مولوی جیؒ: روحانی رواداری 

از ایبٹ آباد شبیرحسین اِمام ستائیس صفرالمظفر چودہ سو اکتالیس ہجری ستائیس اکتوبر دوہزار اُنیس

پشاور کی سرتاج روحانی شخصیت‘ پروردہ آغوش غوث الوریٰ‘ پیر طریقت‘ حضرت سیّد محمد اَمیر شاہ قادری گیلانی قدس اللہ تعالیٰ سرہ العزیز المعروف مولوی جی رحمة اللہ علیہ (دس رمضان المبارک 1337ہجری بمطابق 3 جون 1919ء سے بارہ و تیرہ رمضان المبارک کی درمیانی شب 1425 ہجری بمطابق ستائیس اکتوبر 2004) اِس جہان فانی سے پردہ فرما گئے۔ آپ کے واصل بحق ہونے کی مناسبت سے ’15ویں شایان شان عرس مبارک‘ کے سلسلے میں قرآن خوانی‘ ختم غوثیہ‘ نعت و منقبت کی صورت اظہار عقیدت و عقیدہ اُور دعائیہ محافل آج (28 اکتوبر) دن بھر‘ آستانہ عالیہ کوچہ آقا پیر جان‘ اندرون یکہ توت جاری رہیں گی‘ جن کا سلسلہ دیگر مقامات اُور تیاریاں رواں ماہ کے آغاز سے جاری تھیں۔ اِس موقع پر اُن کی کمی کا احساس اِس لئے بھی ہو رہا ہے کہ مولوی جیؒ کی ذات بابرکات سے جس ’روحانی رواداری (Spiritual secularism)‘ کے چشمے پھوٹے اُس کی ضرورت ایک مرتبہ پھر شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ لائق توجہ ہے کہ یہاں سیکولرازم کا ترجمہ ’لادین‘ نہیں کیا گیا بلکہ ’رواداری‘ سے موسوم کیا گیا ہے اُور یہی مکتبہ مولوی جیؒ کا فیضان تھا

کہ جہاں سے دین‘ مذہب و عقیدے کی بنیاد پر اختلاف نہیں بلکہ ہمیشہ اتفاق کے خزانے تلاش اُور تقسیم کئے گئے۔


مولوی جی رحمة اللہ علیہ محبت کے داعی اُور مصلح تھے۔ اُنہوں نے قول و فعل سے سکھایا کہ قیامت مسلسل ہے اُور یہ ایک ایسی حقیقت نہیں کہ جو کبھی اُور کہیں برپا ہو گی بلکہ قیامت (ہمہ وقت) برپا ہے۔ اِسی طرح جنت بھی اپنا ایک مستقل اُور موجود وجود رکھتی ہے اُور جہنم بھی گمشدہ نہیں بلکہ موجود ہے۔ روزمرہ زندگی میں سرانجام دیئے جانے والے امور اُور اُن کے نتائج سے جنت و جہنم تخلیق پاتے ہیں۔ اِس طرح انسان اپنی ذات میں خود عامل بہشت و جہنم ہے۔ مثال کے طور پر ہر عمل کے نتیجے میں جو کچھ خلق (حاصل) ہوتا ہے اُور اُس حاصل سے جو کچھ اَخذ (نتیجہ بصورت ’امر وجودی‘) وصول کیا جاتا ہے‘ چاہے وہ چشم آبرو سے اشارہ یا الفاظ کی ادائیگی‘ سوچنا‘ سمجھنا‘ لکھنا‘ بولنا ہو لیکن اگر اِن سبھی اعمال کا نتیجہ ”برائے خیر“ ہے تو باعث بہشت لیکن اگر اِن سے شر ظہور پذیر ہو رہا ہے تو یہی جہنم تک لے جائیں گے۔ گویا ہر شخص‘ ہر عمل سے اپنی زندگی اُور آخرت سنوار رہا ہوتا ہے وہ جنت اُور جہنم مسلسل تخلیق کرتا رہتا ہے۔ مولوی جیؒ نے ترغیب دی اُور سمجھایا .... چونکہ قیامت مسلسل برپا ہے اِس لئے تخلیق سے پہلے سوچنا چاہئے کہ جو کچھ بھی تخلیق کر رہے ہیں وہ ہمیں جنت یا جہنم میں سے کس کے قریب لے جائے گا۔ کسی فعل کے بعد جنت کی دعائیں اُور گناہوں کی معافی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ کام کرنے سے پہلے سوچنا چاہئے کہ جو اینٹ اُور جو بنیاد‘ رکھی جا رہی ہے‘ اُس بنیاد پر کونسی دیوار یا عمارت کھڑی ہو گی اُور وہ کتنی بلندی تک جائے گی! خوداحتسابی اسلام کا نچوڑ ہے۔ خوداحتسابی تصوف کا راز ہے‘ جس کے دروس خانقاہوں سے ملتے ہیں کہ کیا ہمارے عمل
سے جنت میں گھر بن رہا ہے یا درحقیقت ہم دوزخ میں ٹھکانا تعمیر کرنے میں مشغول ہیں!

