alameer-image-list
khtam-nabuwat.jpeg
raises.png
gunbads-madina.jpg
Title: | جواز یا شیخ عبدالقادر جیلانی |
Categories: | کُتب |
BookID: | 16 |
Authors: | فقیر سید مؒحمد امیر شاہ قادری گیلانیؒ |
ISBN-10(13): | 9807651234512 |
Publisher: | شاہ محمد غوث اکیڈیمی یکہ توت پشاور شہر |
Publication date: | 1999 |
Edition: | طبع اوّل |
Number of pages: | 34 |
Language: | Not specified |
Price: | 0.00 |
Rating: |
![]() |
Picture: |
![]() |
Ebook: | Download ebook1.pdf |
Description: |
جواز یا شیخ عبدالقادرجیلانی شیئاًﷲعرضِ مؤلّفالحمد ﷲ رب العٰلمین و العاقبۃ للمتقین و الصلوۃ و السلام علٰی سید المرسلین لا سیما علٰی سیدنا غوث ا لصمدانی، ھیکل یزدانی، شاھباز لا مکانی الشیخ السید عبد القادر المکین الامین وعلٰی اٰلہ الطاھرینامّا بعدفاعوذ باﷲ من الشیطٰن الرجیمبِسمِ اﷲِ الرحمٰنِ الرَّحِیْمِاہل علم سے یہ حقیقت مخفی نہیں کہ روس کی سوویت یونین ٹوٹنے سے کمیونزم کا خطرہ ختم ہو گیا ہے اور اب امریکہ و مغربی ممالک کی نگاہیں اسلامی ممالک پر لگی ہوئی ہیں ۔ وہ مسلمانوں کو فوجی و دفاعی، اقتصادی و معاشی اور سیاسی و سماجی ہر لحاظ سے کمزور کرنے کیلئے مختلف سازشیں اور منصوبے بروئے کار لا رہے ہیں تاکہ مسلمان متحد ہو کر کہیں ایسی قوت نہ بن جائیں جس سے یورپ و امریکہ کے ظالمانہ، سرمایہ دارانہ نظام کیلئے خطرہ پیدا ہو جائے ۔ چنانچہ اسی خوف کے تدارک کیلئے وہ قومی، لسانی اور فرقہ وارانہ مسائل کو ہوا دے کر مسلمانوں کو آپس میں الجھا رہے ہیں تاکہ ملت اسلامیہ کو داخلی طور پر اس قدر منتشر کر دیا جائے تاکہ اسے بین الا قوامی سطح پر ہونے والی اسلام کش پالیسیوں کی طرف توجہ اور غور و فکر کرنے کا موقع ہی نہ مل سکے۔ دشمنانِ اسلام اپنے ان ناپاک اور خطرناک عزائم کی تکمیل کیلئے اسلامی ممالک کی سیاسی، انتظامی اور دینی جماعتوں کے ذریعہ مسلمانوں میں افتراق و تشتّت پیدا کر کے اپنی مطلب براری کی کوشش کر تے ہیں۔ ہمارا پریس اس صورتحال سے ہر گز بے خبر نہیں بلکہ اکثر اخبارات و رسائل مختلف اوقات میں مسلمانوں کی شیرازہ بندی کیلئے اتفاق ا تحاد اور اخوت و یکجہتی کے موضوعات پر قابلِ قدر مضامین شائع کر تے رہتے ہیں۔ نیز امریکہ اور یورپ کی اسلام دشمن پالیسیوں کو بھی بے نقاب کر تے رہتے ہیں۔لیکن روزنامہ ’’مشرق‘‘ گزشتہ کچھ عرصہ سے فرقہ واریت پر مبنی مضامین شائع کر رہاہے۔ جبکہ ۲۴ ستمبر ۱۹۹۹ء کو روزنامہ ’’مشرق ‘‘پشاور کے جمعتہ المبارک ایڈیشن میں ایک ایسا دِل آزار مضمون شائع ہوا جس سے وطن عزیز کے دینی و روحانی طبقہ کو سخت صدمہ پہنچا۔ اس میں مملکت خداداد پاکستان کے اکثریتی طبقے سواداعظم اہلسنّت کے عقائدو معمولات کو ہدفِ تنقید بناتے ہو ئے لکھا گیا کہ ’’ یاشیخ عبدالقادر جیلانی شیأًﷲ‘‘ شرک ہے۔ اس قسم کے مضامین کی اشاعت سے دین کی تو کوئی خدمت نہیں ہوئی البتہ امریکہ کے نیوورلڈ آرڈر کی تعمیل یعنی امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اختلافات کو ہوا دیکر پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کر نے کا عندیہ ضرور ملتا ہے۔ کسی قوم کی اس سے بڑھ کر بدقسمتی اور حرماں نصیبی اور کیا ہوسکتی ہے کہ جن عظیم المرتبت ہستیوں نے کفرو شرک اور گمراہی کے اندھیروں کو دور کیا، آج ان کا نام لینا ’’کھلا شرک‘‘ قرار دیا جائے حالانکہ ان ہستیوں کے متعلق آنے والی نسلوں کا رویہ از روئے قرآن جو ہونا چاہئے اس کا ذکر اﷲ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا ہے وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٠﴾ (سورہ حشر ۵۹:۱۰) ترجمہ:اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کر تے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دِل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ۔ اے ہمارے رب بیشک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے۔ حضرت علامہ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی اس آیت کریمہ کے ضمن میں لکھتے ہیں:’’اس آیت کا ہم سے مطالبہ یہ ہے کہ ہم سلف صالحین اور ایمان و احسان کے شعبہ کے امام وپیشرو بزرگوں کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے، ان کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے اور ان پر کسی قسم کا حکم لگانے میں احتیاط سے کام لیں اور اس میں کسی عجلت اور جذباتیت کا مظاہرہ نہ کریں اور جب تک پوری طرح کسی مسئلہ کا اطمینان نہ ہو جائے اس پر قطعی حکم لگانے سے باز رہیں‘‘۔(ابوالحسن علی ندوی،’’ربانیہ لا رہبانیہ‘‘ اردو ترجمہ’’ تزکیہ و احسان‘‘از محمد الحسنی، مجلس نشریات اسلام کراچی، صفحہ ۱۰) اور اﷲ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ﴿٦﴾ (سورہ الحجرات۴۹:۶) ترجمہ:اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ‘‘۔ لیکن روزنامہ ’’مشرق‘‘ نے قرآن کریم کے ان واضح ارشادات کے باوجود بغیر تحقیق ’’کھلا شرک‘‘ کے عنوان سے جو کچھ شائع کیا اس کی رو سے گزشتہ ایک ہزار سال سے آج تک ’’یا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی شئًا ﷲ‘‘ کا ورد کرنے والے جلیل القدر اولیاء ﷲ، مشائخ عظام، علماء کرام اور عامتہ مسلمین مشرک ٹھہرے۔ یہاں یہ حقیقت بھی مدنظر رہنی چاہئے کہ علماء کرام فرماتے ہیں کہ اگر کسی کی طرف سے کسی دوسرے شخص پر کفر یا شرک کا الزام عائد کیا جائے اور حقیقتاً اُس شخص میں کفر و شرک نہ پایا جائے تو یہ کفر کہنے والے کی طرف لوٹ جاتا ہے گویا دوسرے کو کافر یا مشرک کہنے والا مشہور کرنے والا خود کافر اور مشرک ہو جاتا ہے۔ روزنامہ ’’مشرق‘‘ کے اس عاقبت نا اندیشانہ مضمون پر حضرات علمائے اہلسنّت سے استفتاء طلب کیا گیا ہے۔ چنانچہ فوری طور پر پشاور کے تین جید ترین علماء اہل سنت کے فتاویٰ موصول ہو چکے ہیں۔ ان میں سے ایک فتاویٰ مفتی سرحد علامۂ اجل حضرت علامہ مفتی خلیل الرحمن صاحب قادری نقشبندی گلوزئی پشاور اور دوسرا محسن اہلسنّت مصنف کتب کثیرہ حضرت علامہ ظاہر شاہ صاحب مدین سوات کے رشحات قلم کا نتیجہ ہے جو اہلِ سنت و اہل طریقت کے اصرار پر شائع کئے جا رہے ہیں اور تیسرا علامہ محمد کمال عرف گل کمال مولوی صاحب سوڑیزئی پشاور کا فتویٰ بھی شامل ہے جن سے شکوک و شبہات کے بادل چھٹ جائیں گے اور حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جائے گی۔ ملک کے دیگر حصوں سے ملنے والے فتاویٰ بھی طبع کروا کر قارئین کی خدمت میں پیش کئے جائیں گے، ان شاء اﷲ۔ یہ فقیر بھی اس ضمن میں چند معروضات پیش کر تا ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور علماء کرام کے ملفوظات و تحقیقات آپ کی نذر کی جارہی ہیں تاکہ آپ خود سچ و جھوٹ اور حق وباطل میں تمیز کر سکیں۔ سب سے پہلے تو اس ورد ’’ یاحضرت شیخ عبدالقادر جیلانی شئًاﷲ‘‘ کے معنی پر توجہ فرمائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’اے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ، اﷲ تعالیٰ کے نام پر مجھے کچھ عطاء فرمائیں‘‘۔ اخبار لکھتا ہے کہ یہ وِرد ختم غوثیہ میں پڑھا جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ ’’ختم غوثیہ‘‘ کیا ہے؟ تو اہلِ طریقت بخوبی جانتے ہیں کہ یہ ختم غوثیہ قرآن کریم کی آیات مبارکہ، درود شریف اور اوراد وظائف کا مجموعہ ہے جو گزشتہ تقریباً ایک ہزار سال سے عرب و عجم کے مشائخ وعلماء کے ہاں پڑھا جارہا ہے۔ اور اسی میں یہ کلمہ مبارک بھی ہے جس پر موصوف کو اعتراض ہے کہ غوثِ اعظم سے کچھ مانگنا یا مدد طلب کر نا شرک ہے۔ تو آئیے پہلے قرآن کریم سے پوچھتے ہیں کہ کیا واقعی کسی مؤمن سے کچھ مانگنا یا مدد طلب کرنا شرک ہے؟ قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ عليه السلام کی انسانوں سے مدد طلب کرنے کا واقعہ ﷲ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا : قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّـهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّـهِ﴿١٤﴾ِ (الصف ۶۱:۱۴) ترجمہ:عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کون ہے جو ﷲ کی طرف ہو کر میری مدد کریں۔ حواری بولے ہم دین خدا کے مددگار ہیں۔ سبحان ﷲ! حضرت عیسیٰ عليه السلام اپنے پیروکاروں سے مدد طلب کر رہے ہیں۔ اگر انسان سے مدد طلب کرنا واقعی شرک ہے تو کیا حضرت عیسیٰ عليه السلام جیسے پیغمبر نے شرک کیا، معاذ اﷲ؟ اور پھر اس کے شرکیہ کلمات ﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی نقل فرما دیئے حالانکہ قرآن تو کفر و شرک کو ختم کرنے کیلئے نازل کیا گیا ہے جبکہ اسی قرآن میں ﷲ تعالیٰ نے خود مسلمانوں کو ایک دوسرے سے تعاون کر نے اور مدد کرنے کا حکم ان الفاظ میں دیا ہے: وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴿٢﴾ِ(المائدہ ۵:۲) ترجمہ:اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔ جبکہ ایک اور مقام پر ایک دوسرے کی مدد کی ترغیب ان الفاظ میں دی گئی وَمَالَکُمْ لَا تَنَاصَرُوْنَ ترجمہ:ﷲ تبارک و تعالیٰ خود بھی مؤمنوں کا مددگار ہے جس کا ذکر یوں فرمایا: اللَّـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا﴿٢٥٧﴾ ِ(البقرہ :۲۵۷) ترجمہ:ﷲ تعالیٰ ان لوگوں کا مدد گار ہے جو ایمان لائے۔ اور مؤمن بھی آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے: وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ﴿٧١﴾ ِ(التوبہ ۹:۷۱) ترجمہ:اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ ان آیاتِ کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ﷲ تعالیٰ مؤمنوں کا ولی، کارساز، دوست اور مددگار ہے اور مؤمن بھی آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ البتہ ﷲ تعالیٰ مدد کرنے میں کسی کا محتاج نہیں وہ بذاتِ مستقل اور حقیقی طور پر مدد کرنے والا ہے جبکہ اولیاء ﷲ اس کی عطاء سے مجازی طور پر مؤمنوں کی مدد فرماتے ہیں۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اگر کوئی شخص ﷲ تعالیٰ کے اولیاء کرام سے خصوصاً غوث اعظم دستگیر رضي الله ﺗﻌﺎﻟﯽٰ عنه سے مدد طلب کرتا ہے تو یہ جائز اور قرآن کی رُو سے عین اِیمان ہے۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی ایک دوسرے سے مدد لینے کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضي الله ﺗﻌﺎﻟﯽٰ عنه سے روایت ہے کہ اگر کوئی شخص صحرا یا جنگل میں پھنس جائے یا راستہ بھول جائے تو وہ بلند آواز سے پکارے یا عِبادَ ﷲِ اَعِیْنُوْنِی یعنی اے اﷲ کے بندو میری مدد کرو ِ(حصن حصین صفحہ ۲۰۳) حضرت علامہ ملا علی قاری رحمتہ الله علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ عباد ﷲ سے ملائکہ یا مسلمان یا جن یا رجال الغیب یعنی ابدال (اولیاء ﷲ) مراد ہیں۔ نیز لکھتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے مسافروں کو اس کی سخت ضرورت ہے اور یہ عمل مجر ب ہے۔ ِ(شرحِ حصن حصین، از ملا علی قاری، بحوالہ ’’جاء الحق‘‘ مفتی احمد یار خان، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور، حصہ اوّل، صفحہ ۱۹۸) حضرت شاہ عبدالعزیز محدثِ دہلوی رحمتہ الله علیہ اپنی تفسیر عزیزی میں تحریر فرماتے ہیں: ’’بایدفہمید کہ استعانت از غیر بوجہے کہ اعتماد باشد و اور اعوانِ الٰہی نداند حرام است و اگر التفات محض بجانب حق است و اور ایکے از مظاہر عونِ الٰہی دانستہ و بکارخانہ اسبابی و حکمت او تعالیٰ در آں نمودہ بغیر استعانت ظاہر نماید دور از عرفان نخواہد بود و در شرع نیز جائز و رواست در انبیاء و اولیاء ایں نوع استعانت تعبیر کردہ اندودر حقیقت ایں نوع استعانت لغیر نیست بلکہ استعانت بحضرتِ حق است لا غیر‘‘۔ ِ(شاہ عبدالعزیز، تفسیر عزیزی، صفحہ ۲۰) ترجمہ: جاننا چاہئے کہ غیر کی استعانت یعنی مدد پر بھروسہ رکھے اور اُسے استعانتِ الٰہی نہ جانے تو یہ حرام ہے لیکن توجہ ﷲ تبارک و تعالیٰ کی طرف ہو اور اسے استعانت الٰہی کا مظہر اور ﷲ تعالیٰ کی حکمت اور کارخانہ اسباب سمجھ کر اس سے ظاہری طور پر مدد مانگی تو یہ معرفت سے دور نہیں اور شریعت میں جائز اور درست ہے اور انبیاء و اولیاء سے مدد مانگنا اسی طرح کی استعانت ہے کیونکہ درحقیقت اس قسم کی استعانت غیر ﷲ کی استعانت نہیں بلکہ یہ تو ﷲ تعالیٰ ہی کی استعانت ہے‘‘۔ اسی طرح ’’تفسیر عثمانی‘‘ جو مولانا محمود الحسن دیو بندی اور مولانا شبیر عثمانی دونوں کی مشترکہ کاوش ہے اس میں مولانا موصوف اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن کے تحت لکھتے ہیں: ’’اگر کسی مقبول بندہ کو واسطۂ رحمت الٰہی اور غیر مستقل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کرے تو یہ جائز ہے کہ یہ استعانت درحقیقت حق تعالیٰ ہی کی استعانت ہے‘‘ ۔ سبحان ﷲ مسئلہ کو بالکل واضح فرما دیا۔ اب غور فرمائیں کہ ﷲ تعالیٰ نے حضور غوث اعظم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو عرب و عجم میں جو مقبولیت عطا فرمائی ہے اس میں مُسلسل اضافہ ہو تا چلا آرہا ہے ۔