کہ عقل عاقلاں در غور ایں معنی عاجز و نظر صاحب نظراں قاصر است ‘‘ ۔ ’’ عرض کیا کہ ہم آپ کے والد ماجد کے کشف و کرامات کی باتیں کر رہے ہیں اور اللہ جل جلالہ کی کمال صنعت کو دیکھ رہے ہیں کہ اس نے اپنے بندوں کی کس طرح تربیت فرمائی ہے اور کس قدر بلند و عظیم مراتب پر ان کو پہنچایا ہے کہ بڑے بڑے داناؤں کی عقل اِس کے سمجھنے سے قاصر ہے اور بڑے بڑے عارفوں کی نظر اس کی حقیقت تک پہنچنے سے عاجز ہے ۔ حضرت شاہ محمد غوث ؒ نے فرمایا کہ مجھے بھی تو ذرا اس حقیقت کی کیفیت سے آگاہ کرو تاکہ ذوق حاصل کروں۔ انہوں نے مل کر عرض کیا کہ چند دن پہلے جب ہم نے سیّد حسن صاحب ؒ کی شدت مرض کے متعلق سنا تو ہمیں یہ خیال ہوا کہ اگر حضور کا انتقال ہو گیا۔ تو ہمارے قرضے کا کیا بنے گا۔ ہم سب نے متفق ہو کر یہ فیصلہ کیا کہ بالمشافہ آپ گفتگو کریں۔ جب رات ہوئی تو چند اشخاص جن کے ہاتھوں میں مشعلیں تھیں نمودار ہوئے ۔ ان کی جیبیں اشرفیوں اور روپوں سے بھری ہوئی تھیں۔ ان سب نے ہم کو ایک مقام پر جمع کیا اور کہا کہ ہم کو جناب والا شان حضرت سیّد حسن صاحب نے بھیجا ہے ۔ ہمارے ساتھ حساب کرو تاکہ حضور پر نور کا قرض ادا کر دیا جائے ۔ انہوں نے حساب کے بعد ہر ایک کا قرضہ ادا کر دیا۔ اور یہ حجتیں اور تمسکات آپ کے ہمارے پاس تھے لیکر چلے گئے ۔ اس بھری مجلس نے جب یہ واقعہ سنا تو سب زار و قطار رونے لگے ۔ جناب شاہ محمد غوث ؒ فرماتے ہیں ’’ مجھے اس واقعہ کا کوئی علم نہیں ہے ۔ پھر ان لوگوں نے عرض کیا کہ آپ سیّد حسن صاحب ؒ کے کاغذات دیکھیں اور یہ معلوم کریں کہ ہمارے تمسکات وہاں موجود ہیں یا نہیں ۔ حضرت شاہ محمد غوث صاحب کے اپنے الفاظ ملاخطہ ہوں۔ ’’ از کمال تعجب برجستم و کاغذ برکشادم دیدم کہ ہمہ تمسکات بعینہٰ موجود است ‘‘ یعنی ’’ میں نہایت ہی تعجب کے عالم میں اٹھا ، تمام کاغذات دیکھے ، وہ تمسکات جن کا انہوں نے ذکر کیا جوں کے توں وہاں موجود تھے ‘‘ ۔
اِس واقعہ سے اس امر کی ایک بین دلیل ملتی ہے کہ آپ کی مدد اور اعانت خزانہ غیب سے ہوئی۔ نیز یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایک ایسا شخص جس کے لاکھوں مرید ہوں اور پھر مرید بھی کابل، پشاور اور پنجاب کے گورنر ، حکام اور امرا ہوں مگر اس درویش کامل کی وفات پر یہ امر عیاں ہوتا ہے کہ آپ چند ہزار روپے کے قرضدار ہیں۔
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی درویشی اور مسند ولایت دکانداری نہ تھی بلکہ ایک بانٹنے والا دربار تھا ۔ جہاں ہزار ہا روپے ، گھوڑے ، مال ، مویشی اور غلہ آتا ہے اور برابر غرباء ، مساکین اور بے کسوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے ۔پھر جب اتنی بڑی مسند کا مالک انتقال فرماتا ہے تو مقروض پایا جاتا ہے پھر کس طرح یہ ہو سکتا ہے کہ آپ اپنی وفات کے بعد کوئی چیز چھوڑ کر جاتے جبکہ حضور اکرم ﷺ جن کی تعلیم اور جن کے اخلاق و سنن کی اشاعت آپ کی زندگی کا نصب العین تھا خود بنفس نفیس اس دنیا ء فانی سے سفر کرتے وقت کچھ بھی نہ چھوڑ کر تشریف لے گئے۔
چنانچہ حضرت عمرو بن حارث فرماتےہیں۔
’’ مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ مَوْتِهِ دِرْهَمًا، وَلَا دِينَارًا، وَلَا عَبْدًا، وَلَا أَمَةً، وَلَا شَيْئًا إِلَّا بَغْلَتَهُ الْبَيْضَاءَ، وَسِلَاحَهُ، وَأَرْضًا جَعَلَهَا صَدَقَةً ‘‘
(ترجمہ) حضور اکرم ﷺ نے اپنے وصال کے وقت کچھ بھی نہ چھوڑا ۔ نہ درہم نہ درینا، نہ غلام نہ لونڈی اور نہ کچھ اور، مگر ایک سفید خچر ، ہتھیار اور کچھ زمین جو حضورﷺ صدقہ کر گئے ۔
جب حضور فخر دوعالمﷺ کا یہ حال تھا کہ کچھ بھی نہ چھوڑ کر گئے تو آپ کے سچے اور حقیقی جانشین جو اگرچہ سلاطین زماں پر حکومت کرتے تھے کیسے کچھ چھوڑ کر جاتے ۔ یہی فقر کی بہت بلند پایہ سلامت روی ہے جس کی نظیر فقراء میں بہت کم ملتی ہے۔
وفات
-
حضرت علامہ اجل سیّد شاہ محمد غوث صاحب ؒ تحریر فرماتے ہیں۔ ’’جناب حضرت قبلہ گاہی بروز جمعہ بیست و یکم ذی قعدہ ۱۱۱۵ ہجری یکہزار و یکصد پانزدہ بو د کہ از دار فنا بدارالبقا رحلت فرمووند ‘‘ یعنی ’’ جمعہ کے دن ۲۱ ذی قعدہ ۱۱۱۵ ہجری میں جناب حضرت قبلہ گاہی (والد محترم ) دارفنا سے داربقا کو رحلت فرما گئے ‘‘ ۔
اِس حساب سے کہ آپ کی پیدائش ۱۰۲۳ ہجری میں ہوئی اور وفات ۱۱۱۵ ہجری میں ہوئی آنجناب کی عمر مبارک ۹۲ برس تھی ۔ آپ کی وفات سے پشاور کے علاقہ میں ایک کہرام برپا ہو گیا۔ ہر طرف سے لوگ جوق در جوق ذکرِ الٰہی کرتے ہوئے آپ کے دولت کدہ کی طرف آ رہے تھے۔ ہزار ہا لوگوں نے آپ نے نماز جنازہ ادا کی اور جس مقام پر حضور محبوب سبحانی قطب ربانی سیّد نا سیّد شیخ ابو محمد محی الدین عبدالقادر جیلانی ؒ نے نشاندہی فرمائی وہاں پر اِس آفتاب ِولایت و معرفت ،شہباز معرفت الٰہی سرتاج سلسلہ قادریہ حضرت ابو البرکات سیّد حسن صاحب ؒ کو اسی جگہ دفن کر دیا گیا ۔
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