مولوی جیؒ نے سکھایا کہ عمل سے پہلے ’جنت و دوزغ‘ سے متعلق سوچ اِس لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے ہاتھوں بنائی ہوئی جنت یا دوزخ کو پھر تبدیل کرنے کا اختیار نہیں رکھتا اُور اِسے اپنی بنائی ہوئی عمارت یا سرزد غلطی کی اصلاح کرنے کا خود سے اختیار نہیں دیا گیا لیکن اِس کے لئے باب توبہ و استغفار رکھا گیا ہے کہ اگر اللہ کریم شانہ سبحانہ چاہے تو اپنے لطف و کرم سے جہنم کا باعث بننے والے اعمال کو نیکیوں سے بدل دے لیکن انسانوں کو قدرت و اختیار نہیں کہ وہ اپنی غلطیوں اُور اُن کے نتائج (حاصل) کو درست کر سکے مثلاً اگر کہی یا لکھی ہوئی بات سے کسی کی خاطرشکنی ہو جائے‘ کسی کا دل ٹوٹ جائے تو ممکن نہیں کہ جو بال آگیا ہے وہ مٹ سکے مگر یہ کہ لطف الٰہی شامل حال ہو۔ یہیں سے تربیت اُور نسبت کے مراحل شروع ہوتے ہیں‘ جن کے سلسلے پیران پیر‘ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ علیہ تک جا پہنچتے ہیں اُور حضور غوث الوریٰ کا فیض بصورت مولوی جیؒ اہل پشاور کے شامل حال ہے۔

بنیادی نکتہ یہ ہے کہ شعوری سطح پر اگر کوئی اِنسان یہ بات سمجھ لے کہ عامل جنت اُور عامل جہنم وہ خود ہے اُور قیامت برپا ہے تو اُس کے اعمال اُور اِن اعمال کی ترتیب (عقیدہ و عبادات) خودبخود درست ہوتے چلے جائیں گے۔ کسی عام آدمی کے لئے نیکی و بدی کی انجام دہی اُور اِس کا نتیجے دیکھنے میں ایک قسم کا حجاب حائل رہتا ہے جو اُس کی موت کے بعد ختم ہوتا ہے لیکن دینداروں (نیکوکاروں) کے ہاں کیفیت یکسر مختلف ہوتی ہے‘ جن کے پیش نظر جنت و جہنم ہر گھڑی رہتی ہے اُور اِسی کی وجہ سے وہ احترام انسانیت اُور رواداری کا درس دیتے ہیں تاکہ کسی کی خاطرشکنی نہ ہو۔ مولوی جیؒ ایک ایسی ہی ہستی تھے کہ جن کے ہاں ہر مذہب و مسلک سے تعلق رکھنے والے کی عزت افزائی ہوتی اُور یہ سب اُس ’روحانی رواداری‘ کی عملی و علمی اشکال تھیں‘ جس سے متعلق وہ ساری زندگی درس دیتے رہے۔
مولوی جی رحمة اللہ علیہ بظاہر ہمارے درمیان نہیں لیکن وہ موجود ہیں کیونکہ ایسی ہستیوں کے لئے موت باعث فنا (نابودی) نہیں ہوتی بلکہ یہ ہستیاں اُس مقام پر ہوتی ہیں جنہیں موت میں حسن دکھائی دیتا ہے اور موت کی صورت ’مذکور حسن‘ اِس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ اِس کے سامنے اُنہیں ’زندگی کا حسن‘ کچھ اہم نہیں لگتا۔ زندگی میں جتنی جاذبیت ہے موت اُس سے کئی زیادہ جذاب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا‘ کہ موت زندگی سے زیادہ حسین ہے تو نظم قدرت (ترتیب) اِس طرح نہ ہوتی کہ زندگی پہلے آتی اُور موت سے بعد میں واسطہ پڑتا۔ موت کا حسن‘ جلال و جمال اُور کشش صرف وہی محسوس کرتے ہیں جو زندگی بھر بیدار رہیں جنہیں مولوی جیؒ کی صورت کسی بیدار کی صبحت و شرف نصیب ہو۔ ایسی صحبت جس میں بیداری تقسیم ہو کیونکہ کسی بھی حُسن (حسین شے) کو دیکھنے کے لئے بیداری ’اوّلین شرط‘ ہے۔
اِسی طرح کسی حقیقت کی حقیقت کو بھی درک کرنے کے لئے بھی بیدار ہونا ضروری ہے یعنی چہرے اور قلب کی آنکھیں کھلی ہوں۔ روح‘ ضمیر اُور ذہن بیدار رکھنے والے زندگی اُور موت کی حقیقت کو پوری طرح سمجھتے‘ دیکھتے اُور اپنے سامنے محسوس کرتے ہیں۔

