سیّد محمد امیر شاہ قادری الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ
بیسوی صدی عیسویٰ کے اوائل میں آسمانِ علم وعرفان پر ایک درخشندہ ستارے کا ظہور ہوا۔ جس کی ضوفشانیوں اور تابانیوں نے ایک عالم کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا ۔ عمدۃ المفسیرین و شیخ المحدثين ، سیّدالفقراء ، قطب الاشاد، حضرت علامہ سیّد محمد امیر شاہ قادری گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش ۱۹۲۰ء میں پشاور میں ہوئی۔ جو کہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کا ایک مشہور کثیر القومی شہر ہے ۔ آنجناب کا نسبی تعلق سلطان الاولیاء ، محبوب سبحانی حضرت سیّدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر الحسنی الحسینی الجیلانی رضی اللہ عنہ سے ہے۔ آنجناب رحمۃ اللہ علیہ کے والد گرامی قدر جناب بُرہان العاشقین حضرت حافظ سیّد محمد زمان شاہ قادری گیلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے بلند پایہ علمی ، ادبی ، سیاسی و روحانی شخصیت تھے ۔
حضرت علامہ سید محمد امیر شاہ قادری گیلانی رحمۃ اللہ علیہ بچپن سے ہی علوم دینیہ کی جانب ایک خصوصی شغف اور شوق رکھتے تھے۔ آپ کے والد گرامی قدر نے آپ کے اس رجحان کو بچپن سے ہی محسوس فرما لیا تھا لہٰذا انہوں نے آنجناب کو پشاور شہر کے جید و مقتدر علماء کی شاگردی میں دے کر ان کی تعلیم کا بہترین بندوبست فرمایا ۔
آنجناب رحمۃ اللہ علیہ کے چند اساتذہ کے اسماء گرامی درجہ ذیل ہیں۔
شیخ التفسیر و الحدیث حضرت علامہ صاحبزادہ حافظ علی احمد جان صاحب نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ
صدر الافاضل ، صوفی باصفاء شیخ الحدیث حضرت صاحبزادہ علامہ مولانا گل فقیر احمد صاحب چشتی رحمۃ اللہ علیہ
امام حرّیت مفتی سرحد حضرت علامہ مولانا عبدالرحیم پوپلزئی رحمۃ اللہ علیہ
شیخ الحدیث حضرت علامہ فقہیہ عصر ، مولانا محمد ایوب شاہ صاحب حنفی جعفری رحمۃ اللہ علیہ
آپ کے دادا جناب حضرت سید سعید احمد شاہ صاحب قادری گیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے علوم دینیہ سے خصوصی لگاؤ اور ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے آپ کو ’’مولوی جی ‘‘ کا خطاب عطاء فرمایا ۔ جو دیکھتے ہی دیکھتے زبان زد خلائق ہو گیا اور ہر بچہ بڑا آپ کو اسی نام سے پکارنے لگا۔ آپ نے دینی علوم کی تکمیل فرمانے کے بعد خود درس و تدریس اور علوم دینیہ کی تبلیغ اور اشاعت کا آغاز فرمایا ۔
آپ کے والد گرامی جناب حافظ سیّد محمد زمان شاہ صاحب قادری گیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو ۱۹۴۸ ء سلسلہ عالیہ قادریہ حسینہ میں بیعت فرمایا اور اپنے دست مبارک سے دستار عطاء فرما کر صاحب سجادہ و مجاز فرمایا۔
مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن و حدیث اور فقہ و تصوف کی تعلیمات و اشاعت کا کام تندہی اور شبانہ روز کی محنت سے سر انجام دیا ۔ اگر آپ کی حیات مبارکہ کئی حوالوں سے عوام کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ پاکستان کے بالعموم اور شہر پشاور کے بالخصوص ایک عظیم المرتبت دینی اور روحانی رہنما کی حیثیت سے خدمتِ خلق میں مصروف رہے اور عوام کی تعلیم و تربیت فرماتے رہے ۔اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود آپ نے اپنی زندگی مبارکہ کے ۵۹ برس درس و تدریس اور تعلیم و تربیت کے لئے وقف فرمائے۔ آپ نے علوم دینیہ کی اشاعت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ہر سطح پر برابر رابطہ استوار رکھا اسی لئے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہونے والے تمام احباب کا یہی کہنا ہے کہ مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ سب سے زیادہ پیار انہی سے کرتے تھے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے کئی شاگردوں نے آپ سے علوم کی تکمیل فرمانے کے بعد دین اسلام کی اشاعت کے پیغام کو آگے بڑھایا اور کئی دیگر علاقوں میں درس کے حلقے جاری فرمائے ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیشہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ذکر کی تلقین فرمائی اور عشق رسول ﷺ کے جذبۂ صادقہ کو عوام الناس میں پروان چڑھانے کی سعی اور کوشش فرمائی ۔انہی کوششوں کے سلسلے میں آنجناب رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۹۵۵ ء میں پشاور سے ایک دینی و علمی و روحانی مجلہ ’’پندرہ روز الحسن‘‘ جاری فرمایا۔ جو الحمد للہ آج بھی جاری ہے اور علم و تحقیق کے میدان میں اپنے کار ہائے نمایاں کی بدولت اہل علم و دانش سے خصوصاً اور عوام الناس سے عموماً داد تحسین حاصل کر چکا ہے ۔
دین اسلام کی اشاعت و ترویج کے حوالے سے آپ کی تصنیفی خدمات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔تحریری میدان میں آپ نے ملکہ عالم جوانی میں ہی حاصل فرما لیا تھا اور یہ سلسلہ آنجنابؒ کی تمام زندگی مبارکہ میں جاری و ساری رہا ۔ آپ نے مختلف موضوعات پر کئی کتب تصنیف و تالیف فرمائی جن میں چند مشہور اردو تفسیر القرآن الحسنیہ ، شمائل نبویہ ﷺ المعروف بہ شمائل ترمذی کا اردو ترجمہ و تشریح ، خصائص نسائی کا اردو ترجمہ و تشریح اور شرح غوثیہ (فارسی) جو کہ صحیح بخاری شریف کی فارسی شرح ہے اس کا اردو میں ترجمہ فرمایا جو کہ شاہ محمد غوث اکیڈمی پشاور کے زیر اہتمام چھپ چکی ہیں۔ اس اکیڈمی کا قیام بھی آنجناب ؒ نے خود ۱۹۹۲ ء میں فرمایا ۔مختلف عوارض جسمانی اور ضعف بصارت کے باوجود آپؒ نے درس و تدریس اور تصنیف و تالیف و تحقیق کی مصروفیات ترک نہیں فرمائیں بلکہ پہلے سے زیادہ اہتمام سے انہیں جاری رکھا ۔
مولوی جی ؒ کی حیات مبارکہ ہر لحاظ سے ایک مصروف عمل زندگی تھی ۔ آپ ایک ہمہ جہت اور عبقری الصفت شخصیت تھے ۔ جن کی نظیر اس دور میں ملنی ناممکن ہے ۔ آپ نے اپنی زندگی میں عوام الناس کی ہر پہلو سے رہنمائی فرمائی ۔ آپ نے بیک وقت تحریک آزادی اور قیام پاکستان کے انتھک مجاہد ، ایک سیاسی مدبر ، ایک دینی و روحانی رہنما کا کردار خوش اسلوبی سے سر انجام دیا ۔ان سب سے بڑھ کر وہ ایک عظیم انسان بھی تھے ۔ جو کہ اپنے اعلیٰ اخلاق و کردار کی وجہ سے ایک مثالی شخصیت تھے ۔
آپ ؒ نے انگریز راج سے آزادی اور قیام پاکستان کی جدوجہد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے میدان سیاست میں بھرپور حصہ لیا چونکہ آپ کا خانوادۂ مبارکہ صدیوں سے عوام الناس کی زندگی کے ہر میدان میں رہنمائی کا فریضہ پورا کرتا آیا ہے ۔ لہٰذا آپؒ نے بھی عوام کی سیاسی رہنمائی کا فریضہ بہ احسن سرانجام دیا اور اپنے اسلاف کی عظیم الشان روایات کو برقرار رکھا ۔تحریک قیام پاکستان کے دنوں میں آپ کی رہائش گاہ ہندوستان کے شمال مغرب میں آل انڈیا مسلم لیگ کا مرکز تصویر کی جاتی تھی اور ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ سمجھی جاتی تھی ۔ آپ کے والد گرامی جناب حافظ سید محمد زمان شاہ قادری گیلانی ؒ صوبہ خیبر پختونخوا کے سب سے پہلے شیخِ طریقت اور روحانی رہنما تھے جنہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شرکت فرمائی ۔ تحریک قیام پاکستان کے ایام میں آپ کی رہائش گاہ واقع یکہ توت میں ایک خفیہ ریڈیو سٹیشن ’’صدائے پاکستان‘‘ بھی کام کرتا رہا جس کے ذریعے سے مسلم لیگ کا پیغام عوام تک پہنچایا جاتا رہا اور عوام کو تحریک آزادی ہند و قیام پاکستان کے حوالے سے تمام سر گرمیوں سے آگاہی فراہم کی جاتی رہی ۔ اس ریڈیو سٹیشن کا باقاعدہ آغاز مولوی جی ؒ نے قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ فرمایا ۔
