Some memorable images of the Shrine - “Fountain of Shifa” is visible in pictures above
Brief Introduction — Syed Hassan Badshah Rehmat Ullah Alaih
Syed Hassan Shah Qadri Baghdadi Suma Peshwari Rehmat ullah Alaih is 15th generation ancestor and descendent Hazrat Syedna Ghous e
Azam Shaikh Abdul Qadir Al Gilani (Radhi Allah o Anhu). His roots trace back to Hazrat Ali Karam Allahu wajhil Karim, upward in 28th generation.
Hazrat Syed Hassan Badshah Rehmah Alaih was born in Thatha (sindh) in 1023 Hijri . His Father Hazrat Abdullah Shah Sahabi Rehmat ullah Alaih
who was also a great Scholar and Sufi Saint, relocated from Baghdad to Thatha (Sindh).
After death of his father Hazrat Syed Hassan BadhshahRehmat ullah Alaih travelled and finally came to Peshawar. He spent his life in spreading
true message of Islam and preached امر بالمعروف و نھی عن المنکر to the masses. Soon his teaching of love and peace started enlightening the whole region. Hazrat Abu Albarakaat invited people towards love for Prophet Muhammad (Salleh Allaho alaihe wa’alehi wasalam) and “His” Sunnah. After showing the path of Shariah n Tariqat to the masses he finally passed away at the age of 92 in year 1115 Hijri, leaving hundreds of thousands of souls in deep sorrow and grief. His Shrine is situated near wazirbagh Peshawar in North Western Province of Pakistan
Recomended book on the life of Hazrat Syed Hassan Badshah Rehmah Alaih and other Mashaikh’s of Silsala e Qadria Hassania is
“Tazkarah e Mashaikh e Qadria Hassania” written by Hazrat Syedna Muhammad Ameer shah Gillani Rehmat Ullah Alaih
while Khāwārīq-e-Ādāt is another excellent book on their” life and Karamaat (miracles)
Shrine of Hazrat Syedna Muhammad Ameer Shah Gillani Rehmat ullah Alaih is also situated near to Abu Albarakaat ‘s Syed Hassan Badshah Rehmat ullah Alaih’s Ziarah Muabarak
Construction work is under progress at Shrine of Syedna Muhammad Ameer shah Gillani Rehmat ullah Alaih
Markaz eTajaliaat wa Anwaraat
Shrine of Syedna Muhammad Ameer shah Gillani & (his wife) Maa Gul Huzoor Rehmat ullah Alaih e Ajmaeen
درکفےجام شريعت درکفے سندان عشق ھر ھو سنا کےنداند جام و سنداں باختن
ابو البرکات حضرت سید حسن بادشاہ اور بری امام
ایک غلط فہمی کا ازالہ
روزنامہ جنگ راولپنڈی مورخہ۱۵ اپریل۱۹۸۴ ء کی اشاعت خصوصی میں صاحبزادہ سید الطاف حسین شاہ صاحب کا ظمی کا ایک مضمون بعنوان تبلیغ کے اثرات چھپا۔اس میں کاظمی صاحب نے لکھا ہے کہ“محدث اعظم حضرت شاہ محمد غوث صاحب قادری لاہوری اور ان کے جلیل القدر والد بزرگوار سید حسن شاہ صاحب نے حضرت بری شاہ لطیف سے فیوض روحانی حاصل کےئے۔ اور آپ کی ہدایت پر پشاور میں رشد وہدایت کا سلسلہ جاری کیا۔ آپ بری امام کے چہیتے مرید اور خلیفہ اول ہیں۔
حیرانگی ہے کہ آجکل لوگ انتہائی بے احتیاطی اور عدم تحقیق اور غیر ذمہ دار انہ طور پربزرگان کرام کے حالات قلمبند کرتے چلے جا رہے ہین جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اولیاء کرام کی زندگیاں غلط اور بے بنیاداوہام پر مرتب ہوتی ہیں۔