سیاق و سباق کو ذہن میں رکھتے ہوئے اِس جملے پر غور کرنے کی دعوت ہے کہ ”زندگی نہیں بلکہ موت وہ شے ہے کہ جس سے اِنسان کو نسبتا زیادہ پیار کرنا چاہئے۔“ کیونکہ موت کسی وحشت کا نام نہیں‘ بھلا ایسی کوئی چیز کس طرح باعث وحشت ہو سکتی ہے جو عاشق کو معشوق سے قریب کر دے!؟ جو محب کو محبوب سے ملا دے۔ جو وسیلہ (باعث) وصال ہو؟

ُمولوی جیؒ اُور روحانی رواداری اُس خاص الخاص مکتبہ فکر کی ترجمانی ہے‘ جو قرآنی تعلیمات کا نچوڑ اپنے قول و فعل پر حاوی رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس سے روشن فکری‘ تحریک کی صورت اُٹھتی ہے‘ جیسا کہ تہذیب سکھائی گئی کہ ”دوسروں کے (جھوٹے) خداو¿ں کو بُرا نہ کہو“ کیونکہ باری تعالیٰ شانہ سبحانہ اپنے نام پر انسانی معاشرے کو تقسیم دیکھنے کا روادار نہیں۔ کسی معاشرے کو جوڑے رکھنے کے لئے قرآن کے پیغام اُور فیضان مصطفوی (تعلیمات و سیرت اہل بیت اطہار رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین) پر ہمہ وقت غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ”جمیل اِس دل میں وسعت ہے کہ بندہ ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا .... محبت اِس میں عیسیٰ (علیہ السلام) سے‘ عقیدت اِس میں گوتم سے۔“ اہل تصوف کے ہاں تعلیمات مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُس بلندی‘ عروج اُور وسیع و عریض معنوں میں دیکھی جا سکتی ہیں‘ جہاں انسانیت کا احترام صرف بلندی نہیں بلکہ معراج ہے۔ اِسی روشن فکری (روحانی رواداری) کا درس مولوی جی رحمة اللہ علیہ کی صحبت نیک شعار سے وصول اُور تقسیم کرنے والے اُن کی یاد سے اپنی عملی زندگیوں کا ہر دن‘ ہر گھڑی جنت بنائے بیٹھے ہیں۔
”دیکھنے والے کہا کرتے ہیں اللہ اللہ ....
یاد آتا ہے خدا دیکھ کے صورت تیری“ (حسن رضا بریلوی)
----
از ایبٹ آباد شبیرحسین اِمام
Shabbir Hussain Imam

ستائیس صفرالمظفر چودہ سو اکتالیس ہجری
ستائیس اکتوبر دوہزار اُنیس عیسو

JSN Epic is designed by JoomlaShine.com