دنیا کے نقشہ پر مملکت خداداد پاکستان کے قیام کے بعد مولوی جی ؒ سیاسی طور پر جمعیت علماء پاکستان سے منسلک ہو گئے اور پارٹی میں کئی کلید ی عہدوں پر فرائض سر انجام دئیے۔ آپ نے ہمیشہ اخلاص و للہٰیت کے ساتھ عوام الناس کی بروقت رہنمائی فرمائی اور صرف رضائے الٰہی کے لئے ہمہ وقت تندہی کے ساتھ مشغول رہے ۔
آپ نے ہمیشہ پاکستان میں جمہوری اقدار کے فروغ اور نظامِ مصطفیٰ ﷺ کے نفاذ کی کوششوں میں حصہ لیا ۔آپ ؒ نے سیاسی و جمہوری قوتوں کے ہر اُس کام اور کوشش میں تعاون فرمایا جس کا مقصد پاکستان کے عوام کی بھلائی تھا۔ مختلف سیاسی جماعتوں اور فوجی حکمرانوں کی جانب سے کئی بار آنجناب ؒ کو اہم اور پر کشش عہدوں کی پیشکش کی گئی لیکن آپ ؒ نے ہمیشہ ایسی پیشکشوں اور مراعات کو ٹھکرایا اور فقیری کو حکمرانی پر ہمیشہ ترجیح دی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے عوام میں موجود رہ کر اُن کی خدمت فرمائی اور اپنے مریدین و متعلقین کو بھی احد من النَّاس یعنی عام انسانوں میں سے ایک بن کر رہنے کی تلقین فرمائی ۔
مولوی جی ؒ نے ایک مصلح کا کردار بھی بخوبی نبھایا اور معاشرہ میں موجود سماجی و اخلاقی برائیوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات اور دین اسلام کا سچا پیغام لوگوں تک پہنچایا اور عوام الناس کے قلوب و اذہان میں عشق رسول ﷺ کا سچا جذبہ پیدا فرمایا ۔ آپ ؒ نے نوجوان طبقہ کی بھی مکمل رہنمائی فرمائی اور جدید علوم سے ناواقفیت کی بنا ء پر نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی کا سدِ باب فرمایا ۔ آپ ؒ نے نوجوانوں کی اس امر پر رہنمائی فرمائی کہ وہ عصر حاضر کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے دیگر علوم کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی میں بھی مہارت حاصل کریں تاکہ اُمت مسلمہ کو در پیش عصری خطرات کا بروقت اور مؤثر مقابلہ کیا جا سکے۔ آپؒ نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ ہر علم اور پیشہ کا بنیادی مقصد خدمت خلق ہونا چاہیے ۔
مختلف ملکی و مقامی تنظیمیں آپ کی سر پرستی میں فلاح معاشرہ اور اشاعت اسلام کے امور سرانجام دیتی رہیں۔ آپ نے ہمیشہ اپنے مریدین کی اصلاح و تربیت ایک دوست کی طرح فرمائی ۔ آپؒ اس حد تک مشفق اور مہربان شخصیت تھے کے ہر بچہ ، بوڑھا و جوان اپنے مسائل پر آپ کے ساتھ بےتکلفی سے بات کر سکتا تھا اور آپ ؒ ہر مسئلہ پر اُن کی رہنمائی فرماتے ۔
آنجناب رحمۃ اللہ علیہ نے حج بیت اللہ اور متعدد بار عمرہ کی سعادت حاصل فرمائی ۔ آپ نے مختلف مالک کے سفر بھی فرمائے جن میں افغانستان ، ایران ، عراق ، کویت ، سعودی عرب اور امریکہ کابل ذکر ہیں۔
آپؒ نے ۲۰۰۴ ء میں بوجۂ عارضہ ٔ قلب ۸۵ برس کی عمر میں انتقال فرمایا اور آپؒ کے جسد خاکی کو آپ کے جد امجد درگاہ عالیہ حضرت ابوالبرکات سیّد حسن قادری گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کوہاٹ روڈ پشاور کے جوار میں دفن کیا گیا جہاں آپؒ کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے۔ آپ ؒ پشاور کی اُن چند عظیم ہستیوں میں سے تھے جن کی نظیر ناممکن ہے ۔آپؒ نے اپنی اولاد میں سات بیٹے اور دو بیٹیاں اور ہزاروں مریدین و تلامذہ سوگوار چھوڑے ہیں۔
آپ کے صاحبزادگان میں سے جناب حضرت آقا سیّد محمد نور الحسنین قادری گیلانی المعروف سلطان آغا مدظلہ العالی اپنے والد محترم کے اس عظیم مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور عوام النّاس کی رہنمائی کا فریضہ بہ احسن سرانجام دے رہے ہیں۔