چنانچہ بری امام صاحب کی زندگی بھی بغیر تحقیق کئے اس مضمون کی صورت میں سامنے آئی۔ مضمون نگار نے لکھا ہے کہ ابو البرکات سید حسن بادشاہ المعروف میراں سرکار جوکہ حضرت محدث کبیر سید شاہ محمد غوث صاحب کے والد گرامی مرتبت ہیں اور خود حضرت محدث کبیر سید شاہ محمد غوث صاحب قادری پشاوری لاہوری نے بھی بری شاہ لطیف سے روحانی فیض حاصل کیا اور اُن کے چہیتے مرید اور خلیفہ اول تھے۔یہ ہر دو حضرات گرامی والا نہ تو بری امام صاحب کے مرید تھے اور نہ ہی خلیفہ تھے اور نہ ہی انہوں نے اسباق اُ ن سے پڑھے بلکہ بری شاہ لطیف نے تو ساری زندگی مجذوبیت میں گذاری۔حضرت شاہ محمد غوث اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں جو کہ اس فقیر کے پاس ہے۔“اثنائے سفر درپنڈی شاہ لطیف نام مجذوب صاحب کشف و جذب رفتم اُورادیدم و اثار مکشوفانہ جذبہ اومعائنہ نمودم اما مقصود فقیر چیز ے ازیں حاصل شد”۔یعنی پنڈی میں شاہ لطیف نامی مجذوب جو کہ صاحب کشف وجذب تھا میں اس کے پاس گیا اور میں نے اسے دیکھا اس کے کشف و جذب کے آثار کو میں نے معائنہ کیا۔فقیر جو چاہتا تھا اس سے حاصل نہ ہوا۔
مندرجہ بالا عبارت اتنی صاف اور واضح ہے کہ ہر صاحب سلوک اس کو سمجھ سکتا ہے اور بقول ایک روایت جو کہ ہمارے ہاں بزرگوں سے چلی آرہی ہے بری امام صاحب مجذوبیت میں مستغرق تھے اور حضرت شیخنا و مرشد ناشاہ محمد غوث صاحب قادری رحمتہ اللہ علیہ نے ان کو آخری وقت میں اپنے روحانی تصرف سے مجذوبیت سے نکال کر سلوک کی منزل میں پہنچایا اور اپنا مبارک کمبل ان کو پہنا کر صاحبِ ستر کیا۔
آج کل یہ ایک عادت پڑ گئی ہے کہ حقیقت کو چھپاکر اپنے اکابرین کو بڑھا چڑھا کر دوسرے بزرگان کرام کی کمی شان کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ہر ایک بزرگ کا اپنا اپنا مقام ہے اور کسی بھی بزرگ کی شان عزت توقیر جو کہ اس کے مقام کے برابر ہے بیان کرنا چاہےئے۔یہی غلوعقیدت اور محبت میں توہین کا باعث بن جاتا ہے۔
حضرت گرامی مرتبت ابو البرکات سید حسن صاحب قادری المعروف میراں سرکار جو کہ اپنے والد بزرگ صحابی رسول شاہ عبد اللہ صاحب قادری کے مرید اور خلیفہ تھے کی ملاقات بھی اس سفر کے دوران جب کہ آنجناب کو حضرت غوث اعظم قطب ربانی محبوب سبحانی سید عبد القادر جیلانی بغدادی رضی اللہ عنہ کی جناب پاک سے حُکم ہوا کہ وہ پشاور پہنچ کر میرے اس طریقہ عالیہ قادریہ کو فروغ دیں اور اس کی اشاعت و تبلیغ کریں۔ اور آپ ٹھٹھہ (سندھ) کا ٹھیا واڑ(گجرات)، دہلی ،لاہور سے ہوتے ہوئے پنڈی پہنچے تو بقول حضرت شاہ غلام رحمۃ اللہ علیہ ملک پوٹھوہار پہنچ کر فرماتے ہیں“شاہ لطیف مجذوب رادیدم خیلے صاحب نظر اثر بود و ما من سلوک تمام ملاقات کر۔یک دو روز سے گُزاریندم مرخص شدم(ترجمہ) جب پوٹھوہار کی سر زمین پر پہنچا تو اس جگہ شاہ لطیف مجذوب کو ملا۔ بہت ہی اچھے صاحب نظر و تاثیر تھے۔انہوں نے میرے ساتھ بہت اچھے برتاؤ سے ملاقات کی۔دو ایک دن ان کے ہاں قیام کر کے رخصت ہوا۔
یہ ملاقات اثنائے سفر میں تھی۔ جہاں آپ نے ہزاروں بزرگوں سے ملاقات کی۔اس ضمن میں شاہ لطیف صاحب سے بھی ملاقات کی اور اپنی روحانی بصارت کی روشنی میں شاہ لطیف صاحب کی کیفیات کا بیان فرمایا۔ تعجب اور حیرانگی کی بات ہے کہ کاظمی صاحب نے کون سی کتاب سے یہ بات لکھ دی کہ ہر دو بزرگان کرام بری امام صاحب کے چہیتے مُرید اور پشاور میں خلیفہ تھے۔ حضرت ابو البرکات سید حسن صاحب رحمتہ اللہ علیہ کشمیر اور افغانستان کی دیواروں تک حضور غوث اعظم قطب ربانی قندیل نورانی رضی اللہ عنہ کے نائب اور خلیفہ تھے۔
او رحضرت شاہ محمد غوث رحمتہ اللہ علیہ نے تو صاف صاف تحریر فرما دیا کہ شاہ لطیف مجذوب سے مجھے کچھ ملا ہی نہیں تو پیری مریدی یا فیوض حاصل کرنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔بلکہ شاہ لطیف صاحب مجذوب کو اُن سے فیوض و برکات حاصل ہوئے۔الحمد اللہ کہ اس غلط فہمی کو دور کر دیا گیا ہے۔
اور کاظمی صاحب آئندہ مضمون میں اس کی اصلاح کریں گے۔ اور اُمید ہے کاظمی صاحب آئندہ اولیاء کرام کی زندگی پر مضامین لکھتے وقت پوری تحقیق و تجسس تفحص سے کام لیں گے اور خصوصاً جب سلسلہ عالیہ قادریہ حسنیہ پر لکھنے کی کوشش کریں تو اس فقیر کی طرف رجوع کریں تاکہ اس خاندان کے متعلق صیحح اور دُرست حالات قلمبند کر نے کی کوشش کریں۔
۱۷ اپریل۱۹۸۴ فقیر سید محمد امیرشاہ گیلانی
کوچہ آقاپیر جان یکہ توت پشاور