لہٰذا اگر اس مقبول ترین ہستی سے استعانت طلب کی جائے تو یہ جائز ہے اور یہ درحقیقت حق تعالیٰ ہی کی استعانت ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز رحمتہ الله علیہ جو علمائے ہندوستان کے اُستاذ اور رہنماہیں اپنی کتاب ’’بستان المحدثین‘‘میں حضرت شیخ شہاب الدین ابوالعباس احمد المعروف شیخ زروق کے متعلق لکھتے ہیں: ’’اُن کے مرتبہ کمال کو لکھنا تحریر وبیان سے باہر ہے۔ وہ متاخرین صوفیاء کرام کے اُن محققین میں سے ہیں جنہوں نے حقیقت و شریعت کو جمع کیا ہے اور بڑے بڑے علماء نے اُن کی شاگردی پر فخر و ناز کیا ہے۔ قصیدۂ جیلانیہ (غوثیہ) کی طرز پر ان کا ایک قصیدہ ہے جس کے بعض ابیات یہ ہیں اناالمریدی جامع لشتاتہ اذما مطٰی جور الزمان بنکبتہترجمہ: یعنی میں اپنے مرید کی پریشان حالی کو تسلی دینے ولاہوں جب زمانہ نکبت وادبار سے اُس پر حملہ آور ہو۔ وان کنت فی ضیق وکرب ووحشتہٖفنا دبیا زرّوق اٰتِ بسر عتہٖترجمہ: یعنی اگر تم کسی تنگی بے چینی اور وحشت میں ہو تو یا زرّوق کہہ کر پکارو میں فوراً آ موجود ہوں گا۔ یعنی اگر تم کسی تنگی بے چینی اور وحشت میں ہو تو یا زرّوق کہہ کر پکارو میں فوراً آ موجود ہوں گا۔حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمتہ الله علیہ کی تفسیر اور حدیث کی کتابوں سے آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اولیاء اﷲ کی استعانت غیر ﷲ کی استعانت نہیں ہے بلکہ یہ تو ﷲ تعالیٰ ہی کی استعانت ہے اور یہاں پر تو حضرت شیخ زرّوق کا جو یہ قول آپ نے نقل فرما یا تو سوچنے اور غور و فکر کر نے کا مقام ہے کہ کیا شیخ زرّوق جیسے عظیم المرتبت عالم، محدث، صوفی اور محقق لوگوں کو شرک کی تعلیم دے رہے ہیں اور پھر شاہ عبدالعزیز صاحب اسے ’’بستان المحدثین‘‘ میں نقل کر کے اس شرک کو عام کر رہے ہیں؟۔۔۔ العیاذ باﷲ خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خردجو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرےنیز حضور غوث الثقلین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو ﷲ تعالیٰ نے اس کائنات میں جو تصرفات عطا فرما رکھے ہیں ان کے متعلق حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے والد گرامی قدر حضرت شاہ ولی ﷲ صاحب محدث دہلوی رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں: ’’ حضرت علی المرتضیٰ کے بعد اولیاء کرام اور اصحابِ طریقت کا سلسلہ چلتا ہے ان میں سب سے زیادہ قوی الاثر بزرگ جنہوں نے راہِ جذب کو باحسن وجوہ طے کرکے نسبت اویسی کی اصل کی طرف رجوع کیا اور اس میں نہایت کا میابی سے قدم رکھا وہ شیخ عبدالقادر جیلانی کی ذات گرامی ہے۔ اسی بناء پر آپکے متعلق کہا گیا ہے کہ موصوف اپنی قبر میں بھی زندوں کی طرح تصرف کر تے ہیں ‘‘۔ ِ(شاہ ولی اﷲ ، ہمعات اردو ترجمہ محمد سرور، سندھ ساگر اکادمی، لاہور ۱۹۶۴ ء، صفحہ ۱۲۷) حضور غوثِ اعظم محبوب سبحانی رضي الله ﺗﻌﺎﻟﯽٰ کی شان کا ذکر کرتے ہوئے شاہ ولی ﷲ صاحب مزید تحریر فرماتے ہیں: ’’ آج اگر سالک کو کسی خاص روح سے مناسبت حاصل ہو جائے اور وہاں سے اُسے فیض پہنچے تو اس واقعہ کی اصل حقیقت غالباً یہ ہو گی کہ اُسے یہ فیض یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے حاصل ہوا یا امیر المومنین حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی نسبت سے یا اسے یہ فیض حضرت غوث اعظم کی نسبت سے ملا ‘‘۔ ِ(شاہ ولی اﷲ ، ہمعات اردو ترجمہ محمد سرور، سندھ ساگر اکادمی، لاہور ۱۹۶۴ ء، صفحہ ۱۲۷) گویا حضور غوث اعظم رضي الله ﺗﻌﺎﻟﯽٰ کا فیض اب بھی مؤمنین کو پہنچ رہا ہے اور ﷲ تعالیٰ نے انہیں ایسی قدرت عطاء فرما رکھی ہے کہ وہ اپنے روضہ مبارک بغداد شریف سے زندوں کی طرح اپنے مریدین و متوسلین کی استعانت فرما رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ﷲ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو جو بے پایاں فضل و کرم، عنایات اور بخششوں سے نوازا اُن کو عام کرنے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مستفیض کرنے کیلئے آپ رضي الله ﺗﻌﺎﻟﯽٰ نے فرمایا جسکے راوی حضرت شیخ ابوالحسن علی خباز ہیں۔ وہ حضرت شیخ ابو القاسم عمر بزاز سے روایت کرتے ہیں جسے حضرت ملا علی قاری رحمتہ الله علیہ نے اپنی کتاب ’’ نزہتہ الخاطرالفاتر ‘‘ میں نقل فرمایا کہ ’’من استغاث لِیْ فی کربۃِِ کشفت عنہ و من نادانی باسمی فی شدّۃ فُرجت عنہ و من توسل بی الی اﷲ فی حاجۃ قضیت‘‘ ترجمہ: جو شخص مصیبت میں مجھ سے مدد مانگے تو اس کی مصیبت دُر ہو گی اور جو غم واندوہ کی شدت میں میرا نام لے کرمجھے پکارے تو اس سے وہ شدت اور سختی دُر ہو جائے گی اور جو شخص کسی حاجت کیلئے حق تعالیٰ کے حضور میرا وسیلہ پیش کرے تو اُ س کی حاجت پوری ہوگی‘‘۔ اب آ پ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ ۔۔ الخ اور مَالَکُمْ لَا تَنَاصَرُوْنَ والی آیاتِ کو سامنے رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ یہ ﷲ تعالیٰ کے حکم کے عین مطابق ہے۔ اور یہ بھی آپ جانتے ہیں کہ اولیاء ﷲ کو ﷲ تعالیٰ کی مخلوق سے بہت محبت ہوتی ہے، وہ اِس کوشش میں رہتے ہیں کہ مخلوقِ خدا کی خدمت کر یں اور اُن کے مصائب و مشکلات دوُر فرمائیں اور پھر حضور غوثِ اعظم رضي الله ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ولایت کبریٰ کے جس بلند ترین مقام پر فائز ہیں اس کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر میں امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو درد موجود ہے اس کا اندازہ بھی آپ کے اس فرمانِ عالی سے بخوبی ہو سکتا ہے۔اب آخر میں حضرت امام غزالی رحمتہ الله علیہ کے اس قول پر بھی توجہ مبذول فرمائیں، آپ فرماتے ہیں ’’ مَنْ یُّسْتَمَدُّفِیْ حِیَاتِہٖ یُسْتَمَدُّ بَعْدَوَفَاتِہٖ ‘‘ ِ(حاشیہ مشکٰوۃ المصابیح، باب زیارت القبور) ترجمہ: جس سے زندگی میں مدد مانگی جا سکتی ہے اس سے وفات کے بعد بھی مدد مانگی لہٰذا ثابت ہوا کہ حضور غوث اعظم رضي الله ﺗﻌﺎﻟﯽٰ سے مدد مانگنا اب بھی جائز ہے اور اہلسنّت ،اہلِ طریقت کا یہ ورد کہ ’’ یا شیخ عبدالقادر جیلانی شئًاَ ﷲ ‘‘ شرک ہر گز نہیں بلکہ ایمان کی نشانی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ایسے گمراہ فرقوں سے محفوظ رکھے جو اولیاء ﷲ کے فیوض و برکات ، کرامات اور مکشوفات کے منکر ہیں۔ فقیر) محمد امیرشاہ قادری گیلانی)یکہ توت پشاور |